Saturday, 6 December 2014

اُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه کی درست تفسیر

هِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه کی درست تفسیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ صفحات میں ہم نے اہلِ لغت، محدثینِ کرام اور مفسرینِ عظام کی آراء کی روشنی میں أُهِلَّ کا درست مفہوم تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔ جس کے مطابق صرف وہ جانور حرام ہے جس پر عین ذبح کے وقت اﷲ کے نام کی جگہ کسی دوسرے کا نام اس طرح لیا جائے کہ میں اس جانور کو فلاں بت یا شخص کے نام پر اس کے تقرب کے لئے ذبح کرتا ہوں۔ یہ عمل شرک ہوگا اور یہ ذبیحہ از روئے نص حرام ہوگا۔ لیکن اگر صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز کے لئے جانور خرید کر اﷲ کی رضا کے لئے اﷲ کے نام پر ذبح کر دیا جائے اور اس کا ثواب کسی بزرگ یا اپنے عزیز رشتہ دار کے نام کر دیا جائے تو یہ عمل حرام اور شرک نہیں۔
لفظِ أَهِلَّةٌ سے استشہاد

ائمہ لغت اور محدثین و مفسرین نے اس کے معانی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاند دیکھتے ہی لوگ اچانک آواز بلند کرنے لگتے ہیں کہ

’’وہ چاند ہو گیا‘‘، بعد ازاں اسی وجہ سے پہلی رات کے چاند کو ھِلال کا نام دیدیا گیا۔ ذیل میں ہم سورۃ البقرہ کی ایک اور آیت سے اس مفہوم کا استشہاد کرتے ہیں جس میں لفظ أَهِلَّةٌ سے مراد چاند ہی ہے جب کہ مفسرینِ کرام نے اس لفظ أَهِلَّةٌ کے تحت اِھلال کے وہ تمام معروف و متداول معنی بیان کئے ہیں جن کا ذکر ہم نے پچھلے صفحات میں کر دیا ہے۔

ارشادِ باری تعاليٰ ہے :

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO

’’(اے حبیب) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں یہ لوگوں کے لئے اور ماهِ حج (کے تعین) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

البقرة، 2 : 189
خلاصۂ بحث

سابقہ صفحات پر مشتمل مکمل بحث کا لبِ لباب ذیل کے چار نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے :
کسی خاص وقت میں کی گئی بات عام وقت میں کی گئی بات سے مختلف ہوتی ہے۔
کسی خاص وقت میں آواز بلند کرنا عام وقت میں آواز بلند کرنے سے مختلف ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم کسی اور کی طرف منسوب کر دیتے ہیں مثلاً ہم کچھ چیزیں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی طرف کچھ چیزیں منسوب کی جاتی ہیں۔ چوں کہ یہ چیزیں کسی خاص وقت میں نہیں بلکہ عام وقت اور حالت میں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اس لئے اس پر حکم شرک نہیں لگایا جا سکتا۔
ذبح ایک ایسا عمل ہے جو کہ ایک خاص وقت میں کیا جاتا ہے اور اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ اھلال ’’رفع الصوت عند الذبح‘‘ ’’عین وقتِ ذبح جانور پر آواز بلند کرنے‘‘ کو کہتے ہیں۔

وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه سے مراد وہ جانور ہیں جن پر ذبح کے وقت اللہ کی بجائے غیراللہ کا نام لیا جائے۔ اس خاص موقع پر اﷲ کی بجائے غیراللہ کا نام بلند کرنا شرک ہے اور ایسے جانور کا کھانا حرام ہے۔
5۔ غیر اللہ کے نام پربطور عبادت ذبح کرنا حرام ہے

مشرکین جب کسی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تو ان کے اس عمل سے ان کا مقصود اپنے معبودانِ باطلہ کی عبادت، تعظیم و تکریم، ان کی رضا و خوشنودی اور تقرب کا حصول ہوتا تھا۔ لہٰذا ان آیات میں بطورِ خاص اس طرح کے عمل کو جو غیراللہ کے تقرب اور عبادت کے لئے ہو حرام ٹھہرایا گیا۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ . . . .

’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘

المائدة، 5 : 3

مفسرینِ کرام نے سورۃ المائدۃ کی آیت : 3 کے تحت اس کی وضاحت کی ہے :

1. (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ). . . قال مجاهد و قتادة : کانت حول البيت ثلاثمائة وستون حجرًا منصوبة، کان أهل الجاهلية يعبدونها و يعظمونها و يذبحون لها، و ليست هي بأصنام إنما الأصنام هي المصورة المنقوشة، و قال الآخرون : هي الأصنام المنصوبة، و معناه : وما ذُبح علي اسم النصب، قال ابن زيد : و ما ذبح علي النصب و ما أهل لغير اﷲ به : هما واحد.

’’امام مجاہد اور امام قتادہ کا قول ہے کہ بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ ان کی عبادت اور تعظیم کیا کرتے تھے اور ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کیا کرتے تھے، وہ حقیقی بت نہیں تھے بلکہ صرف نقش و نگار والی تصاویر تھیں۔ بعض ائمہ کا قول ہے کہ یہ نصب شدہ بت تھے۔ اور اسکا معنی یہ ہے کہ وہ جانور جو بتوں کے نام پر ذبح کے گئے ہوں۔ ابن زید کا قول ہے کہ (وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ) اور (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اﷲِ بِه) دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔‘‘

بغوی، تفسير معالم التنزيل، 2 : 9

2. قوله تعالي : (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) في النصب قولان :

أحدهما : أنها أصنام تنصب، فتعبد من دون اﷲ، قاله ابن عباس، و الفراء، و الزجاج، فعلي هذا القول يکون المعني، و ما ذبح علي اسم النصب، وقيل : لأجلها.

و الثاني : أنها حجارة کانوا يذبحون عليها، و يشرحون اللحم عليها و يعظمونها، و هوقول ابن جريج.

’’اللہ تعاليٰ کے قول (وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ) میں لفظ نُصُب کے بارے میں دو اقوال ہیں : ایک یہ کہ اس سے مراد نصب شدہ بت ہیں جن کی اللہ تعاليٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ، فراء اور زجاج کا یہی قول ہے۔ اس قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہوگا : جو جانور بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے، اور یہ بھی قول ہے کہ جو جانور ان بتوں کی رضا اور خوشنودی کے حصول کیلئے ذبح کیا جائے۔

ابن جوزی، زاد المسير فی علم التفسير، 2 : 283 - 284

دوسرا قول یہ ہے کہ

’’نُصُب‘‘ وہ پتھر تھے جن پر مشرکین جانور ذبح کئے کرتے تھے اور ان پر گوشت کے ٹکڑے کرتے اور ان کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ یہ ابنِ جریج کا قول ہے۔‘‘

3. (وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) کانت لهم حجارة منصوبة حول البيت، يذبحون عليها و يشرحون اللحم عليها، يعظمونها بذلک و يتقربون به إليها.

’’( وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) کی تفسیر یہ ہے کہ زمانہء جاہلیت میں لوگوں نے بیت اللہ کے اردگرد پتھر سے بنی ہوئی مورتیاں نصب کر رکھی تھیں اور تھان بنا رکھے تھے جن پر وہ جانور ذبح کرتے تھے اور گوشت کے ٹکڑے کرتے تھے، اس سبب سے وہ ان مورتیوں کی تعظیم کرتے اور ان کی خوشنودی حاصل کرتے تھے۔‘‘

زمخشري، الکشاف، 1 : 603

4. (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) النصب واحد الأنصاب، و هي أحجار کانت منصوبة حول البيت يذبحون عليها و يعدون ذلک قربة.

’’انصاب کا واحد نصب ہے اور ان سے مراد وہ پتھر ہیں جو بیت اللہ کے ارد گرد نصب تھے، مشرکین ان کے اوپر جانور ذبح کرتے اور اس عمل کو باعثِ تقرب سمجھتے تھے۔‘‘

بيضاوی، تفسير البيضاوی، 1 : 410

5. (وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ) کانت لهم حجارة منصوبة حول البيت يذبحون عليها يعظمونها بذلک و يتقربون إليها.

’’خانہ کعبہ کے اردگرد مشرکین کے پتھر سے بنے بت نصب تھے جن پر وہ جانور ذبح کرتے تھے۔ اس کے باعث وہ ان کی تعظیم کرتے تھے اور (عملِ ذبح کے ذریعے) ان کا تقرب حاصل کرتے تھے۔‘‘

نسفي، تفسير القرآن الجليل، 1 : 388

6. و أخرج الطستي في مسائله عن ابن عباس أن نافع بن الأزرق قال له :. . . أخبرني عن قوله (الأنصاب) قال : الأنصاب الحجارة التي کانت العرب تعبدها من دون اﷲ و تذبح لها.

’’امام طستی نے مسائل میں نافع بن ازرق کے حوالے سے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے انصاب کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ ان سے مراد وہ پتھر (کے بت) ہیں جن کی مشرکینِ عرب عبادت کرتے اور ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرتے۔‘‘

سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 3 : 16

7. قال ابن جريج : کانت العرب تذبح بمکة و تنضح بالدم ما أقبل من البيت، و يشرحون اللحم و يضعونه علي الحجارة، فلما جاء الإسلام، قال المسلمون للنبي صلي الله عليه وآله وسلم : نحن أحق أن نعظم هذا البيت بهذه الأفعال، فکأنه عليه الصلاة و السلام لم يکره ذلک، فأنزل اﷲ تعالي : ( لَنْ ينَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا) و نزلت (وَ مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ) المعني : و النية فيها تعظيم النصب لا أن الذبح عليها غير جائز.

’’ابنِ جریج نے کہا : مشرکینِ عرب مکہ مکرمہ میں جانور ذبح کرتے اور بیت اللہ کے سامنے خون چھڑکاتے، اور گوشت کے ٹکڑے کرکے اسے پتھروں کی مورتیوں پر رکھ دیتے۔ جب زمانۂ اسلام آیا تو مسلمانوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خواہش کا اظہار کیا کہ بیت اﷲ کے پاس اس طرح کے تعظیمی افعال کے ہم زیادہ حقدار ہیں۔ شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کی) اس خواہش کو ناگوار نہ سمجھتے اس لئے اللہ تعاليٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : (ہرگز اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون) اور یہ آیت بھی نازل فرمائی : (اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو)۔ اس کے ناجائز ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس طرح ذبح کرنے میں بتوں کی تعظیم کی نیت شامل ہے اس وجہ سے نہیں کہ یہاں مطلقاً ذبح ناجائز ہے۔‘‘

1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 6 : 57
2. شوکاني، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير، 2 : 10
6۔ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِاﷲِ بِه اور وَمَا ذُبِحَ عَلي النُّصُب کے اطلاق میں فرق

اکثر لوگ (وَمَا أُهِلّ بِه لِغَيْرِاﷲِ) اور (وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُبْ) کے معنی و مفہوم کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں درحقیقت ان دونوں کا اطلاق الگ الگ ہے۔

وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُب سے مراد باطل معبود کے لیے تھان یعنی مخصوص چبوترہ بنا کر ان کی خوشنودی و رضا کے لئے جانور ذبح کرنا ہے۔

اہلِ اسلام کا عمل اس تصور سے پاک ہے۔ وہ اولیاء و صالحین اور مرحومین کو نہ تو کفار و مشرکین کی طرح جانور کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور نہ ان کے مجسمے اور مورتیاں بنا کر عبادت کرتے ہیں۔

اسی طرح وَمَا أُهِلّ بِه لِغَيْرِاﷲِ سے مراد جیسا کہ ہم نے گذشتہ صفحات میں بیان کر دیا یہ ہے کہ بوقتِ ذبح بلند آواز سے کسی کا نام لینا اس میں مخصوص مقام اور تھان کا تصور نہیں بلکہ کسی جگہ بھی جانور ذبح کرکے اگر اﷲتعاليٰ کے علاوہ کسی اور کی خوشنودی اور تقرب کے لیے بطورِ عبادت اس کا نام لیا جائے یہ عمل شرک ہے۔

مسلمان جانور کی جان کا نذرانہ بھی اﷲ تعاليٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں اور بوقتِ ذبح بصورتِ تکبیر صرف اﷲ تعاليٰ کا نام لیتے ہیں۔ اس لیے ایصالِ ثواب کے لیے ذبح کیے گئے جانور پر شرک کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ائمہ تفسیر نے وَمَا ذُبِحَ عَلی النُّصُب کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کفارو مشرکین کے اس مشرکانہ عمل اور مسلمانوں کے جائز اعمال میں بُعد المشرِقین ہے کیونکہ :
کفارو مشرکین نے بتوں کی خوشنودی اوررضا کے لئے ذبح کے تھان بنائے تھے۔
وہ تقرب اور عبادت کے لئے اپنے باطل معبود کی تعظیم میں ان تھانوں پر جانور ذبح کرتے تھے۔
وہ ان جانوروں کاخون مورتیوں پر مل دیتے تھے اور گوشت کے ٹکڑے کر کے ان پر رکھتے تھے۔ اس وجہ سے ان کا یہ عمل شرک ٹھہرا۔

مسلمان جب کسی جانور کو ایصالِ ثواب کے لئے ذبح کرتے ہیں تو :
اس میں اﷲتعاليٰ کی رضا اور تقرب ہی پیش نظر ہوتاہے، ہرگز کسی غیر اﷲ کا تقرب اور خوشنودی و رضا کا حصول مد نظر نہیں ہوتا۔
وہ شرعی طریقے پر جانور ذبح کرتے ہیں اور یہ عمل بطورِ خیرات خالصتاً اﷲ تعاليٰ کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا ایصالِ ثواب اولیاء و صالحین اور مرحومین کے لئے ہوتا ہے اور گوشت پکا کر شرکاء و حاضرین اور فقراء و مساکین کے لئے پیش کیا جاتاہے۔
مسلمانوں کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ جانور کا گوشت فی نفسہ مرحومین کو پہنچتا ہے بلکہ اس عمل میں یہ عقیدہ کارفرما ہوتا ہے کہ اﷲ تعاليٰ کی بارگاہ میں بندگی و عاجزی پہنچتی ہے جبکہ اولیاء و صالحین اور مرحومین کو ہدیۂ ثواب پہنچتا ہے اور موجود و زندہ افراد کھانے سے مستفید ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی سزائے قت...