۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قُحِطَ أهل الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلَي عائشۃ ، فَقَالَتْ : انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَاجْعَلُوْا مِنْهُ کِوًي إلَي السَّمَاءِ، حَتَّي لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّي نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْاِبِلُ حَتَّي تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ ’’عَامَ الْفَتْقِ‘‘.
ترجمہ:۔
’’ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دِگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اُگ آیا اور اُونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ پس اُس سال کا نام ہی ’’عامُ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
1. دارمي، السنن، 1 : 56، رقم : 92
2. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفيٰ : 817. 818، رقم : 1534
3. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 128
ثابت ہوا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اہلِ مدینہ کو رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کو وسیلہ بنانے کی ہدایت فرمائی، جس سے اُن پر طاری شدید قحط ختم ہو گیا، اور موسلا دھار بارش نے ہر طرف بہار کا سماں پیدا کر دیا۔ جہاں انسانوں کو غذا ملی وہاں جانوروں کو چارا ملا، اِس بارش نے اہلِ مدینہ کو اتنا پر بہار اور خوشحال بنا دیا کہ انہوں نے اس پورے سال کو ’عام الفتق (سبزہ اور کشادگی کا سال)‘ کے نام سے یاد کیا۔
بعض لوگوں نے اس رِوایت پر اعتراضات کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی سند کمزور ہے لہٰذا یہ روایت بطورِ دلیل پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مستند علماء نے اِسے قبول کیا ہے اور بہت سی ایسی اسناد سے استشہاد کیا ہے جو اس جیسی ہیں یا اس سے کم مضبوط ہیں۔ لہٰذا اس روایت کو بطورِ دلیل لیا جائے گا کیونکہ امام نسائی کا مسلک یہ ہے کہ جب تک تمام محدّثین ایک راوی کی حدیث کے ترک پر متفق نہ ہوں، اس کی حدیث ترک نہ کی جائے۔
(1) عسقلاني، شرح نخبة الفکر في مصطلح أهل الأثر :
233ایک اور اعتراض اس روایت پر یہ کیا جاتا ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی صرف صحابیہ تک پہنچتی ہے، اور یہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا قول ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں ہے۔ اس لئے اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ تک اس کی اسناد صحیح بھی ہوں تو یہ دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ذاتی رائے پر مبنی ہے اور بعض اوقات صحابہ کی ذاتی رائے صحیح ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں صحت کا معیار کمزور بھی ہوتا ہے، لہٰذا ہم اس پر عمل کرنے کے پابند نہیں۔
اس بے بنیاد اعتراض کا سادہ لفظوں میں جواب یہ ہے کہ نہ صرف اس روایت کی اسناد صحیح اور مستند ہیں بلکہ کسی بھی صحابی نے نہ تو حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا کے تجویز کردہ عمل پر اعتراض کیا اور نہ ہی ایسا کوئی اعتراض مروی ہے جس طرح حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں اس آدمی پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا جو قبرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر بارش کے لیے دعا کرتا ہے۔ یہ روایتیں صحابہ کا اجماع ظاہر کرتی ہیں اور ایسا اجماع بہر طور مقبول ہوتا ہے۔ کوئی شخص اس عمل کوناجائز یا بدعت نہیں کہہ سکتا کہ جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سکوت نے جائز یا مستحب قرار دیا ہو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی پیروی کے لزوم کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں :
رأيهم لنا خير من رأينا لأنفسنا.
’’ہمارے لیے ان کی رائے ہمارے بارے میں ہماری اپنی رائے سے بہتر ہے۔‘‘
ابن قيم، أعلام الموقعين عن ربّ العالمين، 2 : 186
علامہ ابنِ تیمیہ نے اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا کی پوری زندگی میں روضۂ اقدس کی چھت میں اس طرح کا کوئی سوراخ موجود نہیں تھا۔ یہ اعتراض کمزور ہے کیونکہ امام دارمی اور ان کے بعد آنے والے اَئمہ و علماء اس طرح کی تفصیل متاخرین سے زیادہ بہتر جانتے تھے۔ مثال کے طور پر مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی نے علامہ ابنِ تیمیہ کے اعتراض کا ردّ اور امام دارمی کی تصدیق کرتے ہوئے ’’وفاء الوفاء (2 : 560)‘‘ میں لکھا ہے :
’’زین المراغی نے کہا : ’جان لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضۂ رسول کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رُخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے دور میں بھی مقصورہ شریف، جس نے روضہ مبارک کو گھیر رکھا ہے، کا باب المواجہ یعنی چہرۂ اقدس کی جانب کھلنے والا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور لوگ وہاں (دعا کے لیے) جمع ہوتے ہیں۔‘‘
سمهودي، وفاء الوفاء، 2 : 560
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّل سے دعا کرنے کا معمول عثمانی ترکوں کے زمانے یعنی بیسویں صدی کے اوائل دور تک رائج رہا، وہ یوں کہ کہ جب قحط ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو اہلِ مدینہ کسی کم عمر سید زادہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی کو کھینچتا جوقبرِ انور کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے فرمان کے مطابق سوراخ کے ڈھکنے کو بند کرنے کے لئے لٹکائی ہوئی تھی۔ اس طرح جب قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارانِ رحمت کا نزول ہوتا۔
No comments:
Post a Comment