۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
تَرَکْتُ فِيکُمْ اَمْرَيْنِ لَن تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُم بِهِمَا: کِتَابَ اﷲِ وَ سُنَّةَ نَبِيِّهِ.
(امام مالک، الموطا، 2/ 899، الرقم: 1594)
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے، (وہ) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔‘‘
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يَااَيُّهَاالنَّاسُ! اِنِّیْ قَدْتَرَکْتُ فِيْکُمْ الثَّقَلَيْنِ، کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّتِيْ، فَاسْتَنْطِقُوْاالْقُرْآنَ بِسُنَّتِيْ، وَلَا تَعْسَفُوْهُ، فَاِنَّهُ لَنْ تَعْمَیْ اَبْصَارُکُمْ، وَلَنْ تَزِلَّ اَقْدَامُکُمْ وَلَنْ تُقَصِّرَ اَيْدِيْکُمْ مَااَخَذْتُمْ بِهِمَا.
(الخطيب البغدادی،الفقيه والمتفقه1/275،حدیث رقم276)
’’اے لوگو! میں تم میں دو بڑی قیمتی چیزیں چھوڑ رہاہوں۔ (وہ) اللہ کی کتاب او رمیری سنت ہے، تم قرآن مجیہد کے مطالب میری سنت کے ذریعے سمجھو، اور قرآن فہمی میں تکلف نہ برتو (یعنی گھما پھرا کر اپنی مرضی کا مطلب نہ نکالو) (اگر تم نے قرآن وسنت کو تھام لیا تو) تمہاری نگاہیں (حق کو پہچاننے سے) قاصر نہیں رہیں گی، اور تمہارے قدم (راہِ حق سے) نہیں پھسلیں گے اور تمہارے ہاتھ(کارخیر کی انجام دہی میں) ہرگز کوتاہی نہیں کریں گے‘‘۔
ان ارشادات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید اگرچہ کتاب ہدایت ہے لیکن سنت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کے بغیر قرآنی ہدایات اور احکامات کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا بڑا دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ قرآن مجید میں دین کی اساسی تعلیمات اور کلیات بیان ہوئی ہیں، ان کی تفصیلات ہمیں احادیث مبارکہ میں اور اس کی عملی تشکیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم میں ملتی ہے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم محض پیغام رساں نہ تھے بلکہ آپ امت کے معلم و مربی بھی تھے اور احکامات الہٰی کی قولاً و عملاً توضیح و تشریح پر بھی آپ مامور من اللہ تھے۔ آپ کا ہر ہر عمل قرآن مجید کے احکامات کی عملی تفسیر اور تشریح تھا۔
مثلا قرآن مجید میں اقیمو الصلوۃ کہہ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن نماز کو ادا کیسے کرنا ہے؟ ہر نماز کی رکعات کتنی ہیں’ نماز میں قیام، رکوع اور سجود کیسے کرنا ہے؟ اس کی تفصیلات ہمیں قرآن مجید میں نہیںملتیں۔ قرآن مجید نے ان تفصیلات کو معلوم کرنے اور سمجھنے کے لئے حتمی راستہ بھی دکھادیا، فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(الاحزاب، 33:21)
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (a کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے۔‘‘
سورۃ آل عمران کی آیت 31میں فرمایا:
اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
’’اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا ‘‘۔
اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
صَلُّوا کَمَا رَأيْتُمُوْنِی أصَلِّی
’’تم بھی ویسے ہی نماز ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘
معلوم ہوا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم قرآن مجید کے احکامات کی عملی تشریح کرتی ہے۔ لہذا قرآن مجید کا صحیح فہم اور اس کے احکامات پر عمل کرنا سنت اور ارشادات رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ یہ مسلّم حقیقت ہے کہ قرآن مجید کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ارشادات عالیہ شریعت اسلامیہ اور اسلامی قانون سازی کا بنیادی ماخذ ہیں۔ اس پر قرآن مجید کئی آیات میں وضاحت سے فرمادیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو امت مسلمہ کے لیے اسوہِ حسنہ قرار دے دیا گیا۔ لہٰذا فہم قرآن حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کیئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ قرآن فہمی کے لیئے امت مسلمہ حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی توضیحات و تشریحات کی محتاج ہے۔
سنت رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم قرآن مجید سے مل کر اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ قوانین اور ہدایات کی عملی تشکیل کرتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
سنت اور حدیث سے صحابہ کی محبت
ایک طرف خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ فرماکر قرآن مجید کی تعلیم اور حفاظت کا انتظام فرمایا تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو احادیث مبارکہ کے حفظ و ضبط اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
نَضَّرَ اﷲُ اِمْراً سَمِعَ مَقَالَتِی فَحَفِظَهَا وَ وَعَهَا وَ اَدَّاها کَما سَمِعَ
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو شاداب اور تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی، اسے یاد رکھا اور محفوظ کرلیا اور جیسا سنا تھا ویسا ہی آگے پہنچا دیا‘‘۔
اسی تلقین اور تشویق کا اثر تھا کہ صحابہ کرام آپ کی گفتگو بڑی توجہ سے سنتے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کے ارشادات اور معمولات سے آگاہی حاصل کرنے کے اتنے مشتاق تھے کہ اگر کسی دن سفر یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے کوئی صحابی بارگاہ رسالت میں حاضر نہ ہوسکتے، تو شرفِ باریابی پانے والے کسی دوسرے صحابی سے حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی اس دن کی مصروفیات اور ارشادات کے بارے میں سن کر اپنی معلومات update رکھتے، تاکہ حضور کے کسی حکم کی تعمیل میں کہیں کوئی تاخیر یا کوتاہی سرزد نہ ہوجائے۔ اس کے علاوہ کتابت سے آشنا صحابہ کرام احادیث مبارکہ اور آپ کی مجلس میں پیش آمدہ حالات وواقعات کو لکھنے کا اہتمام بھی کرتے تھے کیونکہ وہ اپنی یہ ذمہ داری سمجھتے تھے کہ بعد میں آنے والوں کو رحمۃ للعالمین کے حالات مبارکہ اور آپ کی ہدایات وتعلیمات پہنچ جائیں۔ چنانچہ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کی تحقیق کے مطابق احادیث مبارکہ لکھنے والے صحابہ کرام کی تعداد 1580 سے متجاوز تھی۔
مدینہ منورہ سے دور دراز کے قبائل بھی حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں وفود بھیجتے رہتے تھے تاکہ وہ حضور سے دین سیکھ کر واپس آئیں اور قبیلہ والوں کیلئے معلم و مربی ہونے کا فریضہ سر انجام دیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کے وصال کے بعد وہ صحابہ کرام جو کم عمر تھے اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم سے زیادہ مستفید نہ ہوسکے تھے، عمر رسیدہ صحابہ کرام کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے حضور کی باتیں سن کر لکھ لیتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ حضور کے وصال کے وقت ان کی عمر تیرہ سال تھی، چونکہ حضور کی صحبت میں کم وقت گزرا تھا، اس لیئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ سننے بزرگ صحابہ کے ہاں جایا کرتے، اگر کوئی بزرگ صحابی سو رہے ہوتے، تو انہیں جگانے کی بجائے ان کی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے۔ بسا اوقات دھوپ کی شدت برداشت کرتے، سرِ راہ بیٹھنے کی وجہ سے گرد و غبار سے جسم اَٹ بھی جاتا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی محبت اور شوقِ حدیث میں سب برداشت کرتے، اور جب وہ صحابی بیدار ہوتے تو ان سے حدیث سن کر ہی واپس آتے۔ بزرگ صحابہ ان سے کہا کرتے کہ آپ محبوبِ خدا کے چچا زاد بھائی ہیں، ہمیں یاد کیا ہوتا آپ نے خود کیوں زحمت اٹھائی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے میرا آنا ہی بنتا ہے کہ میں طالبِ علم ہوں۔
صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی نہیں، حدیث مبارکہ سننے کا ایسا اشتیاق کئی دیگر صحابہ کو بھی سرگرداں رکھتا تھا۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ شام میں مقیم ایک صحابی حضرت عبداللہ بن انیس انصاری رضی اللہ عنہ کو حقوق العباد کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ یاد ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ چونکہ وہ حدیث مبارکہ سن نہ سکے تھے۔ اس لئے ایک اونٹ خریدا، زاد راہ ساتھ لیا، صحرا، جنگل پہاڑ عبور کرتے ہوئے پورے مہینے کا سفر طے کر کے شام پہنچے اور حضرت عبداللہ بن انیس انصاری رضی اللہ عنہ سے حدیث مبارک سن کر واپس آئے۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ حدیث سنے بغیر اور دوسرے صحابی انہیں حدیث سنائے بغیر دنیا سے رخصت نہ ہوجائیں۔
سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ صرف ایک حدیثِ رسول کی خاطر مدینہ منورہ سے عازم مصر ہوئے اور طویل مسافت طے کر کے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مصر پہنچے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہِ راست اس حدیث شریف کے سننے والوں میں صرف عقبہ بن عامر ہی بقید حیات تھے، لہذا مصر میں ان سے حدیث شریف سن کر فوراً واپس مدینہ منورہ پلٹ آئے، نہ تو وہاں رکے اور نہ ہی حکومت میں موجود اپنے دوستوں سے ملاقات کی۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم سے صحابہ کرام کے اس شغف کو بعد کے ادوار میں مزید فروغ ملا اور محدثین نے اس روایت کو بام عروج تک پہنچا دیا، جس کے نتیجے میں امت کو صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ کے علاوہ موطا امام مالک ، مسند امام احمد اور کئی دیگر گرانقدر احادیث کے مجموعے نصیب ہوئے، جن سے مزید کئی علوم کے سوتے پھوٹتے رہے، اور ملت اسلامیہ کی راہیں روشن سے روشن تر ہوتی چلی گئیں۔
جلیل القدر محدثین نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کے اقوال و احوال پر مشتمل روایات کو جمع کرنے کے سلسلے میں بڑی صعوبتیں برداشت کیں، سینکڑوں اور ہزاروں میلوں کے سفر کر کے بے شمار اساتذہِ حدیث سے اکتساب علم کیا، ہزاروں لاکھوں صفحات پر مشتمل احادیث کے انمول ذخیرے جمع کیئے، اور ان کی تحقیق و تدوین کے بعد کتابیں مرتب کیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی محبت اور اتباع میں بلا شبہ دنیا و آخرت کی فلاح کا راز مضمر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی سنت کی پیروی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبوبیت سے سرفراز کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ھادی کامل صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کے اسوہ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے دنیا و عقبیٰ کی سرفرازیاں پاگئے۔ ان کے اتباع رسول کا ہی نتیجہ تھا کہ چودہ سو سال پہلے سر زمین عرب پر ایسا صالح معاشرہ قائم ہوگیا جو آسمان کے نیچے سب سے بہترین اور پسندیدہ معاشرہ تھا اسی لئے انہیں قرآن مجید میں رضی اللہ عنہم سے ملقب فرماکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشنودی کی سند عطاکردی گئی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے روز وشب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکباز لوگ عبادات اور معاملات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی اتباع تو کرتے ہی تھے اتفاقی امور میں بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی پیروی کو اپنے لئے سرمایہِ حیات اور ذریعہ نجات سمجھتے تھے۔ اس حوالے سے کتب حدیث میں بے شمار مثالیں ہیں، یہاں صرف ایک پر اکتفا کیا جاتا۔
ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ اونٹنی کی نکیل پکڑے اسے ایک ویران مکان کے گرد گھما رہے ہیں۔ لوگوں نے حیران ہو کر اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: میں نے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کو بھی اس جگہ ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ سبحان اللہ! یہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم سے حقیقی دلبستگی کا نتیجہ۔ دراصل صحابہ کرام نے آفتاب نبوت کی ایک ایک کرن کو اپنے قلب و نظر میں بسا لیا تھا۔ یہ کرنیں برق تپاں بن کر انہیں ہر سنت پر ہمہ وقت آمادہ عمل رکھتی تھیں۔
آج بے شمار لوگ سنت رسول صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی پیروی کا اہتمام کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ اہتمام عموماً داڑھی، لباس، خورد و نوش اور دیگر چند اعمال تک محدود رہتا ہے۔ ان کے علاوہ زندگی کے دیگر پہلووں سے تعلق رکھنے والی حضور کی بے شمار سنتیں شعوری یا غیر شعوری طور پر ہمارے دائرہ عمل سے باہر ہی رہتی ہیں۔
ہم مسواک کے ذریعے دانتوں کی صفائی کو تو سنت سمجھتے ہیں اور ہمیں یاد رہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن دانتوں کے پاس ہی موجود زبان کی طہارت کا ہمیں خیال نہیں آتا اور زبان کے استعمال کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم کی سنت اور آپ کے ارشادات ہمارے پیش نظر نہیں رہتے۔ ہم اپنے دسترخوانوں کو ان کھانوں سے سجانا سنت رسول کی پیروی سمجھتے ہیں، جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وۤآلہ وسلم نے تناول فرمایا اور پسند فرمایا، لیکن اپنے دسترخوانوں پر اپنے ساتھ ملازموں اور محروموں کو شریک کرنا ہمارے تصورِ سنت کے دائرے میں نہیں آتا۔
No comments:
Post a Comment