Saturday, 6 December 2014

(6) محسنِ انسانیت ﷺ کا پیغام محبت و امن آج سوالیہ نشان کیوں؟

(6) محسنِ انسانیت ﷺ کا پیغام محبت و امن آج سوالیہ نشان کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذاہبِ عالم میں عدم برداشت کی مثالیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدامنی، شرانگیزی اور قتل و غارت گری کو اسلام کے ساتھ مختص کردینے والے محققین، تجزیہ نگار اور دانشور حضرات شاید اس تلخ حقیقت سے عمداً دور رہنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں شر انگیزی پھیلانے والوں میں یہودو نصاریٰ، ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ پیش پیش رہے ہیں۔

تاریخِ عالم عدمِ برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے مثلاً ایک یہودی حاکم ’’شیخ ذونواس‘‘ نے یمن میں خندق کھدوائی اور تیس ہزار کے قریب ان عیسائیوں کو زندہ جلوادیا جنہوں نے یہودیت اختیار نہ کی۔

ہندؤوں کی کتب میں لکھا ہے: ’’اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے۔‘‘
اسی طرح رومی سلطنت کی تاریخ عدم برداشت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تاریخ وحشیانہ سزاؤں اور لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں درج شدہ مضمون’’ سپین‘‘ کے مطابق 1492ء میں سپین کی اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں سے 28,540 کو سزائے موت ملی اور 12,000 کو زندہ جلادیا گیا۔ بقول رابرٹ ہریقو ’’ڈیڑھ لاکھ کے قافلے میں سے ایک لاکھ مسلمانوں کو سپین میں قتل کردیا گیا‘‘۔

٭ مؤرّخین لکھتے ہیں کہ 1610ء میں تمام مسلمانوں کو سپین چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ 1630ء میں ایک مسلمان بھی سپین میں باقی نہ رہا حالانکہ مسلمانوں نے قریباً پونے آٹھ سو سال یہاں حکومت کی تھی۔

٭ عدم برداشت کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں اور خون انسانی کی ارزانی کا اندازہ لگائیں۔

710 قبل از مسیح (یروشلم) 40ہزار اشخاص ذبح ہوئے۔
711 قبل از مسیح (یروشلم) میں ایک لاکھ 20 ہزار اشخاص مارے گئے۔
957 قبل از مسیح (یروشلم) 5 لاکھ یہودی مارے گئے۔
70 قبل از مسیح (یروشلم) 11 لاکھ یہودی مارے گئے۔
135-36 ق۔ م (یروشلم) 5 لاکھ 80 ہزار یہودی ذبح ہوئے۔

جنگ عظیم اول: 73 لاکھ 38ہزار افراد مارے گئے، جبکہ جنگ عظیم دوم: 4کروڑ اشخاص لقمہ اجل بنے۔

اس کے مقابل رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پیکر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات میں مسلمان شہداء اور کفار مقتولین کی تعداد سیرت نگاروں کے مطابق 2 ہزار سے زیادہ نہیں بنتی۔ یہ ہے برداشت و حلم کی سنہری مثال!
توسیع پسندی کا رُجحان

اگر ہم انیسویں اور بیسویں صدی کے بین الاقوامی تنازعات اور بین الممالک جنگوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اکثر جنگوں میں بنیادی کردار مغربی طاقتوں کا ہی رہا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اعداد و شمار پچھلی دو صدیوں کے 160 سالہ عرصہ پر مشتمل ہیں:
Involvements State Involvements State
58 Italy 125 United States
52 China 124 Great Britain
50 Japan 118 Russia
47 Peru 100 France
60 Israel 76 Germany

یاد رہے کہ اسرائیل کا چارٹ صرف 60 برس پر مبنی ہے جو 1948ء سے شروع ہوتا ہے۔

اسی طرح اگراس عرصہ (1815-2008) کی Annual Frequency of Country Conflict Involvement کی اوسط کا تعین کریں تو اسرائیل کا مقام اقوام عالم میں سب سے اوپر ہے۔ اس کی Annual Frequency ’’.70‘‘ ہے جو دنیا کے سب ممالک سے زیادہ ہے اس میں اسلامی ممالک کا کہیں ذکر بھی نہیں آتا اور اگر ترکی، عراق وغیرہ کا آتا بھی ہے تو وہ دنیا میں سب سے کم Average پر ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ

قارئین ! یہ تو تھا آج کے زیر غور موضوع کا ایک رخ۔ اب آیئے دوسرے پہلو پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں جو ہمارے داخلی مسائل سے متعلق ہے۔ یہ بات تو ہم تفصیلاً ذکر کرچکے ہیں کہ عالم کفر اسلام کو دہشت گردی کا مذہب ثابت کرنے کے لئے تاریخ کے روشن چہرے پر سیاہی پھینک رہا ہے۔ ہمیں ان کے اس جھوٹ اورفریب کاری کا مناسب اورمنطقی جواب ضرور دینا چاہئے مگر ہم اس وقت شرمندہ ہو جاتے ہیں جب ہمارے اپنے مسلمان معاشروں میں ایک دوسرے پر بارود کی بارش ہوتی ہے۔

٭ ہماری عبادت گاہیں ہمارے ہی نادان لوگوں کے ہاتھوں خون میں نہا جاتی ہیں۔ ہم کس طرح پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام محبت دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں جب اسلام کے نام پر منصہ شہود پر آنے والی ریاست پاکستان کے دارالحکومت میں لال مسجد جیسے شرمناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مسجدوں اور دینی درسگاہوں کو اسلحہ خانے بنانا کب روا سمجھا گیا ہے، مسجدوں کے محراب اورمینار تو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے مختص تھے انہیں ہم دفاعی مورچے بنالیں گے تواپنے پرائے ہم پر کیوں نہیں ہنسیں گے۔ 10 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں جو شرمناک کھیل کھیلا گیا اس میں بلا شبہ امریکہ نے براہ راست پاکستان کی قیادت کے ذریعے مداخلت کی تھی اور پوری دنیا میں ایٹمی پاکستان کو ایک وحشی، جنونی اور خونخوار مذہبی لوگوں کا ملک ثابت کرنے کے لئے سٹیج سجایا گیا۔ مگر یہ موقع دنیائے کفرکو کس نے دیا؟قرآن و حدیث پڑھنے والی بچیوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ ڈنڈے اورلڑکوں کے ہاتھوںمیں کلاشنکوفیں کون تھما رہا تھا؟ دکانوں، گھروں اور سرکاری کتب خانے پر قبضے کرکے ماحول کو کس نے حساس بنایا؟ کس نے مسجد کی چار دیواری کے ساتھ دفاعی مورچے بنارکھے تھے؟

٭ اس میں شک نہیں کہ افغان وار روس اور امریکہ جیسی دو بڑی عالمی استعماری قوتوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ تھی جس میں افغانوں کے جذبے اوردنیا بھر کے مسلمان مجاہدین کا خون رنگ لایا اور سرخ سامراج اپنی موت مرگیا۔ ۔ ۔ امریکہ کا عالمی حریف مسلمانوں کے ہاتھوں ختم ہوگیا لیکن اس نے روس کے خلاف لڑی جانے والی سرد و گرم جنگ کا رخ اب اسلام کی طرف کرلیا ہے مگر طالبان کو کس نے دعوت دی تھی کہ وہ بامیان میں صدیوں پرانے پہاڑی نقوش کے خلاف ’’اعلانِ جہاد‘‘کریں اور پوری دنیا کی رائے عامہ کو اپنے خلاف کرکے 15 لاکھ مسلمانوں کے خون کی قیمت پر حاصل ہونے والی اسلامی حکومت کو محض نادانیوں کے ذریعے ضائع کردیں۔

٭ آج پاکستان کی محفوظ ترین سرحد ڈیورنڈ لائن پر ایک لاکھ فوج اپنے ہم وطن بہادروں کے ساتھ جنگ میں جھونک دی گئی ہے۔ ہم اس لڑائی کو امریکہ کے مفادات کی خاطر لڑی جانے والی جنگ اور ملکی سلامتی کے خلاف کھیلا جانے والا خونی کھیل سمجھتے ہیں جس کے ذمہ دار پرویز مشرف اور ان کے سابق حواری ہیں۔ ۔ ۔ لیکن مورخ اس حقیقت کو کیسے جھٹلائے گاکہ یہاں کے نوجوانوں کو ’’پاکستانی طالبان‘‘ بناکر مقامی مذہبی رہنماؤںنے پاکستانی فوج اور انتظامیہ کے خلاف برسرپیکارکردیا۔ ۔ ۔ سوات جیسے پرامن سیاحتی مقام پر کس نے فتح کے جھنڈے لہراکر قومی اداروں پر حملے کئے، کروڑوں روپے مالیت کی املاک کو نذرِ آتش کیا اور افواج پاکستان کو مزاحمت پر مجبور کیا تھا۔ ۔ ۔ ؟ غیروں کے اکسانے پر کون سے ہاتھ ہیں جو آج بھی پاکستانی سفیر سمیت سینکڑوں فوجیوں کو قید کرکے بھاری قیمت وصول کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیتے ہیں یا قتل کردیتے ہیں۔ ۔ ۔ کیا یہاں یہودی، عیسائی یا ہندو اقوام آبادہیں! نہیں، مرنے اور مارنے والے سب کے سب کلمہ گو مسلمان ہیں۔ ایک اللہ، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ مسئلہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ رواداری جو ہمارے رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں سے روا رکھی ہمارا دامن اپنے بھائیوں کے لئے بھی اس سے خالی ہوگیا ہے۔ ہمارے اندر تحمل، برداشت اور ایثار کے جذبات تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

٭ آج ہماری طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو اس کا سبب خود ہم بھی ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور کس نبی کی شریعت کو ڈنڈے کے زور پر پھیلارہے ہیں؟کیا نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کا یہی طریقہ قرآن و سنت نے ہمیں سکھایا ہے؟ سرحد کے کئی مقامات پر حجاموں کی دکانوں کو اس لئے مسمار کیا جاتا ہے کہ یہاں کوئی ’’شیو نہ کروائے۔ بازاروں میں گارمنٹس کی دکانوں کو اس لئے بند کروادیا جاتا ہے کہ عورتیں خریداری کے لئے باہر نہ نکلیں اور انکے بقول ’’غیر شرعی‘‘ لباس نہ خرید سکیں۔ تعلیمی ادارے اس لئے ختم کروادیئے گئے ہیں کہ وہاں سے علم حاصل کرکے لوگ ’’روشن خیال‘‘ اور بچیاں تعلیم حاصل کرکے ماڈرن نہ بن جائیں۔ انہیں یہ کون بتائے کہ اسلام کو تعلیم اور جدت سے کوئی خطرہ نہیں، جہالت سے خطرہ ہے۔ ہٹ دھرمی، ضدی پن اور سفاکیت کا اسلام یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے کوئی تعلق نہیں۔

قارئین ذ ی وقار! اسلام کو باہر سے اتنا نقصان نہیں ہواجتنا اسے بادشاہت اور جہالت کے ذریعے اندرسے نقصان پہنچاہے جمہوریت، شورائیت، تعلیم و تفکر اور عدل و انصاف اسلامی ریاست کی اساس ہیں مگر مسلمان بادشاہوں نے آمریت جہالت اور ظلم کے ذریعے اسلام کا چہرہ داغدار کئے رکھا۔ یہ تو بھلا ہو ان بے لوث علماء و مشائخ کاجنہوں نے ہر دورمیں علم، معرفت اور عدل و انصاف اور مذہبی رواداری کا علم بلند کئے رکھا۔ لیکن افسوسناک حقیقت تویہ ہے کہ آج اِلا ما شاء اللہ ہمارے دور زوال میں بیشتر مفتی، علماء اور مشائخ ہی آمریت کو سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ ان کے مزمومہ مفادات کا تحفظ اسی نظام میں ممکن ہے۔

چوں کفر اَز کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی؟

No comments:

Post a Comment

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی سزائے قت...