Saturday, 6 December 2014

(1) محسن انسانیت ﷺ کا پیغام محبت و امن آج سوالیہ نشان کیوں؟

محسن انسانیت کا پیغام محبت و امن آج سوالیہ نشان کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بنیادی سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین محترم! اسلام دنیا کا سب سے بڑا عملی مذہب ہے۔ اس کے ماننے والے سوا ارب لوگ دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہیں یعنی دنیا میں موجود ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔ اس کے آغاز سے اب تک ساڑھے 14 صدیاں گزر چکی ہیں۔ یہ 5 درجن ممالک کا سرکاری مذہب ہے اور دنیا کی بیشتر ریاستوں میں مسلمان بھاری اکثریت سے آباد ہیں۔ اس تجزیے سے میں آپ کے سامنے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کوئی اجنبی تصور نہیں بلکہ مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی تعلیمات اس کی تاریخ اور اس کے پیغمبر محسنِ انسانیت ختم الرسل نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شخصی اور روحانی کمالات سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انفارمیشن کے انبار کی حامل اس دنیا میں ہمیں اس طرح کے سیمینار منعقد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیا ہم خود یا ہمارے مخالفین (غیر مسلم) اس حقیقت کو اب تک سمجھ نہیں پائے کہ دنیا کا واحد زندہ، محفوظ اور متحرک دین اپنی حقیقت و ماہیت میں کیا ہے؟ نیز آج ہم اس بات کی تشریح کے لئے کیوں جمع ہورہے ہیں کہ ہمارے آقا و مولا، ہمارے دلوں کی دھڑکن ہمارے ایمانوں کے محور اور ہمارے اعمال و افعال کے محرک، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی ’’پیغمبر امن و سلامتی‘‘ ہیں۔ حالانکہ رحمۃ للعالمین کا تاج کسی اور نے نہیں خود خالقِ ارض و سماء نے انہیں عطا کر رکھا ہے۔ یہ مقامِ غور اور لمحۂ فکریہ ہے کہ اتنا طویل سفر طے کرنے کے بعد آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا وہ پہلو زیر بحث لانے پر مجبور ہیں جس سے کفار مکہ بعثت سے پہلے بھی متعارف تھے، یعنی صادق اور امین۔ جس شخصیت کی سچائی اور امن پسندی کی گواہی اس کے جانی دشمن بھی دیتے ہوں آج 14 صدیوں بعد اس کے کلمہ گو افراد آخر کس وجہ سے اس موضوع پر لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سننے پر مجبور ہوئے ہیں؟

دو وجوہات

اگر آپ غور کریں تو ہمیں اس کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔

1. ہماری داخلی کیفیت
2. درپیش خارجی صورت حال

داخلی کیفیت سے مراد اہل اسلام کی باہمی تفرقہ پروری، مار دھاڑ، قتل و غارت گری اور فساد انگیزی ہے جس میں کم و بیش پورا عالم اسلام ہی شامل ہے۔ بین الممالک افتراق ہیں، بین المسالک اختلاف ہیں اور پھر ہر ملک کے اندر رہنے والے لوگ معمولی معمولی مسائل پر درجنوں گروپوں میں نہ صرف تقسیم ہیں بلکہ باہم دست و گریبان بھی ہیں۔

خارجی صورت حال سے مراد اسلام مخالف قوتوں کی دشمنی، مخالفانہ سازشیں اور عالمگیر منفی پروپیگنڈہ ہے۔ آج جب مسلمان ہر طرف سے غیروںکے ظلم و ستم کا شکار بھی ہورہے ہیں اوران پر الزام بھی لگ رہاہے کہ ’’وہ دہشت گرد ہیں ان کی تاریخ وحشیانہ مظالم سے بھری پڑی ہے، مسلمان محبت، مروت اور رواداری کے مفہوم سے آشنا ہی نہیں۔ اسلام جہاں جہاں بھی پھیلا وہ تلوارکے زور پر پھیلا‘‘۔ یورپ اور امریکہ کے دانشور یکے بعد دیگرے کتابیں لکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ پاپائے روم ( بینی ڈکٹ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتا ہے : ’’مسلمانوں نے دنیا میں ہمیشہ فتنے بپا کئے ہیں۔‘‘ امریکہ کے پادری اپنے چرچوں کے باہر یہ لکھ کر لگاتے ہیں کہ ’’قرآن مسلمانوں کو غیر مسلموں کے قتل پر اکساتا ہے اس لئے اسے تلف کردیا جائے‘‘۔ ۔ ۔ ان کی یہ ساری کاوشیں درحقیقت تاریخ کی سب سے بڑی سچائی کو جھٹلانے کے مترادف ہیں۔ بطور امت قومی اور ملی سطح پر۔ ۔ ۔ اور بطور مسلمان۔ ۔ ۔ انفرادی اور ذاتی سطح پر۔ ان دونوں محاذوں پر پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور سازشوں کا توڑ ہر فریق پر واجب ہے یہی وہ بڑا چیلنج ہے جو اس وقت اسلام کو ایک مرتبہ پھر درپیش ہے۔ ’’ایک مرتبہ پھر‘‘ کا لفظ میں نے عمداً اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہ نیا مسئلہ نہیں۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

اوپر بیان کی گئی دو وجوہات میں سے موخرالذکر وجہ (عالم کفر کی طرف سے پھیلائی جانے والی بدگمانیوں) پر ہم پہلے بات کرلیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی سزائے قت...