Saturday, 6 December 2014

نیک عمل کا کسی کے نام انتساب جائز ہے

نیک عمل کا کسی کے نام انتساب جائز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی نیک عمل کر کے کسی کی روح کو ایصالِ ثواب کرنا یا اس کے نام سے منسوب کرنا یہ از روئے شرع جائز اور باعثِ ثواب عمل ہے۔ نذر و نیاز، صدقہ و خیرات اعمال خیر میں سے ہیں اور جیسے ہر عمل خالصتاً اللہ کیلئے ہوتا ہے مگر جس بزرگ، شیخ، دوست یا عزیز کے لئے ایصال ثواب کیا جائے اس کے نام سے منسوب کرنا از روئے شرع جائز اور درست ہے۔ اس حوالے سے چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
(1) کسی کی طرف سے نفل نماز ادا کرنا

6۔ سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے بصرہ کی ایک بستی اُبُلَّہ سے آئے ہوئے حاجیوں سے فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی شخص مسجد عَشَّار میں دو یا چار رکعت نفل نماز پڑھ کر میری طرف منسوب کرے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :

عَنْ اِبْرَاهِيْمَ بْنِ صَالِحِ بْنِ دِرْهَمٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِيْ يَقُوْلُ : انْطَلَقْنَا حَاجِّيْنَ، فَاِذَا رَجُلٌ فَقَالَ لَنَا : اِلَی جَنْبِکُمْ قَرْيَةٌ يُقَالُ لَهَا الأُبُلَّةُ؟ فَقُلْنَا : نَعَمْ. قَالَ : مَنْ يَضْمَنُ لِيْ مِنْکُمْ اَن يُصَلِّيَ لِيْ فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَکْعَتَيْنِ أَوْ اَرْبَعًا، وَ يَقُوْلُ هَذِهِ لِأَبِيْ هُرَيْرَةَ. سَمِعْتُ خَلِيْلِيْ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مِنْ مَسْجِدِ الْعَشَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَاءَ لَا يَقُومُ مَعَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ غَيْرُهُم.

’’ابراہیم بن صالح بن درھم کا بیان ہے کہ میرے والد محترم نے فرمایا : ہم حج کرنے حرم کعبہ گئے تو ایک آدمی نے ہم سے دریافت کیا : کیا تمہارے علاقے میں ’’اُبُلّۃ‘‘ نام کی کوئی بستی ہے؟ ہم نے جواب دیا : ہاں۔ اُس نے کہا : تم میں سے کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ ’’مسجدِ عَشَّار‘‘ میں میرے لئے دو یا چار رکعتیں پڑھنے کے بعد کہے : ان رکعتوں کا ثواب ابو ہریرہ کے لئے ہے۔ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعاليٰ قیامت کے دن مسجد عشار سے ایسے شھیدوں کو اٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے سوا کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہ ہو گا۔‘‘

1. أبوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرة، 4 : 113، رقم : 4308.
2. بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 479، رقم : 4115

اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں :
ایصالِ ثواب کرنا امرِ جائز ہے۔
اپنے نیک عمل کو کسی کی طرف منسوب کرنا بھی جائز ہے۔

علاوہ ازیں اس روایت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نفل نماز پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ایک جائز عمل ہے۔ اسی وجہ سے بزرگوں کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے نوافل پڑھا کرتے تھے۔
(2) کسی کی طرف سے روزے رکھنا

7۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :

أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ وَ عَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيّهُ.

’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 : 690، رقم : 1851
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 : 803، رقم : 1147
3. أبوداؤد، السنن، کتاب : الصوم، باب : فيمن مات و عليه صيام، 2 : 315، رقم : 2400

8۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

وَإِنْ کَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ قَضَي عَنْهُ وَلِيّهُ.

’’اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو وہ اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے۔‘‘

1. أبوداود، السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 : 315، رقم : 2400، 2401
2. دار قطني، السنن، 2 : 194، رقم : 79 - 80
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 113، رقم : 12598

9۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت نے حاضر ہوکر عرض کیا :

إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ : أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ : نَعَمْ. قَالَ : فَدَيْنُ اﷲِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ.

وَ فِي رِوَايَةٍ : فَقَالَتْ : إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَ عَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ.

’’میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ کہ اگر اس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اس عورت نے عرض کیا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعاليٰ قرض ادا کئے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘

’’اور ایک روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ اس نے عرض کیا : میری بہن فوت ہو گئی ہے اور اس پر دو ماہ کے مسلسل روزے واجب ہیں۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 : 804، رقم : 1148
2. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب من مات و عليه صيام من نذر، 1 : 559، رقم : 1758
3. نسائي، السنن الکبري، 2 : 173 - 174، رقم : 2912 - 2915
(3) کسی کی طرف سے حج ادا کرنا

10۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا :

إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّي مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَي أُمِّکِ دَيْنٌ أَکُنْتِ قَاضِيَةً؟ اقْضُوا اﷲَ، فَاﷲُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ.

’’میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو۔ بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اللہ تعاليٰ کا حق ادا کیا کرو، کیونکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس سے وفاء کی جائے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج و النذور عن الميت، وَ الرَّجُلُ يَحُجُّ عَنِ المَرْأَةِ، 2 : 656، رقم : 1754
2. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 : 116، رقم : 2632
3. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 346، رقم : 3041

اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے فوت شدہ عمل کی بعداز وفات ادائیگی کو جائز قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دلیل بھی عطا کر دی کہ زندگی میں جس طرح کوئی کسی کی طرف سے قرض کی ادائیگی جیسا عمل کرے تو وہ قرض ادا ہو جاتا ہے تو اسی طرح بعد از وفات بھی اگر کوئی کسی کے لئے نیک عمل مثلاً حج کرے گا تو وہ مرنے والے کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائے گا۔

11۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے حاضر ہوکر عرض کیا :

إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَي أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَ إِنَّهَا مَاتَتْ. قَالَ : فَقَالَ : وَجَبَ أَجْرُکِ. وَرَدَّهَا عَلَيْکِ الْمِيْرَاثُ. قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهُ کَانَ عَلَيْهَا صَومُ شَهْرٍ. أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ : صُوْمِي عَنْهَا. قَالَتْ : إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ. أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : حُجِّي عَنْهَا.

وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

’’میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی ہے۔ اس عورت نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (باقی) تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو۔‘‘

’’امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 : 805، رقم : 1149
2. ترمذي، السنن، کتاب الزکاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في المُتَصَدِّقِ يَرِثُ صَدَقَتَهُ، 3 : 54، رقم : 667
3. نسائي، السنن الکبري، 4 : 66 - 67، رقم : 6314 - 6316

12۔ والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرنے کا اجر بیان فرماتے ہوئے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَيْهِ بَعْدَ وَفَاتِهِمَا کُتِبَ لَه عِتْقًا مِنَ النَّارِ.

’’جس نے اپنے والدین کے انتقال کے بعد ان کی طرف سے حج کیا تو اس کے لئے دوزخ کی آگ سے رہائی لکھ دی جائے گی۔‘‘

1. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 205، رقم : 7912
2. سيوطي، شرح الصدور : 129

یہ بہت بڑی صلہ رحمی اور خدمت کی انجام دہی ہے کہ اولاد، والدین کی طرف سے حج کا فریضہ ادا کرے، اس کے علاوہ وہ دیگر صدقات وغیرہ بھی والدین کی طرف سے ادا کرتے رہیں۔ اللہ تعاليٰ رحیم و کریم ذات ہے اس نے اپنے بندوں کی بخشش و مغفرت کے لئے کئی طریقے عطا فرمائے ہیں جن میں میت کی طرف سے حج کرنا اور صدقات و خیرات وغیرہ جیسے اعمالِ صالحہ کرنا شامل ہیں۔

No comments:

Post a Comment

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی سزائے قت...