۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں مردار، خون، خنزیر کے گوشت اور ان جانوروں کو جن پر بوقتِ ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو حرام قرار دیا گیا ہے، وہ مقامات یہ ہیں :
1۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 173
2۔ سورۃ المائدۃ میں فرمایا :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ. . .
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو۔ ۔ ۔‘‘
المائدة، 5 : 3
3۔ سورۃ الانعام میں فرمایا :
قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سُؤر کا گوشت ہو کیونکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
الانعام، 6 : 145
4۔ سورۃ النحل میں اللہ رب العزت نے فرمایا :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالْدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا ہے، پھر جو شخص حالتِ اضطرار (یعنی انتہائی سخت مجبوری کی حالت) میں ہو، نہ (طلبِ لذت میں احکامِ الٰہی سے) سرکشی کرنے والا ہو اور نہ (مجبوری کی حد سے) تجاوز کرنے والا ہو، تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
النحل، 16 : 115
ان آیات میں وَمَا اُھِلَّ بِہ لِغَيْرِ اﷲِ یا اُھِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِہ (وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو) کے الفاظ آئے ہیں جن کا بعض لوگ غلط اطلاق کرتے ہیں۔ یہی خود ساختہ اطلاق کسی کے ایصالِ ثواب کے لئے دیئے گئے صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز پر بھی کیا جاتا ہے۔ ان قرآنی آیات کی غلط اور من گھڑت تاویل کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس پر صدقہ اور نذر و نیاز کے لئے غیراللہ کا نام لیا جائے اُھِلَّ بِہ لِغَيْرِاﷲِ میں داخل ہے، جس کے باعث وہ شے حرام ہے۔ اس طرح ان کے باطل خیال کے مطابق وہ صدقہ و خیرات اور گیارہویں شریف جو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ یاد دیگر اولیاء و بزرگانِ دین اور صالحین کی طرف منسوب ہوتی ہے نہ صرف حرام ہے بلکہ یہ عمل معاذ اللہ شرک ہے۔ یہ ان قرآنی آیات کی غلط تفسیر ہے اور ایسی چیزیں جو فقط ایصالِ ثواب کے لئے کسی بزرگ ہستی کی طرف منسوب کی جائیں ہرگز وَ مَا اُھِلَّ لِغَيْرِاﷲ بِہ کے زمرے میں داخل نہیں، نہ ہی انہیں شرک پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ دراصل نذر کے تعین میں یہ اختلاف حرمت پر مبنی آیاتِ کریمہ کا معنی و مفہوم غلط سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ذیل میں ہم وَ مَا اُھِلَّ بِہ لِغَيْرِاﷲِ اور اس کے متعلقات پر تفصیلاً بحث کرتے ہیں۔
1۔ ’’اُھِلَّ‘‘ کا لغوی معنی و مفہوم
دراصل لفظِ ’’ اُھِلَّ‘‘ ثلاثی مزید فیہ کے باب اِفعال ’’اِھْلَالٌ ‘‘ سے مشتق صیغہ ماضی مجہول ہے۔ اہلِ لغت نے ’’اِھْلَال‘‘ کے متعدد معانی بیان کیے ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1. وانهلت السماء إذا صبت، واستهلت إذا ارتفع صوت ’وقعها‘ و کان استهلال الصبي منه.
’’انْہَلَّتِ السَّمَاءُ ‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب بارش برسے اور اسْتَہَلَّتْ اس خاص وقت کو کہتے ہیں جب بارش کے قطرے بلند آواز کے ساتھ زمین پر گریں۔ اسی سے اسْتِہْلَالُ الصَّبِيّ (عین پیدائش کے وقت بچے کا رونا) بھی ہے۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 11 : 701
2. زبيدی، تاج العروس، 15 : 809
2. و استهل الصبي بالبکاء : رفع صوته و صاح عند الولادة، و کل شيء ارتفع صوته فقد استهل. والإهلال بالحج : رفع الصوت بالتلبية، و کل متکلم رفع صوته أو خفضه فقد أهل و استهل.
’’اسْتَہَلَّ الصَّبِيّ کا معنی ولادت کے وقت بچے کا بلند آواز اور چلاّ کر روناہے۔ (اس معنی میں) ہر وہ چیز جس کی آواز بلند ہو اسے ’’اسْتَھَلَّ‘‘ کہتے ہیں۔ حج کے موقع پر بلند آواز کے ساتھ تلبیہ پڑھنے کو اھْ۔ لَال کہا جاتا ہے، اور ایسا ہی ہر بولنے والے کی آواز بلند کرنے کو اَھَلَّ اور اسْتَھَلَّ کہا جاتا ہے۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 11 : 701
2. زبيدی، تاج العروس، 15 : 810
3. و أصل الإهلال رفع الصوت. و کل رافع صوته فهو مهل، و کذلک قوله عزوجل : (وَ مَا اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) هو ما ذبح للآلهة و ذلک لأن الذابح کان يسميها عند الذبح، فذلک هو الإهلال.
’’اِھْلَال کا اصل معنی آواز بلند کرنا ہے۔ ہر آواز بلند کرنے والا مُھِلٌّ ہے، اور اسی معنی میں اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے : (وَمَا اُھِلَّ لِغَيْرِاﷲ بِہ)۔ اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جسے جھوٹے معبودوں کیلئے ذبح کیا گیا ہو اور یہ مفہوم اس بنا پر ہے کہ ذبح کرنے والا عین ذبح کے وقت اس بت کا نام لیتا تھا۔ پس یہی اِھْلَال ہے۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 11 : 701
4. قال أبو العباس : وسمي الهلال، هلالاً لأن الناس يرفعون أصواتهم بالإخبار عنه.
’’ابو العباس نے کہا : چاند کو ہلال اس لئے کہتے ہیں کہ لوگ اسے دیکھتے ہی اپنی آوازیں بلند کر کے اس کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 11 : 703
2. زبيدی، تاج العروس، 15 : 2108
’’أُهِلَّ‘‘ کا صحیح اطلاق
ائمہ لغت کی درج بالا تصریحات کی روشنی میں ’’أُهِلَّ‘‘ کا اطلاق کئی معانی پر ہوتاہے جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
إهلال : پہلی رات کا چاند دیکھ کر آواز بلند کرنا
ہر اسلامی ماہ کی پہلی تاریخ کو طلوع ہونے والے چاند کو ہلال کہتے ہیں جس کا مختلف وجوہ کی بنا پر لوگ شدت سے انتظار کرتے ہیں لہٰذا نیا چاند دیکھنے والوں کی طرف سے ایک آواز بلند ہوتی ہے : استجابة الإهلال’’وہ چاند نظر آ گیا‘‘ اس خاص وقت میں بلند ہونے والی آواز کو ’’اِھْلَال‘‘ کہتے ہیں جبکہ کسی اور آواز کو اھلال سے موسوم نہیں کیا جاتا۔
(2) إهلال : پیدائش کے وقت بچے کا آواز بلند کرنا
اِھْلال کا ایک معنی ہے ’’پیدائش کے وقت بچے کا رونا‘‘ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی اس کے منہ سے رونے چیخنے کی آواز نکلتی ہے۔ جسے عربی میں ’’اَھَلَّ الصَّبِيّ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عام حالات میں بچے کا چیخنا اور رونا ’’اھلال الصبی‘‘ نہیں کہلاتا بلکہ عین پیدائش کے وقت آواز بلند کرنے اور چیخنے کو ’’اھلال الصبيّ‘‘ کہتے ہیں۔
(3) إهلال : عین وقتِ ذبح آواز کو بلند کرنا
کفار و مشرکین جب کسی جانور کو ذبح کرتے تو وہ یہ اعلان کرنے کے لئے کہ وہ اپنے کس بت کے نام پر اسے ذبح کر رہے ہیں۔ آواز بلند کرتے جسے رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ الذِّبْحِ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ آواز وہ اس لیے لگاتے کہ ان کے معبودانِ باطلہ بے شمار تھے۔ لہٰذا وقتِ ذبح آواز بلند کرتے ہوئے اپنے خاص بت کا نام لیتے۔ اس بلند کی جانے والی آواز کو ’’اِھلال‘‘ کہا جاتا۔
(4) إهلال : خاص مواقع پر آواز بلند کرنا
کسی خاص موقع پر کوئی اعلان کرنے کے لئے آواز بلند کرنا بھی اِھْلَال کے معنی میں لیا جاتا ہے۔
(5) إهلال : تلبیہ پڑھتے ہوئے آواز بلند کرنا
اِھْلَال کا ایک معنی بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا بھی ہے جیسا کہ دورانِ حج حجاجِ کرام بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے ہیں۔
عربی لغت کے حوالے سے درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر ’’اہلال‘‘ میں کسی خاص موقع پر آواز بلند کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس کے لغوی معنی کی رو سے آیتِ مبارکہ وَمَا اُهِلَّ میں بھی لازماً رفعِ صوت کا مفہوم موجود ہوگا۔ وَمَا وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ سے محدّثین اور مفسرینِ کرام نے کیا معنی مراد لیا ہے؟ ذیل میں ہم اسی پہلو پر تفصیلی بحث رقم کریں گے تاکہ اس آیت میں بیان کردہ قرآن مجید کا صحیح منشا اور مقصود اہلِ حق کے لئے قلبی سرور کا باعث بن سکے اور اہلِ باطل کے بطلان کا قلع قمع ہونے کا ساماں فراہم ہوسکے۔
3۔ (وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) کا معنی ائمہ حدیث کی نظر میں
محدثینِ کرام اور شارحینِ حدیث وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ سے مراد بآوازِ بلند بتوں کے نام پر ذبح کئے جانے والے جانور لیتے ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
1۔ امام بیہقی، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا قول اس آیت (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
يعني ما أهل للطواغيت کلها.
’’اس سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
بيهقی، السنن الکبری، 9 : 249
2۔ امام بیہقی رقمطراز ہیں :
(وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) ما ذبح لآلهتهم.
’’وَمَا أهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه کا معنی وہ جانور ہیں جو مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ذبح کیا کرتے تھے۔‘‘
شعب الايمان، 5 : 20، رقم : 5627
3۔ امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
وأصل الإهلال في اللغة رفع الصوت، وکل رافع صوته فهو مهل. ومنه قيل للطفل : إذا سقط من بطن أمه فصاح قد استهل صارخا. والاستهلال والإهلال سواء. ومنه قول اﷲ عزوجل (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) لأن الذابح منهم کان إذا ذبح لآلهة سماها ورفع صوته بذکرها.
’’اھلال کا اصل لغوی معنی آواز بلند کرنا ہے لہٰذا آواز بلند کرنے والا ہر شخص مُھِلٌّ ہے اور اسی سے بچے کا استھلال کرنا ہے یعنی جب عین پیدائش کے وقت وہ بلند آواز سے روتا ہے۔ استھلال اور اھلال ہم معنی ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ تعاليٰ کا ارشاد (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) ہے کیونکہ کفار و مشرکین میں سے ذبح کرنے والا جب اپنے بت کے نام پر ذبح کرتا تو اس کا نام لیتے وقت آواز کو بلند کرتا۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 13 : 168
امام ابنِ حجر عسقلانی نے صحیح البخاری کی شرح فتح الباری (3 : 415) اور امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح (8 : 89) میں بھی یہی معانی بیان کئے ہیں۔
4۔ (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) ائمہ تفسیر کی نظر میں
ذیل میں ہم آیت (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) کی تشریح و تفسیر معروف ائمہ تفسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے۔ جن سے یہ بات مترشح ہے کہ کسی ایک مفسرِ قرآن نے بھی ایصالِ ثواب کے لئے ذبح کیے گئے جانور کا تعلق ان حرمت والی آیات سے نہیں جوڑا اور نہ کسی نے اولیاء و صالحین کے ایصالِ ثواب کے لئے اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کو حرام قرر دیا۔
سورۃ البقرۃ کی آیتِ کریمہ ملاحظہ کیجئے، ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 173
اس آیتِ مبارکہ میں أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ کے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ان کا مفسرینِ کرام نے شرعی معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہے جس پر عین وقتِ ذبح غیر اﷲ کا نام بلند کرکے چھری پھیر دی جائے۔ ذیل میں مشہور ائمہ تفسیر کے حوالے درج کئے جاتے ہیں۔
1۔ تفسیر ابنِ عباس رضی اللہ عنہ
رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر
’’تنویر المقباس‘‘ میں (وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) کا معنی یہ لکھا ہے :
(وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) ماذبح لغير اسم اﷲ عمداً للأصنام. ’’(وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) کا معنی ہے وہ جانور جس کو جان بوجھ کر اللہ کا نام لیے بغیر بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
ابن عباس، تنوير المقباس : 24
2۔ تفسیر عبدالرزاق
عن قتادة فی قوله : (وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِاﷲِ) قال : ما ذبح لغير اﷲ مما لم يسم عليه.
’’حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ وہ (وَ مَا أُهِلَّ بِہ لِغَيْرِاﷲِ) سے مراد وہ جانور ہے جس کو اللہ تعاليٰ کا نام لیے بغیر غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہو۔‘‘
تفسير عبدالرزاق، 1 : 301، رقم : 155
عن الزهري قال : الإهلال أن يقولوا : باسم المسيح.
’’امام زھری فرماتے ہیں کہ اِھلال کا مطلب ہے کہ بوقت ذبح یوں کہا جائے : بإِسم المسيح (یعنی حضرت عیسیں کے نام پر ذبح کرتا ہوں)۔‘‘
تفسير عبدالرزاق، 1 : 01 3، رقم : 156
نوٹ : واضح ہو کہ امام زھری نے اِهْلَال کے حوالے سے اپنی تفسیر میں ان عیسائیوں کا معمول بیان کیا ہے جو حضرت عیسيٰ علیہ السلام کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے۔
3۔ تفسیر طبری
و أما قوله : (وَمَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِاﷲِ) فإنه يعني به وما ذبح للآلهة والأوثان يسمي عليه بغير اسمه أو قصد به غيره من الأصنام. و إنما قيل (وَمَا أُهلَّ بِه) لأنهم کانوا إذا أرادوا ذبح ما قربوه لآلهتهم سموا اسم آلهتهم التي قربوا ذلک لها وجهروا بذلک أصواتهم. فجري ذلک من أمرهم علي ذلک حتي قيل لکل ذابح يسمي أو لم يسم، جهر بالتسمية أو لم يجهر مُهل. فرفعهم أصواتهم بذلک هو الإهلال الذي ذکره اﷲ تعالي فقال : (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) ومن ذلک قيل للملبي في حجة أو عمرة مهل لرفعه صوته بالتلبية. و منه استهلال الصبي إذا صاح عند سقوطه من بطن أمه. واستهلال المطر وهو صوت وقوعه علي الأرض کما قال عمرو بن قميئة :
ظلم البطاح له انهلال حريصة
ابن جرير طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 2 : 50
’’اللہ تعاليٰ کے ارشاد (وَمَا ه لِغَيْرِ اﷲِ) سے مراد وہ جانور ہیں جو معبودانِ باطلہ یعنی بتوں کے لئے ذبح کیے گئے ہوں جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یا اس کے علاوہ بتوں میں سے کسی ایک کا نام لینے کا ارادہ کیا گیا ہو۔ وَمَا أُهِلَّ بِه اس لیے ارشاد فرمایا گیا : کیونکہ جب مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے تقرب کے لئے کسی جانور کو ذبح کرنے کا ارادہ کرتے تو وہ اس مخصوص بت کا نام لیتے جس کے تقرب کے لئے وہ جانور ذبح کیا جانا ہوتا اور اس پر وہ اپنی آواز کو بلند کرتے پس پھر یہ ان کا معمول بن گیا حتی کہ ہر ذبح کرنے والے کو خواہ اس نے بآواز بلند اپنے معبود کا نام لیا ہو یا نہ مُھِلٌّ کہا جانے لگا۔ پس ان کا جانور پر آواز بلند کرنا اِھلَال کہلاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعاليٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ)۔ اسی بلندی آواز کے مفہوم کی وجہ سے حج اور عمرہ کے دوران بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے والے کو بھی مُھِلٌّ کہا گیا۔ اسی مفہوم میں استھلال الصبی ہے جب بچہ پیدائش کے وقت اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی روتا ہے۔ اسی سے استھلال المطر ہے، یہ وہ آواز ہے جو بارش کے قطرے زمین پر گرتے وقت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ عمر بن قمیئہ نے اپنے ایک شعر میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے :
وادیوں کی ظلمت زور دار بارش کا ہونا ہے‘‘
4۔ تفسیر قرطبی
قوله تعالي : (وَمَا أُهلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) أي ذکر عليه غير اسم اﷲ تعالي، و هي ذبيحة المجوسي والوثني والمُعَطِّل. فالوثني يذبح للوثن، والمجوسي للنار، والمُعَطِّل لا يعتقد شيئًا فيذبح لنفسه. والإهلال : رفع الصوت، يقال : أهلَّ بکذا، أي رفع صوته.
ومنه إهلال الصبيّ و استهلاله، و هو صياحه عند ولادته. و قال ابن عباس وغيره : المراد ما ذبح للأنصاب والأوثان.
’’اللہ تعاليٰ کا ارشاد (وَ مَا أُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ) سے مراد وہ جانور ہے جس پر اللہ کے غیر کا نام لیا گیا ہو اور یہ مجوسی، بت پرست اور معطل کا ذبیحہ ہے۔ بت پرست اپنے بت کے لئے ذبح کرتا ہے، مجوسی آگ کے لئے اور معطل کا کسی چیز پر اعتقاد نہیں ہوتا وہ صرف اپنی ذات کے لیے ذبح کرتا ہے۔
قرطبی، الجامع لأحکام القران، 2 : 223
إهلال آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : اس شخص نے اس طرح آواز بلند کی۔
اسی سے اھلال الصبی اور نومولود بچے کا استھلال ہے جس سے مراد عین پیدائش کے وقت اس کا چیخنا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ جانور ہے جس کو نصب شدہ مورتیوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘
5۔ تفسیر فتح القدیر
الإهلال : رفع الصوت، يقال أهلّ بکذا : أي رفع صوته، قال الشاعر يصف فلاة :
تهلّ بالفرقد رکبانها
کما يهلّ الراکب المعتمر
و منه إهلال الصبيّ، واستهلاله : وهو صياحه عند ولادته، والمراد هنا : ما ذکر عليها اسم غير اﷲ کاللات والعزّي.
’’اھلال : کا معنی آواز بلند کرنا ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اس طرح آواز بلند کی۔ یعنی اپنی آواز کو اونچا کیا۔ کسی شاعر نے بنجر بیابان زمین کی تعریف یوں بیان کی ہے :
’’بنجر و ہموار زمین میں چلنے والے مسافروں نے زور سے آواز دی جیسے عمرہ کرنے والا سوار بآوازِ بلند تلبیہ کہتا ہے۔
شوکانی، فتح القدير الجامع بين فنی الرواية والدراية من علم التفسير، 1 : 169
اسی سے اھلال الصبی اور استھلال الصبی ہے، جس سے مراد عین پیدائش کے وقت بچہ کا بآواز بلند چیخنا ہے۔ یہاں اس آیت کا مطلب ہے کہ وہ جانور جس پر غیر اللہ مثلاً لات و عزيٰ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘
6۔ تفسیر ابن کثیر
(وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) : أی ما ذبح فذکر عليه اسم غير اﷲ فهو حرام.
’’یعنی وہ جانور جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے غیر کا نام لیا جائے پس ایسا جانور حرام ہے۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 8
علاوہ ازیں دیگر معروف تفاسیر میں بھی مفسرین کرام نے (سورۃ البقرۃ، 2 : 173 اور سورۃ المائدۃ، 5 : 3) کے تحت مذکورہ بالا تمام معروف معانی بیان کئے ہیں کسی ایک مفسر نے بھی ان آیات کی یہ تاویل نہیں کی جو عام طور پر معترضین کرتے اور ایصالِ ثواب کے عمل کو شرک سے منسلک کرتے ہیں۔ مزید تفصیل درج ذیل تفاسیر میں دیکھیے :
1. ابن ابي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 5 : 1407
2. امام فخر الدين رازي، التفسير الکبير، 5 : 11
3. ابن جوزي، تفسير زاد المسير في علم التفسير، 1 : 175
4. امام بغووي، معالم التنزيل، 1 : 140
5. امام خازن، تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل، 1 : 119
6. امام بيضاوي، تفسير البيضاوي، 1 : 162
7. علامه زمخشري، تفسير الکشاف، 1 : 215
8. امام نسفي، تفسير مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 1 : 110
9. امام صاوي، تفسير الصاوي، 1 : 143
10. امام جلال الدين سيوطي، تفسير الدر المنثور، 3 : 15
11. أيضاً، تفسير الجلالين
12. امام آلوسي، تفسير روح المعاني، 2 : 42
13. قاضي ثناء اﷲ پاني پتي، تفسير المظهري، 1 : 190
14. علامه عجيلي، تفسير الجمل، 1 : 207
15. احمد مصطفي، تفسير المراغي، 1 : 47
16. ابن عادل الدمشقي، تفسير اللباب في علوم القرآن، 7 : 188
17. امام ابي سعود، تفسير ارشاد العقل السليم إلي مزايا القرآن الکريم، 1 : 191
18. ابن عجيبه، تفسير البحر المديد، 2 : 142
No comments:
Post a Comment