Thursday, 30 November 2017

ابن وھاب نجدی کا یوم منانا جائز ہے اور یوم میلاد منانا ناجائز ہے


ابن وھاب نجدی کا یوم منانا جائز ہے اور یوم میلاد منانا ناجائز ہے

محترم قارئین ہم ابن وہاب نجدی کے پیروکار نجدی مفتی کے فتاویٰ کے اصل صفحات کے اسکن پیش کر رہے ہیں پڑھیئے اور فیصلہ خود کیجیئے کہ ان کے ملاّؤں کے یوم منانا تو جائز ہیں مگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا یوم میلاد منانا بدعت و حرام ہے یہی آج کے نجدی کے پیروکاروں کا بھی طریقہ ہے پہچانیئے

پڑھیئے نجدی مفتی سے کیئے گئے سوال اور ان کی جواب نجدی مفتی کی طرف سے

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور محمد بن صالح عثیمین نجدی کی منافقت . میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بدعت اور حرام اور پورا ہفتہ ابن عبد الوہاب کی یاد منانا بلا کراہت جائز ہے .

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منانے کے بارے میں سوال کے جواب میں شیخ محمد بن صالح عثیمین لکھتے ہیں ، فتاویٰ العقیدہ صفحات ، 553 ، 354 ، 355 ما حكم ألاحتفال بالمولد النبوي ؟ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منانا بدعت اور حرام ہے .

اگلے ہی صفحے پر سوال ہوتا ہے : السؤال: ما الفـرق بين ما يسمى بأسبوع الشيخ محمد بن عبدالوهاب رحمه الله تعالى، والاحتفال بالمولد النبوي حيث يُنكر على من فعل الثاني دون الأول ؟
ترجمہ : کیا فرق ہے ،شیخ محمد بن عبد وہاب کے نام نہاد ہفتے، اور مولد نبوی ﷺ کی تقریبات منانے میں، دوسرے کا انکار ہے اور پہلے کا نہیں ...؟

الجواب ، الأول: أن أسبوع الشيخ محمد بن عبدالوهاب رحمه الله تعالى لم يُتخذ تقرباً إلى الله عز وجل، وإنما يُقصد به إزالة شبهة في نفوس بعض الناس في هذا الرجل ويبين ما منَّ الله به على المسلمين على يد هذا الرجل.
الثاني: أسبوع الشيخ محمد بن عبد الوهاب رحمه الله لا يتكرر ويعود كما تعود الأعياد، بل هو أمر بين للناس وكتب فيه ما كتب، وتبين في حق هذا الرجل ما لم يكن معروفاً من قبل لكثير من الناس ثم انتهى أمره.
ترجمہ : ان کے درمیان فرق ہمارے علم کے مطابق دو طرح ہیں : الاول ، بے شک ہفتہ الشیخ محمد بن عبد الوہاب الله کے قرب کے حصول کا ذریعہ نہیں تھا ، اس کا مقصد شبھات کا ازالہ ہے جو کچھ لوگوں کے دلوں میں ہیں اس شخص کے لئے، اور اس کے اظہار کے لئے کہ الله نے کیا احسان کیا ہے مسلمانو پر اس انسان کے ہاتھ .

الثانی،دوسرا یہ کہ ہفتہ الشیخ محمد بن عبد الوہاب یہ بار بار نہیں آتا ، (ہر سال) بلکہ یہ امر لوگوں کے درمیان اور کتب میں جو کچھ لکھا ہے، واضح کرچکا ہے اور حق اس شخص کے بارے میں جو پہلے معروف نہیں تھا کثیر انسانوں میں پھر یہ ختم ہوگیا
.(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد السادس عشر - باب صلاة العيدين.)

افسوس ہے اس پر اس کے ذریعے الله نے احسان کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جو کہ رحمتہ العالمین ہیں  ؟

کیا مسلمانو کے لئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور دین کی تاریخ کے بارے میں جاننا زیادہ اہم نہیں ؟

کیا مسلمانوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ذات مبارکہ آپ کی صداقت ، امانت ، آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا حسن اخلاق ، دین کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور آپ کے اصحاب کی قربانیاں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے احسانات ان کی یاد اور تذکرہ سے افضل ابن عبد الوہاب کے مظالم ہیں ؟

اپنے اس ایجاد کردہ فعل کے دفاع کی ناکام کوشش جیسا کہ ابن عثیمین نے کہا ، اس کا مقصد شبھات کا ازالہ ہے جو کچھ لوگوں کے دلوں میں ہیں اس شخص کے لئے ہے ۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیا ، اور اس کے اظہار کے لئے کہ الله نے کیا احسان کیا ہے مسلمانوں پر اس انسان کے ہاتھ ۔

الله کے احسان کی یاد اور شکر کا اظہاراس انداز میں کرنے اور جشن کی طرح منانے کے لئے کیا نجدیوں کو اس کی نظیر کسی حدیث میں ملتی ہے ؟ اگر ملتی ہے تو آل نجد ثبوت دیں ۔ بحوالہ جواب کا منتظر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے خود اپنا میلاد بیان فرمایا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے خود اپنا میلاد بیان فرمایا

ارشاد باری تعالیٰ ہے : وانک لعلیٰ خلق عظیم۔(القلم ۲۸:۴)
ترجمہ: اور بیشک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔

قل یا یھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔الذی لہ الملک السموات والارض۔
ترجمہ: آپ فرما دیں:اے لوگو :میں تم سب کی طرف اس اللہ کار سول (بن کر آیا) ہوں۔ جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔

قال الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم : قال حضرت ابو ھریرہ : یارسول اللہ: متی وجبت لک النبوۃ؟ قا ل الرسول اللہ ﷺ بین خلق آدم و نفخ الروح فیہ۔(دلائل النبوۃ ، جواہر البحار،مواہب الدنیہ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم آپ کو شرف نبوت سے کب نوازا گیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا ۔( میں اس وقت بھی نبی تھا)جب آدم علیہ السلام ابھی تخلیق اور روح کے مرحلے میں تھے ۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ مختلف موضوعات پر خطبا ت اِ رشاد فرماتے۔ اور کبھی کبھی اپنے نسب مبارک اور ولادت مبارک کے بارے میں بھی اِرشاد فرماتے۔میں اس زمرے میں چند احادیث مبارکہ آپ کے گوش گزار کروں گا جن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے صحابہ کرام کے اجتماع میں اپنی ولادت باسعادت کا تذکرہ فرمایا ہے۔

حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے : جاء العباس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فکانہ سمع شیئاًََ، فقام النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم علی المنبر، فقال: من انا؟ فقالوا: انت رسول اللہ، علیک السلام، قال :انا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم فرقتین، فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم قبائل،فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ،شم جعلھم بیوتا، فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نسباً۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، کتاب الدعوات ۵:۵۴۳،رقم:۳۵۳۲)
ترجمہ: ’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،(اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے ( اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم علم نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا:میں کون ہوں ؟ سب نے عرض کیا: آپ پر سلام ہو ، آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا: میں عبداللہ کابیٹا محمد (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب ) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش ) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔قلت: یارسول اللہ ! ان قریشاًجلسوافتذاکرواأحسابھم بینھم،فجعلوا مثلک کمثل نخلۃ فی کبوۃ من الأرض،فقال النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ان اللہ خلق الخلق فجعلنی من خیرھم من خیر فرقھم و خیر الفریقین، ثم تخیر القبائل فجعلنی من خیر قبیلۃ، ثم تخیر البیوت فجعلنی من خیر بیوتھم فأنا خیر نفساً و خیرہم بیتا۔(ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۵:۵۸۴، رقم:۳۶۰۷)
ترجمہ: میں نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم: قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا:ان اللہ اصطفی من ولد ابراھیم اسماعیل، واصطفی من ولد اسماعیل بنی کنانۃ، واصطفی من بنی کنانۃ قریشاً، واصطفی من قریش بنی ھاشم،واصطفانی من بنی ھاشم۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۵:۵۸۳، رقم:۳۶۰۵)
ترجمہ : بے شک رب کائنات نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کومنتخب فرمایا،اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو، اور اولاد کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو،اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرف انتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحب نسب، مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (چنے ہوئے) ہیں ۔ اسی طرح کی بیشمار احادیث مبارکہ اور بھی موجود ہیں ۔جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی ولاد ت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر شیطان رویا تھا آج شیطان کی روحانی اولادوں کو تکلیف ہوتی ہے اور روتے چیختے چلاتے ہیں ہے لٹ گئے

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر شیطان رویا تھا آج شیطان کی روحانی اولادوں کو تکلیف ہوتی ہے اور روتے چیختے چلاتے ہیں ہے لٹ گئے ۔
غلامان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میلاد مناتے رہیں گے اور نسل شیطان کو رولاتے رہیں گے ان شاء اللہ





میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اہم مقصد






میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم مستند دلائل کی روسشنی میں

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم مستند دلائل کی روسشنی میں

ماہ ربیع الاول میں عموماََ اور بارہ ربیع الاول کو خوصوصاََ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کی ولادت با سعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محفل میلاد کا انعقاد کیا جاتا ہے اور میلاد شریف کی خوشی منائی جاتی ہے۔ جسے منانا جائز و مستحب اور محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی علامت ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
اور اپنے آقا و مولا کے میلاد کی خوشی منانے میں ایک عاشقِ رسول جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کی محبت ہو اس کو کسی بھی دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
میلاد شریف کی شرعی حثیت
ذکر میلاد حکمِ قرآنی بھی ہے اور سنتِ الہی بھی
ارشادِ باری تعالی ہوا : اور انھیں اللہ کے دن یاد دلاؤ" سورۃ ابراھیم آیت 5 ۔
امام المفسرین سیدنا عبدللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو: " ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے" ( تفسیر خزائن العرفان)
بلاشبہ اللہ تعالی کی عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کی ذات مقدسہ ہے۔ ارشاد ہوا : بیشک اللہ کا بڑا احسان ہے ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انھیں میں سے رسول بھیجا " اٰل عمران 124
آقا و مولا تو وہ عظیم نعمت ہیں جن پہ رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے۔ ارشاد ہوا: (اے حبیب !) تم فرماؤ، اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ( کے نزول) کے سبسب انھیں چاہیے کے خوشیاں منائیں، وہ ( خوشی منانا) ان سب سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں " سورہ یونس: 58
اللہ تعالی کے فضل و رحمت حضور ہیں۔ سورۃ احزاب آیت 47 میں آپ کو " فضل " اور سورۃ الانبیاء آیت 107 میں " رحمت" فرمایا گیا ہے ۔ ایک اور مقام پہ نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی فرمایا گیا ہے: ارشاد فرمایا :اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو" (الضحٰی: 11: کنز الایمان)
خلاصہ یہ ہے ہے کہ میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یاد دلانا بھی ہے اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی ہے اور نعمت کبریٰ کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا میلاد اللہ تعالی کی سنت ہے۔
سورہ اٰل عمران کی آیت 81 ملاحظہ کریں جس میں اللہ تعالی نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کی آمد کا زکر یوں فرمایا۔ ارشاد ہوا : اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا، جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں اور پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔
یہ سب سے پہلی محفلِ میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا اور اس محفل کے شرکاء انبیاء کرام علیہم السّلام تھے۔ اسی طرح اللہ تعالی نے نے قرآن میں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ ، حضرت یحییٰ علیہم السلام کی ولادت کے تزکرے بھی فرمائے۔
ذکرِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کی سنت ہے : یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ذکرِ میلاد نبی اکرم کی سنت ہے۔ مستدرک للحاکم اور مشکوٰۃ شریف باب فضائلِ سید المرسلین میں یہ حدیث موجود ہے کہ " میں اللہ تعالی کے نزدیک آخری نبی لکھا ہوا تھا جبکہ آدم علیہ السلام اپنی خمیر میں گندھے ہوئے تھے، میں تمہیں اپنے معاملے کی ابتداء بتاتا ہوں میں ابراھییم کی دعا، عیسیٰ کی بشارت، اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انھوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے"۔
مشکوٰۃ کے اسی باب میں ترمزی اور دارمی کے حوالے سے حدیث پاک موجود ہے کہ صحابہ کرام بعض انبیاء کرام کے فضائل کا ذکر کر رہے تھے کہ اس محفل میں آقا تشریف لائے اور آپ نے اپنے فضائل خود بیان فرمائے جن میں سے کچھ یہ ہیں "
"خبردار میں اللہ کا حبیب ہوں "
اور آپ ہی کے ززمانے میں ایک اور محفل میلاد مسجدِ نبوی میں منعقد ہوئی جس میں آپ نے منبر پر بیٹھ کر اپنے فضائل اور ولادت کے تذکرے فرمایا۔ ( جامع ترمذی ج 2 ص 201) اسی طرح کی کئی احادیث صحاح ستہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
میلاد صحابہ کرام کی سنت ہے:ایسی بہت سی روایات و احادیث موجود ہیں موجود ہیں جن میں صحابہ کے میلاد منانے کے ثبوت موجود ہیں۔ اور وہ چاہے کسی صورت بھی ہوں محفل کی صورت میں یا پھر نثر کی صورت میں۔ اور بہت سے محدیثین نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں میلاد کا ذکر ہے، اگر وہ غلط ہوتیں تو وہ انھیں کبھی نہ نقل فرماتے۔۔ اور کچھ محدیثین نے تو اس موضوع پہ کتابیں بھی تحریر کی ہیں مثلاَ
امام ابن جوزی،
امام سخاوی،
امام ابن کثیر،
امام سیوطی،
محدث علی قاری وغیرہ۔۔۔۔۔
اور امام ترمزی نے تو جامع ترمزی میں ایک باب کا عنواں ہی یہی لکھا ہے۔
باب مَاجَاءَ فِی میلادالنبی صلی اللہ علیہ و سلم
مولوی عبدلحئی لکھنوی نے بھی اقرار کیا ہے کہ یہ ایک حقیقت ( یعنی میلاد منانا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں موجود تھی اگرچہ یہ نام و عنوان نہیں تھا۔ فن حدیث کے ماہرین سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ صحابہ کرام اپنی مجالس میں بنی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلمکے فضائل اور آپکی ولادت کے حالات کا ذکر کیا کرتے تھے" ( مجموعہ فتاویٰ ج 1 ص 43)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کے زمانہ میں صحابہ کی مجالس جس میں میلاد میں نعت پڑھی گئی۔
حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انھوں نے منبر پر نعت پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ ( صحیح بخاری ج 1 ص 65)
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہِ رسالت میں ذکر میلاد پر اشعار پیش کیے۔(اسد الغابہ ج 2 ص 129)
بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام مٰن صرف دو عیدیں ہیں، تیسری عید حرام ہے،، معاز اللہ یہ سب باطل نظریے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے: عیسی بن مریم نے عرض کی، اے اللہ ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک کھانے کا خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی ۔ ( المائدہ، 114)
یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید منائیں ، اسکی تعظیم کریں، تیری عبادت کریں ، تیرا شکر بجا لائیں، اس سے معلوم ہوا جس دن اللہ تعالی کی خص رحمت نازل ہو اس دن کو عید منانا اور خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے، اور کچھ شک نہیں کہ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے، اس لیے آپ کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر بجا لانا اور اظہار مسرت کرنا اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ ( تفسیر خزائن العرفان)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت " الیومَ اَکمَلتُ لکم دینَکُم" تلاوت فرمائی تو ایک ہیودی نے کہا اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس آپ نے فرمایا کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عیدِ جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی)
پس قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہواس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسی علیہ السلام اور صحابہ کرام کی سنت ہے۔ مزید یہ کہ اسلام میں صرف دو عیدیں نہیں بلکہ کئی عیدیں ہیں البتہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی شہرت اس لیے زیادہ ہے کہ اہل کتاب کے دو تہوار ( نیروز اور مہرگان) تھے۔ جن سے بہتر یہ دا تہوار یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی مسلمانوں کو عطا ہوئے۔ ( مشکوٰۃ)
ایک اور حدیث ہے کہ : عرفہ کا دن، قربانی کا دن، اور تشریق کے دن ہمارے عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں"۔ (مستدرک للحاکم ج 1 ص 600)
چونکہ عید جمعہ، عید عرفہ، عید الفطر اور عید الاضحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یومِ میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔
عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں کہ اسی کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں
میلادالنبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کے دن کو عید کہنا محدیثین کا طریقہ ہے : صحیح کے شارح امام قسطلانی رحمتہ اللہ تعالی علیہ (المتوفی 923ھ) ماہ ربیع الاول میں محفل میلاد کے انعقاد اور ان کی برکات کا ذکر کرکے لکھتے ہیں : "اللہ تعالی ہر اس شخص پہ رحمت نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی راتوں کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی کہ جس کے دل میں مرض و عناد ہے"۔ (مواہب الدنیہ ج1 ص27)
امام رحمتی اللہ تعالی علیہ ایک بزرگ شخص ابوالطیب محمد بن ابراھیم مالکی رحمتہ اللہ تعالی (المتوفی 395ھ) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول کو وہ ایک مدرسے کے پاس سے گزرے تو ان کے استاد نے فرمایا:"اے! فقیہ یہ خوشی کا دن ہے لہذا بچوں کو چھٹی دے دو" (الحاوی للفتاویٰ)
شیخ فتح اللہ بنانی مصری رحمتہ اللہ تعالی علیہ شبِ میلاد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اسلاف کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : " اس دن کے صدقے میں اللہ تعالی نے اس امت کو دیگر امتوں پر فضیلت عطا فرمائی اس لیے امت پر واجب ہے کہ وہ میلاد النبی کی رات کو سب عیدوں بڑی عید کے طور پر منائیں"۔ ( مولد خیر خلق اللہ صفحہ 165)
میلاد کی خوشی منانے پر ایک کافر کے عزاب میں کمی:صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے خواب میں بری حالت میں دیکھا اور پوچھا۔ مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا ؟؟ ابولہب نے کہا تم سے جدا ہو کے میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوئے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی پیدائش پہ اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔
امام ابن جزری رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ:" جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حال ہے حالانکہ اس کی مذمت میں قآن میں سورۃ نازل ہوئی ہے تو ایک مومن امتی کیا حال ہو گا جو میلاد کی خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشی میں مال و اسباب خرث کرتا ہے۔ قسم ہے میری عمر کی اس کی جزاء یہی ہے کے اللہ تعالی اسے اپنے فضل سے جنت میں داخل فرما دے"۔( مواہباللدنیہ ج 1 ص27، مطبوعہ مصر)
خالقِ کائنات نے اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن میلاد کیسے منایا ؟؟؟
سیرتِ حلبیہ ج1 ص78 اور خصائص کبریٰ ج1 ص47 پہ یہ روایت موجود ہے کہ:
" جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ و سلم حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا ۔ اہل قریش اس سے پہلے بد حالی قحط سالی میں مبتلا تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت کی برکت سے اس سال ربِ کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لد گئے اور اہلِ قریش خوشحال ہو گئے "۔
اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد کے موقع پہ اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں عید میلاد کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں اسکی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے:میری والدہ ماجدہ نے پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے ملک شام کے محلات روشن ہو گئے"۔(مشکوٰۃ)
ہم تو عیدِ میلاد کی خوشی میں صرف اپنے گھروں اور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں، خالق کائنات نے نہ صرف ساری کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کی جھالریں بنا کر زمین کے قرب کر دیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ فرماتی ہیں:" جب آپ کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہو گیا اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں مجھ پہ نہ گر پڑیں( سیرت حلبیہ ج1 ص94،، خصائص کبریٰ ج1 ص 40،، زرقانی جلد 1 ص116)
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں " میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پہ لہرا رہا تھا".(سیرت حلبیہ ج1 ص109)
اس سے میلاد کے موقع پہ جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔
عید میلاد کے موقع پہ جلوس بھی نکالے جاتے ہیں اور نعرہء رسالت بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولا صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں چھتوں پہ چڑھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے یہ سب باآواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ، یا محمد یا رسول اللہ ۔۔(مسلم ج2 باب الھجرۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم نے اپنا میلاد منایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم کا خود اپنے ٖفضائل کا ذکر کرنا اور اپنے میلاد کا تذکرہ کرنا پہلے ثابت ہو چکا ہے۔ مسلم میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آقا و مولا ہر پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن میجھ پہ وحی نازل ہوئی"۔
محدثین فرماتے ہیں آپ نے ہر پیر کے دن روزہ رکھ کر اپنا میلاد منایا اور اپنے میلاد کے دن کی عظمت کو ظاہر کیا اور عبادت کے زریعے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔
بارہ ربیع الاول ہی تاریخ ولادت ہے : امام بخاری کے استاد امام ابو بکر بن ابی شیبیہ رحمتہ اللہ تعالی علیہ صحیح اسناد کے ساتھ حضرت جابر اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ عام الفیل میں بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ )مصنف ابن ابی شیبہ)
مشہور مفسر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی انہی صحابہ کرام سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ بارہ ربیع الاول کو ہوئی ۔ ( سیرت ابن کثیر، ج1 ص199)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ نبی کریم کی ولادت مبارکہ بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔(مدارج النبوۃ ج2 ص 14)
محافل میلاد کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہےـ
جشن عید میلاد کی شرعی حثیت کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش کیئے جاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے۔
محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597ھ) فرماتے ہیں:مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ ، یمن، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے موقع پر محفل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ کی ولادت کے تزکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روھانی کامیابی پاتے ہیں۔ (المیلادالنبوی ص58)
امام ابن حجر رحمہ اللہ ( م 852ھ) فرماتے ہیں :"محافلِ میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں، ان میں صدقات، ذکر الہی اور بارگاہ رسالت میں درود و سلام پیش کیے جاتے ہیں"۔ ( فتاویٰ حدیثیہ ص 129)
امام سیوطی رحمہ اللہ (م 911ھ) فرماتے ہیں:میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوتِ قرآن، قو حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعاتِ حسنہ میں سے ہے جن پر ثواب ملتا ہے کیونکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم اور اپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے"( حسنالمقصد فی عمل المولد فی الحاوی للفتاویٰ ج1 ص189)
شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:" الہی میرا ایک عمل تیری ذات پاک کی عنایت کی وجہ سے شاندار ہے اور وہ یہ کہ میں مجلس میلاد میں کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت عاجزی، محبت و خلوص سے تیرے حبیب پر درود بھیجتا ہوں۔" (اخبارالاخیار ص 264)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی فرماتے ہیں:میں ہر سال میلاد کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہوا، میں نے وہی چنے تقسیم کیے۔ رات کو آقا و مولا کی زیارت سے مشرف ہوا تو دیکھا تو وہی بھنے ہوئے چنے آپ کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ نہایت خوش اور مسرور ہیں"۔ (الدرالثمین ص8)
اکابرین دیوبند کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے اپنا معمول یوں بیان کیا ہے:" فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں بلکہ زریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں"۔ (فیصلہ ہفت مسلہ ص5)
آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ان سب دلائل سے ثابت ہوتا ہے جشن عید میلاد کی محفل کا انعقاد کرنا جلوس نکالنا نعرہ لگانا جائز اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اور جو اسے بدعت کہتے ہیں کہ وہ دراصل خود بدعتی ہیں۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Milad Ul Nabi صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

Milad Ul Nabi صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا
So peace on him (Yahya Alaihissalam) the day he was born, the day that he dies, and the day that he will be raised up to life (again)! [Surah Maryam, 15]

وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا

So peace is on me (Eesa Alaihissalam) the day I was born, the day that I die, and the day that I shall be raised up to life (again)! [Surah Maryam, 33]

This proves that the birthdays of Prophets (peace be upon them) are declared blessed days by Allah and Prophets themselves. It is for this reason that Prophets’ birthdays are very important and significant days.

Every nation remembers birth or death of their guide/leader and arranges public meetings / gatherings so that successive generations of their people become aware of their leader and benefit from his life, personal traits and achievements. Such occasions help people in many ways, particularly in doing good deeds and remain united.

People also celebrate and remember important events of their history and show happiness and pride for their past achievements. The annual pilgrimage of Hajj is also a remembrance and celebration for all Muslims of the world who gather at Makka al-Mukarrama, Muna, Arafat and Madina al-Munawwara and show their solidarity towards Islam.

Quran and Ahadith are full of the remembrance of the births of Prophets like Adam ( علیھ السلا م ), Moses ( علیھ السلا م ), Jesus ( علیھ السلا م ), Yahiya ( علیھ السلا م ), etc.

Similarly, we have been commanded by Quran and Ahadith to celebrate Miladun Nabi (صلى الله عليه و آله وسلم).

It is in Quran –
اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ

(Meaning – Remember and express with gratitude the gracefulness of Allah (سبحانہ و تعا لی) that He sent Prophets among you (Al-Maa’ida – 20).

In the above Quranic verses Allah (سبحانہ و تعا لی) has commanded people to celebrate the births of Prophets who were sent for the guidance of their nations. Therefore, the celebration of the birth of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم), as a show of gratitude and happiness towards Allah (سبحانہ و تعا لی) is mandatory by the whole world as he was sent as mercy for all the worlds in this Cosmos.

It is in Quran –
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

[ Meaning – We have not sent you (O’Prophet – صلى الله عليه و آله وسلم) except for the mercy on all the worlds] (Al-Anbiya-107).

It is in Quran –
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَ‌ٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا

[Meaning – Say O’Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم) for Allah’s (سبحانہ و تعا لی) mercy and beneficence (O’believers) you celebrate the happiness. (Younus -58)

It is in Quran –
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا

( Meaning – And Salaam is on Him the day when he was born and the day when he will die and the day when he will be raised alive.” (Al-Maryam – 15).

In the above verse, Allah (سبحانہ و تعا لی) has mentioned the complete Milad of Prophet Yahya ( علیھ السلا م ).

It is in Hadith, narrated by Hazrat Ibn Abbas (رضئ اللہ تعالی عنہ) that when Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) heard from Jews that the day of Aashoora (the tenth day of Moharram) is the day of ‘deliverance of Moses (علیھ السلا م )’ (Najat-e-Moosa – علیھ السلا م from Fir’awn), he said “Nahnu ahaqqu bi-Moosa minkum” (Meaning – In comparison with Jews, we Muslims deserve Moses (علیھ السلا م) more. Then the Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم) kept fast on that day and asked others to follow’. (Bukhari)

The above Hadith confirms that we must also celebrate the salvation of the entire world (Najaat-e-Insaani) because Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) was sent down as Rahmatul lil Aalameen.

The above Hadith shows that keeping fast was the way Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) used to celebrate the birth days of Prophets.

Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) celebrated his own Milad by having fast every Monday – the day of his birth.

It is in Hadith – Waliuddin wrote this narration with reference to Sahee Muslim. When Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) was asked about his fasts on Mondays, he said “I was born and the Qur’an was revealed to me on this day.” [Mishkat – Page 179]

It is in Hadith that when the slave girl of Abu Lahab gave the good news of Prophet’s (صلى الله عليه و آله وسلم) birth to him, he freed her with the gesture of his right finger. Therefore, every Monday night the torment (Azaab) to him is reduced to a certain extent”.

Volume 7, Book 62, Number 38: (Sahih Bukhari)

Narrated ‘Ursa; Thuwaiba was the freed slave girl of Abu Lahb whom he had manumitted, and then she suckled the Prophet. When Abu Lahb died, one of his relatives saw him in a dream in a very bad state and asked him, “What have you encountered?” Abu Lahb said, “I have not found any rest since I left you, except that I have been given water to drink in this (the space between his thumb and other fingers) and that is because of my manumitting Thuwaiba.”

Abu Lahab freed Thuwaiba on joy at birth of Prophet (salallaho alaihi wasalam), even the worst of Kufaar and greatest of enemies is given relaxation in his Adhaab due to freeing Thawaiba by pointing with his finger, so Imagine the situation of a momin who rejoices on Mawlid, detailed explanation of this hadith shall be given in the last section of Verdicts from classical scholars.

This Hadith is also Mentioned in these words in with these chain of narrations:
Narrated Um Habiba: (daughter of Abu Sufyan) I said, “O Allah’s Apostle! Marry my sister. the daughter of Abu Sufyan.” The Prophet said, “Do you like that?” I replied, “Yes, for even now I am not your only wife and I like that my sister should share the good with me.” The Prophet said, “But that is not lawful for me.” I said, We have heard that you want to marry the daughter of Abu Salama.” He said, “(You mean) the daughter of Um Salama?” I said, “Yes.” He said, “Even if she were not my step-daughter, she would be unlawful for me to marry as she is my foster niece. I and Abu Salama were suckled by Thuwaiba. So you should not present to me your daughters or your sisters (in marriage).” Narrated ‘Urwa:Thuwaiba was the freed slave girl of Abu Lahb whom he had manumitted, and then she suckled the Prophet. When Abu Lahb died, one of his relatives saw him in a dream in a very bad state and asked him, “What have you encountered?” Abu Lahb said, “I have not found any rest since I left you, except that I have been given water to drink in this (the space between his thumb and other fingers) and that is because of my manumitting Thuwaiba.”
This hadith is also recorded in these (Takhrij-Zarbehaq 1/11/2014 updated)

Masnad Ahmed : Hadith 25953 under the heading of لو كانت تحل لي لما تزوجتها قد أرضعتني وأباها ثويبة مولاة بني هاشم فلا تعرضن علي أخواتكن ولا بناتكن and again in Hadith 26865 with matan of
ابنة أخي من الرضاعة وأرضعتني وأبا سلمة ثويبة فلا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن
Al-Sunnan Al Kubra (li Nisai): Hadith 5394/5395
Al Nisai’ al-Sughra : Hadith Nob 3287/3284/3285/3286
Sunnan Ibne Majah: Hadith 1939 Under the heading of ( ابنة أخي من الرضاعة أرضعتني وأباها ثويبة فلا تعرضن علي أخواتكن ولا بناتكن)
Sahih Muslim: Hadith Nob.1451(2634), 1451(2635) under the same matan
Sahih ibne Hibban: Hadith Nob, 4110 (4199), 4111(4200), the matan of hadith is إن زينب تحرم علي وإنها في حجري وأرضعتني وإياها ثويبة فلا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن ولا عماتكن ولا خالاتكن ولا أمهاتكن
اطراف الحدیث
Sahih al Bukhari Sharif : 2644/2645/2646/3105/4796/5099/5100/5101/5103/5106/5107/5124/5133/5239/5372/6156/

It is in Hadith – “Ala bizkris saliheena tanzilul barakatuh” (Meaning – Yes, the remembrance of virtuous people brings abundance of good (barakah) from Allah (سبحانہ و تعا لی). Therefore special remembrance of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) on his Milad day brings abundance of virtue from Allah (سبحانہ و تعا لی).

It is very rare that a leader will ask his followers to celebrate his birth day? Did our grand father or father ever asked us to celebrate his birth day? It is the children or the grand children who show a lot of enthusiasm and make arrangements for the birth days of their father/mother or Grand parents. However, the parents or grand parents feel happy when their children or grand children show love and care for them. Celebration of one’s birthday is just a show of care, love. Where is Shirk in it?

In the following we have provided Ahadith when Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) happened to visit the places where people were celebrating his birth day (on his Milad day). He showed a lot of happiness on that gathering and also told them that they will get salvation in Hereafter for their act.
The kind of Milad-un-Nabi (صلى الله عليه و آله وسلم) celebrations we see now-a-days have developed over a period of time. In the times of Sahabah, we find sketchy record if big celebrations were organized on Prophet’s (صلى الله عليه و آله وسلم) birth day. However, we do find individual, small gatherings about Miladun Nabi (صلى الله عليه و آله وسلم), as we have quoted in the following Ahadith in which Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم) himself attended such gathering.

With time, our living styles change as many comforts of worldly living are made available to us by scientific and technological development. Today we have very tall buildings, which were not there in the times of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم). We are traveling by Air planes, we have TV, Internet and many other things which were not there earlier. Similarly, celebration of Milad as we see today was done differently earlier. But, everyone, including Sahabah, Imams and all Muslims did show happiness on the day of birth of the Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم) and celebrated it as per the norms prevailing during their times.

If some one does not want to show happiness on this important occasion, giving absurd excuses, it shows that his claim of love of Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم) is not real; it is only on his lips. Meaning, he belongs to the category of Munafiqoon.

It is in Hadith – Abul Khattab Umro Bin Wahia Kalbi (رضئ اللہ تعالی عنہ) has narrated this Hadith in his book ‘At tanweer fi Mauludil basheer an-nazeer’. Also, Imam Jalaluddin Suyuti has narrated this Hadith in his book “Siblul Huda fi Mauludil Mustafa (صلى الله عليه و آله وسلم) ” that Hazrat Abu Darda (رضئ اللہ تعالی عنہ) narrates that “I went to the house of Aamer Ansari (رضئ اللہ تعالی عنہ) along with the Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم). Hazrat Abu Aamer (رضئ اللہ تعالی عنہ) was narrating the events of the birth of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) to a gathering of his relatives and children and was repeating; “this was the day and this was the day”. The Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم) said, O’Aba Amer(رضئ اللہ تعالی عنہ), Allah (سبحانہ و تعا لی) has opened the doors of His mercy (Rahmah) for you and the angels are praying for your absolution (Maghfirah). Whoever does this act of yours, he would also get the Salvation like yours”.

The above Hadith confirms the following.

(1) Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) has declared that whoever celebrates his (Prophet’s – صلى الله عليه و آله وسلم) birth day will get salvation on the Day of Judgment.

(2) Whoever celebrates the birthday of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم), the doors of Allah’s (سبحانہ و تعا لی) mercy are opened for him.

(3) Whoever celebrates the birthday of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم), the angels pray for his absolution (Maghfirah).
It is in Hadith – Hazrat Abdullah Ibn Abbas (رضئ اللہ تعالی عنہ) said that “one day at my home I had gathered people and was describing about the birth of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) and the people were feeling over joyous and were invoking the praise of Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) (meaning – reading Durood-e-Sharif) and Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) himself came to our gathering and said “My intercession (hallat lakum Shafa’a) for you has become legitimized.

The above Hadith is narrated by (i) Imam Suyuti in his book “Siblul Huda”, (ii) Ahmad Bin Hujr Al-Makki (the famous Jurist of Shafi’i school of thought) in his book “Maulud al-Kabeer”, and (iii) Abul Qasim Mohammad Ibn Osman in his book “Addurul Munazzam”.

Ibn Taymiyyah in his book “Majma’ Fatawa Ibn Taymiyya”, Vol. 23, p. 163 and his book “Iqtida’ al-sirat al-mustaqim”, p. 294-295 wrote as follows.

QUOTE “To celebrate and to honor the birth of the Prophet(صلى الله عليه و آله وسلم) and to take it as an honored season is good and in it there is a great reward, because of their good intentions in honoring the Prophet (صلى الله عليه و آله وسلم).”UNQUOTE

Ibn Taymiyyah in his book “Necessity of the Right Path”, p. 266, 5th line from the bottom of that page, published by Dar Al-Hadith, has written the following :

QUOTE – “As far as what people do during the Milad, either as a rival celebration to that which the Christian do during the time of Christ’s birthday or as an expression of their love and admiration and a sign of praise for the Noble Nabi (صلى الله عليه و آله وسلم), the angels pray for their absolution (Allah Almighty will surely reward them for such Ij’tiha)” UNQUOTE. (see the scans in Scans library or in the end of this article)

Imdadullah Muhajir Makki (1817-1899) is the Grand Super Shaikh of most of the prominent Deobandi scholars (Akabir) like Rashid Gangohi, Qasim Nanotwi, Ya’qub Nanotwi, Ashraf Ali Thanwi, Mahmood-ul-Hasan, Husain Ahmad Tandvee, etc. etc. It is written in his books “Shama’em Imdadiyya” and “Haft Masala” that:

QUOTE “Miladun Nabi (صلى الله عليه و آله وسلم) is celebrated by everyone, including the Arab scholars of Haramain Ash-Sharifain. This is sufficient proof for us to celebrate Miladun Nabi (صلى الله عليه و آله وسلم). Also, how could someone say that the remembrance and narration about Prophet Mohammad (صلى الله عليه و آله وسلم) is not appropriate? As far as I am concerned, I take part in Milaad functions; rather I consider it the source of Barakah and I also arrange Miladun Nabi (صلى الله عليه و آله وسلم) gatherings and functions every year and I feel a lot of satisfaction and happiness in doing so” UNQUOTE

(Imdadullah Muhajir Makki – Shama’em Imdadiyya – 87-88, and ‘Haft Masala’ – 9) Shahwaliullah

In further aHadith says: Abu Qatada al-Ansari narrates in Sahih Muslim, Kitab as-siyam, that the Prophet (peace be upon him) was asked about the fast of Monday, and he answered: “That is the day that I was born and that is the day I received prophethood .Dr Faiz Ahmad Chishti .

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق کچھ سوالوں کے مختصر جواب

میلاد کسے کہتے ہیں  اور عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

میلاد  ایک خوشی کا موقع ہے جو مسلمان اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کی یاد میں مناتے ہیں ،حالانکہ خصوصی طور پر یہ 12 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے جس میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں یہ ایک قدیم مسلم روایت ہے جو کہ شروع سے ہی جاری و ساری ہے شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ کسی بھی تاریخ کو منایا جاسکتا ہے لیکن چونکہ جمہور آئمہ حدیث اور سلف صالحین علیہم الرّحمہ کا اس پر اجماع رہا ہے کہ معتبر شہادت بہ ولادت ِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم 12 ربیع الاوّل ہی ہے (مدارج النبوت) اسی لیئے خصوصی طور پر سال میں ایک بار اور عمومی طور پر کسی بھی نیک کام کے شروعات میں برکت ڈالنےکے لیئے کیا جاسکتا ہے ۔ جیسے شادیوں کے موقع پر بجائے غیر شرعی کاموں کے میلا د کی محافل رکھنا بہتر ہے اور مستحب عمل ہے ۔ اسی طرح کوئی نیا کاروبار شروع کرتے وقت جیسے قرآن کریم کا ختم رکھا جاتا ہے ویسے ہی ذکرِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کی محافل بھی کی جاتی ہیں ۔

میلاد کی محافل میں آخر ہوتا کیا ہے ؟

اس میں تلاوت ِ قرآن ،نعت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کے ساتھ ساتھ علماء کی تقاریر بھی سیرت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم اور دیگر اہم اسلامی تعلیمات پر ہوتی ہیں جن سے ہر خاص و عام مستفید ہوتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر بھی ہوتا ہے حمد و ثناء اور اسکے پاک محبوب کی زندگی اور تعلیمات پر روشنی ڈالنے کے لیئے ۔ آخر میں صلاۃ وسلام کی محفل ہوتی ہے جس میں بھرپور طریقے سے مسلمان اپنے آقا پر درود و سلام کے نذرانے بھیجتے ہیں اللہ کی نعمت کو ہم مسلمانوں پر جاری کرنے پر اللہ کی نعمت کی خوشی آخر کس قانون کے تحت بدمذہبوں نے بدعت قرار دی ہے ؟ اولاََ تو یہ بدعت نہیں دوسرا یہ کہ ایک لمحے کو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ بدعت ہے تو پھر یہ بدعت ِ حسنہ کے زمرے میں آتی ہے اور ہزارہا بدعات ِ حسنہ و قبیحہ دونوں کے مرتکب خود میلاد کے منکر بھی ہوئے ہیں یہ صرف عامۃ الناس کو گمراہ کرنے اپنی مذہبی دکانداری چمکانے اور جہالت کے سبب اس کے منکر ہوتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ آخر عید کہاں سے آئی ؟

تفصیلی جواب ہم دے چکے ہیں مختصرا عرض پے کہ : یہ سوال بذات ِ خود ایک جہالت ہے اور عربی زبان سے مکمل طور پر لاعلمی اور یا پھر منافقت کی وجہ سے حق کو نہ ماننا ہوا ۔ کیونکہ (عید میلاد) کا مطلب قاموس اور لغات العرب میں (سالگرہ) کے معنوں میں آیا ہے ۔ یعنی مثال کے طور پر اگر عبدالرحمٰن کی سالگرہ کا دن ہے تو وہ عیدِ میلاد عبدالرحمٰن کہلائی گی عربی زبان میں اس میں یہ کوئی سوال نہیں بنتا کہ ایک عید ہے یا دو ہے یا تین ہیں اور عید فرحت یعنی خوشی کے دن کو کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے یوم ولادت سے بڑھ کر اور کون سا خوشی کا لمحہ یا دن ہے ۔ یاد رہے یہ عید شرعی نہیں عید فرحت ہے (یعنی خوشی کا دن) ۔

 کیا میلاد منانے کا حکم قرآن ِ مجید یا احادیث میں موجود ہے ؟

آیئے قرآنی آیات اور احادیث کا بغور مطالعہ کرتے ہیں جس سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا کہ عیدِ میلاد منانا نہ صرف قرآن کی نص سے ثابت ہے بلکہ اس کے حق میں سلف صالحین اور ائمہ محدیثین علیہم الرّحمہ کے اقوال کے علاوہ امت کا اجماع بھی رہا ہے اور آج تک اکثریت اسکو مناتی ہے ۔ لہٰذا اسکا انکار کرنا اسلام کا انکار کرنا ہے اور یہ صریحاََ گناہ عظیم ہے جو انسان کو ایمان سے خارج کردیتا ہے ۔

قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے : ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں (ف۱۲) دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیریوں سے (ف۱۳) اجالے میں لا، اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا (ف۱٤) بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبرے والے شکر گزار کرو۔
آخر یہ (اللہ کے دن) ہیں کونسے؟ امام بیہقی رحیمہم اللہ اپنی مشہور تصنیف شعب الایمان میں رقم طراز ہیں کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے دن اُس کے انعامات اور نشانیاں ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی زیر تحت آیت 14:5
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: (ترجمہ معارف القرآن) :  یہ (رسول کے ذریعہ سے گمراہی سے نکل کرہدایت کی طرف آنا ) خدا کا فضل ہے وہ فضل جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
ترجمہ (کنز الایمان) ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا [٨] ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں تفاسیر القرآن الحکیم میں آیا ہے کہ : قاموس (یعنی لغات) میں (اللہ کے دن) سے مراد نعمت ِ خداوندی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابی بن کعب، مجاہد اور قتادہ (رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین) کا بھی اپنی اپنی تفاسیر میں یہی معنیٰ مندرج ہے۔مقتل کے مطابق (اللہ کے دنوں) سے مراد ہر وہ اہم واقعہ ہے جو اللہ کی طرف سے ظاہر ہوا۔کچھ مفسرین کرام کا فرمانا ہے کہ (ایام اللہ) سے مراد اس طرح کے دن ہیں جن میں اللہ نےا پنی نعمت (یعنی انعامات اور فضل) اپنے عبد یعنی بندوں پر بھیجے ہوں جیسے مثال کے طور پر وہ دن جب بنی اسرائیل پر (من و سلوٰی) کی نعمت نازل ہوئی، یا وہ دن جب دریائے نیل دو حصوں میں منقسم ہوا (یعنی جب موسیٰ علیہ الصلوٰہ والسلام) بنی اسرائیل کو فرعون سے بچا کر اللہ کے حکم سے چل پڑے)۔ جیسا کہ (خازن ، تفسیر مدارک اور مفرداتِ غیب) میں منقول ہے۔ ان تمام دنوں میں افضل ترین نعمت جو اللہ کی طرف سے انسانوں کو عنایت ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری (یعنی میلاد) کا دن ، آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا معراج  شریف اور دیگر اسی قرآنی آیت کی نص سے ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے اور دن جیسے کہ 10 ویں محرم کا روزہ ، واقعہ ہائلہ وغیرہ سب انہیں (ایام اللہ) میں شامل ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (واللہ ذو فضل العظیم) کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ : اسکے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر اسلام اور نبوت کی جو نعمت عطا فرمائی ہے۔ اور یہ معنی بھی بیان فرمائے ہیں کہ مسلمانوں پر اسلام کی نعمت،اور یہ بھی فرمایا کہ (یعنی یہ نعمت یہ بھی ہے) کہ آپ علیہ السلام کو نازل فرمایااور (انکے ) ذریعے قرآن مجید عطا فرمایا ۔ (تنویر المقباس من تفسیر ابن العباس)

قرآن کریم کی قدیم ترین تفاسیر اور سلف صالحین کے اقوال تو آپ پڑھ ہی لیں گے اس آرٹیکل میں ساتھ ساتھ یہ کہ اس کے ہی آخر میں تجزیہ بھی دیا جائے گا جس سے اپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ دیوبندی وہابی منکرین کس طرح اپنی مرضی کی قرآنی تشریحات کرتے ہیں اور غلط معنی اخذ کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال تفسیر ِ مدنی کبیر ہے۔جو کہ وہابی دارالسلام اشاعتی ادارہ چھاپتا ہےاور اسی طرح کے دیگر سلفی دیوبندی مکتبہ یہی نسخہ چھاپتے اور تقسیم کرتے ہیں ۔ پھر فیصلہ آپ کے ایمان پر چھوڑتے ہیں کہ آیا آپ کو پرانی تفاسیر قرآن اور سلف صالحین کی مستند تفاسیر اور تراجم منظور ہین یا یہ جدید دھرم کے خودساختہ ۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ دیوبندی وہابی نہ صرف اسلام سے خارج ہیں بلکہ پرلے درجے کے منافق بھی ہیں ۔

اب اس غلط ترجمے اور معنی (جو کہ اس اوپر دیئے گئے سکین ) میں آپ نے پڑھا ہے ۔ اس کا رد ہم نہ صرف سنی تراجم بلکہ خود انکے ہی دیوبندی اور وہابی پرانے تراجم سے نیچے دے رہے ہیں ملاحظہ کیجیئے کہ یہ نیچے دیئے گئے تراجم انکے (مخالفین) کے دھرم کا پول کھولنے کے لیئے کافی ہیں۔ انصاف کا تقاضہ بڑھنے والے پر۔ ہمارا کام صرف محنت سے آپ تک یہ ساری معلومات پہنچانا ہے ۔

ترجمہ: ہم اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں ۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی 8 کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر ۔ ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں 9 ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو ۔ 10
اور بھیجا تھا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دیکر کہ نکال اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے کی طرف اور یاد دلا ان کو دن اللہ کے ، البتہ اس میں نشانیاں ہیں اس کو جو صبر کرنے والا ہے شکر گزار ۔ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو (کفر کی) تاریکیوں سے (ایمان کی) روشنی کی طرف لاؤ اور ان کو الله تعالیٰ کے معاملات (نعمت اور نقمت کے) یاد دلاؤ بلاشبہ ان معاملات میں عبرتیں ہیں ہر صابر شاکر کے لیے ۔ (تراجم محمود الحسن ، معارف القرآن و تھانوی)
تفسير تفسير الجلالين/ المحلي و السيوطي (ت المحلي 864 هـ)۔ {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِئَايَٰتِنَا } التسع وقلنا له { أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ } بني إسرائيل { مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ } الكفر { إِلَى ٱلنُّورِ } الإِيمان { وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ ٱللَّهِ } بنعمه { إِنَّ فِى ذَلِكَ } التذكير { لأَٰتٍ لّكُلِّ صَبَّارٍ } على الطاعة { شَكُورٍ } للنعم.
یہ تفسیرات کھلا ثبوت ہیں کہ مخالفین کی مخالفت محظ لاعلمی ، بے دینی، اور منافقت پر مبی ہے جس کا صحیح اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم کو مسلمانوں کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ بھائی اپنے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلیٰ وآلہ و صحبہ وسلم  سے محبت کرو، انکی دنیا میں تشریف آوری پر قرآنی حکم کے مطابق شکر ادا کرو اس نعمت ِ عظیمہ کا ۔ (طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ اور میلاد

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ اور میلاد

صحابہ کرام کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے۔اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا۔

بحوالہ : دلائل النبوہ جلد 5، صفحہ 47، 48

آپ غور نہیں فرماتے کیا کہ یہاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ حکم ہوا۔۔۔ اور دعا فرمائی کہ منہ کو ہر آفت سے بچائے۔ اور اللہ عزوجل نے دعا قبول فرما کر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر ذکرِ خیر جاری فرمایا میلاد یعنی پیدائش/ولادت کے بیان کو جاری فرما دیا۔ تو مقصد بیان کرنے والے کون ہیں؟ صحابی ہوئے یا تابعی؟ اور جیسے میں نے گزشتہ پوسٹ میں عرض کی تھی کہ ہمارے میلاد منانے میں وہی طریقہ رائج ہے بس فرق آپ نہیں دیکھ پا رہے کیوں کہ اس دور میں صحابہ کرام ہر وقت ہے جھرمٹ کی طرح جمع رہا کرتے جیسے ہم آج صرف ۱۲ ربیع الاول اور جمعہ و نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں اور ہر وقت درود و سلام و تعریف کیا کرتے تھے۔ ولادت کے دن پر صحابہ کرام نے سوموار شریف کا روزہ رکھ کر اضافی عمل پیش کیا وگرنہ روزانہ کی طرح حمد و ثناء، تعریف، درود و سلام ۱۲ ربیع الاول کو بھی جاری رہا کرتی۔

اب مندرجہ ذیل ایک سو سولہ (116)اَئمہ و شیوخ کی ایک سو پچیس(125)سے زائد تالیفات و شروحات کا ذکر ہے جن سے تمہاری جھوٹی اور عقل کی مکاری ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان 116 کتابوں میں صحاستہ کا بھی ذکر ہے۔

یہ کتب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد ناموں اور واقعاتِ ولادت کے قصص پر مشتمل ہیں۔

جب کہ اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے واقعات اور جشنِ میلاد کی کیفیت کی حامل تالیفات و مولود ناموں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے،
اور
ایسی کتب اُردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندی، فارسی، انگریزی الغرض دنیا کی ہر اُس زبان میں پائی جاتی ہیں جو مومنین بولتے ہیں۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھی جانے والی گراں قدر تصانیف

قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک اَئمہ و محدّثین اور علماء و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم ہیں۔

اکثر اَئمہ و محدّثین اور اَکابر علماء نے اَحادیث، سیرت و فضائل اور تاریخ کی کتب میں میلاد شریف کے موضوع پر باقاعدہ اَبواب باندھے ہیں۔ مثلاً اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ قائم کیا ہے۔

ابن اِسحاق (85۔ 151ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن ہشام (م 213ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں،

ابو نعیم (336۔ 430ھ) نے دلائل النبوۃ میں،

بیہقی (384۔ 458ھ) نے دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ میں،

ابو سعد خرکوشی نیشاپوری (م 406ھ) نے کتاب شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں،

ابن اثیر (555۔ 630ھ) نے الکامل فی التاریخ میں،

طبری (224۔ 310ھ) نے تاریخ الامم والملوک میں،

ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے البدایۃ والنھایۃ میں،

ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں،

الغرض تمام اَجل اَئمہ و علماء نے اپنی اپنی کتب میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
نیز

اِمام محمد بن یوسف صالحی شامی (م 942ھ) نے ’’سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھا اور جواز میں علمی دلائل کے اَنبار لگا دیئے ہیں۔

اِمام ابو عبد اﷲ بن الحاج مالکی (م 737ھ) نے ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔

اِمام زرقانی (1055۔ 1122ء) نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ میں،

شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے ’’ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ایّام السَّنَۃ‘‘ میں
اور
اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) نے ’’حجۃ اﷲ العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اور ’’جواھر البحار فی فضائل النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں میلاد شریف کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

ذیل میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر لکھی جانے والی چند معروف کتب درج کی جارہی ہیں :

1۔ ابو العباس احمد اقلیشی (م 550ھ)

ابو العباس احمد بن معد بن عیسی اقلیشی اندلسی (م 550ھ) نے الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے دس فصول قائم کی ہیں۔

باشا بغدادي، ايضاح المکنون : 451

2۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 597ھ)

عبدالرحمان بن علی بن محمود بن علی بن عبد اللہ بن حمادی قرشی حنبلی جن کا لقب جمال الدین ہے۔ 510ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے اور 597 ہجری میں اسی شہر میں انتقال فرمایا۔ ابتدائی علوم پر صغر سنی میں ہی دسترس حاصل کر کے وعظ و تبلیغ میں لگ گئے۔ پھر حدیث میں مہارت اور پختگی حاصل کی تو حافظ اور محدّث کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ نے 159 سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں سے اکثر حدیث، تاریخ اور مواعظ پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو مستقل کتب لکھیں :

1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس

3۔ اِبن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ)

ابو خطاب عمر بن حسن بن علی بن محمد بن دحیہ کلبی اندلس میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حصولِ علم کے لیے شام، عراق، خراسان وغیرہ کے سفر کیے اور مصر میں قیام فرما رہے۔ آپ مشہور محدّث، معتمد مؤرّخ اور مایہ ناز ادیب تھے۔ بہت سی کتب لکھیں اور شاندار علمی ورثہ چھوڑا۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر آپ کی تصنیف ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ بھی ہے۔

4۔ حافظ شمس الدین جزری (م 660ھ)

ابو الخیر شمس الدین محمد بن عبد اللہ جزری شافعی (م 1262ء) اپنے وقت کے امام القراء اور محدّث تھے۔ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کی ایک کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ ہے۔

5۔ شیخ ابو بکر جزائری (م 707ھ)

شیخ ابو بکر محمد بن عبد اﷲ بن محمد بن محمد بن احمد عطار جزائری نے ’’المورد العذب المعین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

6۔ اِمام کمال الدین الادفوی (85۔ 6۔ 748ھ)

اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر اَدفوی نے اپنے ملک مراکش میں جشنِ میلاد کی تقریبات کے حوالے سے بہت سی تفصیلات اپنی کتاب ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں جمع کی ہیں۔

7۔ سعید الدین الکازرونی (م 758ھ)

محمد بن مسعود بن محمد سعید الدین الکازرونی نے ’’مناسک الحجز المنتقی من سیر مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

8۔ ابو سعید خلیل بن کیکلدی (694۔ 761ھ)

ابو سعید خلیل بن کیکلدی بن عبد اﷲ لاعلائی دمشقی شافعی نے الدرۃ السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

9۔ امام عماد الدین بن کثیر (701۔ 774ھ)

میلاد نگاروں میں صاحبِ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘۔ اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر۔ کا نام بھی شامل ہے۔ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورضاعہ‘‘ کے نام سے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔

10۔ سلیمان برسوی حنفی

سلیمان بن عوض باشا بن محمود برسوی حنفی 780ھ کے قریب فوت ہوئے۔ آپ سلطان بایزید عثمانی کے دور میں بہت بڑے امام تھے۔ اُنہوں نے ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

11۔ اِمام عبد الرحیم برعی (م 803ھ)

اِمام عبد الرحیم بن اَحمد برعی یمانی (م 1400ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر رسالہ تالیف کیا ہے جو کہ ’’مولد البرعي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

12۔ حافظ زین الدین عراقی (725۔ 808ھ)

حافظ ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن حسین بن عبد الرحمٰن مصری عراقی یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار، محافظ اسلام، مرجع خلائق اور دانش وَر محقق تھے۔ انہوں نے حدیث، اسناد اور ضبط روایات میں کمال رسوخ حاصل کیا۔ علم حدیث سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والا ہر شخص ان کے علم و فضل سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس جلیل القدر امام نے جشنِ میلاد کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا جس کا نام ’’المورد الھنی فی المولد السنی‘‘ رکھا۔

13۔ سلیمان برسونی

حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں لکھا ہے کہ سلیمان برسونی 808ھ کے بعد فوت ہوئے۔ اُنہوں نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا جو کہ روم کی مجالسِ میلاد میں پڑھا جاتا ہے۔

14۔ اِمام محمد بن یعقوب فیروزآبادی (729۔ 817ھ)

اِمام ابو طاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم فیروزآبادی ایک بہت بڑے اِمام ہو گزرے ہیں۔ آپ نے بے شمار کتب لکھیں، جن میں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس، الصلات والبشر فی الصلاۃ علیٰ خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لغت کی معروف کتاب القاموس المحیط شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر النفحۃ العنبریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

15۔ امام شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ)

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والے جلیل القدر آئمہ میں سے ایک حافظ شمس الدین محمد بن ابی بکر بن عبد اللہ قیسی شافعی المعروف حافظ ابن ناصر الدین دمشقی ہیں۔ آپ اعلیٰ پائے کے مؤرّخ تھے۔ لاتعداد کتب ان کی نوک قلم سے نکلیں، بے شمار حواشی تحریر کیے اور مختلف علوم و فنون میں طبع آزمائی کی۔ آپ دمشق کے الشرفیہ دار الحدیث کے شیخ الحدیث بنے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کئی کتب تحریر کیں۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں ان کی درج ذیل تین کتب کا تذکرہ کیا ہے جو صرف اِسی موضوع پر ہیں :

1. جامع الآثار في مولد النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم (تين جلدوں پر مشتمل ہے)

2. اللفظ الرائق في مولد خير الخلائق صلي الله عليه وآله وسلم
3. مورد الصادي في مولد الهادي صلي الله عليه وآله وسلم

16۔ شیخ عفیف الدین التبریزی (م 855ھ)

شیخ عفیف الدین محمد بن سید محمد بن عبد اﷲ حسینی تبریزی شافعی نے مدینہ منورہ میں 855ھ میں وفات پائی۔ آپ نے اِمام نووی (631۔ 677ھ) کی الاربعین اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) کی الشمائل المحمدیۃ کا حاشیہ لکھا۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

17۔ شیخ محمد بن فخر الدین (م 867ھ)

شیخ شمس الدین ابو القاسم محمد بن فخر الدین عثمان لؤلؤی دمشقی حنبلی ’’اللؤلؤ ابن الفخر‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ اُنہوں نے میلاد شریف کے موضوع پر الدر المنظم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔ بعد ازاں اُنہوں نے اللفظ الجمیل بمولد النبی الجلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے اس کی تلخیص کی۔

18۔ سید اصیل الدین ہروی (م 883ھ)

سید اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ہروی نے درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

19۔ اِمام عبد اللہ حسینی شیرازی (م 884ھ)

اِمام اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن حسینی شیرازی نے میلاد کے موضوع پر ایک کتاب بہ عنوان ’’درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔ اِس کا ذکر حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون (1 : 745)‘‘ میں کیا ہے۔

20۔ شیخ علاء الدین المرداوی (م 885ھ)

ابو الحسن علاء الدین علی بن سلیمان بن احمد بن محمد مرداوی دمشق میں حنبلی فقہ کے بہت بڑے شیخ ہو گزرے ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر المنھل العذب القریر فی مولد الھادی البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب تالیف کی۔

21۔ برہان الدین ابو الصفاء (م 887ھ)

برہان الدین ابو الصفاء ابن ابی الوفاء نے فتح اﷲ حسبی وکفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

22۔ شیخ عمر بن عبد الرحمان باعلوی (م 889ھ)

شیخ عمر بن عبد الرحمان بن محمد بن علی بن محمد بن احمد باعلوی حضرمی نے ’’کتاب مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

23۔ امام شمس الدین السخاوی (831۔ 902ھ)

امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان بن محمد قاہری سخاوی کا شمار اکابر اَئمہ میں ہوتا ہے۔ ایک عالم نے کہا کہ ’’حافظ ذہبی کے بعد ان جیسے ماہر علوم و فنونِ حدیث شخص کا وجود نہیں ملتا اور انہی پر فنِ حدیث ختم ہو گیا۔‘‘ امام شوکانی کا کہنا ہے کہ اگر حافظ سخاوی کی ’’الضوء اللامع‘‘ کے علاوہ کوئی اور تصنیف نہ بھی ہوتی تو یہی ایک کتاب ان کی امامت پر بڑی دلیل تھی۔

آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب ’’الفخر العلوی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کی، اور اس کا ذکراپنی کتاب ’’الضوء اللامع (8 : 18)‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ آپ نے الضوء اللامع میں اُن اَئمہ کرام کی فہرست بھی دی ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بارے میں کتب و رسائل تالیف کیے ہیں۔

حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، 2 : 1910

24۔ اِمام نور الدین سمہودی (844۔ 911ھ)

میلاد کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک اور کتاب ’’المورد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔ اِس کے مصنف اِمام نور الدین ابو الحسن علی بن عبد اﷲ بن احمد حسینی شافعی سمہودی ہیں جنہیں تاریخِ مدینہ کے لکھنے والوں میں مستند درجہ حاصل ہے۔

25۔ امام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ)

امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی کا علمی مقام آفتاب کی طرح ہر خاص و عام پر واضح ہے۔ آپ کے تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد سات سو (700) کے قریب پہنچتی ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز میں ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ کے نام سے رسالہ لکھاجو پوری دنیا میں مقبول ہوا۔ یہ رسالہ آپ کی تصنیف ’’الحاوی للفتاوي‘‘ میں بھی شامل ہے۔

26۔ عائشہ بنت یوسف باعونیہ (م 922ھ)

عائشہ بنت یوسف باعونیہ دمشقیہ شافعیہ مشہور عالمہ و صوفیہ اور کثیر التصانیف محققہ تھیں۔ اُنہوں نے منظوم ’’مولود النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کیا۔

27۔ ابو بکر بن محمد حلبی (م 930ھ)

ابو بکر بن محمد بن ابی بکر حبیشی حلبی نے الکواکب الدریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب رقم کی۔

28۔ ملا عرب الواعظ (م 938ھ)

ملا عرب الواعظ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی۔

29۔ ابن دیبع الشیبانی (866۔ 944ھ)

حافظ وجیہ الدین عبد الرحمٰن بن علی بن محمد شیبانی شافعی، ابن دیبع کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ نے ایک سو (100) سے زیادہ مرتبہ بخاری شریف کا درس دیا اور ایک مرتبہ چھ روز میں بخاری شریف کو ختم کیا۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی کتاب لکھی ہے۔

30۔ شیخ عبد الکریم الادرنتوی (م 965ھ)

شیخ عبد الکریم ادرنتوی خلوتی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا تھا۔

31۔ اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ)

امام الحرمین، ابو العباس احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی شافعی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ،‘‘ ’’الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان،‘‘ ’’الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع والزندقۃ‘‘ اور ’’الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ جیسی مشہورِ زمانہ کتب آپ کے علمی شاہکار ہیں۔ آپ علومِ حدیث میں شیخ الاسلام زکریا مصری کے شاگردِ خاص تھے۔ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی آپ کے دادا استاد تھے۔ علامہ ملا علی قاری اور بر صغیر پاک و ہند کے مایہ ناز فرزند علاؤ الدین علی متقی ہندی (صاحبِ کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال) آپ ہی کی مسند اِرشاد و تدریس کے فیض یافتہ تھے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں:

1. تحرير الکلام في القيام عند ذکر مولد سيد الأنام صلي الله عليه وآله وسلم
2. تحفة الأخيار في مولد المختار صلي الله عليه وآله وسلم
3. اتمام النعمة علي العالم بمولد سيد ولد آدم صلي الله عليه وآله وسلم
4. مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم

علاوہ ازیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ‘‘ میں بھی اس موضوع کا تفصیلی تذکرہ کیاہے۔

32۔ اِمام خطیب شربینی (م 977ھ)

اِمام شمس الدین محمد بن احمد خطیب شربینی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس (50) صفحات کا محظوطہ تحریر کیا ہے۔

33۔ ابو الثناء احمد الحنفی (م 1006ء)

ابو الثناء احمد بن محمد بن عارف زیلی رومی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی۔

34۔ ملا علی القاری (م 1014ھ)

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والوں میں حافظِ حدیث، مجتہد الزمان امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمد ہروی بھی ہیں۔ امام شوکانی نے ’’البدر الطالع‘‘ میں ان کے حالات نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ علوم نقلیہ کے جامع، سنت نبوی میں دسترس رکھنے والے، عالم اسلام کے بطلِ جلیل اور قوتِ حفط و فہم میں نام وَر تھے۔ اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’المورد الروی فی مولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ونسبہ الطاھر‘‘ ہے۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے میلاد شریف کے بارے میں مختلف علماء کے اَقوال اور مختلف اِسلامی ممالک میں جشنِ میلاد کی تقریبات کا حال بیان کیا ہے۔

35۔ اِمام عبد الرؤف المناوی (952۔ 1031ھ)

’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘اور ’’شرح الشمائل علی جمع الوسائل‘‘ کے مصنف و نام وَر اِمام عبد الرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین مناوی (1545۔ 1621ء) نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رِسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’مولد المناوي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

36۔ محی الدین عبد القادر عیدروسی (987۔ 1038ھ)

محی الدین عبد القادر بن شیخ بن عبد اﷲ عیدروسی نے المنتخب المصفی فی اخبار مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

37۔ اِمام علی بن اِبراہیم الحلبی (975۔ 1044ھ)

سیرتِ طیبہ کی مشہور کتاب۔ ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ جو کہ ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ کے مصنف اِمام نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد بن علی حلبی قاہری شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب ’’الکواکب المنیر فی مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی ہے۔ اُنہوں نے ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف منانے پر دلائل دیتے ہوئے اِس کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کیا ہے۔

38۔ اِمام محمد بن علان صدیقی (996۔ 1057ھ)

اِمام محمد علی بن محمد بن علان بکری صدیقی علوی (1588۔ 1647ء) نام وَر مفسر و محدّث تھے۔ اُنہوں نے ’’مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ نامی مولود نامہ تالیف کیا۔

39۔ شیخ زین العابدین خلیفتی (م 1130ھ)

شیخ زین العابدین محمد بن عبد اﷲ عباسی مدینہ منورہ کے نام وَر خطیب تھے۔ آپ خلیفتی کے لقب سے معروف تھے۔ آپ نے میلاد شریف پر الجمع الزاھر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب لکھی۔

40۔ اِمام عبد الغنی نابلسی (م 1143ھ)

شیخ عبد الغنی نابلسی بڑے جلیل القدر اِمام تھے۔ آپ نے ’’المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مختصر اور جامع مولود نامہ لکھا ہے۔

41۔ شیخ جمال الدین بن عقیلہ المکی الظاہر (م 1130ھ)

شیخ جمال الدین ابو عبد اﷲ محمد بن احمد بن سعید بن مسعود المکی الظاہر نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

42۔ سلیمان نحیفی رومی (م 1151ھ)

سلیمان بن عبد الرحمان بن صالح نحیفی رومی۔ جنہوں نے مولانا روم (604۔ 672ھ) کی ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ کا ترکی زبان میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ بھی لکھا۔

43۔ یوسف زادہ رومی (1085۔ 1167ھ)

عبد اﷲ حلمی بن محمد بن یوسف بن عبد المنان رو می حنفی مقری ایک نام وَر محدث تھے۔ آپ ’’یوسف زادہ شیخ القرائ‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔ اُنہوں نے اِختلافِ قرات پر الائتلاف فی وجود الاختلاف فی القراء ۃ کے نام سے کتاب لکھی۔ میلاد شریف کے موضوع پر ان کی کتاب کا نام الکلام السنی المصفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

44۔ حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ)

علامہ حسن بن علی بن احمد بن عبد اللہ منطاوی جوکہ مدابغی کے نام سے معروف تھے، اُنہوں نے 1170 ہجری میں مصر میں وفات پائی۔ اُنہوں نے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ایک رِسالہ تالیف کیا۔

45۔ عبد اﷲ کاشغری (م 1174ھ)

عبد اﷲ بن محمد کاشغری بندائی نقشبندی زاہدی قسطنطنیہ میں درس و تدریس کرتے تھے۔ آپ وہاں سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی ہے۔

46۔ احمد بن عثمان حنفی (1100۔ 1174ھ)

احمد بن عثمان دیاربکری آمدی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

47۔ عبد الکریم برزنجی (م 1177ھ)

سید جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی شافعی مدینہ منورہ کے مفتی اعظم اور مشہور محدث تھے۔ عربی لغت کی مشہور کتاب۔ تاج العروس من جواھر القاموس۔ کے مصنف سید مرتضیٰ زبیدی (1145۔ 1205ھ) نے آپ سے ملاقات کی اور مسجد نبوی میں ہونے والے آپ کے دروس میں حاضر ہوئے۔ آپ کی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشہور و معروف کتاب ’’عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ہے، جوکہ ’’مولود البرزنجی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اِس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ عرب و عجم میں اکثر لوگ اس رسالہ کو حفظ کرتے ہیں اور دینی اجتماعات کی مناسبت کے اعتبار سے اسے پڑھتے ہیں۔ یہ میلاد نامہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختصر سیرت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و ہجرت، اَخلاق و غزوات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک کے ذکر پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس میلاد نامہ کے ابتداء میں یہ تحریر کیا ہے :

أبتدئ الإملاء باسم الذات العلية، مستدرّا فيض البرکات علي ما أناله وأولاه.

’’میں (اﷲ تعالیٰ کی) بزرگ و برتر ذات کے نام سے لکھنا شروع کرتا ہوں، اُس سے برکتوں کے فیض کے نزول کا طلب گار ہوں ان نعمتوں پر جو اس نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔‘‘

اس کتاب کی شرح شیخ ابو عبد اللہ محمد بن احمد علیش (م 1299ھ) نے کی ہے اور یہ شرح بہت ہی جامع اور مفید ہے اس کا نام ’’القول المنجی علی مولد البرزنجی‘‘ ہے۔ یہ مصر سے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ اس شرح کو ان کے پوتے علامہ فقیہ و مورخ سید جعفر بن اسماعیل بن زین العابدین برزنجی (م 1317ھ)۔ جوکہ مدینہ منورہ میں مفتی تھے۔ نے منظوماً تحریر کر کے 198 ابیات میں بیان کیا ہے۔ اِس کے شروع میں وہ فرماتے ہیں :

بدأت باسم الذات عالية الشأن
بها مستدراً فيض جود وإحسان

اس منظوم میلاد نامہ کا نام ’’الکوکب الانوار علی عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔

48۔ سید محمد بن حسین حنفی جعفری (1149۔ 1186ھ)

سید محمد بن حسین مدنی علوی حنفی جعفری نے خلفاء راشدین اور اہلِ بیتِ اَطہار کے مناقب پر کافی کتب لکھیں، جن میں الفتح والبشری فی مناقب سیدۃ فاطمۃ الزھراء، قرۃ العین فی بعض مناقب سیدنا الحسین، مناقب الخلفاء الاربعۃ، المواھب العزار فی مناقب سیدنا علی الکرار شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف کے موضوع پر مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

49۔ شیخ محمد بن احمد عدوی (م 1201ھ)

شیخ احمد بن محمد بن احمد عدوی مالکی مصری ’’دردیر‘‘ کے لقب سے معروف ہیں۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مختصر رسالہ مصر سے شائع ہوا جو ’’مولد الدردیر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپ کے علمی مرتبہ کے پیش نظر جامعہ اَزہر کے علماء و مدرسین یہ مولود نامہ درساً پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ الجامعۃ الازہر ابراہیم بن محمد بن احمد بیجوری (م 1198۔ 1277ھ) نے اِس کے اوپر بہت مفید حاشیہ بھی لکھا ہے۔

50۔ اشرف زادہ برسوی (م 1202ھ)

عبد القادر نجیب الدین بن شیخ عز الدین احمد ’’اشرف زادہ برسوی حنفی‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کا ترکی زبان میں شعری دیوان ہے۔ ان کی تصوف پر لکھی گئی کتاب کا نام ’’سر الدوران فی التصوف‘‘ ہے۔ آپ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

51۔ محمد شاکر عقاد السالمی (م 1202ھ)

محمد شاکر بن علی بن حسن عقاد السالمی نے تذکرۃ اہل الخیر فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا۔

52۔ عبد الرحمان بن محمد مقری (م 1210ھ)

عبد الرحمان بن محمد نحراوی مصری مقری نے حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ) کے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرح لکھی، جس کا عنوان حاشیۃ علی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للمدابغی ہے۔

53۔ سلامی الازمیری (م 1228ھ)

مصطفیٰ بن اِسماعیل شرحی اَزمیری سلامی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

54۔ محمد بن علی شنوانی (م 1233ھ)

محمد بن علی مصری اَزہری شافعی شنوانی نے میلاد شریف کے موضوع پر الجواھر السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک رسالہ تالیف کیا۔

55۔ عبد اﷲ سویدان (م 1234ھ)

عبد اﷲ بن علی بن عبد الرحمان دملیجی ضریر مصری شاذلی جو کہ سویدان کے لقب سے معروف تھے، اُنہوں نے مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

56۔ ابن صلاح الامیر

سید علی بن ابراہیم بن محمد بن اسماعیل بن صلاح الامیر صنعانی 1171ھ میں پیدا ہوئے اور 1236ھ کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ اُنہوں نے تانیس ارباب الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے میلاد نامہ لکھا۔

57۔ اِمام محمد مغربی (م 1240ھ)

اِمام محمد مغربی نام وَر محقق و صوفی اور اکابر اَولیاء میں سے تھے۔ اُنہوں نے ’’المولد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مولود نامہ تصنیف کیا ہے جو محدثین کی روایات اور صوفیاء کے اَقوال سے مزین ہے۔

58۔ شیخ ابراہیم بن محمد باجوری (م 1276ھ)

شیخ ابراہیم بن محمد باجوری شافعی مصری نے تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر تالیف کیا۔

59۔ شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1277ھ)

ہندوستان کی معروف علمی و روحانی شخصیت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1860ء) نے جشنِ میلاد شریف کے جواز پر ’’اثبات المولد والقیام‘‘ نامی ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔

60۔ سید احمد مرزوقی

سید ابو الفوز احمد بن محمد بن رمضان مکی مالکی مرزوقی حرمِ مکہ کے مدرّس تھے۔ آپ نے 1281ھ میں ’’بلوغ المرام لبیان الفاظ مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی شرح مولد احمد البخاری‘‘ تالیف کیا۔ علاوہ ازیں ’’عقیدۃ العوام‘‘ کے نام سے ایک مولود نامہ بھی تحریر کیا، جس کی شرح بھی آپ نے خود ’’تحصیل نیل المرام‘‘ کے نام سے کی۔

61۔ شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1301ھ)

شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1884ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’الرسالۃ السعیدیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

62۔ عبد الہادی اَبیاری (م 1305ھ)

شیخ عبد الہادی اَبیاری مصری نے ’’مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ پر ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے۔

63۔ عبد الفتاح بن عبد القادر دمشقی (1250۔ 1305ھ)

عبد الفتاح بن عبد القادر بن صالح دمشقی شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر سرور الابرار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کیا۔

64۔ نواب صدیق حسن خان بھوپالی (م 1307ھ)

غیر مقلدین کے نام وَر عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے میلاد شریف کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔‘‘

65۔ ابراہیم طرابلسی حنفی (م 1308ھ)

ابراہیم بن سید علی طرابلسی حنفی منظوم میلاد نامہ لکھا جس کا عنوان ہے : منظومۃ فی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

66۔ ہبۃ اﷲ محمد بن عبد القادر دمشقی (م 1311ھ)

ہبۃ اﷲ ابو الفرح محمد بن عبد القادر بن محمد صالح دمشقی شافعی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے رسالہ تالیف کیا۔

67۔ ابو عبد المعطی محمد نویر جاوی (م 1315ھ)

ابو عبد المعطی محمد نویر بن عمر بن عربی بن علی نووی جاوی نے بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

68۔ مفتی اَدرنہ محمد فوزی رومی (م 1318ھ)

مفتی اَدرنہ محمد فوزی بن عبد اﷲ رومی نے اثبات المحسنات فی تلاوۃ مولد سید السادات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے میلاد نامہ لکھا۔

69۔ سید اَحمد بن عبد الغنی دمشقی (م 1320ھ)

سید اَحمد بن عبد الغنی بن عمر عابدین دمشقی فقہ حنفی کے نام وَر عالم و محقق اور ’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ کے مؤلّف اِمام محمد بن محمد امین بن عابدین شامی دمشقی (1198۔ 1252ھ) کے بھانجے تھے۔ اُنہوں نے اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ) کی میلاد شریف کے موضوع پر لکھی کتاب کی ضخیم شرح ’’نثر الدرر علی مولد ابن حجر‘‘ کے عنوان سے لکھی۔

70۔ اِمام احمد رضا خان (1272۔ 1340ھ)

اِمام احمد رضا بن نقی علی خاں قادری بریلوی (1886۔ 1921ء) میلاد شریف کے موضوع پر درج ذیل دو کتب تالیف کی ہیں :

1. نطق الهلال بارخ ولادة الحبيب والوصال
2. إقامة القيامة علي طاعن القيام لنبي تهامة صلي الله عليه وآله وسلم

71۔ محمدبن جعفر کتانی (م 1345ھ)

عارف باللہ سید شریف محمد بن جعفر کتانی بہت بڑے محدث اور معتمد تھے۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک رسالہ ’’الیمن والاسعاد بمولد خیر العباد‘‘ ہے۔ یہ ساٹھ (60) صفحات پر مشتمل اور جدید و تاریخی تحقیقات سے بھرپور رسالہ ہے۔

72۔ اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ)

عالم عرب کے معروف محدّث و سیرت نگار اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ’’جواہر النظم البدیع فی مولد الشفیع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے منظوم کتاب لکھی ہے۔

73۔ مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ)

مولانا اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر دیوبندی عالم تھے۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب۔ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ کے آغاز میں ہی تخلیقِ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور واقعاتِ ولادت بالتفصیل ذکر کیے گئے ہیں۔ آپ نے ’’طریقۂ مولود‘‘ بھی ترتیب دیا ہے۔

74۔ شیخ محمود عطار دمشقی (1284۔ 1362ھ)

شیخ محمود بن محمد رشید عطار حنفی دمشق کے نام وَر عالم و محدّث تھے۔ آپ نے اپنے وقت کے کبار اساتذہ وشیوخ سے علم حاصل کیا اور دمشق کے علماء کا شمار آپ کے شاگردوں یا آپ کے شاگردوں کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ ’’استحاب القیام عند ذکر ولادتہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ تالیف کیا ہے۔

75۔ اِمام محمد زاہد کوثری (1296۔ 1371ھ)

عالم عرب کی معروف علمی شخصیت علامہ مجدد اِمام محمد زاہد کوثری نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف مقالہ جات لکھے ہیں۔

76۔ عبد اﷲ بن محمد ہرری (م 1389ھ)

عبد اﷲ بن محمد شیبی عبدری ہرری حبشی (م 1969ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت دو رسائل تالیف کیے ہیں:

1. کتاب المولد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. الروائح الزکية في مولد خير البرية صلي الله عليه وآله وسلم

77۔ شیخ محمد رشید رضا مصری

مصر کے معروف مؤرّخ، مشہور محقق، محدث، مفسر اور تاریخ دان شیخ محمد رشید رضا نے میلاد پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے : ’’ذکر المولد وخلاصۃ السیرۃ النبویۃ وحقیقۃ الدعوۃ الاسلامیۃ۔‘‘

78۔ شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 1425ھ)

مکہ مکرمہ کے نام وَر محدث اور عالم شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 2004ء) نے میلاد شریف کی بابت اجل اَئمہ کرام کے درج ذیل تین رسائل کامجموعہ تالیف کرکے طبع کرایا ہے :

1۔ ابن کثیر، ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و رضاعہ
2۔ ملا علی قاری، المورد الروی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اِس رسالہ پر اِمام علوی مالکی کی تعلیقات و تحقیق بھی شامل ہے۔)
3۔ ابن حجر ہیتمی مکی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ایک رسالہ بہ عنوان ’’حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ بھی تالیف کیا ہے۔ علاوہ ازیں جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف ائمہ و علماء کے فتاوی جات کا مجموعہ بھی ترتیب دیا ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الاعلام بفتاوی ائمۃ الاسلام حول مولدہ علیہ الصلاۃ والسلام۔‘‘

79۔ شیخ عبد العزیز بن محمد

شیخ عبد العزیز بن محمد ایک عظیم محقق اور وزارت ’’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے رئیس العام تھے۔ انہوں نے جشنِ میلاد پر ایک کتاب بہ عنوان’’بعثۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

80۔ سید ماضی ابو العزائم

آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ’’بشائر الاخیار فی مولد المختار‘‘ لکھی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے نورِ نبوت کی تخلیق اور ظہور کا ذکر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت، نبوت اور دیگر انبیائے کرام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کے بیان کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد شریف منانے پر بھی دلائل دیے ہیں۔

81۔ سید محمد عثمان میرغنی

آپ نے میلاد کے موضوع پر ایک رسالہ بہ عنوان ’’الاسرار الربانیۃ المعروف ب : مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بیان پر مشتمل اِس رسالہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب و ولادت اور حیاتِ طیبہ کے دیگر پہلؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

محمد بن محمد منصوری شافعی خیاط نے ابن حجر ہیتمی کی میلاد شریف کے موضوع پر تالیف کردہ کتاب کی شرح اقتناص الشوارد من موارد الموارد کے نام سے لکھی۔
احمد بن قاسم مالکی بخاری حریری، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو حسن بکری، الانوار فی مولد النبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابراہیم اَبیاری، مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
صلاح الدین ہواری، المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو محمد ویلتوری، ابتغاء الوصول لحب اﷲ بمدح الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین الدین مخدوم فنانی، البنیان المرصوص فی شرح المولد المنقوص
عبد اﷲ عفیفی، المولد النبوی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عبد اﷲ حمصی شاذلی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ خالد بن والدی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد وفا صیادی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمود محفوظ دمشقی شافعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ عبد اﷲ بن محمد مناوی شاذلی، مولد الجلیل حسن الشکل الجمیل
حافظ عبد الرحمٰن بن علی شیبانی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید عبد القادر اسکندرانی، الحقائق فی قراء ۃ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد بن محمد دمیاطی، مولد العزب
شیخ محمد ہاشم رفاعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد ہشام قبانی، المولد فی الاسلام بین البدعۃ والایمان
سعید بن مسعود بن محمد کازرونی، تعریب المتقی فی سیر مولد النبی المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، الابریز الدانی فی مولد سیدنا محمد العدنانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین العابدین محمد عباسی، الجمع الزاہر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو شاکر عبد اﷲ شلبی، الدر المنظم شرح الکنز المطلسم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیف الدین ابو جعفر عمر بن ایوب بن عمر حمیری ترکمانی دمشقی حنفی، الدر النظیم فی مولد النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو ہاشم محمد شریف النوری، احراز المزیۃ فی مولد النبی خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بدر الدین یوسف المغربی، فتح القدیر فی شرح مولد الدردیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الفتوح الحلبی، الفوائد البہیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سویدان عبد اللہ بن علی الدملیجی المصری، مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن علان محمد علی الصدیقی المکی، مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید محمد بن خلیل الطرابلسی المعروف بالقاوقجی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن محمد العطار الجزائری، الورد العذب المبین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الحسن احمد بن عبد اﷲ البکری، کتاب الانوار ومفتاح السرور والافکار فی مولد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
احمد بن علی بن سعید، طل الغمامۃ فی مولد سید تہامۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن الشیخ آق شمس دین حمد اللہ، المولد الجسمانی والمورد الروحانی
محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن جمال الدین خلوتی سمنودی، الدر الثمین فی مولد سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...