Saturday, 6 December 2014

خطبہ استقبالیہ (كل پاكستان سنی كانفرنس ۱۹۷۸ء)

خطبہ استقبالیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(كل پاكستان سنی كانفرنس ۱۹۷۸ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِسْمِ ا للّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَكَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

ابتدائیہ
صدرِ محترم! حضرات علمائے كرام و مشائخ عظام اور جملہ حاضرین كرام و برادرانِ اہل سنَّت، السلام علیكم ورحمة اللّٰہ! اِس عظیم الشان تاریخ ساز آل پاكستان سنّی كانفرنس میں آپ كی شركت اور تشریف آوری پر نہایت ادب و احترام كے ساتھ میں آپ كا خیر مقدم كرتا ہوں اور كمال فرحت و مسرت كے ساتھ آپ كو خوش آمدید كہتا ہوں۔ آپ حضرات نے اِس بے مثال سنّی كانفرنس كے ساتھ جو تعاون فرمایا اور اپنی تشریف آوری سے اس كانفرنس كی رونق بڑھائی، میں اِس پر آپ كا تہ دِل سے ممنون و متشكر ہوں اور اللّٰہ تعالیٰ سے دُعا كرتا ہوں كہ یہ كانفرنس اِس پُر آشوب دور میں اِسلام كی سربلندی، مسلك اہلسنّت كے تحفظ، پاكستان كے استحكام اور نظامِ مصطفےٰ كے نفاذ كے لئے سنگ میل ثابت ہو۔ اٰمین۔ اِس نازك دور میں كمیونزم اور سوشلزم جیسے لا دینی فتنوں كا سیلاب اُمنڈتا چلا آ رہا ہے، نیز جماعت اہلسنّت اور مسلك اہلسنّت كے خلاف خوفناك سازشیں كی جا رہی ہیں،صرف یہی نہیں بلكہ پاكستان كے خلاف بھی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔وقت كا اہم ترین تقاضا ہے كہ سارے ملك كے سنّی حضرات اپنے اسلاف كی سابقہ روایات كے مطابق اپنے دِین و مذہب اور ملك و ملت كے تحفظ و سلامتی اور نظامِ مصطفےٰ كی ترویج كے لیے پوری طرح منظم اور مستحكم ہو كر اِن تمام فتنوں كو ناكام بنا دیں۔
بزرگانِ محترم! كل پاكستان كے سنّیوں كی یہ عظیم اور تاریخی كانفرنس صرف مذہبی بنیادوں پر منعقد ہو رہی ہے۔ سیاست سے اس كا كوئی تعلق نہیں نہ اس كی بنیاد فرقہ واریت پر ہے۔ آپ سب حضرات كسی گروہی تعصب یا سیاسی غرض كو لے كر نہیں آئے بلكہ آپ سب حضرات محض سنّی ہونے كی حیثیت سے تشریف لائے ہیں۔ جماعت اہلسنّت جس كے پلیٹ فارم پر یہ كانفرنس منعقد ہو رہی ہے، خالصتاً مذہبی جماعت ہے۔ اس كے اغراض و مقاصد اور منشور كا خلاصہ صرف اِسلام كی سربلندی، مسلك اہلسنّت كا تحفظ اور مذہبی بنیادوں پر سنّیوں كی تنظیم و تبلیغ ہے۔
نظریہ پاكستان كی حفاظت اور پاكستان میں نظامِ مصطفےٰ كے نفاذ كی جدوجہد اور اِسی بنیاد پر پاكستان كا استحكام جماعت اہلسنّت كا نصب العین ہے۔اِس ضمن میں اِسلام اور نظامِ مصطفےٰ، سنّت و جماعت كا مفہوم، اہلسنّت كا تشخص اور نظریہ پاكستان اور اس كے استحكام كے عنوانات پر مجھے كچھ عرض كرنا ہے:
اِسلام اور نظامِ مصطفےٰ
اِسلام دِین فطرت ہے۔ قَالَ اللہُ تَعَالٰی فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَط (اللّٰہ تعالیٰ كے دِین كو لازم پكڑو جس پر اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں كو پیدا كیا۔ اس كی خلقت میں كوئی تبدیلی نہیں۔ یہ سیدھا دین ہے لیكن اكثر لوگ نہیں جانتے) بخاری و مسلم كی متفق علیہ حدیث میں ہے، رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: كل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ (الحدیث)۔ (ہر بچہ فطرت یعنی دین اِسلام پر پیدا ہوتا ہے اُس كے ماں باپ اُسے یہودی بنا لیں یا نصرانی یا مجوسی بنا لیں)۔
دین فطرت ہی انسانی فطرت كے تقاضوں كو پورا كر سكتا ہے۔ انسانی فطرت سے مراد یہ ہے كہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان كو خلقت و جبلت كے جس بنیادی نقطے پر پیدا كیا ہے اُس نقطے سے انحراف نہ پایا جائے۔ مثلاً بہیمیت یا سبعیت (حیوانیت یا درندگی) اُس پر غالب نہ ہو یعنی انسانی فطرتِ سلیم پر قائم ہو، ایسی صورت میں انسان كی فطرت سلیمہ جس چیز كو پسند كرے گی یقیناً وہ وہی چیز ہو گی جو اِسلام میں پسندیدہ ہے۔
بنی نوعِ انسان میں جتنے افراد سلیم الفطرت پیدا ہوئے بلاتخصیص سب نے اسلام كی پسندیدہ چیزوں كو پسند كیا اور جن چیزوں كو اسلام نے ناپسندیدہ قرار دیا اُن سب نے اُن تمام چیزوں كو قبیح اور ناپسندیدہ مانا۔
اسلام كے پیش كردہ نظام سے اگر كسی شخص نے كسی وقت روگردانی كی، خواہ وہ روگردانی كرنے والے مسلمان ہی كیوں نہ ہوں تو اس كی وجہ یہ نہیں كہ اسلامی نظام میں كوئی خرابی تھی یا وہ قابل عمل نہ تھا بلكہ اس كی وجہ صرف یہ تھی كہ اسلامی نظام سے رُوگردانی كرنے والوں كی فطرتِ سلیمہ پر نفسانی خواہشات كا غلبہ ہو چكا تھا اِس لئے وہ اس پر عمل كرنے سے منحرف اور گریزاں رہے۔
ادنیٰ شعور ركھنے والاشخص بھی اتنی بات سمجھ سكتا ہے كہ اگر كسی وقت عام طور پر لوگ نیكی كرنا چھوڑ دیں اور جان بوجھ كر برائی اختیار كر لیں جیسا كہ صدیوں سے لوگ ایسا كرتے چلے آ رہے ہیں، خصوصاً موجودہ دور میں ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا كہ نیكی قابل عمل نہیں رہی۔ لوگوں نے سچ بولنا چھوڑ دیا تو اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا كہ سچ قابل عمل نہیں رہا بلكہ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے كہ خود لوگوں میں ایسی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس كی وجہ سے انہوں نے نیكی اور سچائی كو بالائے طاق ركھ دیا۔ اگر كوئی معدہ صالح غذا ہضم نہ كر سكے تو یہ غذا كی خرابی نہیں بلكہ خود معدہ كی خرابی ہے۔ نیكی اور اچھائی سے روگردانی اِس امر كی دلیل نہیں كہ نیكی اور اچھائی قابل عمل نہیں رہی بلكہ اِس بات كا ثبوت ہے كہ لوگ اس فطرتِ سلیمہ پر قائم نہیں رہے جو ان كی حقیقت كا بنیادی نقطہ تھا۔
یہاں یہ بات واضح رہے كہ فطرت كی خلاف ورزی خلق اللّٰہ كی تبدیلی نہیں بلكہ اصلِ فطرت كے موجود ہوتے ہوئے اس فطرت سے انحراف اور كجروی ہے۔
دین اِسلام كا اصل مفاد ہی یہ ہے كہ اسے قبول كر كے انسان اپنی فطرتِ سلیمہ پر قائم رہے اور كسی حال میں اس سے منحرف نہ ہو۔ اكثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں اِس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تنبیہ نازل فرمائی۔
اسی حقیقت كو نہ سمجھنے كی وجہ سے بعض لوگ مسلمان ہونے كے باوجود بھی غیر اسلامی نظاموں كی طرف مائل ہیں۔ كاش وہ "دین قیّم" كے معنی كو سمجھتے تو انہیں معلوم ہو جاتا كہ انسان كی فطرتِ سلیمہ كے تقاضوں كی تكمیل كا ضامن یہی دینِ اِسلام ہے جسے "دین قیّم" سے تعبیر كیا گیا ہے۔
انسانوں كے جو افراد اللّٰہ تعالیٰ كے نبی پر ایمان لائے اور انہوں نے دینِ اِسلام كو قبول كیا وہ غیر مسلم افرادِ انسانی سے صرف دینِ اِسلام كی بنیاد پر ممتاز ہو گئے جس طرح انسان، ناطق كی خصوصیت كی بنا پر غیر ناطق حیوان سے ممتاز ہو كر جنس حیوان كے تحت مستقل نوع كی حیثیت اختیار كر گیا بالكل اسی طرح مسلمان، خصوصیتِ اِسلام كی وجہ سے غیر مسلم انسانوں سے ممتاز ہو كر گویا جنس انسان كے تحت مسلمان ہونے كی حیثیت سے ایك مستقل نوع قرار پا گیا۔ یوں كہیئے كہ اللّٰہ تعالیٰ كے نبی نے انسان كو بمنزلہ جنس اور مسلمان و كافر اور منافق كو اس كے تحت تین انواع قرار دے دیا۔
یہ امر محتاجِ بیان نہیں كہ ہر نوع كے اسبابِ بقا اور ضروریاتِ زندگی اس كے حسبِ حال ہوتے ہیں۔ مچھلیاں اور پرندے دونوں جنس حیوان كی الگ الگ نوع ہیں۔ پرندوں كا پانی میں اور مچھلیوں كا پرندوں كے آشیانوں میں ہونا اُن كے حسبِ حال نہیں، بالكل اسی طرح مسلمانوں كا غیر اسلامی نظام كے تحت ہونا ان كے طبعی تقاضے كے خلاف ہے۔
رہا یہ شبہ كہ ایسی صورت میں غیر مسلمان كا اسلامی نظام كے تحت ہونا اس كے طبعی تقاضے كے منافی قرار پائے گا تو یہ شبہ صحیح نہیں۔ اس لیے كہ انسان مسلم ہو یا غیر مسلم، بحیثیت انسان ہونے كے اس كی فطرتِ سلیمہ كا تقاضا عین تقاضائے اِسلام ہے اور ظاہر ہے كہ كفر و نفاق كی بنیاد فطرتِ سلیمہ سے انحراف كے سوا كچھ نہیں اور یہ انحراف غیر طبعی ہے۔ معلوم ہوا كہ غیر مسلم كا اِسلام كو اپنی طبیعت كے ناموافق سمجھنا فطرتِ سلیمہ سے انحراف كی بنا پر ہے ورنہ اس میں شك نہیں كہ یہی نظام اس كی اصلِ فطرت كے عین مطابق اور حسبِ حال ہے۔ بلكہ غیر مسلموں كے لیے اسلام امن و عافیت كا حقیقی ضامن ہے۔ اسلام نے عام ہندو، سكھ اور عیسائی جیسی غیر مسلم اقلیتوں كی جان و مال اور عزت و آبرو كے تحفظ كی مستحكم ضمانت دی اور تاریخ شاہد ہے كہ اسلامی حكومتوں كے ادوار میں غیر مسلموں كو وہ شاندار حقوق و مراعات دیئے گئے جن كی مثال كسی غیر اسلامی حكومت میں نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا یہ كہنا بالكل صحیح ہے كہ اسلام ہی بنی نوعِ انسان كے لیے امن و عافیت اور رحمت و رافت كا گہوارہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے كہ مومن و كافر كے اسی نوعی اختلاف كی بنا پر دونوں كا قانونِ حیات مختلف ہو گیا۔ حلال و طیب چیزیں مومن كے حصے میں آئیں اور خبیث و ناپاك چیزیں كافر كے لیے رہ گئیں۔ مومن كی غذا حلال اور كافر كی غذا حرام۔ مسلمان كی طبیعت كا مقتضاء طیبات ہیں اور كافر كی طبیعت كا تقاضا خبیثات۔ قرآن مجید كی سورئہ بقرہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْط (اے ایمان والو! ہم نے جو پاك رزق تمہیں دیا اُس سے كھاؤ)۔ نیز سورئہ نور میں فرمایا: اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِط (خبیث چیزیں خبیث لوگوں كے لیے ہیں اور پاك چیزیں پاك لوگوں كے لیے)۔ دُوسری جگہ سورئہ اعراف میں فرمایا: وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَط (اللّٰہ تعالیٰ كے رسول ایمان والوں كے لیے پاك چیزوں كو حلال اور ناپاك چیزوں كو حرام كرتے ہیں)۔ شراب، خنزیر، سُود، رِشوت اور ہر قسم كی نجس و حرام اشیاء كو غیر مسلم شوق سے استعمال كرتا ہے لیكن مسلمان ان كے قریب جانا پسند نہیں كرتا۔ جس طرح بكری بھیڑیئے كی غذا قبول نہیں كرتی اِسی طرح مومن كافر كی غذا كو پسند نہیں كرتا كیونكہ ان دونوں كے درمیان ایسا ہی فرق ہے جیسا بكری اور بھیڑیئے كے درمیان ہے۔ ان میں سے ہر ایك مختلف النوع ہونے كی حیثیت ركھتا ہے۔
اب یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی كہ مسلمان كا حال غیر مسلم سے مختلف ہے۔ اِس لیے كوئی مسلمان غیر اسلامی قانون كے تحت اسلامی زِندگی بسر نہیں كر سكتا۔ اصلِ فطرت انسانی كے تقاضوں كی تكمیل صرف اسلامی نظام كے تحت ہو سكتی ہے جس كا نام "نظامِ مصطفےٰ" ہے۔
نظامِ مصطفےٰ كی جامعیت
واضح رہے كہ كہ چند اعمال و عبادات ہی كا نام "نظامِ مصطفےٰ" نہیں بلكہ یہ ایسا جامع نظامِ حیات ہے جو پیدائش سے موت تك اور مہد سے لحد تك انسان كو پیش آنے والے ہر مرحلے پر حاوی ہے۔ عقائد و اعمال، عبادات و معاملات، اخلاق و آداب سب كو شامل ہے۔ معاشیات و اقتصادیات، حدود و قصاص، تعزیرات، عدل و مساوات، قوانین و احكام سب كچھ نظامِ مصطفےٰ میں احسن و اكمل طریق پر موجود ہیں اور وہ ایك مكمل ضابطہ حیات ہے جس كا منبع كتاب و سنّت ہے اور اس كی تفصیلات سنّتِ خلفائے راشدین و سلفِ صالحین اور ائمہ مجتہدین كی فقہ و اجتہادات اور تعاملِ مومنین میں محفوظ ہیں۔ سورئہ نساء میں باری تعالیٰ عز اسمہٗ كا ارشاد ہے: اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْط (اللّٰہ تعالیٰ كی اطاعت كرو، اُس كے رسول كی اطاعت كرو اور اہل ایمان میں سے اولوا الامر كی)۔ مسند احمد، ابو داوٗد، ترمذی اور ابن ماجہ میں وارد ہے: عَلَیْكُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْن (الحدیث)۔ (تم اپنے اوپر میری سنّت اور میرے خلفائے راشدین مہدیین كی سنّت كو لازم پكڑو)۔ آیة كریمہ میں "اولوا الامر" سے مراد بھی خلفائے راشدین اور سلف صالحین ائمہ مجتہدین ہیں۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ سورئہ نساء میں فرمایا: وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآءَ تْ مَصِیْرًاط (جس نے ہدایت واضح ہو جانے كے بعد رسول سے اختلاف كیا اور مومنین كے علاوہ كسی دوسرے كے راستے كی اتباع كی ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرا اور اسے جہنم میں پہنچا دیں گے اور وہ بہت برا ٹھكانہ ہے)۔ اس آیت كریمہ میں اتباعِ رسول كے ساتھ مومنین كی راہ پر چلنے كا حكم دِیا گیا ہے۔ ترمذی كی حدیث میں وارد ہے: انّ اللہ لا یجمع امّتی علی ضلالة۔ (بے شك اللّٰہ تعالیٰ میری اُمت كو گمراہی پر جمع نہ فرمائے گا)۔ نیز ابن ماجہ كی حدیث میں وارد ہے: اتبعوا السواد الاعظم۔ (تم لازم پكڑو اپنے اُوپر سوادِ اعظم یعنی بڑی جماعت كو)۔
اِن آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ كی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی كہ نظامِ مصطفےٰ كا اصل منبع اور اس كی تفصیلات كا سرچشمہ كتاب و سنّت، خلافتِ راشدہ، ائمہ سلف، تعامل مومنین اور اجماعِ اُمت ہے۔میں پورے وثوق كے ساتھ عرض كروں گا كہ اسلامی ضابطہ حیات كا كوئی پہلو ان سے باہر نہیں۔
عدلیہ
قرآن مجید كی سورئہ مائدہ میں ہے: اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (تم عدل كرو، عدل تقویٰ سے بہت قریب ہے)۔ یہ آیتِ كریمہ عدل و انصاف كی روشن شمع ہے اور سنّت و اجماع اور قیاس ائمہ مجتہدین اس كی تفصیلات سے پُر ہیں۔
ظلم
عدل كے برعكس ظلم ہے۔ اس كے متعلق اللّٰہ تعالیٰ نے سورئہ اعراف میں فرمایا: لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ (ظلم كرنے والوں پر اللّٰہ تعالیٰ كی لعنت ہے)۔ اور حدیث شریف میں ہے: الظلم ظلمات یوم القیامة۔متفق علیہ۔ (قیامت كے دِن ایك ظلم كے كئی ظلمات ہوں گے)۔
انتظامیہ
انتظامی اُمور كی نگہداشت كرنے والوں كے متعلق اللّٰہ تعالیٰ نے سورة آلِ عمران میں فرمایا: تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط (تم نیكی كا حكم دیتے ہو اور برائی سے روكتے ہو)۔ صحیح مسلم كی حدیث میں وارد ہے: من رأی منكم منكرا فلیغیرہ بیدہ (الحدیث)۔ (تم میں سے جو كسی برائی كو دیكھے اُسے چاہیے كہ اُسے ہاتھ سے روك دے)۔
۔ حدود اللّٰہ تعالیٰ كی طرف سے كسی جرم پر مقرر كی ہوئی سزا كو "حد" كہتے ہیں۔جیسے سورئہ مائدہ میں ہے: فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا (چوری كرنے والے مرد اور عورت كے ہاتھ كاٹے جائیں)۔ اور سورئہ نور میں ہے: فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ (زانی اور زانیہ میں سے ہر ایك كو سَو كوڑے مارو)۔
۔ قصاص جان، عضو یا زخموں كے بدلے كو قصاص كہتے ہیں۔ مثلاً جان كے بدلے جان، عضو كے بدلے عضو اور زخموں كے بدلے زخم۔ قرآن كریم كی سورئہ بقرہ میں ہے: وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِط (تمہارے لیے قصاص میں حیات ہے اے عقل والو!)
نوٹ: حدود و قصاص سے متعلق بے شمار احادیث وارد ہیں جو
اہلِ علم حضرات سے مخفی نہیں۔
۔ تعزیرات حد سے كم درجے كی سزا كو "تعزیر" كہتے ہیں۔ ہر وہ جرم جس پر مقررہ سزا شرع میں وارِد نہیں مُوجب تعزیر ہے۔ مثلاً زِنا موجب للحد كے علاوہ فحش كے ارتكاب پر جو سزا دِی جائے گی وہ تعزیر ہو گی۔ علماء نے تعزیر كی دلیل میں سورئہ نساء كی اِس آیت كو پیش كیا: وَ الَّذٰنِ یَأْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَاط (اور تم میں سے دو مرد جو (آپس میں) فحش كے مرتكب ہوں تو اُنہیں تكلیف پہنچاؤ)۔ یہ تكلیف پہنچانا تعزیر ہے۔
یہ امر واضح رہے كہ امر بالمعروف اور نہی عن المنكر حكم تعزیر كے بغیر ممكن نہیں۔اِسی لیے رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا، صحیح مسلم میں ہے: من رأی منكم منكرا فلیغیرہ بیدہ (الحدیث)۔ (تم میں سے جو شخص كسی برائی كو دیكھے اُسے چاہیے كہ اُس برائی كو اپنے ہاتھ سے روكے)۔ اِس حدیث سے بھی حكمِ تعزیر پر روشنی پڑتی ہے۔ بعض علماء نے اجماع كو دلیلِ تعزیر قرار دِیا۔
اِسلامی حدود اور تعزیرات كے متعلق بعض لوگ كہتے ہیں كہ اِس مہذّب دور میں رجم اور كوڑوں جیسی شدید سزائیں نہایت غیر مناسب بلكہ ناقابلِ عمل ہیں۔نیز یہ كہ اِس دور میں جرائم كی اِتنی كثرت ہے كہ اقامتِ حدود ممكن نہیں۔ لاكھوں اِنسانوں كے ہاتھ كاٹنے پڑیں گے اور لاكھوں افراد كو رجم كرنا پڑے گا جو ناقابلِ عمل ہے۔
اِس كا جواب یہ ہے كہ جس دور میں جرائم كی اِس قدر كثرت ہو اُسے مہذّب كہنا كہاں كی تہذیب ہے؟ پھر یہ كہ سزا ہمیشہ جرم كے مطابق ہوتی ہے۔ جن جرائم پر اِسلام نے شدید سزاؤں كا حكم دِیا ہے آپ یہ دیكھیں كہ وہ جرائم كتنے شدید ہیں۔علاوہ ازیں ایسے شدید جرائم كے ثبوت كے لیے اِسلام نے جو معیارِ شہادت ركھا ہے اور ان سزاؤں كے لیے جو كڑی شرائط مقرر فرمائی ہیں ان كے پیشِ نظر ان سزاؤں كے ناقابل عمل ہونے كا تصور بھی پیدا نہیں ہوتا۔
لوگوں كا یہ كہنا بھی صحیح نہیں كہ لاكھوں كے ہاتھ كاٹنے پڑیں گے اور لاكھوں كو رجم كرنا پڑے گا۔
میں عرض كروں گا كہ اگر نظامِ مصطفےٰ رائج كر كے اُس كے مطابق چند مجرموں كو یہ سزائیں مل جائیں تو جرائم كا انسداد ہو جائے گا۔ سعودی عرب میں اِسلامی سزائیں نافذ ہیں۔ وہاں كا حال سب كو معلوم ہے۔ اِس قسم كے جرائم كا صدور شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔
حقوقِ نسواں
جاہلیت كے دور میں عورت كی جو تذلیل كی جاتی تھی اور جس قدر مظالم كا تختہ مشق عورتوں كو بنایا جاتا تھا اِسلام نے اس تذلیل اور جملہ مظالم سے عورتوں كو نجات دِلائی، اُن كے حقوق مقرر فرمائے، اُن پر مظالم اور زیادتیوں كو روكا اور اُنہیں عزت كا مقام عطا فرما كر اُن كے ساتھ بہترین معاشرت اور حُسنِ سلوك كا حكم دِیا۔ سورئہ نساء میں فرمایا: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِط یعنی عورتوں كے ساتھ حُسنِ معاشرت اور بہترین سلوك كے ساتھ پیش آؤ۔ ماں كا اَدب، بہن سے شفقت، بیوی سے حُسنِ سلوك قرآن مجید كی تعلیم ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے بھی "خیركم خیركم لاھلہ" فرما كر عورتوں كے ساتھ نیكی، بھلائی اور احسان كی تلقین فرمائی۔ یہ حدیث ترمذی، نسائی و ابن ماجہ میں ہے۔ یعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل كے ساتھ بہترین سلوك كرنے والا ہو۔ آج كے دَور میں عام طور پر عورتوں كی جو حق تلفی ہو رہی ہے كہ اُنہیں میراث كے حقوق سے بھی محروم كر دِیا جاتا ہے اور ازدواجی زِندگی میں بھی وہ ظلم و ستم كا نشانہ بنی رہتی ہیں، معاشرے میں اُنہیں عزت كا كوئی مقام نہیں دِیا جاتا اور اُن كی فلاح و بہبود كو نظر انداز كر دِیا جاتا ہے، نظامِ مصطفےٰ كے بغیر اُن كی حق رسی اور مظالم سے نجات ناممكن ہے۔معاشیات
قرآن كریم كی اصطلاح میں "معاش" سے مراد روزگار اور اسبابِ زِندگی ہیں۔ سورئہ اعراف میں اللّٰہ تعالیٰ كا فرمان ہے: وَ لَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَط (بے شك ہم نے تمہیں زمین پر جگہ دی اور ہم نے تمہارے لیے اس میں زندگی كے اسباب بنائے۔ تم بہت ہی كم شكر كرتے ہو)۔
چونكہ معاش اور روزگار كے بہت سے شعبے ہیں اور ہر شعبے سے متعلق بكثرت احادیث وارد ہیں۔ ہر طریق معاش كے لیے كتاب و سنّت و دیگر ادلّہ شرعیہ میں بے شمار احكام موجود ہیں۔ مثلاً سورئہ توبہ میں ہے: اَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواط (اللّٰہ تعالیٰ نے بیع كو حلال كیا اور سُود كو حرام فرمایا)۔ سُود كی مذمّت میں قرآن و حدیث كی اِتنی نصوص ہیں كہ ان كی تفصیلات كو اس مختصر وقت میں بیان كرنا ممكن نہیں۔یہ ایك بدترین قسم كی لعنت ہے اور بے شمار برائیوں كی بنیاد، سُودی نظام كو ختم كیے بغیر ہمارے معاشی مسائل حل نہیں ہو سكتے۔
اقتصادیات
كتاب و سنّت كی روشنی میں "اقتصادیات" سے ہماری مراد مالیات میں میانہ روی ہے۔"اگرچہ اعتدال پسندی اور میانہ روی مالیات كے علاوہ دِیگر اُمور میں بھی مطلوب عند الشرع ہے لیكن مالیات میں اس اعتدال اور میانہ روی كو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مال كو روك لینا جسے ارتكازِ دولت سے تعبیر كیا جاتا ہے، شرعاً سخت مذموم ہے۔اِسی طرح اِسے بیجا خرچ كرنا یا ناجائز طریقہ سے حاصل كرنا بھی سخت گناہ ہے۔ اِسی كے متعلق سورئہ بقرہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا: وَ لَا تَأْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِط (اور تم آپس میں ایك دُوسرے كا مال ناحق طور پر نہ كھاؤ)۔ اور میانہ روی كے متعلق تعلیم دیتے ہوئے سورئہ بنی اسرائیل میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاط (اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ ركھ اور نہ اُسے پورا كھول دے كہ تُو بیٹھ رہے ملامت كیا ہوا تھكا ہوا)۔ یعنی مال كا روكنا اور اُسے بلا امتیاز جابجا صرف كرنا دونوں ممنوع ہیں۔
جس مال سے زكوٰة اور متعلقہ حقوق ادا نہ كیے جائیں، اصطلاحِ شرح میں وہ كنز ہے۔ دیكھیے مجمع بحار الانوار جلد: ۳، ص: ۲۳۰۔ اسی كنز كو آج كل معاشی اصطلاح كے طور پر لفظ "سرمایہ" سے تعبیر كر دیا جاتا ہے۔ جس طرح زكوٰة ادا كرنے اور متعلقہ حقوق كی ادائیگی كے بعد وہ مال كنز نہیں رہتا اِسی طرح جس مال سے زكوٰة اور حقوقِ متعلقہ ادا كر دِیئے جائیں وہ "سرمایہ" كی تعریف میں نہیں آتا۔ بشرطیكہ اُسے جائز طور پر حاصل كیا گیا ہو ورنہ وہ مالِ حرام، مالك كے لیے وبالِ عظیم اور عذابِ الیم كا مُوجب ہے۔
اِس دور میں اكثر بڑے بڑے اَمیروں اور مال داروں كے اموال سے جو حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد متعلق ہیں اگر نظامِ مصطفےٰ كے تحت اِن حقوق كی ادائیگی ان اموال سے كر دِی جائے تو كنز و سرمایہ كا وجود ہی ملك میں باقی نہ رہے اور اموالِ حرام كی كثرت كے باعث ملك میں جس قدر جرائم اور معصیت كا دور دورہ ہے پاكستان اس سے پاك ہو جائے۔
دراصل دولت اور اسبابِ معیشت كا حصول اِتنا مشكل نہیں جتنا كہ اِن كی ہمواری اور موزونیت كا قائم ركھنا مشكل ہے۔ دولت كی ناہمواری ہمیشہ اقتصادی اور معاشی نظام كی خرابی كا مُوجب رہی ہے۔ قرآن كریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے سورئہ حشر میں فرمایا: کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (تاكہ وہ اموال، مال داروں كے درمیان گردش نہ كرتے رہیں)۔ اس آیت نے دولت كی ناموزوں تقسیم كو روكا ہے۔ غریب كا غریب تر ہونا اور امیر كا امیر تر ہو جانا اِسی غیر مناسب تقسیم دولت كا نتیجہ ہے۔ اس كا ازالہ اسی صورت میں ہو سكتا ہے كہ امیر و غریب سب كے لیے حصولِ دولت كے ذرائع ہر ایك كے حسبِ حال مساوی طور پر مہیا كیے جائیں۔ قرآنِ مجید كی آیتِ منقولہ بالا كی روشنی میں "نظامِ مصطفےٰ" اقتصاد و معاش میں اسی ہمواری اور موزونیت كا داعی ہے۔
سوشلزم اور مساوات
سب جانتے ہیں كہ "سوشلزم"، "كمیونزم" ہی كی ایك شاخ ہے جس كی بنیاد خدا كی ہستی كا انكار ہے۔ اس میں شخصی ملكیت بھی منفی ہے۔یہ دونوں نظریئے اِسلام كی نفی كرتے ہیں۔ اِس كے باوجود بعض لوگوں نے "اِسلامی سوشلزم" كی اصطلاح اِیجاد كر لی۔
اِسلامی سوشلزم" كی تركیب بالكل ایسی ہے جیسے "اِسلامی شراب خانہ"۔ مسلمانوں كو فریب دینے كے لیے ان لوگوں كا بنیادی سہارا قرآن مجید كی ایك آیت اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ كا زُہد ہے۔ آیتِ قرآنیہ سورئہ بقرہ میں ہے: وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلِ الْعَفْوَ۔ (لوگ آپ سے پوچھتے ہیں وہ كیا خرچ كریں؟ آپ فرما دیجیے كہ "عفو")۔
ان لوگوں كا كہنا ہے كہ "عفو" كے معنی ہیں وہ چیز جو اِنسانی حاجت سے زِیادہ ہو۔اِس بنا پر وہ آیت كا یہ مطلب بیان كرتے ہیں كہ ضرورت سے زائد اِنسان كے پاس جو كچھ ہو وہ سب خدا كی راہ میں خرچ كر دینا فرض ہے۔
میں عرض كروں گا كہ منكرینِ خدا كو راہِ خدا كا نام لینا زیب نہیں دیتا پھر یہ كہ لفظِ "عفو"، "جُہد" كی نقیض ہے۔ جہد كے معنی مشقت كے ہیں اِسی لیے جس نرم زمین كو چلنے كے لیے تیار كیا جائے لُغت میں اُسے "عفو" كہتے ہیں۔ آیت كے معنی یہ ہیں كہ جو كچھ خرچ كرنا تمہارے لیے سہل اور آسان ہو وہ اللّٰہ كے لیے خرچ كرو۔
ضرورت سے زائد چیز كا خرچ كرنا چونكہ ہر شخص كے لیے آسان ہے، اِس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حكم دِیا۔ جن علماء نے "عفو" كا ترجمہ "ما فضل عن الحاجة" كیا یعنی "ضرورت سے زائد" ان كا مقصد بھی یہی ہے كہ جس مال كی اِنسان كو ضرورت ہو اُس كے خرچ كرنے میں اُسے تكلیف اور مشقت ہوتی ہے اور جو ضرورت سے زائد ہو اُس كا خرچ كرنا آسان ہوتا ہے۔ اِس سے یہ بات ظاہر ہے كہ "سہولت" اور "زیادة عن الحاجة" میں كوئی فرق نہیں۔ دراصل اس آیتِ كریمہ كا مفاد یہ ہے كہ جس مال كے تم خود محتاج ہو اگر اُسے خرچ كرو گے تو خود محتاج ہو كر دُوسروں كے سامنے ہاتھ پھیلاؤ گے لہٰذا ایسا نہ كرو۔ حدیث شریف میں اِسی كی تائید وارد ہے۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: "الصدقة عن ظھر غنی" صدقہ ایسی چیز كا ہو جو ضرورت سے زائد ہے۔ كیونكہ اسی میں اِنسان كے لیے سہولت ہے۔ یہ كہیں نہیں فرمایا كہ جو كچھ بھی ضرورت سے زائد ہو وہ سب خرچ كر دو اِسی لیے قرآن میں لفظ "عفو" ہے۔ "كلّ العفو" نہیں۔
ہاں غلبہ زُہد كی وجہ سے اگر كوئی زاہد مومن ضرورت سے زائد كُل مال بلكہ اپنی ضرورت كو بھی پس پشت ڈال كر سارا مال راہِ خدا میں قربان كر دے تو یقیناً موجب فضیلت ہے بشرطیكہ ایسا كرنے والاخود محتاج ہونے كی وجہ سے دُوسروں كے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے سورئہ حشر میں اہل بیتِ نبوت اور مہاجرین و انصار كی تعریف میں فرمایا: وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط یعنی وہ اپنی جانوں پر دُوسروں كو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اُنہیں شدید محتاجی ہو)۔ نیز جامع ترمذی اور سنن ابی داوٗد میں ہے حضرت ابو بكر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے غزوئہ تبوك كے موقع پر اپنا سارا مال پیش كر دِیا تھا جس پر نبی كریم ﷺ نے فرمایا: ما ابقیت لاھلك یا ابا بكر؟ اے ابو بكر! تم نے اپنے اہل و عیال كے لیے كیا چھوڑا؟ تو حضرت ابو بكر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے عرض كیا: ابقیت لھم اللہ ورسولہ حضور! میں نے اُن كے لیے صرف اللّٰہ اور اُس كے رسول كو باقی ركھا۔ لیكن اسے فرض نہیں كہا جا سكتا۔اگر یہ فرض ہوتا تو جن صحابہ نے كچھ مال پیش كیا خصوصاً حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے آدھا مال اپنے اہل و عیال كے لیے باقی ركھا وہ سب حكم خداوندی "قل العفو" كے بموجب نافرمان اور گنہگار قرار پائیں گے بلكہ رسول اللّٰہ ﷺ كی ذاتِ مقدسہ پر بھی حرف آئے گا كہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے اُنہیں ہدایت نہ فرمائی۔ العیاذ باللہ تعالٰی۔
ثابت ہوا كہ مدعیانِ سوشلزم كا "قُلِ الْعَفْوَ" اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ كے غلبہ زُہد سے سوشلزم كو ثابت كرنا محض دھوكہ دہی اور فریب ہے۔
مساوات سے مراد یہ ہے كہ ہر مستحق آدمی كو اس كے استحقاق كے مطابق اُس كا حق ادا كر دِیا جائے۔ ایسا نہ ہو كہ ایك ہی قسم كے متعدد مستحقین كی ادائیگی حقوق مساوی طور پر نہ ہو ان میں كمی بیشی اسلامی مساوات كے خلاف ہے۔ مثلاً ایك شخص كے چار لڑكے ہیں، دو لڑكیاں اور دو بیویاں۔ اس شخص كی میراث میں جو حصہ لڑكوں كا ہے وہ چاروں كو برابر ملے گا اور جو حصہ لڑكیوں كا ہے وہ دونوں لڑكیوں كو مساوی طور پر دیا جائے گا اور جو حصہ بیویوں كا ہے وہ دونوں بیویوں پر برابر تقسیم ہو گا۔ لیكن ایسا نہیں ہو سكتا كہ لڑكوں، لڑكیوں اور بیویوں میں سے ہر ایك كا حصہ برابر ہو۔ قرآن مجید كی واضح نصوص اس مساوات كے ثبوت میں موجود ہیں اور بے شمار احادیث اس مفہوم میں ناطق ہیں۔ یہ وہ مساوات ہے جو اِنسان كی عقلِ سلیم اور طبع مستقیم كا مقتضی ہے اور اسی مساوات كا داعی نظامِ مصطفےٰ ہے۔
تجارت
تجارت كے معنی ہیں اصل مال میں نفع حاصل كرنے كے لیے تصرف كرنا۔ اور بیع كے معنی قیمت والا مال دے كر قیمت لینا۔ قرآن مجید میں مسلمان تاجر كی شان میں سورئہ نور میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: رِجَالٌ لَّا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہِط (سوداگری اور خرید و فروخت ان كو اللّٰہ تعالیٰ كے ذِكر سے غافل نہیں كرتی)۔ یعنی وہ تجارت اور بیع و شِرا میں احكامِ خداوندی كو ہمیشہ پیشِ نظر ركھتے ہیں اور خدا كی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔
تجارت و بیع كے بھی كئی اقسام ہیں اور ہر قسم كے لیے قرآنِ كریم اور حدیثِ نبوی میں بے شمار احكام وارد ہیں۔ ان كی تفصیلات اس وقت بیان نہیں كی جا سكتیں۔ صرف اِتنا عرض كر دینا كافی ہے كہ دیانت و صداقت اسلامی تجارت كی رُوحِ رواں ہے۔سنن دارمی میں ہے: التاجر الصدوق مع النبیّین (سچا تاجر قیامت كے دِن نبیوں كے ساتھ ہو گا)۔ افسوس ہے كہ اس دور میں تجارت بھی اكثر و بیشتر غیر اِسلامی اُصولوں پر ہو رہی ہے۔ ضرورت ہے كہ اسے نظامِ مصطفےٰ كے تحت لایا جائے۔
زراعت
زراعت كے معنی ہیں كھیتی باڑی كرنا اور مختلف اجناس كا غلہ اُگانا۔ سورئہ اعراف میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْاحَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖط (كھاؤ اس كے پھل سے جب وہ پھل دار ہو اور كٹائی كے دِن اس كا حق ادا كرو)۔ اس آیتِ كریمہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے پھلوں اور كھیتی كے نعمت ہونے كا اظہار فرمایا اور شكر نعمت كے طور پر اس كی پیداوار سے عشر ادا كرنے كا حكم دِیا۔
زراعت كو ملكی معیشت میں جو مقام حاصل ہے محتاجِ تشریح نہیں۔ انسانی زِندگی كسان كی كاركردگی كی رہینِ منت ہے۔ كسان كی حوصلہ افزائی زرعی پیداوار كے لیے انتہائی ضروری ہے۔
زراعت كا شعبہ بھی بڑا وسیع ہے۔ بے شمار احكام اس كے متعلق ہیں جو كتاب و سنّت، اجماعِ اُمت اور قیاس و تعامُلِ ناس سے ماخوذ ہیں اور نظامِ مصطفےٰ میں وہ بڑی اہمیت ركھتے ہیں۔
مزدوری
بدلے پر كام كرنا مزدوری ہے۔ قرآن پاك كی سورئہ قصص میں حضرت شعیب علیہ السلام كی صاحبزادی كا مقولہ مذكور ہے۔اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے كہا: اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَاط (میرا باپ تمہیں بلاتا ہے كہ تمہیں ہمارے جانوروں كو پانی پلانے كی مزدوری دے)۔ اس آیت سے واضح ہوا كہ مزدور كے طلب كرنے سے پہلے اُس كی مزدوری ادا كر دی جائے۔ مزدوری كا پیشہ نہایت معزز پیشہ ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام كو حضرت شعیب علیہ السلام نے آٹھ سال مزدوری پر بكریاں چرانے كی پیش كش كی۔ بخاری شریف میں ہے كہ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ كے كسب سے اور محنت كر كے بسر اوقات فرماتے تھے۔
قرآن مجید كی روشنی میں مزدور كو قوت، محنت اور امانتداری كے ساتھ كام كرنے كی ہدایت كی گئی ہے جیسا كہ سورئہ قصص میں حضرت شعیب علیہ السلام كی صاحبزادی كا مقولہ اپنے والد ماجد سے حضرت موسیٰ علیہ السلام كے حق میں مذكور ہے: اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُط (بے شك بہترین مزدوری كرنے والاوہ ہے جو طاقتور (محنت كش) اور امانت دار ہو)۔
آجر كو بھی مزدور كے ساتھ شفقت اور اس كی محنت كی قدر دانی كا حكم دِیا گیا ہے۔ابن ماجہ میں حدیث ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مزدور كو اُس كا پسینہ خشك ہونے سے پہلے مزدوری ادا كر دو۔
آج دنیا میں ہر طبقے سے زیادہ مزدور كی تعداد پائی جاتی ہے اگر مزدور محنت و قوت اور امانتداری كے ساتھ كام نہ كریں نیز آجر كی طرف سے مزدوری كے حقوق كا تحفظ نہ ہو اور اُس كی حوصلہ افزائی نہ كی جائے تو ملك كا تمام كاروبار ٹھپ ہو كر رہ جائے۔ لہٰذا آجر اور اجیر دونوں كا فرض ہے كہ وہ ہدایاتِ ربانی پر عمل كریں۔
مزدوری اور اُجرت كا باب بھی بڑا وسیع ہے اور "نظامِ مصطفےٰ" اس كے بھی ہر پہلو پر حاوی ہے۔
تعلیم
اسلام نے علم كو سب سے اعلیٰ مقام دیا ہے۔ علم ہی ایمان و عمل كی بنیاد اور فضیلت كا معیار ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں فرمایا: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَاط اللّٰہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام كو كُل اسماء كا علم دیا۔ نیز سورئہ زمر میں ارشاد فرمایا: قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَط (كیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ لوگ جو نہیں جانتے)۔ ایك اور جگہ سورئہ طٰہٰ میں فرمایا: قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (آپ كہیے اے میرے رب! میرے علم كو بڑھا)۔ بے شمار احادیث بھی علم كی فضیلت میں وارد ہوئیں۔
تعلیم سے مراد انسان كو زیورِ علم سے آراستہ كرنا ہے۔علم اگرچہ فی نفسہٖ محمود ہے مذموم نہیں لیكن اپنے متعلق كے اعتبار سے اس میں برائی كا پہلو بھی نكل آتا ہے جیسے برائی كا سكھانا برا ہے اور اچھائی كا سكھانا اچھا۔
اسلام خدا كی معرفت و محبت، تقویٰ و طہارت اور اخلاقِ حسنہ كی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اوّلین اور آخرین اور جملہ حقائقِ كائنات كے علوم موجود ہیں۔ آج تك جس قدر علوم مروّج ہیں سب كا منبع قرآن كریم ہے لیكن علومِ قرآن كا انداز یہ ہے كہ ہر علم كو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی معرفت كا وسیلہ بنایا ہے۔ اس لیے معرفتِ خداوندی كے مقصد كو باقی ركھتے ہوئے ہر علم كا حصول قرآنی مقاصد كے عین مطابق ہے۔ اسلامی تعلیم كا خلاصہ یہی ہے۔ لیكن انگریز نے اپنے دورِ حكومت میں اس مقصد كو ختم كرنے كی كوشش كی اور ایسا نصابِ تعلیم رائج كیا جس كے ذریعے خدا پرستی كی جگہ خالص مادہ پرستی كا رجحان پیدا ہوا۔ اِسلامی اخلاق و اقدار پامال ہونے لگے اور اس تعلیم كو اپنا كر مسلمان اِسلام سے دُور ہونے لگے۔ چنانچہ آج تك ہمارے تعلیمی اداروں میں وہی نصابِ تعلیم رائج ہے۔ اگر كسی وقت كچھ تبدیلی ہوئی بھی تو برائے نام۔ وہی لادینی نظریات اور ملحدانہ رجحانات پھیلتے جا رہے ہیں۔پھر ایك المیہ یہ ہے كہ برائے نام تبدیلی كرنے والوں نے "سوادِ اعظم" كو قطعی طور پر نظر انداز كر دیا۔ ان كے اسلافِ كرام كے زرّین علمی و عملی مجاہدانہ كارناموں كا تو ذِكر ہی كیا۔ ان كے نام تك كو صفحہ قرطاس پر لانا گوارا نہ كیا بلكہ تاریخی حقائق كو بے دردی سے مسخ كر كے جن لوگوں نے انگریزوں سے جہاد كے ناجائز ہونے كے فتوے دئیے تھے انہیں مجاہد بنا كر دِكھایا گیا اور اصل مجاہدین كا ذِكر تك نہ كیا گیا۔
نظامِ مصطفےٰ اس تعلیم میں بنیادی تبدیلی كا داعی ہے۔وہ ایسی تعلیم كا علمبردار ہے جس كے ذریعے ہماری نسل اسلامی رُوح سے آشنا ہو، اس كے اخلاق و اعمال اسلامی سانچے میں ڈھل جائیں، خدا كی ہستی پر كامل ایمان كے ساتھ تمام اسلامی عقائد و اعمال كا انہیں صحیح علم حاصل ہو، تاریخی حقائق اور اپنے اسلافِ كرام كے مجاہدانہ اور علمی و عملی كارناموں سے واقف ہوں اور اُن كے نقشِ قدم پر چل كر پاكستان اور ملت اِسلامیہ كی صحیح خدمت انجام دے سكیں۔
علماءِ سُوء
حدیث شریف میں علماء سُوء یعنی بدترین عالموں كی سخت مذمت فرمائی ہے۔ امام بیہقی نے بروایت مولائے كائنات حضرت علی مرتضیٰ كرم اللّٰہ وجہہ الكریم روایت كی كہ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا، ایسا زمانہ آئے گا جس میں ایسے عالم بھی ہوں گے جو آسمان كے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ اُنہی سے فتنہ نكلے گا اور اُنہی كی طرف لوٹ جائے گا۔
اس حدیث پاك كا مصداق وہی علماء ہیں جو سبیل مؤمنین اور سلفِ صالحین، ائمہ مجتہدین كے منہاج سے رُوگردانی كر كے اپنی ناقص رائے اور نام نہاد اجتہاد سے كام لے كر، دین میں فتنے پیدا كریں گے، دُنیا كے بدلے دِین بیچیں گے۔ ان كے ذہن میں ہر وقت اقتدار كی كنجیوں كا تصور ہو گا۔ یہی لوگ نظامِ مصطفےٰ كی راہ میں سنگِ گراں ہوں گے لیكن اگر سوادِ اعظم منظم ہو كر مستحكم ہو جائے تو یہ بھاری پتھر اُن كی طاقت كے سیلاب میں خس و خاشاك كی طرح بہہ جائیں گے اور ان كے تمام فتنے اُنہی كی طرف لوٹ جائیں گے۔
پسندیدہ حاكم
نظام مصطفےٰ كے نفاذ كے لیے حاكم بھی ایسے ہونے چاہئیں جو اپنی پسندیدہ صفات كی بنا پر عوام میں مقبول اور پسندیدہ ہوں۔
ترمذی شریف میں رسول اللّٰہ ﷺ كا یہ فرمان وارد ہے، "كیا میں تمہیں بہترین اور بدترین حكام كی خبر نہ دُوں؟ صحابہ كرام نے عرض كیا، كیوں نہیں یا رسول اللّٰہ! ضرور ہمیں خبر دیجیے۔ فرمایا، بہترین حاكم وہ ہیں جن سے تم محبت كرو اور وہ تم سے محبت كریں۔ اور تم اُن كے لیے دُعا كرو، وہ تمہارے لیے دُعا كریں۔ اور بدترین حاكم وہ ہیں جن سے تم بغض ركھو، وہ تم سے بغض ركھیں۔ تم اُن پر لعنت كرو، وہ تم پر لعنت كریں۔"
نظامِ مصطفےٰ كے دامن میں اُنہی حكام كے لیے گنجائش ہے جو اس حدیث پاك كی روشنی میں بہترین ہوں۔ ورنہ بدترین حكام كے لیے حدیث پاك كی روشنی میں نظامِ مصطفےٰ میں كوئی گنجائش نہیں۔
حرمت مومن
اِسلام میں مسلمان كے خون كی عظمت و حرمت، كثرتِ جرائم كے اِس دور میں بے گناہ مسلمانوں كے قتل كی وارداتیں كسی سے پوشیدہ نہیں۔ اِسلام نے مسلمان كے خون كو بڑا محترم قرار دِیا ہے۔ قرآن و حدیث میں قتلِ ناحق كی سخت مذمت اور اس پر وعید شدید وارد ہے۔ابن ماجہ میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے رسول اللّٰہ ﷺ نے خانہ كعبہ كو دیكھ كر فرمایا، "اے كعبہ! تو بڑی عزّت و حرمت والاہے والذی نفس محمد بیدہ لحرمة المؤمن اعظم عند اللہ حرمة منك۔ (قسم ہے اس ذات پاك كی جس كے قبضہ قدرت میں مجھ محمد رسول اللّٰہ كی جان پاك ہے یقیناً مومن كی حرمت اللّٰہ كے نزدیك تیری حرمت سے كہیں زِیادہ ہے)۔
اسی طرح ترمذی شریف میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے بھی خانہ كعبہ كو دیكھ كر یہی فرمایا كہ "اے كعبہ! بے شك اللّٰہ كے نزدیك تیری بڑی عزّت و حرمت ہے لیكن مومن كی حرمت اللّٰہ كے نزدیك تجھ سے كہیں زِیادہ ہے۔"
اس دور میں مسلمان كا خون جس بے دردی سے بہایا جاتا ہے بلكہ بعض اوقات اُسے لالچ دے كر خودكشی پر آمادہ كیا جاتا ہے، اِسلامی احكام كی روشنی میں كس قدر گناہِ عظیم ہے۔ یہی حال مسلمان كے مال اور اُس كی عزّت و آبرو كا ہے، حجة الوداع كے خطبے میں رسول اللّٰہ ﷺ نے ایك لاكھ صحابہ كے مجمع میں ارشاد فرمایا، "مسلمان پر مسلمان كا مالِ ناحق اور اُس كی ہتكِ عزّت حرام اور سخت گناہ ہے۔" نظامِ مصطفےٰ كی ترویج كے بغیر مسلمان كی جان، مال، عزّت و آبرو سب معرضِ خطر میں ہے۔
نظامِ مصطفےٰ كا فوری نفاذ
سوادِ اعظم اہلِ سنّت ملك میں فوری طور پر نظامِ مصطفےٰ كا نفاذ چاہتی ہے۔ كسی كا یہ كہنا كہ نظامِ مصطفےٰ كا فوری نفاذ ممكن نہیں، قطعاً غلط اور نظامِ مصطفےٰ كے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔ اقا مة صلوٰة، ادائے زكوٰة، امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كے فوری نفاذ میں كوئی دُشواری نہیں۔
اِس مسئلہ میں یہ سمجھنا كہ مسلمان نماز پڑھتے اور زكوٰة دیتے ہیں لہٰذا صلوٰة و زكوٰة كا نظام نافذ ہے، صحیح نہیں كیونكہ نفاذ كے معنیٰ یہ نہیں كہ جس كا دِل چاہے خود بخود نمازپڑھ لے اور زكوٰة ادا كر دے بلكہ اس كے لیے ضروری ہے كہ تاركِ صلوٰة اور زكوٰة كے لیے سزا مقرر كر دِی جائے اور بلا اِمتیاز ہر ایك كے لیے یہ قانون نافذ ہو۔ اسی طرح حكومت كی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنكر یعنی نیكی كے كاموں كے كرنے اور برے كاموں سے روكنے كا محكمہ قائم كر دیا جائے اور اس كی تعمیل نہ كرنے والوں كو سزائیں دِی جائیں۔
میں سمجھتا ہوں كہ اس راہ میں كوئی رُكاوٹ نہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے سورئہ حج میں فرمایا: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِط (وہ لوگ كہ اگر ہم اُنہیں زمین میں قوت و سلطنت عطا فرمائیں تو وہ نماز برپا ركھیں اور زكوٰة دیں اور نیكی كا حكم دیں اور برائی سے روكیں اور اللّٰہ ہی كے لیے سب كاموں كا انجام ہے)۔
اس حكم قرآنی میں صاحب قوت نافذہ كے لیے جس خوبی كے ساتھ دین برپا كرنے كا حكم دِیا گیا ہے،ہر مسلمان كے سامنے ہے۔ جو لوگ زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے كر نظامِ مصطفےٰ كے نفاذ میں تساہل كریں گے اُنہیں قرآن مجید میں سورئہ مائدہ كی یہ وعیدیں سامنے ركھنی چاہئیں: وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَط وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَط وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَط جن كا خلاصہ یہ ہے كہ اللّٰہ تعالیٰ كے نازِل كیے ہوئے حكم كے مطابق فیصلہ نہ كرنے والے كافر ہیں، ظالم ہیں، فاسق ہیں۔
میں سوادِ اعظم اہلِ سنّت سے پُرزور اپیل كرتا ہوں كہ وہ جلد سے جلد نظامِ مصطفےٰ كے نفاذ كے لیے میدانِ عمل میں آ جائیں۔
واضح رہے كہ نظامِ مصطفےٰ كے نفاذ كی صورت میں فقہ حنفی كو اختیار كرنا ضروری ہے كیونكہ پاكستان كے رہنے والے جمہور مسلمان حنفی المذہب ہیں۔ نیز حنفی فقہ اپنی وُسعت اور جامعیت كے لحاظ سے ہر طبقے كے اِنسانوں كی تمام ملكی ضرورتوں كے لیے نہایت مناسب اور موزوں واقع ہوئی ہے۔ انگریزی حكومت قائم ہونے كے بعد بھی ہندوستان میں یہی فقہ حنفی رائج رہی۔ ماضی میں بھی اِسلامی سلطنتیں فقہ حنفی كی پابند رہیں۔ خاندانِ سلجوق، سلاطین تركی، محمود غزنوی، نور الدین زنگی، سب فقہ حنفی اور اس كے قانون كے پابند تھے۔ خلافت عباسیہ كے مایہ نورِ چشم و چراغ خلیفہ ہارون الرشید كی وسیع سلطنت بھی حنفی اُصول پر قائم تھی۔ اس عالمگیر حدودِ مملكت میں فقہ حنفی كے امامِ ثانی امام ابو یوسف رحمة اللّٰہ علیہ عدلیہ كے چیف جسٹس رہے۔
پاكستان كے ملكی قانون میں فقہ حنفی كی قید لگنے سے ایك بڑا فائدہ یہ ہو گا كہ قرآن مجید كی غلط تشریح كر كے الحاد اور بد مذہبی كو ملكی قانون میں شامل كرنے كا راستہ ہمیشہ كے لیے مسدود ہو جائے گا۔
رہا یہ سوال كہ پاكستان میں رہنے والے غیر حنفی فرقوں كے مذہبی معاملات كیونكر طے ہوں گے؟ تو اس كا جواب یہ ہے كہ غیر حنفی حضرات جن مسائل میں فقہ حنفی سے اختلاف ركھتے ہیں اُن تمام مسائل و معاملات میں انہی كے مذہب كے قاضی مقرر كئے جا سكتے ہیں جو ان مخصوص مسائل و معاملات میں اپنی اپنی فقہ كے مطابق پیش آمدہ مقدمات كا فیصلہ كریں لیكن ملكی قانون وہی ہونا چاہیے جو ملك كے جمہور مسلمانوں اور سوادِ اعظم كا مسلك ہے۔
سنّت كا مفہوم
لفظ "سنّت" كی تشریح میں علماء محدثین و فقہاء كرام اور علماء اصولیّین نے جو مخصوص اصطلاحات مقرر فرمائی ہیں، اپنے اپنے مقام پر وہ سب درست ہیں۔ "لكلٍّ ان یصطلح بما شآء"۔ لیكن سلف صالحین نے لفظ "سنّت" كا جو مفہوم بیان كیا ہے وہ سب كو شامل ہے۔ علامہ حافظ ابن رجب حنبلی رحمة اللّٰہ علیہ "جامع العلوم والحكم" میں فرماتے ہیں، "سنت كے معنی ہیں، الطریق المسلوك۔ جس سے مراد وہ راستہ ہے جو دِین پر چلنے كے لیے مقرر كیا گیا ہو"۔
سنّت بدعت كا مقابل ہے۔ جیسا كہ حدیثِ مرفوع سے ثابت ہے۔حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا، "لوگوں نے كوئی بدعت پیدا نہیں كی مگر اس كی مثل سنّت اُٹھا لی گئی۔" سنّت كے ساتھ بدعت كا جمع نہ ہونا اِس بات كی دلیل ہے كہ سنّت بدعت كی ضد ہے۔ "الاشیاء تعرف باضدداھا"۔ چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ لہٰذا بدعت كی وضاحت سے سنّت كے معنی اچھی طرح واضح ہو جائیں گے۔ بدعت وہ ہے جس كی اصل شریعت میں نہ ہو۔ معلوم ہوا جس چیز كی اصل شریعت میں پائی جائے وہ سنّت ہے اور اس كے مفہوم میں وہ سب اُمور شامل ہیں جو شرع میں ثابت الاصل ہیں خواہ ان كی ہیئت كذائیہ خیر القرون میں نہ پائی جائے۔ جیسے تراویح باجماعت كا التزام، تراویح میں ختم قرآن وغیرہ۔ نبی كریم ﷺ نے اپنی اور اپنے خلفائے راشدین رضی اللّٰہ عنہم اجمعین كی سنّت كو دِین میں چلنے كا راستہ قرار دِیا اور فرمایا: عَلَیْكُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْن۔ اِس لیے وہ طریق مسلوك ان سب اُمور كو شامل ہو گا جو حضور علیہ وآلہ الصلوٰة والسلام اور آپ كے خلفاء راشدین كے اعتقادات و اعمال اور اقوال سے ثابت ہوں۔ سلفِ صالحین قدیم زمانے سے اسی معنیٰ پر لفظ "سنّت" كا اطلاق كرتے تھے۔ ۱ھ
(ملخص از: جامع العلوم والحكم)۔
اس بیان سے "سنّت" كے معنی اچھی طرح واضح ہو گئے۔ جس كا خلاصہ یہ ہے كہ رسول اللّٰہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین كے اعتقادات اور اعمال و اقوال سے جو كچھ ثابت ہوتا ہے وہ سب "سنّت" ہے۔
جماعت كا مفہوم
سنّت كے بعد لفظ "جماعت" كا مفہوم بھی سمجھ لیجیے:-
امام كی قیادت میں منظم مسلم قوم جماعت ہے۔ ترمذی شریف كی حدیث میں ہے: "ید اللہ علی الجماعة۔" اللّٰہ كا ہاتھ جماعت پر ہے۔ ابو داوٗد و ترمذی كی حدیث مرفوع: "ما انا علیہ واصحابی۔" بھی سنّت و جماعت كے مفہوم كو شامل ہے۔ لفظ "ما انا علیہ" سنّت اور لفظ "واصحابی" سے جماعت كے معنی مفہوم ہوتے ہیں۔ اور آیتِ كریمہ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُط كی روشنی میں تابعین بھی "جماعت" كے معنی میں شامل ہیں۔
اسی بنا پر علمائے اُمت كی اصطلاح میں گروہِ صحابہ و تابعین كو "جماعت" كہتے ہیں۔ نبراس شرح شرح العقائد وغیرہ كتب عقائد میں اس كی تصریح موجود ہے جس كا خلاصہ یہ ہے كہ رسول اللّٰہ ﷺ و خلفاءِ راشدین رضی اللّٰہ عنہم اجمعین كے مقدس دامن سے وابستہ ہو كر ان كے اعتقادات، اعمال و اقوال سے تمسك كرنے والے اور اُن سے ثابت شدہ اُمور كو "سنّت" ماننے والے مسلمان "اھلسنّت و جَماعَت" ہیں۔ یہ مقدس گروہ عہد رسالت سے لے كر آج تك "سوادِ اعظم" كی حیثیت سے چلا آ رہا ہے جس كے ثبوت میں بے شمار احادیث وارد ہیں۔ البتہ بطورِ امتیاز یہ لقب (اہلسنّت و جماعت) حضرت امام ابو الحسن اشعری ؒ كے دور میں ۳۰۰ ھ سے شروع ہوا۔
تشخص اہلِ سنّت
اس تحقیق كے بعد میں عرض كروں گا كہ رسول اللّٰہ ﷺ اور آپ كے خلفاء راشدین كے عقائد و اعمال اور اقوال كا منبع قرآن و حدیث ہے۔ توحید و رسالت اور جملہ ضروریاتِ دِین پر مشتمل عقائد سب قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ اِسلامی افعال و اعمال اور اسی طرح اِن مقدسین كے جملہ دِینی اقوال سب قرآن و حدیث ہی سے مستنبط ہیں۔
اعمال و اقوال تو اُمورِ ظاہرہ سے ہیں لیكن عقائد، باطنی اُمور سے تعلق ركھتے ہیں جن پر وحی اِلٰہی اور الہامِ خداوندی كے بغیر مطلع ہونا ممكن نہیں۔
منافقین كا گروہ اقوال و اعمال كے اعتبار سے مومنین كے ساتھ شامل تھا لیكن ان كے اعتقادات اور قلبی اُمور كا حال قرآن و حدیث كی روشنی میں سب كو معلوم ہے۔ اس لیے اقوال و اعمال كو ایمان كا معیار قرار نہیں دِیا جا سكتا۔ اسی حكمت كی بنا پر جس طرح اقوال و اعمال كو عقائد كی بنیاد پر قائم كیا گیا بالكل اسی طرح رسول اللّٰہ ﷺ كے عشق و محبت اور تعظیم و توقیر كو عقائد كی بنیاد بنایا گیا۔ مومن و منافق كے درمیان یہی چیز حَدِّ فاصل اور امتیازی نشان كی حیثیت ركھتی ہے۔
قرآن مجید میں كسی جگہ منافق كے لیے عشق و محبت اور تعظیم و توقیر رِسالت كا ذِكر نہیں آیا۔ اس كے برعكس منافق كی توہین و تنقیصِ رِسالت اور رسول اللّٰہ ﷺ سے محبت كی بجائے نفرت اور آنحضرت ﷺ سے بُعد كا ذِكر منافقین كے حق میں وارد ہے۔ سورئہ نساء میں ہے: رَأَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاط آپ منافقین كو اِس حال میں دیكھیں گے كہ وہ آپ سے منہ موڑ كر پھر جاتے ہیں۔دُوسری جگہ سورة منافقون میں منافقین كا مقولہ بیان فرمایا: لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّط یعنی اگر ہم مدینہ لوٹے تو ضرور جو بڑی عزّت والا ہے، بڑی ذِلّت والے كو مدینے سے نكال دے گا۔
منافقین نے مومنین كے گروہ كو بڑی ذِلت والاكہا اور گروہِ مومنین میں خود رسول اللّٰہ ﷺ سب سے پہلے شامل ہیں۔ اس مقولہ میں اَعَزّ كے مقابل "اَذَلَّ" مذكور ہے۔ منافقین نے لفظ مومنین اور لفظ رسول كی تصریح كیے بغیر سب كو لفظ "اَذَلَّ" سے تعبیر كر كے اللّٰہ كے پیارے رسول ﷺ اور مومنین و رُسلِ كرام كی تصریح نہیں كی لیكن اس كے عموم میں تمام مومنین كا شامل ہونا اظہر من الشمس ہے۔ خلاصہ یہ ہے كہ مومن كو منافق سے ممتاز كرنے والی چیز صرف عشق و محبت اور تعظیم و توقیر نبوی ہے۔
منافقین كے برخلاف مومنین كی شان یہ ہے كہ قرآن و حدیث میں نہایت كثرت كے ساتھ ایمان والوں كے لیے محبت اور تعظیم و توقیر رِسالت كا ذِكر وارد ہے۔
سورئہ توبہ میں ارشاد فرمایا: "پیارے حبیب! فرما دیجیے (ایمان والو!) اگر تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیبیاں اور تمہارا كنبہ اور تمہاری كمائی كا مال اور وہ تجارت جس كے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مكان یہ سب چیزیں تمہیں اللّٰہ اور اُس كے رسول اور اُس كی راہ میں جہاد كرنے سے زیادہ پیاری ہیں تو انتظار كرو یہاں تك كہ اللّٰہ اپنا حكم یعنی عذاب لائے اور اللّٰہ نافرمانوں كو راہ نہیں دِكھاتا"۔
اس آیت كریمہ میں "اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ" كے الفاظ محبت رسول ﷺ كو عذابِ اِلٰہی سے بچنے كا ضامن اور ایمان كی رُوح قرار دے رہے ہیں۔ نیزسورئہ شوریٰ میں ارشادِ خداوندی وارد ہے: قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰیط الاٰیة۔ میں اس (تبلیغ رِسالت) پر تم سے كوئی اُجرت طلب نہیں كرتا، بجز محبت ذوی القربیٰ كے)۔ آلِ پاك كی محبت عین محبتِ رسول ہے، صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم، جس كی طلب كا حكم دے كر اللّٰہ تعالیٰ نے اس محبت كی عظمتِ شان كا اظہار فرمایا ہے۔
سورئہ احزاب میں ازواجِ مطہرات كو مخاطب فرما كر اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًاط (اور اگر تم اللّٰہ اور اُس كا رسول اور آخرت كا گھر چاہتی ہو تو بے شك اللّٰہ تعالیٰ نے تم میں نیكی كرنے والیوں كے لئے اجر عظیم تیار كیا ہے)۔ اِس آیت كریمہ میں رسول اللّٰہ ﷺ كی چاہت اور محبت پر اجر عظیم كا وعدہ فرمایا جو محبت رسول ﷺ كے لئے كمال عظمت و اہمیت كی دلیل ہے۔
اہل مدینہ اور كل انصار و مہاجرین كے لیے سورئہ توبہ میں ارشادِ خداوندی نازل ہوا كہ مدینے والوں اور مہاجرین و انصار كو ہرگز لائق نہیں كہ وہ اللّٰہ كے رسول سے پیچھے رہیں اور نہ یہ كہ ان كی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں یعنی اپنی جانوں كو حضور ﷺ كی جان پر فدا كر دیں۔ یہ كمال محبت رسول ہے، ﷺ۔
اس آیت كریمہ كے مضمون سے متفق علیہ حدیث كے مضمون كی واضح تائید ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: "لا یؤمن احدكم حتّی اكون احبّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔" اور صحیح بخاری كی ایك اور روایت میں "من نفسہٖ" كے الفاظ بھی وارد ہیں۔ یعنی تم میں سے كوئی بھی مومن نہیں ہو سكتا جب تك كہ میں اُس كے باپ اور بیٹے اور سب لوگوں سے اور اُس كی اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
ایك مرتبہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے عرض كیا كہ "حضور! آپ مجھے ہر چیز سے زِیادہ پیارے ہیں سوائے میرے جان كے۔" تو حضور ﷺ نے فرمایا كہ "جب تك میں كسی كی جان سے بھی زِیادہ اُس كا محبوب نہ ہو جاؤں وہ ہرگز كامل مومن نہیں ہو سكتا۔" تو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض كیا، "حضور! اُس ذات پاك كی قسم جس نے آپ پر قرآنِ كریم نازل فرمایا، آپ میری جان سے بھی زِیادہ مجھے محبوب ہیں۔ حضور نبی كریم ﷺ نے فرمایا، "اے عمر! اَب تمہارا اِیمان كامل ہوا۔" معلوم ہوا كہ ایمان كی بنیاد حب رسول ہے، ﷺ۔ بے شمار احادیثِ صحیحہ سے یہ مضمون ثابت ہے۔ بخوفِ طوالت اِسی پر اكتفا كرتا ہوں۔
اس كے بعد تعظیم و توقیر كی طرف آئیے۔ سورئہ فتح میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًاط (اے مسلمانو! تم اللّٰہ تعالیٰ كے رسول كی تعظیم و توقیر كرو اور اللّٰہ كی پاكی بیان كرو صبح و شام)۔ اس آیت كے مضمون كا تعلق بھی مومنین سے ہے، منافقین سے نہیں۔ قرآن و حدیث كی روشنی میں واضح ہوا كہ ایمان اور نفاق كے درمیان حَدِّ فاصل، رسول اللّٰہ ﷺ كی محبت اور تعظیم و توقیر ہے۔
رہا یہ امر كہ محبت و تعظیم كا تعلق قلب سے ہے اس كا اظہار بھی قول و عمل ہی سے ہو سكتا ہے۔ جیسا كہ "فَاتَّبِعُوْنِیْ"سے ظاہر ہے۔ تو اِس كا جواب یہ ہے كہ صرف اقوال و اعمال علامتِ محبت نہیں ہوتے ورنہ منافقین بھی اہلِ محبت میں شامل ہو كر مومن قرار پائیں گے۔ منافقین نے ہمیشہ اِیمان و محبت كے دعوے كے ساتھ ساتھ ظاہری اقوال و اعمال پر زور دِیا مگر محبت كی كوئی صحیح علامت اُن میں نہیں پائی گئی۔
قاضی عیاض رحمة اللّٰہ علیہ نے شفاء میں اور دِیگر علمائے اعلام نے حضور ﷺ كی محبت كی علامات بیان كرتے ہوئے لكھا ہے كہ حضور كا نامِ پاك سنتے ہی خشوع اور خضوع كی كیفیت طاری ہو جانا، حضور علیہ الصلوٰة والسلام كے فضائل و محامد سن كر خوش ہونا اور سننے والے پر خوشی و مسرت كے آثار ظاہر ہونا، حضور ﷺ كے محبّین اور آل و اصحاب سے محبت كرنا، حضور ﷺ كی لقاء كا مشتاق ہونا، حضور علیہ الصلوٰة والسلام كے نورانی شہر بلكہ ہر اُس چیز سے جس كی نسبت ذاتِ مقدسہ سے ہے، محبت كرنا، ہر حال میں اپنے آپ كو حضور علیہ الصلوٰة والسلام كی ولایت میں جاننا بلكہ اپنی جان كو حضور ﷺ كی مِلك سمجھنا، حضور ﷺ كے ساتھ محبت كی علامات ہیں۔
نبی كریم ﷺ كے ارشاد كی روشنی میں آپ كی محبت كی عظیم ترین علامت یہ ہے كہ دیكھنے والے كی آنكھ حضور علیہ الصلوٰة والسلام كی ذاتِ مقدسہ میں كوئی عیب نہ دیكھے اور سننے والے كا كان حضور پاك ﷺ كا كوئی عیب نہ سنے، محبت والی آنكھ محبوب میں كوئی عیب نہیں دیكھ سكتی اور محبت والاكان محبوب كا كوئی عیب نہیں سن سكتا۔ مسند احمد، ابو داوٗد اور تاریخ بخاری میں مرفوع حدیث وارد ہے: حبك الشی یعمی ویصم یعنی محبت، محبوب كا عیب دیكھنے سے آنكھ كو اندھا اور كان كو بہرا كر دیتی ہے۔
بے شك حضور ﷺ كی اطاعت اور اتباع آپ كی محبت كی قوی دلیل ہے لیكن صرف ظاہری قول و عمل اس كے لیے كافی نہیں جیسا كہ پہلے عرض كر چكا ہوں كہ ایسی صورت میں تمام منافقین حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام كے مطیع اور متبع سنّت قرار پائیں گے جو صراحةً باطل ہے۔ معلوم ہوا كہ اطاعت اور اتباع كے معنی یہ ہیں كہ جذبہ محبت سے سرشار ہو كر محبوب كی اداؤں كے سانچہ میں ڈھل جائے اور بہ تقاضائے محبت محبوب كے تقاضوں كے مطابق عمل كرے۔ محبت كے بغیر كسی كے قول و فعل كے مطابق عمل كرنا صرف نقالی ہے، اتباع نہیں۔
اس تفصیل سے اہلِ سنّت كا تشخص واضح ہو گیا كہ رسول اللّٰہ ﷺ كے عشق و محبت اور تعظیم و توقیر كی بنیاد پر طریقِ مسلوكِ فی الدین پر استقامت، سُنّیت كا امتیازی مقام ہے۔ تمام صحابہ، تابعین، آئمہ مجتہدین، محدّثین، اولیائے كرام اور علمائے اعلام و جملہ سلف صالحین سب كا یہی مسلك تھا اور اِسی لیے وہ سب اہلِ سنّت تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب كو اسی راہِ مستقیم پر قائم ركھے۔ آمین!
نظریہ پاكستان اور اس كا استحكام
كسی پاكستانی سے یہ حقیقت مخفی نہیں كہ صرف اِسلام ہی نظریہ پاكستان كی اساس ہے جس كا استحكام نظامِ مصطفےٰ كو نافذ كیے بغیر ناممكن ہے۔
قائد اعظم اور قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں كے متعلق ہمارا حسن ظن یہی ہے كہ اگر اُن كی زِندگی وفا كرتی تو وہ ضرور نظامِ مصطفےٰ نافذ كر دیتے۔ قائد اعظم نے بارہا اِس حقیقت كا اظہار كیا كہ پاكستان كے آئین كی بنیاد صرف اِسلام اور قرآن ہے۔ نوابزادہ لیاقت علی خاں نے "قرار دادِ مقاصد" پیش كر كے زرّیں كارنامہ انجام دِیا، وہ قرار دادِ مقاصد جسے پوری قوم ہدایت كا مینار سمجھتی ہے، مگر افسوس كہ قائد ملت كے بعد زمامِ اقتدار سنبھالنے والوں میں سے آج تك كسی نے اس ہدایت كے مینار سے روشنی حاصل نہیں كی۔
یہ حسن اتفاق ہے كہ ہماری اِس سُنّی كانفرنس كا پہلا دِن "یومِ قائد ملّت" ہے۔ میں اپنی قوم سے مخلصانہ گزارش كروں گا كہ نوابزادہ لیاقت علی خاں كے اِسلامی مشن كی تكمیل كے لیے كامیاب كوشش كریں اور اربابِ اقتدار سے دردمندانہ اپیل كروں گا كہ قائد ملّت كے اس قائم كردہ مینارِ ہدایت (قرار دادِ مقاصد) سے روشنی حاصل كریں۔
علماءِ اہلِ سنّت كا كردار
جب بھی قوم پر كوئی نازك وقت آیا اِسلام و مسلمین كے تحفظ كی خاطر علماء و مشائخ اہلِ سنّت سربكف میدانِ عمل میں نكل آئے۔
۱۸۵۷ء كی جنگِ آزادی میں جن اكابر علماء و مشائخ اہلِ سنّت نے انگریز كے خلاف جہاد كا فتویٰ صادر فرمایا اُن میں علامہ فضلِ حق خیر آبادی، مفتی عنایت احمد كاكوروی، مولانا كفایت علی كافی، مولانا احمد اللّٰہ شاہ مدراسی اور مولانا فضل رسول بدایونی پیش پیش تھے۔ یہی وہ بزرگانِ دِین تھے جن كی یلغار سے ایوانِ فرنگ میں تہلكہ مچ گیا۔ ان حضرات كا انگریز كے خلاف فتوائے جہاد صادر كرنا ہی تھا كہ انگریزوں نے اُنہیں سخت تكالیف پہنچانا شروع كر دِیں۔ مولانا كافی مراد آبادی اور مولانا فضلِ رسول بدایونی كو سرِ عام تختہ دار پر كھینچ دِیا گیا۔ علامہ فضلِ حق خیر آبادی اور مولانا مفتی عنایت احمد كاكوروی كو قید كر كے جزیرہ انڈیمان (كالے پانی) بھیج دِیا گیا اور ان كی حمایت كرنے والوں كو صرف اِس جرم كی پاداش میں گولیوں سے بھون دِیا گیا كہ اُنہوں نے اِن پیكرانِ حق و صداقت كا ساتھ دِیا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں كو اِس تحریكِ آزادی میں بظاہر ناكامی ہوئی مگر آگے چل كر انہی مبارك ہستیوں كی قربانیاں قیامِ پاكستان كا باعث بنیں۔
فاضل بریلوی اور دو قومی نظریہ
تحریكِ تركِ موالات كے پردے میں "ہندو مسلم بھائی بھائی" كا نعرہ لگانے والوں نے جب ہندو مسلم اتحاد اور باہمی مؤدّت و اشتراك كا ڈھونگ رچا كر "ایك قومی نظریہ" كا پرچار كیا تو اعلیٰحضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللّٰہ علیہ نے اس كے خلاف "الحجة المؤتمنہ" كے عنوان سے ایك تاریخی فتویٰ جاری فرما كر اِس گمراہ كُن نظریئے كا رَدِّ بلیغ فرمایا۔ اعلیٰحضرت كے طویل فتویٰ كا خلاصہ یہ ہے:
"ہندو كی غلامی، مسلمان كے لیے اِنتہائی بے غیرتی ہے۔ ہندو ناپاك ہے، مسلمان پاك۔ اِن دونوں كا آپس میں اتحاد و اشتراكِ عمل كیونكر ہو سكتا ہے۔"
اعلیٰحضرت نے اِس فتویٰ میں نہایت حُسن و خوبی اور جامعیت كے ساتھ "دو قومی نظریہ" پیش فرمایا اور اسی نظریئے كی بنیاد پر پاكستان قائم ہوا۔
بنارس سُنّی كانفرنس
ہندو كے ساتھ اتحادِ عمل ركھنے والے "ایك قومی نظریئے" كی حمایت اور قیامِ پاكستان كی مخالفت میں سر دھڑ كی بازی لگائے ہوئے تھے۔ اِسی بنا پر وہ "قائد اعظم" اور "مسلم لیگ" كے بھی سخت مخالف تھے۔
اِس نازك مرحلے پر اعلیٰحضرت فاضل بریلوی كے دیئے ہوئے "دو قومی نظریئے" كو لے كر علماء و مشائخ اہلِ سنّت اپنے بزرگوں كی سابقہ روایات كے مطابق میدانِ عمل میں نكل آئے اور قیامِ پاكستان كی حمایت كے لیے ۱۹۴۶؁ء میں اُنہوں نے "بنارس آل اِنڈیا سنّی كانفرنس" منعقد كی۔ اِس كانفرنس كے سرپرست امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری تھے اور محرّك حضرت علامہ سید محمد محدث كچھوچھوی، ناظم اعلیٰ صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی اور اُس كے رُوح و رواں حضرت شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی و مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطفےٰ رضا خان بریلوی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مولانا محمد عمر نعیمی، مولانا عبد الغفور ہزاروی، علامہ سید ابو البركات اور مفتی ظفر علی نعمانی تھے۔ حضرت پیر بھر چونڈی كی معیت میں فقیر بھی اس تاریخی كانفرنس میں حاضر تھا۔ اس كانفرنس میں پانچ ہزار سے زیادہ علماء و مشائخ اہلِ سنّت نے شركت فرما كر "مطالبہ پاكستان" كی زبردست حمایت كی اور برصغیر پاك و ہند كے دور دراز علاقوں كا طویل دورہ كر كے قوم میں بیداری كی لہر دوڑا دِی۔ سب نے قائد اعظم كی آواز پر لبیك كہہ كر مسلم لیگ كی حمایت كے لیے شب و روز كام كیا۔ بالآخر پاكستان كی صورت میں ایك عظیم اِسلامی مملكت دُنیا كے نقشے پر اُبھر آئی۔
تحریكِ ختم نبوت
تحریكِ ختم نبوت كا سہرا بھی جماعت اہلِ سنّت كے سر ہے۔ آل پاكستان مجلسِ عمل كے صدر علامہ سید ابو الحسنات، اُن كے صاحبزادے مولانا امین الحسنات سید خلیل احمد، مولانا محمود احمد رِضوی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا عبد الستار خاں نیازی كا مركزی كردار، اِن عاشقانِ بارگاہِ ختم نبوت كی قید و بند كی صعوبتیں، عوامِ اہلِ سنّت كا سینوں پر گولیاں كھا كر شہید ہونا اور جیلوں میں جانا كسی سے مخفی نہیں۔اِس تحریك كا ایك عظیم مركز ملتان بھی جس كی مجلسِ عمل كی صدارت كے فرائض خود اس فقیر نے انجام دِیئے۔ دیگر مكاتب فكر كے اكابر بھی اس تحریك میں شامل تھے لیكن اس تحریك كی قیادت اور عوامی قوت كی سعادت سوادِ اعظم اہلِ سنّت ہی كو نصیب ہوئی۔ بظاہر اُس وقت كامیابی نہ ہوئی لیكن بالآخر مرزائیوں كا "غیر مسلم اقلیت" قرار پانا اسی تحریك كا نتیجہ ہے۔
ٹوبہ كانفرنس
؁ء 1970میں ایك كمیونسٹ لیڈر نے ٹوبہ ٹیك سنگھ میں جب نام نہاد "كسان كانفرنس" سے خطاب كرتے ہوئے ملك میں "سرخ انقلاب" لانے اور "گھیراؤ جلاؤ" كی تحریك چلانے كی دھمكی دے كر ملكی امن و امان كو درہم برہم كرنے كی ناكام كوشش كی اور دُوسری طرف مٹھی بھر لوگوں كی "اِسلامی سوشلزم" كی گمراہ كُن اصطلاح نے جلتی پر تیل كا كام كیا تو نتیجے میں علماء و مشائخ نے اپنے اسلاف كی روایات كے مطابق سرخ سامراج كو شكست دینے كے لیے دار السلام (ٹوبہ) میں آل پاكستان سنّی كانفرنس منعقد كر كے ملت كی صحیح رہنمائی كی۔ اس تاریخی كانفرنس نے كمیونسٹوں اور سوشلسٹوں كا زور توڑ دِیا۔
تحریك نظامِ مصطفےٰ
قوم كو "نظامِ مصطفےٰ" كا نعرہ جماعت اہلِ سنّت نے دِیا۔ یہ صحیح ہے كہ اس میں دُوسری جماعتیں بھی اپنے مقاصد كو لے كر شامل ہوئیں مگر صرف اور صرف "نظامِ مصطفےٰ" كی بنیاد پر اس ملك گیر تحریك كو چلانا اور تائیدِ ایزدی سے اسے كامیابی كے مرحلے پر پہنچانا سوادِ اعظم اہلِ سنّت ہی كا وہ عظیم كارنامہ ہے جسے تاریخِ پاكستان میں زرّیں حروف سے لكھا جائے گا۔
پاكستان كے سب سے بڑے شہر كراچی سے قائد اہلسنّت علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ عبد المصطفےٰ الازہری، پروفیسر شاہ فرید الحق، ظہور الحسن بھوپالی اور مولانا محمد حسن حقانی كی زیر قیادت نظامِ مصطفےٰ كی یہ تحریك جس زور و شور سے اُٹھی اور سارے ملك میں پھیل گئی، روزِ روشن كی طرح واضح ہے۔اس ہمہ گیر تحریك میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مشوری، مولانا عبد الستار خاں نیازی، پیر محمد كرم شاہ بھیروی، علامہ سید عبد القادر گیلانی، ملك محمد اكبر ساقی، مولانا غلام علی اوكاڑوی، مفتی محمد مختار احمد گجراتی، حافظ مولانا محمد عالم (سیالكوٹی)، قاضی محمد فضل رسول اور الحاج مولانا فضل كریم، حاجی لطیف احمد چشتی اور اُن كے صاحبزادے امجد چشتی، قاری عبد الحمید، مفتی محمد حسین، مولانا سید اقبال حسین صاحبان نے مجاہدانہ شان سے مركزی كردار ادا كیا۔
جہاں تك تحریكِ نظامِ مصطفےٰ كی قوت و شدت كا تعلق ہے اس كے اعتبار سے ملتان كو منفرد مقام حاصل رہا۔جس كی قیادت حضرت پیر طریقت مولانا حامد علی خان صاحب نے فرمائی اور موصوف كی قیادت میں تمام مقامی و مہاجر اور ہر طبقہ كے اہلِ سنّت علماء،وكلاء، طلباء،مزدور اور تاجر وغیرہم، سب نے نظامِ مصطفےٰ كی بنیاد پر اس تحریك میں عظیم قربانیاں دِیں، بہت سے لوگ شہید ہوئے اور جیلوں میں گئے بالخصوص رُہتك كے جانباز اور جیالے سُنّیوں نے بے مثال كردار ادا كیا، سینوں پر گولیاں كھائیں اور جیلوں كو بھر دِیا۔ سوادِ اعظم اہلسنّت كے ان تمام مجاہدین كا یہ مثالی كردار پاكستان كی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔
اختتامیہ
آج ہمارا ملك بحران سے دوچار ہے۔ ایك طرف الحاد و لادینیت كا سیلِ رواں اسلامی اقدار كو خس و خاشاك كی طرح بہائے لیے جا رہا ہے، دُوسری طرف تحریكِ پاكستان كے مخالفین نے اپنے سیاہ ماضی كی روایات دُہرا كر ملك و ملت اور مسلكِ اہلسنّت كو نقصان پہنچانے میں گٹھ جوڑ كر لیا ہے۔ اِن تمام سازشوں كا مقابلہ كرنے كے لیے "بنارس" اور "دار السلام" ٹوبہ سُنّی كانفرنس كی نہج پر ملتان میں یہ "كُل پاكستان سُنّی كانفرنس" منعقد كی گئی ہے۔
وقت كے تقاضے
ملّت كی تعمیر اور قوم كی فلاح و بہبود كے ضمن میں ہماری نظر صرف ماضی تك محدود رہی۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور پیش آنے والے مسائل كی طرف ہماری توجہ آج تك مبذول نہیں ہوئی۔ موجودہ دور كے تغیرات ہمیں مجبور كرتے ہیں كہ ہم پوری علمی بصیرت سے حالات كا تجزیہ كریں۔ حال و مستقبل كے تقاضوں كو سمجھیں اور اُن كو پورا كرنے كی كامیاب جدوجہد كریں۔
علماءِ اہلِ سنّت كی خدمت میں مخلصانہ گزارش ہے كہ وہ علماءِ سلف كی سیرت كو سامنے ركھیں۔ وہ دیكھیں كہ كس طرح علماءِ سابقین نے دُنیوی شہرت اور مال و منال كی طمع سے بالاتر ہو كر علومِ دِین كی خدمت انجام دِی۔ كسی نے تجارت كر كے روزی كمائی، كسی نے كمبل اور پوستین بنا كر، كسی نے مٹی كے برتن تیار كر كے، كسی نے سركہ بیچ كر اور بعض نے جوتے سی كر اپنا پیٹ پالااور بے لوث ہو كر علم كو پھیلایا اور اُس كی نشر و اِشاعت كی۔ اِس دَور میں اُن حضرات كی مثال نہیں ملتی۔ میں خود اپنے گریبان میں منہ ڈال كر شرمندہ ہوتا ہوں، تاہم یہ ضروری ہے كہ ہر عالمِ دِین اپنے دِل میں خوف و خشیّتِ اِلٰہیّہ پیدا كرے اور ذاتی و دُنیوی مفادات سے بے نیاز ہو كر تعلیم دِین كے فرائض سرانجام دے۔ سورئہ فاطر میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ط اور صحیح بخاری میں رسول اللّٰہ ﷺ كا فرمان وارد ہے: انا اعلمكم باللہ واخشٰكم منہ۔
حسد اور باہمی منافرت علماء كے طبقے میں سب سے زِیادہ پائی جاتی ہے۔ یہی، افتراقِ اُمت كا سب سے بڑا سبب ہے۔ جس كی بنیاد "انانیت" ہے۔"سُنّی علماء ان اولیائے كرام كے مشن كو قوم كے سامنے ركھنے كے مدعی ہیں جنہوں نے "انانیت" كو فنا كر دیا تھا۔ایسی صورت میں انہیں لازم ہے كہ وہ اپنی "انا" كو فنا كر كے آپس میں كمالِ محبت و اخلاص كا جذبہ پیدا كریں۔
حضرات مشائخ كرام جن اولیائے كرام كے سجادہ نشین ہیں اُن كے فقر و زُہد، علم و معرفت، تقویٰ و طہارت، عبادت و ریاضت، رُوحانیت اور خدمت خلق كو اپنائیں، اس كے بغیر اولیائے كرام كی نیابت اور اُن كی سجادگی كا كوئی تصور پیدا نہیں ہو سكتا۔
سجادگانِ كرام، مال و دولت اور دُنیوی عزت كو اپنے عظیم منصب كا بنیادی نقطہ نہ سمجھیں۔ اپنے اسلاف كو دیكھیں، ان كے پاس علم و معرفت اور زُہد و فقر كی دولت كے سوا كیا تھا؟ تاریخ شاہد ہے كہ امراؤ سلاطینِ زمانہ اُن كی غلامی كو اپنے لیے باعثِ عزّ و شرف سمجھتے تھے۔ آپ حضرات كو بھی اُنہی كے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔
قدیم و جدید ماہرینِ تعلیم اور دانشورانِ اہلسنّت كی خدمت میں عرض كروں گا كہ اس دور میں اُن كا اہم فریضہ یہ ہے كہ وہ نصابِ تعلیم میں اِسلامی رُوح پیدا كریں۔علومِ جدیدہ كو اِسلامی علومِ قدیمہ سے ہم آہنگ كرنے كی بھرپور كوشش فرمائیں۔ اس كام میں اپنی پوری علمی بصیرت سے كام لیں۔ اس بنیاد پر قوم كے تعاون سے تصنیف و تالیف كے ادارے قائم كریں۔
اہلِ ثروت تاجروں، زمینداروں، امیروں اور تمام مخیّر اہلسنّت حضرات كا فرض ہے كہ وہ تمام تعمیری كاموں میں مخلصانہ طور پر بھرپور مالی تعاون فرمائیں كیونكہ اس كے بغیر یہ كام پایہ تكمیل تك نہیں پہنچ سكتے۔
اِسلام نے اِنسانی معاشرہ میں عورت كو بلند مقام عطا فرمایا ہے۔ نسلِ اِنسانی كی فلاح و بہبود كی ضامن عورت ہے۔ بچے كی تعلیم و تربیت كا پہلا مرحلہ آغوشِ مادر ہے، اس كے بعد گھریلو ماحول، ان دونوں كے بعد مكتب یا مدرسہ ہے۔
شرم و حیا، عفت و عصمت عورتوں كے بنیادی محاسن ہیں۔ازواجِ مطہرات، اہلِ بیتِ اطہار، اور خیر القرون میں خواتینِ اِسلام نے پردہ میں رہ كر خدا اور اُس كے رسول كی رضا كے لیے اِسلام كی جو بے مثال خدمات انجام دیں، تاریخِ اِسلام ان پر شاہد ہے۔ اِس لیے خواتینِ اہلسنّت اور بناتِ اِسلام كے لیے میرا یہ پیغام ہے كہ وہ اپنی سابقہ روایات كو زِندہ كریں۔
اس موقع پر میں اپنے اہلسنّت عزیز طلبہ كو نہیں بھول سكتا۔ میں سمجھتا ہوں كہ طلبہ پوری قوم كا متاعِ عزیز ہیں۔ ان كے لیے میرا یہ پیغام ہے كہ وہ بے سُود ہنگامہ آرائی سے بچیں۔ تعلیم كی طرف پوری طرح متوجہ ہوں، علم و عمل كے میدان میں زبان سے زِیادہ قلم میں زور پیدا كریں۔ مسلك كی بنیاد پر اپنی تنظیم كا دائرہ وسیع كریں اور اسے بہت زیادہ مستحكم بنائیں۔
راہنمایانِ اہلِ سنّت كی خدمت میں گزارش كروں گا كہ سوادِ اعظم اہلسنّت كا مكمل اعتماد آپ كو حاصل ہے۔ ہر سنّی، ہر وقت آپ كی آواز پر لبیك كہنے كے لیے تیار ہے۔
یہ صحیح ہے كہ آپ حضرات نے اب تك اہلسنّت كے اعتماد كو ٹھیس نہیں پہنچائی لیكن اس كے باوجود نہایت ادب سے عرض كروں گا، جو سُنّی صاحب فہم و فراست آپ كی رفاقت میں دِیانت و اخلاص كے ساتھ كام كرنے كی صلاحیت ركھتا ہو، آپ ضرور اُسے اعتماد میں لیں اور ایسے سب رفقاءِ كار كی عقل و خرد كی روشنی میں وقت كے تقاضوں اور مستقبل میں پیش آنے والے حالات كا صحیح جائزہ لیں اور پوری قوت و ہمت اور كامل بصیرت كے ساتھ اہلسنّت كی رہنمائی فرمائیں۔ آپ كی معمولی سی لغزش پوری جماعت اور كُل سوادِ اعظم كے لیے خطرناك ثابت ہو سكتی ہے۔ اِس لیے كمالِ حزم و احتیاط كو ہمیشہ ملحوظ ركھیں اور اپنی ذِمہ داریوں كی اہمیت كے احساس سے كسی وقت بھی غافل نہ ہوں۔
نیز یہ كہ پاكستان بنانے والے بھی آپ ہیں اِس لیے اِس كی حفاظت كا احساس سب سے زِیادہ آپ ہی كو ہو سكتا ہے۔ ملك كو ایسے حالات سے بچائیے جو ملكی سالمیت كے لیے مضر ہوں۔ حكومت كے اچھے كاموں كے ساتھ تعاون كیجیے اور اس كی غلط روی پر گرفت سے ہرگز دریغ نہ فرمائیے لیكن تنقید برائے تنقید كسی حال میں مفید نہیں۔
آخر میں اربابِ اقتدار كی خدمت میں عرض كروں گا كہ اقتدار آنے جانے والی چیز ہے اس كے نشے میں سرشار ہو كر ملك كی اكثریتِ عظیمہ كو نظر انداز كر دینا قرینِ مصلحت ہے نہ مقتضائے انصاف۔ میں پورے وثوق كے ساتھ اربابِ حكومت سے عرض كرتا ہوں كہ سوادِ اعظم اہلسنّت پاكستانی مسلمانوں كی اسّی فیصد آبادی ہے۔ اگر اس كے مذہبی حقوق كو پامال كیا گیا مثلاً "الصّلاة والسّلام علیك یا رسُول اللہ" كہنے پر كسی قسم كی پابندی لگائی گئی یا خطباء و علماءِ اہلسنّت كو ٹھیس پہنچائی گئی تو سوادِ اعظم اہلسنّت ہرگز اس كو برداشت نہ كریں گے اور اس كے نتائج كی تمام تر ذِمہ داری اربابِ اقتدار پر ہو گی۔
اپیل
میرے محترم سُنّی بھائیو!
میں آپ سب كا ادنیٰ خادم ہونے كی حیثیت سے دردمندانہ اپیل كرتا ہوں كہ ملك كے گوشے گوشے میں جماعت اہلسنّت كی تنظیموں كو مستحكم كیجیے، ہر تنظیم كی مجلسِ شوریٰ كا كم از كم پندرہ روزہ اجلاس منعقد كر كے مركز كو اس كی رپورٹ بھیجیے اور مركز كی ہدایات و تجاویز كو عملی جامہ پہنائیے۔ مركز سے آپ كا مستحكم رابطہ نہایت ضروری ہے۔
عہد واثِق
آپ سب اقامتِ صلوٰة اور ادائے زكوٰة كا نظام اپنے اوپر جاری كرنے یعنی پابندی كے ساتھ نماز پڑھنے اور صحیح طور پر زكوٰة ادا كرنے كا پكا عہد كریں۔ اور حُسنِ اخلاق كو اپنائیں، اپنے مسلك اور ملك و ملت كی فلاح كے لیے كسی قسم كی قربانی اور ایثار سے دریغ نہ كریں اور ہر ایك كو یہی پیغام نرمی اور حُسن و خوبی كے ساتھ پہنچائیں۔ خود بھی برائی سے بچیں اور دُوسروں كو بھی برائی سے بچائیں۔ آپ بھی نیكی كریں اور دُوسروں كو بھی بھلائی كی ترغیب دیں۔ میں خود بھی آپ كے ساتھ اِس عہد میں شریك ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب كو یہ عہد پورا كرنے كی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین!
بزرگانِ ملت اور سُنّی بھائیو! اگر ہم سب نے اِس عہد كو پورا كیا اور "جماعت اہلسنّت" كی تنظیم كو وسیع سے وسیع تر كرنے اور اس كے استحكام میں پوری طرح كامیاب ہو گئے تو یقین كیجیے كہ اِن شاء اللّٰہ تعالےٰ آپ كی یہ خالص مذہبی تنظیم لوگوں كی سیاسی تنظیموں سے بہت زِیادہ ملك و ملت كے لیے مفید ثابت ہو گی اور "اہلسنّت سوادِ اعظم" كی یہ خالص مذہبی جماعت پاكستان میں سب سے زِیادہ عظیم طاقت بن كر اُبھرے گی اور اس وقت آپ دُشمنانِ نظریہ پاكستان كو للكار كر كہہ سكیں گے ع

دُور ہٹو اے دُشمن ملت پاكستان ہمارا ہے

اِسلام زِندہ باد
پاكستان پائندہ باد

سید احمد سعید كاظمی
۱۶ اكتوبر ۱۹۷۸ء

No comments:

Post a Comment

پیچھے اِس امام کے ، منصبِ امامت اور امام کا مقام و مرتبہ

پیچھے اِس امام کے ، منصبِ امامت اور امام کا مقام و مرتبہ محترم قارئین کرام : ہر صاحبِ عقل جانتا ہے کہ جس کو اپنا امام ، بڑا ، لیڈر یا امیر م...