برساتی مینڈکوں کو ہوا زکام
استمال سے پہلے اچھی طرح ہلا لیں : یہ ہدایت پڑھتے ہی وہابی نے اپنے باپ کو ایسے زور کا جھٹکا دیا کہ پپو کا باپ اس کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا ۔ یہ ہدایت دراصل اس "سیرپ" کے "لیبل" پر تحریر تھی جو وہابی نے ڈاکٹر کے کہنے پر اپنے باپ کے لئے خریدا تھا، بجائے اس کے کہ وہابی دوا کو تسلی سے ہلاتا، اس نے باپ کو ہلا ڈالا۔ باپ کی آخری ہچکی نکلتے ہی وہابی نے ڈاکٹر پر چڑھائی کر دی، اور دعویٰ دائر کیا کہ ڈاکٹر ہی اس کے باپ کی موت کا ذمہ دار ہے ۔ یہی حال آج کل کے نام نہاد "سوشل میڈیا کے دیابنی اور وہابی مفتیوں" کا ہے۔
یہ کہانی فرضی ہے : اور مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف سمجھانا تھا، جس طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی کوئی مثل نہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے کلام کی بھی کوئی مثال نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم امام الانبیاء ہیں تو آپ کا کلام امام الکلام ہے، جامع ہے، جمیل ہے، کافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ارشاد گرامی پیش کیا جاتا ہے : "کل بدعة ضلالة و کل ضلالة فی النار"(مشکوٰۃ المصابیح ، مسلم ، بخاری) ۔ ترجمہ : ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
ضلالت کا مصداق کون : آپ قرآن و احادیث کا مطالعہ کیجیئے تو پتہ چلے گا کہ بڑی سے بڑی حکم عدولی پر بندہ گناہگار ہوتا ہے، گمراہ نہیں۔ گمراہ تب ہی ہوتا ہے کہ جب عقائد میں خرابی ہو یعنی کہ واجب کا انکار کرنے والا گمراہ اور فرض کا انکار کرنے والا کافر۔ دوبارہ پڑھ لیں، انکار کرنے والا کہا، عمل کرنے والا یا عمل نہ کرنے والا نہیں کہا ۔ ۔ ۔ سو حدیث شریف کا شرع کیا بنی کہ ہر وہ گروہ جو دین میں نئے عقائد کی راہ ڈالے وہ گمراہ ہوا اور اس کا ٹھکانہ جہنم اور اس مفہوم کی تصدیق پر دیگر کئی احادیث دال ہیں۔
بے شک حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے حق فرمایا، سچ فرمایا لیکن اس ارشادِ گرامی کو پیش کر کے کہا جاتا ہے چونکہ فلاں فلاں کام حضور علیہ السلام کے زمانۂ مقدسہ میں نہیں ہوئے اور اصحابِ رسول رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے ان کاموں کو سرانجام نہیں دیا سو یہ سب کام بدعت اور گمراہی ہیں۔
سب سے پہلے کچھ روشنی بدعت پر ڈالتے ہیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدعت کی عملی دو اقسام ہیں: بدعتِ حسنه اور بدعتِ سیئه مزید ان کی پانچ علامتیں ہیں: بدعتِ جائز، بدعتِ مستحبہ، بدعتِ واجبہ، بدعتِ مکروہہ اور بدعتِ حرام۔
بدعت اور اس کی اقسام
اللّه جل شانه کا ایک اسم صفاتی "البدیع" بھی ہے، جس کا مطلب ہے کہ از سرِ نو پیدا کرنے والا یا نئے سرے سے پیدا کرنے والا۔ لغت میں ہر نئے کام کو بدعت کہا جاتا ہے اور شرعی اصطلاح میں ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل دین میں نہ ہو اور قرآن و سنت سے متصادم ہو، بدعت کہلائے گا۔
بدعت کی بالعموم دو اقسام ہیں: بدعتِ حسنه اور بدعتِ سیئه۔ جو کام دین میں نیا ہوگا لیکن اس کی اصل دین میں موجود ہوگی وہ بدعتِ حسنه اور جو کام نیا بھی ہوگا اور دین سے متصادم بھی اسے بدعت سیئه کہا جائے اور اسی پر حدیث شریف میں وعید وارد ہے۔
بدعت حسنه کی بہت سے مثالیں تو خلفائے راشدین کے زمانے سے ملتی ہیں جیسے کہ قرآنِ حکیم کا ایک جگہ، ایک نسخہ میں جمع ہونا، تراویح کی جماعت قائم ہونا، قرآن مجید کو لغتِ قریش پر جمع کرنا اور اس پر اعراب لگانا وغیرہ لیکن بہت سے بدعاتِ حسنه دورِ صحابہ کے بعد سے رائج ہوئیں اور "صوادِ اعظم" میں ان کی جھلک اب بھی موجود ہے۔
بدعتِ سیئه کی مثالیں پیش کرنے کی شاید یہاں حاجت نہیں لیکن پھر بھی ساز کے ساتھ کلام پڑھنا، قوالی، ان میں سے ایک ہے۔
آج کل چونکہ ماہِ ربیع الاول اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے سو عیدِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر پر اعتراضات کی بارش ہو رہی، میں بھی اس مضمون میں اپنی تمام توجہ اسی پر مرکوز رکھوں گا اور کوشش ہوگی کہ عقلِ سلیم رکھنے والے صاحبان کو چند نکات پیش کروں۔ تو پہلے یہ دیکھیئے کہ عیدِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے کیا ۔
عید میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم
وہ محفل کہ جس میں حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اوصاف و کمالات بیان ہوں، حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فضائل و شمائل بیان کر کے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محبت و عقیدت مؤمنین کے دلوں میں اجاگر کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عالی نسب اور بلند پایہ گھرانے کا تذکرہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عظمت دلوں میں جاگزیں ہو، حضورصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا بچپن اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کے واقعات بیان کیئے جائیں اور انہیں حصول برکت کا ذریعہ سمجھا جائے، سرورِ لالہ رخاں صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے روشن و تابندہ معجزات کا ذکر کر کے تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے مر مٹنے کا جذبہ مزید عروج پائے اور امتی اپنی قسمت پر ناز کرے، ایسی ہر محفل، ایسی ہر مجلس میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے۔ اس کا حکم مستحب ہے یعنی کرنے والا ثواب کا مستحق اور نہ کرنے والا گناہگار نہیں ہے۔ اس مجلس میں کھانا کھلانا، جھنڈے لہرانا، چراغاں کرنا، جلوس یا ریلی نکالنا الغرض جائز طریقہ سے خوشی کا اظہار اسی ضمن میں شامل ہے۔ پھر چاہے وہ کسی بھی جمعہ کا خطبہ ہو، کوئی سیرت کانفرنس ہو یا کوئی ختمِ بخاری۔
ہر عمل کی انفرادی حیثیت
اگر عمل کی انفرادی حیثیت دیکھی جائے تو میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کہ جس پر تنقید کی گنجائش ہو، جب کھانا کھلانا، نعرہ لگانا، جھنڈا لہرانا، چراغاں کرنا (ہر عمل صحابہ کی سنت سے ثابت ہے) جدا جدا جائز ہے تو ان سب کا ایک دن، ایک جگہ اکھٹا کر لینا غلط کیسے ہوگیا؟ فقہہ کا ایک قاعدہ یاد رہے کہ جب ایک چیز کی مطلقاً اجازت ہو تو پھر اس میں کسی جز کے رد کے لئے بھی اتنی ہی قوی دلیل درکار ہوتی ہے۔ قرآن میں حکم ہے:
کلو مما رزقناکم حلالا طیبا
کھاؤ اس میں سے جو تمہیں دیا گیا ہے، پاک/حلال اور طیب
یعنی مطلقاً کھانے پینے کا حکم ہے لیکن ساتھ ہی حلال اور طیب کی شرط بھی ہے، اس کے ساتھ شراب کی ممانعت آگئی، سور کی ممانعت آگئی اور دیگر سو وہ حرام ہوگئے، اب مثال سمجھے تو مدعا سمجھو
فرمان ہوا:
قل بفضل للّه و برحمتهٖ فبذلك فلیفرحوا
اللّه کے فضل و رحمت پر خوب خوشیاں مناؤ
جب مطلقاً ارشاد ہوچکا تو اب جب تک صراحت کے ساتھ کوئی ممانعت نہیں ہوگی، اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
ضرورت کا اعتبار:
جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذاب سے سامنا ہوا تو عجب منظر تھا کہ سامنے بھی کلمہ گو تھے اور نعرہ "اللّه اکبر" تو مشاورت کے بعد صحابہ نے اپنا نعرہ رکھا، "یا محمدا، یا رسول اللّه" اس جنگ میں حق و باطل کی تفریق اسی نعرہ سے ہوئی اور صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے ہزاروں قربانیوں کے بعد اللّه کے فضل سے غلبہ حاصل کیا۔ اسی جنگ میں 1400 حفاظ صحابہ کرام شہید ہوئے تو جنابِ فاروق اعظم رضی اللّه عنہ نے صدیقِ اکبر رضی اللّه عنہ کو مشورہ دیا کہ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے اسے ایک جگہ جمع کر دیا جائے (چونکہ پہلے قرآن کریم ایک جگہ، جیسے اب ہے، نہیں تھا) تو صدیقِ اکبر رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب رسول اللّه صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّمنے ایسا نہیں کیا تو میں کیسے کر سکتا ہوں؟ پھر دیگر اصحاب سے مشورے کے بعد یہی فیصلہ ہوا کہ اس بات کی ضرورت ہے سو ایسا کرنا چاہیے۔
اسی اصول کو مد نظر رکھیں، آج سب سے زیادہ جس چیز کو خطرہ ہے وہ دولتِ ایمانی ہے جس کی بنیاد محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے۔ مغرب طرح طرح کے باطل ہتھکنڈوں سے ہمارے خلاف ہے اور ہماری آنے والی نسل کو گمراہ کر رہا ہے، ایسے میں عزتِ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عنوان سے محافل، سیرت رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عنوان سے کانفرنسز تو ہمارے معاشرے میں رائج ہونی چاہیں جبکہ یہاں الٹ تماشا کوئی شرک کے فتوے لگاتا ہے تو کوئی بدعت کے ۔ ۔ ۔
سوال ہے کہ جو شانیں خدا نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو عطا فرمائیں انہیں بیان کرنے کے لئے بھی کوئی موقع ہونا چاہیے ناں؟ (گو اھلِ حق کی محفل کا عنوان ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ذاتِ والا صٖفات ہی ہوتی ہے) تو ربیع الاول سے بہتر اور کونسا مہینہ ہو سکتا ہے؟
یہاں تو باقاعدہ سے فتوے آن لائن پوسٹ کیئے جاتے ہیں کہ شبِ معراج بدعت ہے، ضلالت ہے، گمراہی ہے (اللّه کا شکر ہے اب تک جہنمی ہونے کا فتویٰ نہیں آیا، حکمت ہے یا رعایت اللّه بہتر جانے)، شبِ نصف شعبان پر محفل بھی بدعت ہے اور عید میلاد پر بڑے بڑے بڑبڑا اور بِلبلا اٹھتے ہیں۔ علماء تو اس بندے کو جو جمعہ کی دوسری آذان کا جواب دیتا ہے، نہیں روکتے کہ اس گئے گزرے دور میں ذکرِ الہٰی تو کر رہا (گو چپ رہنے کا ہی حکم ہے) اور ایسے مبارک دنوں میں خدا کا اور خدا کے محبوب کا ذکر ہو اور فتوے مسلمان لگائیں اور بدعت کے لگائیں اور یقین تو اور پختہ ہوگا ناں کہ انگریز کا لگایا ہوا پودا آج انہیں سایا فراہم کر رہا ہے۔
بدعتی تو تم بھی ہو:
اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنه سے خالی نہیں، چند ایک مثالیں پیش کیئے دیتا ہوں:
مسلمانوں کے بچے بچے کو یاد، ایمانِ مفصل اور ایمانِ مجمل، چھ کلمے اور ان کی ترتیب، قرآن کے تیس پارے بنانا، ان کے رکوع قائم کرنا، اعراب لگانا، حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا، حدیث کی اسناد بیان کرنا، اسناد پر جرح کرنا اور حدیث کی قسمیں بنانا کہ صحیح ہے، یہ حسن، یہ ضعیف، یہ معضل، یہ مدلس پھر ان کی ترتیب دینا پھر ان پر احکام مقرر کرنا کہ حرام و حلال چیزیں احادیث صحیحہ سے ثابت کرنا اور فضائل ضعیف سے، سارا فنِ حدیث بدعت ہے۔ اصولِ حدیث، اصولِ فقہ و علم و کلام، نماز میں زبان سے نیت، روزہ رکھنے اور افطار کرنے کی دعا، زکوٰة موجودہ سکہ رائج الوقت کے تحت ادا کرنا ۔ ۔ ۔ اور بہت کچھ سب بدعتِ حسنہ کے زمرے میں آتا ہے۔ تو ہم پر بدعت کے فتوے لگانے والوں، سنو! تم بھی بدعتی ہو۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کیا خوب فرمایا :
دشمنِ احمد پہ شدت کیجئے
ملحدوں کی کیا مروت کیجئے
ذکر اُن کا چھیڑیئے ہر بات میں
چھیڑنا شیطاں کا عادت کیجئے
مثلِ فارس زلزلے ہوں نجد میں
ذکرِ آیاتِ ولادت کیجئے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
"یارسول اللہ" کی کثرت کیجئے
کیجئے چرچا اُنہیں کا صبح و شام
جانِ کافر پر قیامت کیجئے
آخر میں دعا کہ خدا بے ہدایتوں کو ہدایت دے۔ اور ہمیں اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ذکر کرنے، آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی سیرت پر عمل کرنے اور اپنی آنے والی نسلوں میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محبت کی شمع روشن کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment