نذر و نیاز کے بارے میں درست اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ یہ خالصتاً اللہ
تعاليٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے جائز ہے۔ عرف عام میں اولیاء اللہ کے
لئے نذر کا لفظ استعمال کئے جانے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ناجائز ہے۔
اس حوالے سے یہ ذہن نشین کر لیا جائے کہ اس سے مراد ان کے نام پر ہدیہ اور
تحفہ پیش کرناہے جو کہ عبادت نہیں۔ بعض
لوگ نذور اور ایصالِ ثواب کو آپس میں خلط ملط کرتے ہیں اور پھر ایصالِ ثواب
کے جائز طریقوں کو بھی شرک اور ناجائز کہنے لگتے ہیں یہ تصور درست نہیں۔
ایصال ثواب ثابت شدہ شرعی طریقہ ہے کوئی چیز محض کسی بزرگ کی طرف منسوب
کرنے سے حرام نہیں ہوتی جسے بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر ’’مَا اُهِلَّ بِهِ
لِغَيْرِ اﷲِ‘‘ سے تعبیر کر کے اس کا غلط اطلاق دوسری چیزوں پر کرتے ہیں۔
اِھلال کا معنی ’’منسوب کرنا‘‘ کسی طرح بھی ثابت نہیں۔ شرعی نذر اﷲ تعاليٰ
کیلئے خاص ہے اور یہ شاملِ عبادت ہوتی ہے جبکہ اس کی نسبت اہل اﷲ کی طرف کر
دی جاتی ہے آپ منت مان کر کھانا پکائیں یا کچھ اور کریں وہ اﷲ تعاليٰ ہی
کی نذر ہو گی جبکہ اس کا ایصالِ ثواب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور بزرگ کی طرف منسوب
کرنا امرِ جائز ہے۔ یہ عمل شرک تب ہو گا جب کسی غیر کی خوشنودی کے لئے نذر
مانی جائے۔
8۔ نذر اللہ تعاليٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے مانی جاتی ہے
نذر صدقہ کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اس میں عبادت، نیاز مندی، جھکنے اور
غایتِ تعظیم کے معانی پائے جاتے ہیں۔ نذر کے بارے میں درست عقیدہ یہی ہے
کہ یہ اللہ تعاليٰ کا حق ہے اور صرف اسی کے لئے ماننا جائز ہے۔ اس لئے نذر
شرعی نہ تو کسی رسول اور نبی کے لئے جائز ہے اور نہ ہی اولیاء و صلحاء کے
لئے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ انبیاء و اولیاء کے لئے جو نذر کا
لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ مجازی معنی میں ہوتا ہے حقیقی معنی میں نہیں۔
ان کے لئے جب نذر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نذر عرفی بمعنی ہدیہ،
نذرانہ اور ایصالِ ثواب ہے جو انبیاء، اولیاء اور عام مسلمانوں کے لئے ہے
اور یہ بہترین ہدیہ ہے۔ جس طرح قربانی، عبادت اور دعا، خالصۃً اللہ تعاليٰ
کے لئے ہوتی ہے اسی طرح ہم نذر اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کے لئے
مانتے ہیں جب کہ اس کا فائدہ اطعام الطعام اور صدقہ و خیرات کی صورت میں
غریب، مسکین، محتاج، مفلس، یتیم اور بے سہارا افراد کو پہنچاتے ہیں۔ قربانی
کی حقیقت کے بارے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا :
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ.
’’ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقويٰ پہنچتا ہے۔‘‘
الحج، 22 : 37
قربانی کے اندر تقويٰ اور اخلاص کی نیت مضمر ہوتی ہے اور وہی اس کی روح ہے
جبکہ گوشت سے ناداروں اور غریبوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ طے شدہ امر
ہے کہ نذر خالصتاً اللہ تعاليٰ کے لئے ہے مگر اس کے ذریعے ثواب انبیاء
علیھم السلام اور اولیائے کرام کو پہنچایا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات
ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ اہلِ علم جب نذر کا لفظ استعمال کریں تو
بہتر ہے کہ وہ اسے حقیقی معنی میں استعمال کریں۔ اگر وہ اس کو مجازی یا
عرفی معنی میں استعمال کرنا چاہیں تو پھر درست عقیدے کی وضاحت بھی کر دیں
تاکہ عوام میں کسی قسم کا مغالطہ اور عقیدے کا بگاڑ بوجہِ جہالت پیدا نہ
ہونے پائے۔
9۔ خیرات و صدقات اور عملِ صالح کی نذر ماننا شرک نہیں
کوئی عملِ صالح بطورِ نذر مانا جا سکتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب ایک
مرتبہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنھما علیل ہوئے تو ان کے لئے بطورِ نذر روزے
رکھے گئے اور حقداروں کو کھانا کھلایا گیا۔
یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ہر عملِ صالح دوگونہ تعلق کا حامل ہے :
رازی، التفسير الکبير، 30 : 244
ایک تعلق اللہ تعاليٰ کے ساتھ جس میں اس عمل کی نیت اور اس کے متعلق عقیدے کا اﷲتعاليٰ کے لئے خاص ہونا ہے۔
اس عمل کا دوسرا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے مثلاً مزاراتِ اولیاء پر اظہارِ
تعظیم کے لئے چادر چڑھانا جو شعائر اللہ ہونے کے باعث تعظیماً جائز عمل ہے۔
صاحبِ مزار کے ساتھ یہ تعلق اس امر کا مظہر ہے کہ اس عمل سے اللہ تعاليٰ
کی رضا و خوشنودی کا حصول مقصود ہے کہ اﷲ والوں کے مزارات کی تعظیم شعائر
اﷲ سمجھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کی جاتی ہے۔
لہٰذا اگر کوئی
گیارہویں شریف کی نذر مانتا ہے کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو سیدنا حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی گیارہویں دوں گا تو جان لیجئے کہ یہ
صدقہ و خیرات ہی کی ایک صورت ہے۔ اس میں نیت کے ساتھ دعا ہو گی کہ موليٰ
کریم تیری رضا کے لئے یہ کھانا پکانا، قرآن پڑھنا پڑھانا تیرے حضور پیش کیا
جاتا ہے اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور اس عمل سے جو ثواب ملے اسے میں
جملہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام بشمول شیخ عبدالقادر جیلانی رضی
اللہ عنہ کی ارواح کو بالخصوص تحفۃً پیش کرتا ہوں۔ پس اس دعا کے ساتھ
ایصالِ ثواب کرنا شرک نہیں۔
10۔ صدقات و خیرات ذرائع ایصالِ ثواب ہیں وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه میں شامل نہیں
صدقات اور خیرات پر اللہ کے محبوب و مقرب بندوں کا نام لینے سے وہ حرام
نہیں ہوتے کیوں کہ نام لینے سے صرف ایصالِ ثواب مقصود ہوتا ہے لہٰذا خیرات و
صدقات کا ایصالِ ثواب کے لئے دینا ’’وَمَا اُهِلَّ لِغَيْرِاﷲِ بِه‘‘ میں
شامل ہی نہیں۔ شرعاً یہ امر جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی نیک عمل اور صدقہ
و خیرات کو کسی دوسرے کے نام منسوب کر دے۔ اس کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے
لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ میں سے چند
ایک ذیل میں دیئے جا رہے ہیں تاکہ کسی کے لئے ایصالِ ثواب کرنے کا مستند و
معتبر جواز ثابت ہو جائے۔
1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے :
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي
افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ
لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ.
’’ایک
آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا :
میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقتِ نزع)
گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے
ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1 : 467، رقم : 1322
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، 2 : 696، رقم : 1004
3. ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 : 118، رقم : 2881
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم : إِنَّ أَبِي
مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ يُوْصِ. فَهَلْ يُکَفِّرُ عَنْهُ أَنْ
أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ : نَعَمْ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے والد کا
انتقال ہو گیا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے مگر اس بارے میں کوئی وصیت نہیں
کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ کرنا) اس (کے گناہوں)
کا کفارہ بن جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلي الميت، 3 : 1254، رقم : 1630
2. نسائي، السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 : 251، رقم : 3652
3. ابن ماجة، السنن، کتاب الوصايا، باب من مات و لم يوص هل يتصدق عنه، 2 : 206، رقم : 2716
4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 371، رقم : 8828
5. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 123، رقم : 2498
3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا :
يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ
تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَإِنَّ مَخْرَفًا
فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا.
وَ قَالَ
أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَ بِهِ : يَقُوْلُ أَهْلُ
الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ : لَيْسَ شَيئٌ يَصِلُ إِلَی الْمَيّتِ إِلَّا
الصَّدَقَةُ وَ الدُّعَاءُ.
’’یا رسول اللہ! میری والدہ فوت
ہوچکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا؟ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اس نے عرض کیا : میرے پاس ایک
باغ ہے آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا۔‘‘
’’امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب الزکاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 : 56، رقم : 669
2. ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 : 118، رقم : 2882
3. نسائي، السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 : 252، رقم : 3655
4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ
: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ
وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ.
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے
اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر
ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ
اٹھایا جائے، تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 : 1255، رقم : 1631
2. ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 : 117، رقم : 2880
3. ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 : 88، رقم : 239
4. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 28، رقم : 38
5۔ امام سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاووس نے فرمایا :
إِنَّ الْمَوتَی يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ سَبْعًا، فَکَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُطْعُمَ عَنْهُمْ تِلْکَ الأَيّامِ.
وَ قَالَ السُّيُوطِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
’’بے شک سات دن تک مردوں کو ان کی قبروں میں آزمایا جاتا ہے اس لئے لوگ ان
دنوں میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے کو مستحب سمجھتے تھے۔‘‘
’’امام سیوطی نے کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔‘‘
1. أبو نعيم، حلية الأولياء، 4 : 11
2. سيوطي، الديباج علي صحيح مسلم، 2 : 491، رقم : 905
3. سيوطي، شرح علي سنن النسائي، 4 : 104
درج بالا روایات سے ثابت ہوا کہ ایصالِ ثواب اور صدقات و خیرات کے لئے کسی کے نام کی طرف نسبت شرعاً جائز بلکہ سنت ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں
گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی سزائے قت...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
No comments:
Post a Comment