اجتہاد کے لغوی معنی ہیں : کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا ۔ (أبوحبيب، القاموس الفقهی : 71)
تو گویا اجتہاد اس کوشش کو کہتے ہیں جو کسی کام کی تکمیل میں مشقت برداشت کرتے ہوئے کی جائے اگر بغیر دقت اور تکلیف کے کوشش ہو گی تو اسے اجتہاد نہیں کہیں گے مثلاً عرب یوں تو کہتے ہیں : فلاں نے بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں کہتے کہ ’’اجتہد فلان فی حمل خردلۃ‘‘ فلاں نے رائی کا دانہ اٹھانے کی کوشش کی ۔
اصطلاحِ شریعت میں ’’قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں مقررہ شرائط کے مطابق بطریقِ استنباط و استخراج، شرعی احکام اور قوانین کی تشکیل، تجدید، تفصیل، توسیع اور تنفیذ کے لئے ماہرانہ علمی کاوش کا نام اجتہاد ہے ۔
اسلامی قانون سازی کے عمل میں اجتہاد کی کیا اہمیت
اسلامی قانون سازی کے عمل میں اجتہاد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے فرمایا : أقْضِ بالکتابِ والسُنَّةِ، إذا وجدتَهما، فَإِذَا لم تجد الحکم فيهما، اجتهد رأيکَ.
ترجمہ : جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر تم ان میں حکم نہ پا سکو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو ۔ ( آمدي، الاحکام، 4 : 43)
اسی طرح جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو ان سے پوچھا : اے معاذ! تم مسائل و مقدمات میں کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا : میں اﷲ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اگر تم اﷲ کی کتاب میں نہ پا سکے تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں سنت رسول سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کتاب و سنت دونوں میں حل نہ پاؤ تو؟ انہوں نے عرض کیا : أجْتَهِدُ بِرَأيِی وَلَا آلُوْ الخ۔
ترجمہ : میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا ۔
یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکا اور فرمایا : اَلْحَمْدُِﷲِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اﷲِ لِمَا يُرْضِی رَسُوْلَ اﷲِ .
ترجمہ : اﷲ کا شکر ہے جس نے رسول اﷲ کے بھیجے ہوئے نمائندہ کو اس بات کی توفیق بخشی جو اﷲ کے رسول کو خوش کرے ۔ (أبوداؤد، السنن، کتاب الأقضية، باب إجتهاد الرأي فی القضاء 3 : 295، رقم : 3592)
یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسائل و معاملات میں اجتہاد پسند فرمایا اور اس کا حکم دیا۔ اسی لئے اجتہاد فقہ اسلامی کا ناگزیر حصہ شمار ہوتا ہے اور ائمہ و فقہاء نے نئے پیش آنے والے مسائل اور ضروریات دین کو اجتہاد ہی کے ذریعے پورا کیا ۔
اجتہاد کی شرائط
اسلام ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت مل جائے اور وہ اپنے مزاج و منشاء کے مطابق شرعی احکام کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے لگے تو شریعت بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے ائمہ و فقہاء نے اجتہاد کی شرائط مقرر کی ہیں اور مجتہد کے لئے مخصوص صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ امام شاطبی نے مجتہد کی بڑی جامع اور مختصر تعریف بیان کی ہے : اجتہاد کا درجہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو ان دو اوصاف کا حامل ہو پہلا یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کو مکمل طور پر سمجھتا ہو، دوسرا یہ کہ وہ ماخذ شریعت سے احکام استنباط کرنے کی مکمل استطاعت رکھتا ہو ۔
مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص کا عالم ہو، ان مسائل سے واقف ہو جن پر اجماع ہو چکا ہے، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو اور بیان و معانی پر قدرت رکھتا ہو اور آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو لہٰذا جب ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا تو بارگاہِ الٰہی سے تائید و نصرت اور اجر ملے گا ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا : إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ .
ترجمہ : جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919 )۔(مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم : 1716)۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment