Saturday, 6 December 2014

(2) محسن انسانیت کا پیغام محبت و امن آج سوالیہ نشان کیوں؟

(2) محسن انسانیت کا پیغام محبت و امن آج سوالیہ نشان کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام اور پیغمبر اسلام کی امن دوستی عالمی حقیقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک سوال ہے قیام امن اور رواداری کے متعلق اسلام اور اسوۂ حسنہ کی تعلیمات و تفصیلات کا تو میں یہاں قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام سے دلائل کے انبار لگانے کی بجائے صرف یہ کہنا ہی مناسب سمجھوں گا کہ اسلام ہے ہی امن کا دین اور ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات از اول تا آخر انسانیت پرور، رواداری اور امن و تحفظ کا عملی دستور ہیں۔ اس سے بڑی دلیل اور کون سی ہوگی کہ لفظ اسلام سلامتی سے اور لفظ ایمان ’’امن‘‘ سے ماخوذ ہے۔

صرف ایک مثال ہی دیکھ لیں کہ ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو اور تمہارا بہترین تحفہ یہ ہے کہ ( افشو السّلام بينکم) ایک دوسرے پر سلامتی بھیجا کرو۔ جس قوم میں سلامتی کا پیغام عام کرنا وجوب کی حد تک ہو اس سے زیادتی، ترش روئی اور دہشت گردی منسوب کرنا وقت کا سب سے بڑاجھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟

پیغمبر انسانیت، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑا انقلاب یہ لائے کہ انہوں نے صدیوں سے متحارب قوم کوبھائی بھائی بنادیا۔ قرآن نے اس کا اعلان یوں کیا :

وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا.

(آل عمران، 3 : 103)

’’اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں (اپنا رسول بھیج کر) اس گڑھے سے بچا لیا۔ ‘‘

تباہی کا یہ گڑھا شرک بھی تھا، ظلم و زیادتی بھی تھی، انسانی تذلیل بھی تھی اور باہمی جنگیں اور خون خرابے بھی تھے مثلاً اوس اور خزرج دو معروف قبائل تھے جن کے درمیان 300 سالوں سے جنگ جاری تھی۔ عرب سماج میں مردوں کو صرف اس لئے عورتوں پر ترجیح دی جاتی تھی کہ وہ جنگوں میں شامل ہوکر مخالفین کا خون بہانے میں زیادہ اہل ثابت ہوسکتے تھے۔ وہ عرب جن کی شاعری میں سب سے بڑی خوبی یہی سمجھی جاتی تھی کہ اس میں مخالف فریق کی بزدلی اور اپنے لوگوں کی بہادری کے لئے مبالغے کی حد تک بیان ہو۔ چنانچہ قدیم عربی شاعری کے معروف شعری مجموعے کا نام ہی ’’دیوان حماسہ‘‘ پڑھ گیا۔ جسکا معنی ہے ’’جنگ و جدل میں بہادری پر اکسانے والا مجموعۂ کلام‘‘۔ حالی نے اسی منظر کو شعری قالب میں بیان کیا ہے۔

مفاسد کو زیر وزبر کرنے والا
قبائل کو شِیر و شکر کرنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
وہ اک نسخۂ کیمیاء ساتھ لایا

دوسری جنگ عظیم کے دن تھے، پوری دنیا بارود اور آتشیں اسلحہ کے نشانے پر تھی، ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ ایٹم بم برسانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا تھا۔ دنیا ایک مہیب اور ڈراؤنے خوف میں مبتلا تھی۔ امن کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی۔ انسانی لاشوں پر ابلیس کا رقص جاری تھا، آدمیت کی اس بے بسی اور انسان کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے یورپ کے مشہور فلسفی اور ڈرامہ نگار برنارڈ شاہ نے کہا تھا :

’’آج اگر پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم مان لیا جائے اور ان کے پیغام امن کو اپنا لیا جائے تو امن قائم ہوسکتا ہے‘‘۔

آج دنیا پر خوف اور ہلاکت کے سائے پھر گہرے ہورہے ہیں۔ پوری دنیا کو فتح کرنے کے نشے میں جنونی مشیروں کی بدنام زمانہ ٹیم کے ہمراہ کروسیڈی بُش ہر سمت فساد برپا کئے بیٹھا ہے۔ مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک ہر جگہ اس کے گماشتے دندناتے پھرتے ہیں۔ اسے پوری دنیا میں اب صرف ایک رکاوٹ نظر آرہی ہے اور وہ ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا جذبہ ایمانی۔

ہاں وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو صرف مسلمانوں کے نہیں دنیا کے ہر مظلوم و مقہور شخص کی امید ہیں۔ ہر بیمار کے مسیحا اور ہر درد کی دوا ہیں۔ وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والے ہیں۔ ان کی بارشِ کرم سب پر برستی ہے۔ ان کی رحمت کا سائباں سب پر کشادہ ہے۔ اسی لئے غیر مسلم شاعر پنڈت رام پرتاب جالندھری نے کہا تھا :

مذہب کو زندگی کے عمل سے ملا دیا
ممنونِ التفات ہے امت جناب کی

میرے بھی حال زار پہ ہو، اک نگاہِ لطف
بگڑی بنانے والے! جہان خراب کی

ہم اس نبی رحمت رسولِ انسانیت، غمگسارِ بے کساں، شفیعِ مذنباں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور سنت کا کون کون سا گوشہ ملاحظہ کریں۔ وہ جب 12 سال کے تھے تو مکہ کی مظلوم عوام کے دکھوں میں شریک ہوئے، حلف الفضول سے لے کر تنصیبِ حجرِ اَسود کے واقعہ تک فساد اور خون خرابے کے امکانات کو کافور کرتے رہے۔ ۔ ۔ بعثت ہوئی تو کئی سال دارِ ارقم میں خاموش تبلیغ کو ترجیح دی۔ ۔ ۔ عرب عصبیت نے قبیلائی دشمنی کا رنگ اختیار کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے۔ ۔ ۔ پھر دعوت حق کے لئے طائف گئے تو خون آلود حالت میں بھی جبرئیل کی درخواست پر فرمایا : بعثت رحمۃ۔ ۔ ۔ قریش مکہ کی زیادتیاں بڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سمیت خاموشی سے ہجرت فرمالی۔ ۔ ۔ یثرب کو مدینہ بنایا تو وہاں جاتے ہی مواخات کے ذریعے مہاجر و انصار کو اخوت کے رشتے میں جوڑ دیا۔ ۔ ۔ ریاست مدینہ کے حاکم بنے تو یہود مدینہ کے ساتھ دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ فرمایا جس کی تمام شقیں امن و سلامتی سے متعلق تھیں۔ ۔ ۔ کفار مکہ حملہ آور ہوتے رہے تو آپ نے ہمیشہ دفاعی (Defenciv) پوزیشن میں جنگ لڑی۔ ان دفاعی جنگوں میں شمولیت بھی اتنی احتیاط اور اصولوں پر مبنی تھی کہ آپ دنیا کے پہلے حاکم اور سپہ سالار ہیں جنہوں نے جنگ کے اصول متعین فرمائے، ضابطے طے کئے اور بے قصور طبقات کے قتل عام سے منع فرمایا۔ ۔ ۔ صلح حدیبیہ میں بھی آپ نے بے مثال صبر و تحمل بردباری اور نظم و ضبط کا مظاہرہ فرماکر ہزاروں تلواریں گردنوں سے ہٹاکر نیام میں ڈال دیں اور۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب 10 سال قبل وطن مالوف سے تنگ کرکے نکالے گئے مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سربراہی میں 10 ہزار کے لشکر کے ساتھ دوبارہ مکہ لوٹ رہے تھے۔ ۔ ۔ مخالفین تھر تھر کانپ رہے تھے، کچھ اِدھر اُدھر بھاگ بھی گئے سب کو یقین تھا کہ ہر حاکم کی طرح عرب کا یہ فرماں روا بھی اپنے مخالفین سے قصاص لے گا۔ مکہ کے درودیوار مجرموں کے خون میں نہا جائیں گے۔ ۔ ۔ آج سب سے بڑے مخالف، تمام جنگوں میں سرپرستی کرنے والے، مکہ کی موثر ترین سیاسی شخصیت، ابوسفیان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکلی جارہی تھی۔ ۔ ۔ دوسرے معاند سردار ابوجہل کا بیٹا عکرمہ تو مکہ چھوڑ کر یمن چلا گیا۔ الغرض ہر شخص کو یقین تھا کہ روایتِ دنیا اور دستورِ عرب کے مطابق آج کئی گردنیں کٹیں گی مگر ان سب روایتوں اور انسان دشمن دستوروں کو پاؤں کے نیچے روندنے والا رسولِ رحمت سرجھکا کر اللہ کی حمد وثنا بیان کرتا ہوا جب مکہ میں داخل ہوا تو اس نے رحمت و شفقت کے دریا بہادیئے۔ آپ نے فاتحانہ استکبار کی جگہ پیغمبرانہ انکسار سے کام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن حکیم کی آیت پڑھی : لاتثریب علیکم الیوم۔ ’’آج تم میں سے کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال سیاسی حکمت اور تالیف قلب کا مظاہرہ فرمایا :

ایک دن پہلے تک اپنے سب سے بڑے جانی دشمن ابوسفیان کے گھر کو بھی دار الامن بنا دیا اور فرمایا : کعبۃ اللہ اور دار ابوسفیان میں پناہ لینے والا امان پائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ابوسفیان کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نہایت ہی محبوب دوست اور چچا سیدنا حمزہ ص کا کلیجہ چبانے والی ہندہ نقاب پہن کر آئی کہ مبادا مجھے پہچان کر غصے میں آجائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی نظر میں اسے پہچان لیا مگر اس تلخ واقعہ کا تذکرہ تک نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس اعلیٰ ظرفی اور تحمل سے متاثر ہوکر ہندہ خاتون نے کہا : ’’میرے نزدیک آج تک آپ کے خیمے سے بری جگہ دنیا میں کوئی نہیں تھی مگر بخدا آج کے بعد پوری دنیا میں سوائے آپ کی قیام گاہ کے کوئی جگہ مجھے اچھی محسوس نہیں ہورہی۔ ‘‘

عفو و درگزر کی یہ بارشیں برستی دیکھیں تو جملہ مخالفین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس امڈتے چلے آئے۔ جن میں عکرمہ بن ابوجہل بھی تھے۔ وہ آپ کی بارگاہ میں ایمان کے ارادے سے حاضر ہوئے تو انہیں دامن کرم میں سمیٹنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر بے قرار ہوئے کہ بدن مبارک سے چادر بھی گرگئی اور عکرمہ کو دلاسا دیتے ہوئے فرمایا : مرحبا یا راکب المسافر اے سفر کی تکلیف اٹھا کر اپنے گھر مکہ لوٹنے والے خوش آمدید! اس لمحے کی شفقتوں کو سمیٹ کر عکرمہ نے اسلام پر جانثاری کا حق ادا کردیا اور بقیہ زندگی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرح بہادر سپاہی کے طور پر جہاد میں وقف کردی اور اسلام کے نامور سپہ سالاروں میں نام لکھوایا۔

یہ تو مکہ کے ذی عقل لوگ تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عفو و کرم کی خیرات تو چرندوں پرندوں، اونٹنیوں اور ہرنیوں نے بھی سمیٹی، انسان تو انسان کائنات کے شجر و حجر آپ کے دامنِ لطف و کرم سے فیض حاصل کرتے رہے اور آج بھی پوری کائنات ان کے دستر خوانِ نعمت کی پروردہ ہے۔ ہم کون کون سی نعمت کو یاد کریں اور کس کس کرم نوازی کی بات کریں۔

No comments:

Post a Comment

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی سزائے قت...