۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خُلقِ عظیم کا الوہی خطاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو خالق کائنات نے خود اسوۂ حسنہ کا ٹائٹل دیا ہے۔ پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے وَاِنَّکَ لَعَلی خُلِقٍ عَظِیم کے نہایت اعلیٰ کلمات سے نواز رکھا ہے جسکا معنی یہ ہے کہ محبوب! یہ کفار و مشرکین، معاندین و منافقین، حاسدین و ناقدین آپ کو جو چاہیں کہتے پھریں، یہ تو ان کے بد باطن کا اظہار ہوگا۔ ان کی کم بختی بدنصیبی اور کج نگاہی کی دلیل ہوگی۔ ہاں میں ترا رب ہوں تراخالق و مالک ہوں، جس طرح میری ذات ازلی اور ابدی ہے اسی طرح میری صفات بھی ازلی اور ابدی ہیں۔ محبوب! لوگ تجھے اپنے حسب حال اچھا برا کہہ بھی دیں تو اس سے تجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن جب میں تجھے اتنے خوبصورت، شایان شان ٹائیٹل دے کر آیات قرآنی کا حصہ بنا رہا ہوں تو یہ القابات بھی اَزلی اور اَبدی ہوگئے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر لکھی جانے والی ہزاروں انسانی کتب خواہ وہ کسی بھی زبان میں، کسی بھی عہد میں لکھی گئی ہوں، نظم میں ہوں یا نثر میں وہ کسی عاشقِ صادق، امام، محدث اور مفکر کا خراجِ عقیدت ہوں یا کسی غیر مسلم دانش وَر کا خراجِ تحسین۔ اس سارے مواد کو ایک پلڑے میں جمع کرلیں اور اللہ جل مجدہ کا یہ ایک جملہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیم دوسرے پلڑے میں رکھ لیں قسم بخدا! جتنی جامعیت، جتنا اعتماد، جتنا وقار، جتنی قربت، جتنی پاکیزگی، جتنی طہارت، جتنی عظمت، جتنی رفعت، جتنی ندرت، جتنی نفاست، جتنی شان اور جتنا وزن اس ایک کلمہ الٰہی میں رکھ دیا گیا ہے پوری کائناتِ جن و انس کی مدح سرائی میں وہ قوت و تاثیر نہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرتا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے بنانے کی مکروہ کوشش کرتا ہے تو وہ آسمان پر تھوکتا ہے۔ غضب الہٰی کے علاوہ دنیا بھر کے اہل ایمان کی حقارت اور ملائکہ کی لعنت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اسلام اور سیرت طیبہ کے پیغام کو ’’پرامن‘‘ ثابت کرنے کے لئے آیات و احادیث کا حوالہ زیادہ نہیں دوں گا اس لئے کہ پوری سیرت اور پورا قرآن از اول تا آخر ہے ہی امن عالم کا پیغام۔ کیوں نہ ہوتا کہ یہ تو اس قادر مطلق رب کائنات کا آخری پیغام عافیت ہے جو اس نے اپنے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے کر پوری دنیائے انسانیت کی طرف بھیجا۔ پورا قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینکڑوں مجموعے ہمارے دعویٰ امن و رواداری کے امین ہیں۔ علاوہ ازیں اہل اسلام ائمہ، مشائخ اور اکابر کا عملی سلوک ہے جس کی گواہی تاریخ دے رہی ہے۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ ہماری تعلیمات اور ہماری تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں جس سے امن عالم تباہی کے گھاٹ اترا ہو۔ البتہ اس کے خلاف جنگ و جدل کا وا ویلا کرنے والوں پر فرض ہے کہ وہ مثالیں پیش کریں۔ ویسے بھی الدلیل علی المدعی کے اصول کے تحت دلائل دینا ہماری ذمہ داری نہیں بلکہ باطل پروپیگنڈہ کرنے والوں کی ہے۔ اس لئے میں یہاں مخالفین اسلام کے اعتراضات کا محاسبہ قرآن و حدیث کی بجائے انہی کے ہم مذہب دانش وروں کی زبان سے کررہا ہوں۔
غیر مسلموں کے اعترافات
میں یہاں چندنمائندہ غیر مسلم اہل علم کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنے ہم مذہب متعصب لوگوں کی اس روش پر کھل کر تنقید کی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسانیت نواز خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
1۔ تھامس کارلائل
اس سلسلے میں سب سے پہلے انیسویں صدی کے شہرہ آفاق مصنف، سماجی نقاد ’’تھامس کارلائل‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ یہ شخص برطانوی ادیب اور فلسفی تھا، اس نے انقلاب فرانس اور دنیا کی بڑی شخصیات پر معرکۃ الآراء کتب لکھیں۔ اس کی ایک مشہور کتاب The Hero and Hero Worships ہے جس کی قائداعظم نے بھی تعریف کی ہے۔ یہ ان لیکچرز کا مجموعہ ہے جو اس نے 1840ء میں دیئے۔ انہی لیکچرز میں سے ایک کا عنوان The Hero as Prophet Mohammad & Islam ہے۔ ذیل میں کارلائل کے چند اقتباسات اسی لیکچر سے ماخوذ ہیں۔ اس نے اپنی بات ہی یہاں سے شروع کی :
’’یورپ کے شمالی علاقوں سویڈن، ڈنمارک اور ناروے وغیرہ میں (جنہیں ہم سکینڈے نیوین ممالک کہتے ہیں) جب جہالت، ناشائستگی، بت پرستی و شرک اور لامذہبیت کا دور دورہ تھا اور انسان، بے سمت و بے لگام زندگی بسر کر رہے تھے۔ عرب ممالک میں اسی دور میں مذہب کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس سے میری مراد مسلمانوں کے پیغمبرِ برحق کی بعثت ہے۔ یورپ کی اس بے خدا تہذیب کے پس منظر میں دنیائے عرب میں ظہور اسلام کے زمانہ کے حالات پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایک بہت بڑی تبدیلی و تغیر کا احساس ہوگا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ ایک نئے دورکا آغاز تھا جس نے بنی نوع انسان کے حالات و خیالات میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا تھا اور جس کی بدولت انسان، سوچ کی نئی رفعتوں سے روشناس ہوگیا تھا۔ اس انقلاب کو برپا کرنے والی شخصیت (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے جو ایک مذہبی ہیرو کی حیثیت سے ظہورپذیر ہوئے۔ ان کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ وہ خدا ہیں اور نہ ہی ان کے پیروکاروں نے انہیں خدائی کا درجہ دیا تھا‘‘۔
No comments:
Post a Comment