کیا ہر اہل حدیث محقق و مجتہد ہے ؟
مشہور اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی اس خودرائی اور ترک تقلید کا ماتم کرتے ہوئے لکھتے ہیں.پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں .کفر ارتداد کے اسباب اور بھی بکثرت موجود ہیں مگر دینداروں کے بے دین ہوجانے کیلے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑا بھاری سبب ہے گروہ اہل حدیث میں جو بے علم یا کم علم ہوکر ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں وہ ان نتائج سے ڈریں.اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوجاتے ہیں.( اشاعتہ السنہ نمبرچار جلد نمبرایک)
کون نہیں جانتا کہ ہرعلم وفن میں کمال ومہارت حاصل کرنے کے لیئے اس علم وفن کے ماہر ومستند لوگوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور اس علم وفن کے تمام شروط ولوازم اصول وقواعد کی پابندی لازمی ہوتی ہے ہر علم وفن کے اندر کچھ خاص محاورات واصطلاحات ہوتےہیں اور اتارچڑهاو کا ایک خاص انداز ہوتا ہے جس کا سمجهنا بغیرکسی ماہراستاذ کے ممکن نہیں ہے اور تو اور دنیوی فنون کو دیکھ لیجیے کہ بزور مطالعہ کسی بھی فن میں مہارت ناقابل قبول سمجھی جاتی ہے جب دنیوی فنون کا یہ حال ہے جوانسانوں کی اپنی ایجاد کرده ہیں ۔تو الله ورسول کے کلام کو پڑهنے وسمجهنے کے لیئے صرف ذاتی مطالعہ کیونکر کافی ہوگا جب کہ الله ورسول کے بیان کرده احکامات اور کلام وحی سے متعلق ہے جس میں انسانی عقل وسمجھ کو کوئی دخل نہیں ہے ۔اسی لیئے ابتداء سے ہی الله تعالی نے انبیاء ورسل کا سلسلہ مبارکہ جاری فرمایا اور یہ سلسلہ مبارکہ جناب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كى بعثت مباركه پرہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ختم ہوچکا ہے اگر صرف انسانی مطالعہ ہی کافی ہوتا تو الله تعالی بجائے نبی ورسول بھیجنے کے صرف کتابیں نازل کرتا اور انسان اس کی مد د سے ازخود الله تعالی کی معرفت اور الله تعالی کے کلام کی مراد ومقصود کی فہم حاصل کرتا لیکن تاریخ اور کتاب وسنت کی صریح نصوص سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ الله تعالی نے کوئی ایسی کتاب نازل نہیں کی جس کے ساتھ مُعلم یعنی نبی کو نہ بھیجا هو " تورات " کے ساتھ حضرت موسی " انجیل " کے ساتھ حضرت عیسی " زبور " کے ساتھ حضرت داؤداور اسی طرح " صُحُف " حضرات ابراہیم کے ذریعہ لوگوں کو پہنچے صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین اورقرآن مجید جوسید الکتب ہے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم پرنازل کی گئی ۔ کیا ان کتب الہیہ کے تصور کوبغیر انبیاء ورسل کے کوئی کامل ومکمل تصور کہا جا سکتا ہے ؟
یقینا کوئی بھی سنجیده انسان اس بات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، اگر صرف کتابوں کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن ہوتا اور خود ہی کتاب پڑھ کر الله تعالی کی مُراد ومقصود حاصل کرنا ممکن ہوتا تو ان انبیاء صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین کی بعثت کیوں ضروری تھی ؟
قران مجید خاتم الکتب ہے جو خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے واسطہ سے هم تک پہنچا اگر صرف کتاب کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن ہوتا توخاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے فرائض منصبی میں سے ایک اہم فرض تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کیوں لازم کیا گیا ؟
آپ كى بعثت مبارکہ کیوں ضروری تھی اور اس قدر اذیت وتکلیف ومشقت کی تاریخ کیوں مرتب کی گئی ؟
کیا اہل مکہ عربی زبان نہیں سمجهتے تھے ؟
قران کسی ذریعہ سے نازل کردیا جاتا اور عوام وخواص اس کو پڑھ کر ازخود سمجهنے کی کوشش کرتے ، اسی طرح حضرت جبریل علیہ السلام کو درمیان میں کیوں واسطہ بنایا گیا خود براه راست خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم تک قران مجید پہنچا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس میں واضح تعلیم ہے کہ بغیراستاذ ومُعلم صرف کتابوں کے ذریعہ قران وحدیث کا مقصد ومطلب وحقیقی مراد پالینا ممکن نہیں ہے ۔
اسی " سُنة الله " کے تناظرمیں یعنی کتاب کے ساتھ مُعلم کا هونا ضروری ہے علماء اہلسنت و جماعت کا یہی مسلک ہے کہ دین صرف کتابی حروف ونقوش کا نام نہیں ہے اور نہ دین کو محض کتابوں سے سمجها جاسکتا ہے ، الله تعالی نے ہمیشہ کتاب کے ساتھ رسول کو مُعلم بنا کر اس لیئے بھیجا تاکہ وه اپنے قول وفعل وعمل سے کتاب کی تفسیر وتشریح کرے ، چنانچہ ایسی مثالیں توملتی ہیں کہ دنیا میں رسول بھیجے گئے مگرکتاب نہیں آئی ، لیکن ایسی مثال ایک بھی نہیں ہے کہ صرف کتاب بھیج دی گئی هو اور اس کے ساتھ رسول مُعلم بن کر نہ آیا هو ، الله تعالی کی یہ سنت بتلاتی ہے کہ دین کو سمجهنے سمجهانے اور پھیلانے پہنچانے کا راستہ وطریقہ صرف کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ وه اشخاص وافراد بھی ہیں جو کتاب کا عملی پیکربن کراس کتاب کی تشریح وتفسیر کرتے ہیں ، لہذا دین کوسمجهنے کے لیئے " کتابُ الله اور رجالُ الله " لازم وملزوم کی حیثیت رکهتے ہیں ، ان میں سے ایک کودوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ، لہذا " کتاب الله " کو جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح کی روشنی میں اور سنت وحدیث رسول الله صلى الله عليه وسلم کو صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین وسلف صالحین کی تفسیر وتشریح وتحقیق کی روشنی میں ہی ٹھیک ٹھیک سمجها جاسکتا ہے ، اس کے بغیر دین کی اور قران وحدیث کی تعبیروتشریح کی ہرکوشش گمراہی کی طرف ہی جاتی ہے ۔
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل لسان تھے عربی ان کی مادری زبان تھی مگر مقاصد قران سمجهنے کے لیئے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح وتعلیم کے محتآج تھے اورآپ کی طرف ہی رجوع کرتے تھے اپنی سمجھ وفہم کوانهوں نے کافی نہیں سمجها ، اورصحابہ کرام اہل لسان هونے کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت اورتمام دیگرصفات میں اعلی مقام رکهتے تھے لیکن اس کے باوجود قران سمجهنے کے لیئے خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف ہی رجوع کرتے تہے ۔تومعلوم هوا کہ صرف عربی لغت پڑھ لینا بھی کافی نہیں اور نہ صرف مطالعہ کافی ہے اورتاریخ وتجربہ شاہد ہے کہ جس شخص نے بھی اساتذه وماہرین کی مجلس میں بیٹھ کر باقاعده تمام اصول وقواعد کی روشنی میں علم دین حاصل نہیں کیا ، بلکہ قوت مطالعہ کے ذریعے کتاب وسنت سمجهنے کی کوشش کی توایسا شخص گمراہی سے نہیں بچا ، اسی طرح جس شخص نے اپنے ناقص عقل وفہم پراعتمادکیا اور کسی ماہر مستند استاذ ومُعلم سے باقاعده علم حاصل نہیں کیا توایسا شخص خود بھی گمراه هوا اور دیگر لوگوں کو بھی گمراه کیا ۔ اورآج کے اس پرفتن دور میں لوگ اردو کے ایک دو رسالے پڑھ کر اور قران وحدیث کا اردوترجمہ پڑھ کر بڑے فخرکرتے ہیں کہ اب ہم کو کسی امام ومعلم کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب ہم بڑے کامل ہوچکے ہیں ایسے جاہل لوگ اپنے ناقص عقل وفہم کی مدح سرائی کرتے ہوئے تهکتے نہیں ہیں اور آج کل جاہل عوام میں یہ وبا غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث کی جانب سے پھیلائی جارہی ہے ہرجاہل ومجهول کو مجتہد کا درجہ دیا ہوا ہے اور فی زمانہ وسائل اعلام ( میڈیا کے ذرائع ) کی کثرت کی بنا پر اس فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں شامل ہرکس وناکس انتہائی دلیری کے ساتھ اپنی جہالت وحماقت وضلالت کو ہرممکن ذریعہ سے پھیلا رہا ہے۔ اسی لیئے احادیث صحیحہ میں ایسے شخص کے لیئے جہنم کی سخت وعید وارد ہوئی ہے کہ جوشخص اپنے خیال ورائے سے یا بغیر علم کے قران میں کوئی بات کرتا ہے ۔
چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں
1. عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من قال في القران برايه فليتبوا مقعده من النار .
2. عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من قال في القران بغير علم فليتبوا مقعده من النار۔
3. عن جندب بن عبد الله البجلي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من قال في القران برايه فاصاب فقد اخطا۔
4. عن ابن عباس قال : من تكلم في القران برايه فليتبوا مقعده من النار .
( تفسير البغوي الجزء الاول)
5. عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : (( من قال في القران بغير علم فليتبوا مقعده من النار۔(رواه الترمذي، كتاب تفسير القران باب ما جاء في الذي يفسر القران برايه،)
خلاصہ ان روآیات کا یہ ہے کہ جس شخص نے قران میں اپنی رائے وخیال سے بات کی یا بغیرعلم کے کوئی بات کی تو وه شخص اپنا ٹهکانہ جہنم بنا لے یا قران میں اپنی رائے سے کوئی بات کی اوربات صحیح بھی نکلے تب بھی اس نے خطا اور غلطی کی ۔
یقینا اتنی سخت وعید سننے کے بعد ایک مومن آدمی قران میں اپنی رائے وخیال سے بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتا ، اوران احادیث کی روشنی میں فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی حالت کوملاحظہ کریں کہ ہرجاہل مجهول آدمی کو قران میں رائے زنی کا حق دیا ہوا ہے جب کہ اس فرقہ شاذه میں شامل اکثری لوگوں کی حالت یہ ہے کہ قران کے علوم ومعارف پر دسترس تو کجا قران کی صحیح تلاوت بھی نہیں کرسکتے ۔
ہمارے اسی زمانہ کے فتنوں کے سد باب اور روک تهام کے لیئے ہی حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما دیا تها : عن معاوية رضي الله عنه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ۔ (رواه فی الصحيحين )
جس شخص کےساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں،وانما العلم بالتعلم ، علم سیکهنے سے ہی حاصل هوتا ہے ۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے ہیں(وانما العلم بالتعلم ).مرفوع حدیث ہے جس کو ابن ابی عاصم اور طبرانی نے حضرت معاویہ رضي الله عنه سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا:يا ايها الناس تعلموا انما العلم بالتعلم والفقه بالتفقه ومن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ۔ ( اسناده حسن،فتح الباري ج 1 ص147)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:والمعنى ليس العلم المعتبر الا الماخوذ من الانبياء وورثتهم على سبيل التعلم ۔ (فتح الباري ج 1 ص .148)
اس حدیث(يا ايها الناس تعلموا انما العلم بالتعلم الخ )کامعنی یہ ہے کہ معتبر ومستند علم وہی ہے جو انبیاء اور ان کے ورثاء یعنی علماء سے بطریق تعلیم وتعلم حاصل کیا جائے۔
یہاں سے یہ مسئلہ بالکل واضح هوگیا کہ جو لوگ اردو کے چند رسائل پڑھ کر یہ سمجهتے ہیں کہ اب هم مجتہد وامام بن چکے ہیں اب همیں کسی امام کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب هم کو خود ہی قران وحدیث کو سمجهنا ہے، ایسے لوگ درحقیقت بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں اورایسے لوگوں کے ساتھ شیطان اس طرح کھیلتا ہے جس طرح بچے گیند کے ساتھ کھیلتےہیں .لہذا لائق اعتماد اورقابل عمل وہی علم ہے جو انبیاء علیهم السلام سے بطور اسناد حاصل کیا گیا هو ، یہی وجہ ہے اہل حق کے یہاں مدارس ومکاتب میں آج تک یہی مبارک طریقہ رائج ہے اور عہد نبوی سے لے کرآج تک منزل بہ منزل اس کا باضابطہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور اہل حق کے یہاں علم حدیث کی تعلیم کے لیئے " اجازت " کی ضرورت لازم ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ہرشخص جاہل ومجهول اپنے آپ کو مُحدث ، مُفسر ، فقیہ وغیره القابات سے یاد کرے اور بغیرپڑھے لکھے اجتهاد وامامت کا دعوی کرے ۔
تاریخ میں ایسے افراد کی کئی مثالیں موجود ہیں جنهوں نے اپنے عقل و فہم اور قوت مطالعہ پراعتماد کرکے قران وحدیث کو سمجهنے کی کوشش کی تو خود بھی گمراه هوئے اور اپنے ساتھ ایک خلق کثیر کوگمراه کیا ۔اور اس باب میں ان لوگوں کےسینکڑوں واقعات ہیں جنهوں نے بغیراستاذ ومُعلم فقط ترجمہ یا ظاهری الفاظ کوپڑھ کر راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی تو وه صحیح مفہوم کو نہ پاسکے بلکہ صحیح مفہوم ومراد کواسی وقت پہنچے جب کسی اہل علم کی طرف رجوع کیا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ گذشتہ تفصیل سے یہ بات خوب واضح هوگئی اور یہ حقیقت بالکل عیاں هوگئی کہ کسی بھی علم وفن کے حصول کے دو طریقے ہیں ۔
1. مطالعہ کے ذریعے بذات خود چند اردو یا عربی کتب ورسائل پڑھ کر ۔
2. دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی باکمال وماهراستاذ ومُعلم کی مجلس میں باقاعده حاضر هوکر بالمشافه تمام شروط وآداب کی رعایت کرتے هوئے سبقا سبقا اس علم کو پڑها جائے ۔
یقینا ان دونوں طریقوں میں پہلا طریقہ بالکل غلط اور گمراه کن ہے ۔ یقینی طور پرتحصیل علم کا مفید اور کامیاب اورقابل اعتماد طریقہ وه دوسرا طریقہ ہے اسی طریقہ کی طرف حضورصلى الله عليه وسلم نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے تاریخ اورسلف صالحین کا عمل شاہد ہے کہ کسی بھی زمانہ میں اس کے خلاف نہیں کیا ۔ اللہ تعالیٰ فتنہ غیر مقلدین کے شر و جہالت سے بچائے آمین ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment