۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتے کی بات یہ ہے کہ تعظیم و تکریم اور ادب کا اصول کوئی نہیں سکھاتا، محبت خود سکھا دیتی ہے۔ محبت خود تعظیم و تکریم کے پیمانے وضع کر دیتی ہے۔ جتنے پیمانے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَدبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ملتے ہیں اُن کا کوئی حکم قرآن میں تھا نہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو جو تعظیم کی ہے، جس جس رنگ سے تعظیم کی ہے اُس کا حکم کہیں نہیں دیا گیا تھا۔
1۔ صحیح بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے۔ حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمِ خاص تھے - فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ چنانچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور کھڑے کھڑے ہم کو دیکھنے لگے۔ اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور قرآن کے اَوراق کی طرح (تاباں و درخشاں) معلوم ہوتا تھا۔ جماعت کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پُر اَنوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔
فَنَکَصَ أَبُوْ بَکْرٍ عَلَی عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجٌ إِلَی الصَّلَاةِ. فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْ أَتِمُّوْا صَلَاتَکُمْ. وَأَرْخَی السِّتْرَ، فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ.
بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1 : 240، رقم : 648
بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب هل يلتفت لأمر ينزل به، 1 : 262، رقم : 721
بخاری، الصحيح، کتاب التهجد، باب من رجع القهقري في صلاته، 1 : 403، رقم : 1147
بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي صلی الله عليه وآله وسلم ووفاقه، 4 : 1616، رقم : 4183
مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر وغيرهما من يصلي بالناس، 1 : 316، رقم : 419
’’اِس لئے انہوں نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر صف میں مل جانا چاہا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ نماز پوری کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اُسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رہے کہ امت اُس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اُس کا ایمان زندہ ہو گا، اور ایمان اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور ادب اور تعظیم و تکریم کو امت اپنے ایمان کا مدار بنائے گی۔ محبت اور تعظیم کے بغیر کبھی ایمان، ایمان نہیں بنتا اور اس ادب اور تعظیم و تکریم کے لیے محبت ہی خود اس کے آداب سکھاتی ہے۔ تو جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ ہٹایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کس نے کہا کہ حالتِ نماز میں چہرے پھیر کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تک لو؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کس نے کہا کہ مصليٰ چھوڑ کر نماز کی حالت میں پیچھے آ جائیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب میں مصليٰ چھوڑ کے پیچھے آنا کس نے سکھایا؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایسا کرو؟ نہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس دن بھی روک دیا، اندر چلے گئے۔ یہ محبت نے سکھایا تھا۔
2۔ یہ سہل بن سعد ساعدی کی روایت جو بخاری اور مسلم میں متفق علیہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے ہیں اور آقا علیہ السلام کسی قبیلے میں صلح کا معاملہ طے کرانے کے بعد تشریف لائے اور صفیں چیرتے ہوئے آگے پہنچے۔ جب آگے جارہے ہیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر دینے کے لیے تالیاں بجانے لگ گئے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُنہیں حالتِ نماز میں تَصفیق (تالیاں بجانا) کس نے سکھایا؟ اور جب اُن کو خبر ہوئی تو مُڑ کے دیکھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ گئے ہیں تو مصليٰ چھوڑ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ حالتِ نماز میں یہ کس نے ادب سکھایا؟ ایک سماں بدل گیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ ابو بکر اپنی جگہ پر کھڑے رہو۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دعا کی : اے اﷲ! تیرا شکر ہے کہ تیرے محبوب نے مجھے اس قابل جانا۔ دعا کر کے مصليٰ چھوڑ کے واپس آ گئے، رُکے نہیں۔ پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز مکمل کرا دی اور بعد میں استفسار فرمایا :
يَا أَبَابَکْرٍ! مَا مَنَعَکَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُکَ.
’’اے ابو بکر! جب میں نے حکم دیا تھا تو تم مصلّہ پر کیوں نہیں ٹھہرے رہے؟’’
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
مَا کَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُوْلِ اﷲِ!
بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب من دَخَلَ لِيَؤمَّ النَّاسَ فجاء الإمام الأول فَتَأَخَّرَ الْأَوّلُ أو لَمْ يَتَأَخَّرْ، 1 : 242، رقم : 652
بخاری، الصحيح، أبواب العمل فی الصلاة، باب ما يجوز من التسبيح والحمد فی الصلاة للرجال، 1 : 402، رقم : 1143
بخاری، الصحيح، أبواب العمل فی الصلاة، باب التصفيق للنساء، 1 : 403، رقم : 1146
بخاری، الصحيح، أبواب العمل فی الصلاة، باب الأيدی فی الصلاة، 1 : 407، رقم : 1160
بخاری، الصحيح، أبواب السهو، باب الإشارة فی الصلاة، 1 : 414، رقم : 1177، 2544، 2547، 6767
مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب تقديم الجماعة من يصلی بهم إذا تأخر الإمام، 1 : 316، رقم : 421
’’(یا رسول اﷲ!) ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ حضور کے سامنے اِمامت کرائے۔‘‘
بتائیں! ادب کا یہ قرینہ کس نے سکھایا؟ قرآن کی کس آیت میں ہے؟ حضور نے کب منع کیا تھا؟ یہ وہ قرینہ ادب تھا جو محبت نے خود سکھا دیا تھا۔
3۔ صحیح بخاری میں مِسور بن محزمہ کی روایت ہے۔ جب عروہ اہل مکہ کا نمائندہ بن کر حدیبیہ کے میدان میں جاتا ہے کہ جا کے دیکھوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ اور لشکر اسلام کے کیا حال احوال ہیں؟ تاکہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا جنگ کریں یا نہ کریں۔ عروہ اس وقت مسلمان نہیں تھا۔ وہ آ کر کہتا ہے کہ خدا کی قسم! اس لشکر سے جنگ نہ کرنا۔ میں نے قیصرِ روم، کسریِ ایران اور نجاشیِ حبشہ کے دربار بھی دیکھے ہیں، دنیا کے کسی بادشاہ کی اس کے درباری اس طرح تعظیم نہیں کرتے جس طرح اَصحابِ محمد، محمد کی تعظیم کرتے ہیں۔ اﷲ کی عزت کی قسم! میں نے آنکھوں سے دیکھا کہ اگر وہ لعابِ دہن پھینکتے ہیں تو ان کے اَصحاب زمین پر نہیں گرنے دیتے، اٹھا کر چہروں پر مل لیتے ہیں۔ اگر وضو کرتے ہیں تو ایک قطرہ زمین پر نہیں گرنے دیتے، چہروں پر مل لیتے ہیں اور جس کو حضور کے پانی کا قطرہ نہیں ملتا وہ لوگوں کے گیلے ہاتھوں سے ہاتھ رگڑ کے چہرے پہ مل لیتا ہے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2 : 974، رقم : 2581
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 329
ابن حبان، الصحيح، 11 : 216، رقم : 4872
طبرانی، المعجم الکبير، 20 : 9، رقم : 13
بيهقی، السنن الکبری، 9 : 220
اگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حجامت کرواتے ہیں تو بال نیچے نہیں گرنے دیتے اٹھا کے سنبھال لیتے ہیں۔ نگاہیں جھکائے رکھتے ہیں۔ اس طرح بیٹھتے ہیں جسے ساکت و صامت سر پہ پرندے ہیں۔ جب اُن کے ادب کا یہ عالم ہے تو اُن کے جذبہ ایمانی کی کیفیت کیا ہو گی کہ ان کے ساتھ کبھی جنگ لڑنے کی کوشش نہ کرنا۔
4۔ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو کس نے سکھایا؟ اُسی حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مذاکرات کے لیے بھیجا تو کفارِ مکہ نے انہیں پیش کش کی کہ تم طوافِ کعبہ کر لو مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت نہیں۔ وہ چھ سال بعد کعبہ کے صحن میں کھڑے تھے مگر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کعبہ صحن سے طواف کیے بغیر مڑ آئے اور کہا :
کُنْتُ لَا أَطُوْفُ بِهِ حَتَّی يَطُوْفَ بِهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.
بيهقي، السنن الکبری، 9 : 221
أبو المحاسن، معتصر المختصر، 2 : 369
قاضي عياض، الشفا، 2 : 593
’’اﷲ کی قسم! میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گاجب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہیں کر لیتے۔‘‘
اورپھر احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بغیر طواف کیے پلٹ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ گئے۔ کس نے سکھایا یہ ادب؟ کیا کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر طواف کرنا منع تھا؟
5۔ پھر علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو کس نے سکھایا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھولی میں سرِ انور رکھ کر لیٹے ہیں حالاں کہ غروبِ آفتاب کے باعث نماز کا وقت بھی جا رہا ہے۔ (1) کس نے سکھایا کہ نماز قربان کر دو مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے آرام نہ کرو؟ یہ سارے آدابِ تعظیم و تکریم محبت سکھاتی تھی، عشق سکھاتا تھا۔
(1) طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 147، رقم : 390
6۔ اور پھر صحابہ کا کتنا لطیف ادب اور تعظیم و تکریم کا کتنا لطیف حال تھا۔ حضرت قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بنی یعمر بن لیث کے بھائی قباث بن اشیم سے پوچھا : آپ بڑے ہیں یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے ہیں؟ تو انہوں نے کہا :
رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَکْبَرُ مِنِّي وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيْلاَدِ.
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في ميلاد النبی صلی الله عليه وآله وسلم 5 : 589، رقم : 3619
حاکم، المستدرک، 3 : 724، رقم : 6624
طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 37، رقم : 75
شيبانی، الآحاد والمثانی، 1 : 407، رقم : 566
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں اور میری تو (صرف) ولادت پہلے ہے۔‘‘
اب ایک تذکرہ عمر میں سالوں کی بات ہو رہی ہے کہ بڑا کون ہے۔ کون پہلے پیدا ہوا۔ مگر اُس میں بھی لفظ بڑا استعمال کرنے کی اُن کا ادب اجازت نہیں دیتا۔ یہ سلیقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سکھا رہے ہیں۔ اور یہ صرف روز مرہ کی گفتگو ہے لیکن اس میں احتراماً بڑائی اور عظمت کی ہر نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی کی گئی ہے۔
7۔ امام ابن عساکر اور ابن نجار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ہیں، آپ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ سوال پوچھا گیا :
أَيُمَا أَکْبَرُ أَنْتَ أَمِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟
’’کون بڑا ہے : آپ یاحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟‘‘
تو انہوں نے فرمایا :
هُوَ أَکْبَرُ مِنِّي وَأَنَا وَلِدْتُ قَبْلَهُ.
حاکم، المستدرک، 3 : 362، رقم : 5398
ابن أبي شيبة، المصنف، 5 : 296، رقم : 26256
شيبانی، الآحاد والمثانی، 1 : 269، رقم : 350
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں اور میری تو (صرف) پیدائش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہوئی ہے۔‘‘
کتنے صحابہ سے ایک سوال مختلف مواقع پر ہوا ہے مگر کسی ایک صحابی نے بھی بڑے ہونے کی اتنی بات کی نسبت بھی اپنی طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں گوارا نہیں کی۔ یہ کتنا لطیف ادب ہے! اُن کے ایمان کا عالم کیا ہے! اس کو امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا اور اپنی تاریخ میں ابن عساکر نے بھی روایت کیا۔
8۔ پھر آگے اس سے لطیف بات جسے عبد بن فیروز روایت کرتے ہیں کہ جب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قربانی کے جو جانور ہیں ان میں سے کون کون سے ہیں جو جائز نہیں؟ اب وہ جواب میں یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پہ قیام فرما تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح چار انگلیوں کا اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ چار جانور یعنی فلاں فلاں فلاں فلاں کی قربانی جائز نہیں۔ وہ حدیث دوبارہ بیان کر رہے ہیں۔ انہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سنانے کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ساتھ ہی براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ جو انگلیوں کا اشارہ کر دیا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایسے کیا تھا۔ لیکن میری انگلیاں چھوٹی ہیں۔ یہ جملہ کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ یہ چار جانور ناجائز ہیں۔ چونکہ انگلیوں کی ایک شکل بن رہی تھی اُسی طرح جس طرح آقا علیہ السلام نے چار انگلیاں کھڑی کر کے بتایا تھا دیکھا کہ ایک مماثلت بن رہی ہے تو اُس مماثلت کی نفی کے لیے کہہ دیا کہ میری انگلیاں اُن جیسی نہیں ہیں۔
نسائی، السنن، کتاب الضحايا، 7 : 214، رقم : 4369
ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، 2 : 1050، رقم : 3144
آپ اندازہ کریں کہ ایک عام گفتگو اور تبادلہ خیال ہے۔ اُس میں نہ مماثلت ثابت ہے نہ مساوات، نہ بے ادبی اور گستاخی ہو رہی ہے مگر جہاں ہلکا سا شائبہ بھی مماثلت کا نظر آتا ہے وہاں بھی وہ سوے ادب سمجھتے ہیں۔ اور ایک جملہ اِضافتاً کہ کر اپنی محبت اور ادب کا اظہار کرتے ہیں۔
9۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہادت کے قریب کے زمانے میں فرمانے لگے۔ اپنا ہاتھ دکھا کر کہ خدا کی قسم! دیکھو میرا ہاتھ، میں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی تھی اور جس دن سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں اپنا دایاں ہاتھ دے کر بیعت کی وہ دن اور آج کا دن، مگر آج کے دن تک میں نے غسل اور طہارت کے لیے بھی اِسے استعمال نہیں کیا کہ یہ ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ سے مس ہوا تھا۔
طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 85، رقم : 124
آپ بتائیں کہیں قرآن میں ایک شق بھی ہے؟ کہیں حدیث میں ہے؟ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہو کہ یہ آداب ملحوظ رکھے جائیں۔ اس درجے کے لطیف آداب تعظیم و تکریم کے کون سکھاتا تھا؟ یہ محبت خود سکھاتی تھی۔ محبت جو عشق کی استاد ہے۔
10۔ بخاری شریف کی حدیث ہے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے غسل کی حاجت تھی اور میں ایک گلی میں جا رہا تھا، آگے اتفاق سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نشست تھی تو میں وہیں سے مڑ کے کسی اور راستے پر چلا گیا۔ چونکہ اب وہاں بیٹھنا تھا اس لیے گھر جا کر غسلِ طہارت کیا۔ اُس کے بعد پہنچے تو آقا علیہ السلام نے پوچھا کہ ابو ہریرہ تم نظر نہیں آئے، دیر سے آئے ہو، کہاں تھے؟ عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے ابھی غسل کرنا تھا۔ میں پانی کی تلاش میں تھا تو آگے اتفاق سے نشست دیکھی تو کسی اور راستے کو مڑ گیا تاکہ غسل اور وضو کروں تو پھر آؤں۔
صحيح بخاری، کتاب الغسل، 1 : 109، رقم : 281
آقا علیہ السلام کی مجلس میں یا آقا علیہ السلام جس راستے سے گزر رہے ہیں اُن کے سامنے سے گزرنا گوارا نہیں کیا کہ اِس حال میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ نہ پڑے۔
11۔ المواہب اللدنیۃ میں اسی طرح کی روایت ہے کہ ایک صحابی اصلح بن شریک رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی یہ تھی کہ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہیں سفر پر جانا ہوتا تو وہ آقا علیہ السلام کی اونٹنی پر کجاوہ لگاتے تھے۔ اُن کی اس دن ڈیوٹی تھی۔ علی الصبح آقا علیہ السلام نے سفر پر جانا تھا انہوں نے غسل کرنا تھا، بیمار تھے، صحت اچھی نہیں تھی، پانی موجود نہیں تھا یا بہت ٹھنڈا پانی تھا۔ بخار کی حالت میں پریشان تھے۔ آقا علیہ السلام کے سفر کا وقت شروع ہو گیا تو انہوں نے اونٹنی پر کجاوہ نہیں لگایا بلکہ ایک اور صحابی کو ذمہ داری سونپ دی اور خود تیزی سے غسل اور وضو کر کے قافلے سے مل گئے۔ آقا علیہ السلام نے پوچھا : اصلح بن شریک! کیا بات ہے آج تم نے کجاوہ نہیں باندھا؟ عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کو کیسے پتہ چلا؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا : کجاوہ اُس طرح نہیں کَسا گیا جیسے تو کیا کرتا ہے۔ اُنہوں نے عرض کیا : آقا! میں نے غسل کرنا تھا اور میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ میں نے دوسرے صحابی کو یہ کام کرنے کے لیے بھیجا۔ آقا علیہ السلام کو اس کے ادب کا یہ انداز اتنا پسند آیا کہ اُسی لمحے اﷲ نے تیمم کی آیت بھیج دی۔ کہ اگر آپ بیمار ہیں، مریض ہیں اور آپ وضو نہیں کر سکتے، توآپ تیمم کر لیا کریں، یہ آیت جو امت کو بطورِ نعمت نصیب ہوئی وہ اصلح بن شریک کے ادبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے نصیب ہوئی۔
طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 298، رقم : 875
محبت خود ادب اور تعظیم و تکریم کے آداب ایجاد کر لیتی ہے۔ اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اپنی سنت کے ساتھ اپنی حیاتِ طیبہ میں اس کے راستے متعین کیے۔ ادب، تعظیم و تکریم اور محبت بنیاد ایمان ہے اور یہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ سارے آداب تعظیم و تکریم کے طریقے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وضع کئے ہیں اُن کی اصل اور اساس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
12۔ حدیث پاک میں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ سنن ابی داؤد میں یہ حدیث آئی ہے، کتاب الحدود، حدیث نمبر ہے 4449۔ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود کا ایک گروہ تھا۔ اُن کی مدینہ کے قریب ایک بستی تھی جس میں بدکاری کا ایک واقعہ ہوا۔ وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تشریف لائیے اور مقدمہ کی سماعت کر کے بدکاری کی سزا جاری فرمائیے۔ آقا علیہ السلام تشریف لے گئے، یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مسند بچھا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسند پہ تشریف فرما ہوئے۔ بدکاری کا مقدمہ پیش ہوا۔ انہوں نے پوچھا : اس کی سزا کیا ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تورات لے آؤ۔ اب دیکھیے اسلام کتنا پر امن مذہب ہے! کتنی وسعت ہے دین میں! اپنے اسلام اور قرآن کی سزا نافذ نہیں کی۔ یہود سے فرمایا : جو تمہاری کتاب تورات کا قانون ہے وہی تم پر نافذ کروں گا۔ آپ کے حکم سے تورات لائی گئی۔ اب یہ وہی تورات تھی جس کے لیے قرآن میں جابجا آیا کہ کہ اُس کے اندر تحریف کر دی گئی، الفاظ بدل دیے گئے۔ یہ تحریف شدہ تورات تھی، اصل تورات جو موسيٰ علیہ السلام پہ نازل ہوئی اس کا ذکر تو قرآن میں ہے مگر ان کے ہاں وہی تورات تھی جو بدل دی گئی تھی۔ مگر جب وہ تورات لائی گئی تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تورات کو دیکھ کر مسند سے اٹھ گئے۔ اب آقا علیہ السلام سلیقے اور قرینے سکھا رہے ہیں، تورات کو دیکھ کر اٹھ گئے۔ اُس مسند سے اٹھ کر فرمایا : اس تورات کو اِس مسند پر رکھ دو خود اٹھ گئے اور تورات ایک مسند پر رکھ دی۔ حدیث کے لفظ ہیں :
فَنزَعَ الوِسَادَةَ مِنْ تَحْتِهِ، وَوَضَعَ التَّوَرَاة عَلَيْهَا وَقَالَ : آمَنْتُ بِکَ وَبِمَنْ أَنْزَلَکَ.
ابو داؤد، السنن، کتاب الحدود، 4 : 155، رقم : 4449
’’اپنے نیچے سے جو مسند تھی وہ نکال دی اور اُس کے اوپر تورات رکھ دی، اور تورات کو خطاب کر کے فرمایا : اے تورات! میں تجھ پر ایمان رکھتا ہوں اور جس نے تجھے ناز ل کیا اُس رب پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘
وہ تورات جو تحریف شدہ ہے، ترمیم شدہ ہے، مگر چونکہ وحی الٰہی تھی۔ سارا کچھ تو نہیں بدل گیا تھا کچھ نہ کچھ تو اس میں تھا۔ وہ چند کلمات تورات میں بچ گئے تھے۔ صاحبِ قرآن پیغمبر، اﷲ کی اُس وحی کے چند کلمات کی بھی تعظیم کر کے اسے مسند پر رکھ رہے ہیں۔
تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادب کے یہ طریق سکھائے تھے کہ دوسرے کے دین و مذہب کا احترام کرو چاہے اس میں تحریف اور تبدیلیاں ہی کیوں نہ ہو چکی ہوں۔
پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی عالم کو بلا کر اس سے فرمایا : پڑھو، رجم کی سزا کیا لکھی ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تورات کے عالم سے احکام پڑھوا کے سنانا چاہتے تھے۔ تو جب اس نے پڑھا تو اس میں رجم کی سزا وہی تھی جو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو بتا چکے تھے۔ تو فرمایا : میں وہ سزا سناتا تو تم کہتے کہ اسلام کی سزا نافذ کر رہا ہوں۔ اس لئے تورات منگوائی، یہودی عالم بلوایا اور اس سے پڑھوا کر آقا علیہ السلام نے رجم کی سزا دے دی۔
13۔ اور دوسرا بڑا عجیب واقعہ جو آقا علیہ السلام کی سنتِ ادب سے ثابت ہوتا ہے وہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔ امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں اور کنز العمال میں جابر بن عبد اﷲ روایت کرتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا اور فتح مکہ کے دن آقا علیہ السلام حرم کعبہ میں داخل ہوئے جہاں 360 بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتوں کو گرا دینے کا حکم دیا۔ بت گراتے جاتے اور فرماتے جاتے :
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.
بنی اسرائيل، 17 : 81
’’اور فرما دیجئے : حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہےo‘‘
چھڑی کا اشارہ کرتے اور بت گرتے جاتے۔ بتوں کو گراتے ہوئے کعبہ میں تشریف لے گئے جہاں مزید بت رکھے ہوئے تھے۔
ثُمَّ دَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ الْبَيْتَ فَصَلّٰی فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ، فَرَأَء فِيْهِ تِمْثَالَ إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَاعِيْلَ وَ إِسْحَاقَ.
’’پھر کعبۃ اﷲ کے اندر داخل ہوئے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت نماز ادا کی۔ پس اندر آقا علیہ السلام نے دیکھا کہ سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحاق علیہم السلام کے بھی (بت اور) تصویریں رکھی ہوئی ہیں۔‘‘
آقا علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا اور پہچان لینے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں تیر دیئے ہوئے تھے جس سے وہ قسمتوں کا حال معلوم کرتے تھے۔ یہ اُن کفارِ مکہ کے اپنے مشرکانہ عقائد تھے۔ ہر بت کو چھڑی سے گرایا۔ یہ بھی بت تھے جو شریعت میں حرام تھے۔ شریعت اور اسلام ان کو گوارا نہیں کرتا مگر سارے حقائق جاننے کے باوجود چونکہ وہ اسماء انبیاء علیہم السلام پر بنائے گئے تھے ان کو چھڑی سے نہیں گرایا۔ ہر بت کو چھڑی سے مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور سیدنا اسحاق علیہ السلام کے جو بت اور تمثال تھے ان کے بارے میں حکم فرمایا :
ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ بِزَعْفَرَانَ فَلَطَخَهُ بِتِلْکَ التَّمَاثِيْل.
ابن ابی شيبة، المصنف، 7 : 403، رقم : 36905
پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زعفران منگوایا اور زعفران پانی میں حل کر کے ان کے اوپر زعفران لگا دیا تاکہ ان کی پہچان نہ رہے۔
یہ مشرکانہ عقائد کی علامتیں تھیں مگر چونکہ اُن کی انبیاء کرام علیہم السلام کے نام کی طرف نسبت تھی ان کو بھی چھڑی سے گرانا گوارا نہیں کیا۔
14۔ مصنف عبد الرزاق کی ایک روایت میں ہے، امام ابن ابی حاتم اور امام طبری بیان کرتے ہیں۔ سراقہ بن مالک نے رفع حاجت کے بارے میں پوچھا : یا رسول اﷲ! رفع حاجت کے وقت کیا کروں؟ کس طرف رُخ کروں؟ اِسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا أَتَيْتُمْ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا، وَلَکِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا.
بخاری، الصحيح، ابواب القبلة، بَاب قِبْلَةِ اهلِ الْمَدِينَةِ وَأَهْلِ الشَّأْمِ، 1 : 154، رقم : 386
’’جب تم قضاے حاجت کے لیے جاو تو قبلہ کی طرف رُخ کرو نہ پشت کرو بلکہ مشرق یا مغرب کو منہ رکھو۔‘‘
اب اڑھائی سو میل دور بیٹھے ہیں مدینہ میں، تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ رفع حاجت جب کرنے کے لئے بیٹھو تو سیکڑوں میل دور ہی کیوں نہ ہو، قبلہ کی سمت کبھی منہ نہ کریں۔
وہ کعبہ جو نگاہوں کے سامنے نہیں ہے۔ رفع حاجت کے وقت سیکڑوں میل دور اس کی سمت کا ادب ہے حتی کہ اسلامی فقہ میں کعبہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا بھی منع ہے۔ سیکڑوں میل دور کعبہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا منع ہے یعنی جس سمت قابل ادب وجود ہے اس کی سمت کا بھی احترام اور ادب ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادب و تعظیم کا یہ معیار عطا کیا تھا اور یہی معیار محبت کا تھا۔ اسی معیارِ ادب کو صحابہ کرام نے سامنے رکھا۔ اس کو جاری کیا اور یہی معیار ادب اور معیار تعظیم اپنا لیا گیا۔
اَئمہ و اَسلاف کا ادب و تعظیمِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تابعین اور تبع تابعین، اَئمہ و اَکابرینِ اسلام، اَعلامِ اُمت الغرض تمام اسلاف کا عقیدہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرز عمل پر مبنی ہے۔ یہی طریقہ تابعین اور تبع تابعین نے اختیار کیا اور امام مالک اور دیگر ائمہ و اولیاء نے بھی۔
1۔ قاضی عیاض الشفا میں اس کو اپنی سند کے ساتھ تحقیق سے روایت کرتے ہیں، ایک دفعہ خلیفہ اور بادشاہِ وقت ابو جعفر المنصور مسجد نبوی میں آیا۔ وہ تھوڑی اونچی آواز سے بات کرنے لگا۔ امام مالک رضی اللہ عنہ پاس کھڑے تھے۔ فرمایا : اے خلیفہ وقت!
لا ترفع صوتک في هذا المسجد.
’’یہ مسجد نبوی ہے اس میں آواز بلند نہ کرنا۔‘‘
اب عام مسجد بھی اﷲ تعاليٰ کا گھر ہے، مگر فرمایا : اس مسجد میں آواز بلند نہ کرنا۔
فإن اﷲ ل أدّب قوما : {لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ}.
الحجرات، 49 : 2
اﷲ تعاليٰ نے اُمت کو ادبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ درس دیا ہے : خبردار! اپنی آوازیں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آوازوں سے اونچی نہ کرنا۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال بھی ہو گیا مگر بعد از وصال بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب ویسے ہی ہے جو ظاہری حیات میں تھا۔
امام مالک رضی اللہ عنہ نے ادب سکھاتے ہوئے یہ فرمایا۔ جس قوم نے اپنی آوازیں ادبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پست کر لیں، اﷲ نے ان کی مدح اور تعریف کی۔ پھر یہ آیت تلاوت کی :
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى.
الحجرات، 49 : 3
’’بے شک جو لوگ رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقويٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔‘‘
گویا تقويٰ، ادب و تعظیمِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نصیب ہوتا ہے۔ اور پھر فرمایا : جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کی اﷲ تعاليٰ نے اُن کی مذمت کی ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ.
الحجرات، 49 : 4
’’بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo‘‘
خلیفہ ابو جعفر منصور کو یہ آیات سنا کر نصیحت کی گئی۔
قاضی عياض، الشفاء : 520
2۔ اس کے بعد خلیفہ نے پوچھا کہ اب دعا کا وقت ہے۔ اے امام مالک! بتائیے کیا میں دعا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی طرف چہرہ کر کے کروں یا ادھر پشت کر کے قبلہ رُخ ہو کر دعا کروں؟ امام مالک نے جواب دیا :
لم تصرف وجهک عنه وهو وسليتک ووسيلة أبيک آدم إلی اﷲ يوم القيامة.
قاضی عياض، الشفاء : 520
’’تم اُس ہستی سے اپنا چہرہ کیوں پھیرتے ہو جو تمہارا بھی وسیلہ ہے اور تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی قیامت تک وسیلہ ہے۔‘‘
آپ اندازہ کریں اُن کے یہ آداب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تھے۔
3۔ حضرت ایوب السختیانی ایک امام جلیل القدر راوی ہیں۔ اکثر کتب حدیث میں ان سے روایات مروی ہیں۔ وہ امام مالک کے شیوخ اور آپ کے اساتذہ میں تھے۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ ان کا درجہ حدیث میں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : خدا کی قسم! میں نے جتنے شیوخ اور اساتذہ سے حدیث روایت کی ہے۔ میں نے ایوب السختیانی سے بہتر اور افضل کوئی شخص نہیں پایا۔ پوچھا گیا : ان کی فضلیت کا سبب کیا ہے؟ فرمانے لگے :
حج حجتين، فکنت أرمقه ولا أسمع منه، غير أنه کان إذا ذکر النبی صلی الله عليه وآله وسلم بکی حتی أرحمه، فلما رأيت منه ما رأيت، وإجلاله للنبی صلی الله عليه وآله وسلم کتبت عنه.
قاضی عياض، الشفا : 521
میں ان کے پاس رہتا تھا اور میں نے ان کے ساتھ دو حج کئے۔ وہ حدیث بیان کرتے۔ میں پہلے نہیں لکھتا تھا۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام سنتے، اُن کی آنکھیں چھم چھم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں رونے لگ جاتیں۔ وہ اتنا روتے کہ ان کی حالتِ زار پر ہمیں رحم آ جاتا۔ جب میں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں اتنا غرق دیکھا تو اﷲ تعاليٰ کی عزت کی قسم! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِسی تعظیم اور عشق کو دیکھ کر میں نے ان سے حدیث لکھنا شروع کی۔ تو میں نے جو ان سے حدیث روایت کی اس کا سبب بھی ان کا عشق اور تعظیم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
4۔ حضرت مصعب بن عبد اﷲ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ حضرت امام مالکص فرماتے ہیں کہ جب کبھی ان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا، ان کا رنگ تبدیل ہو جاتا، زار و قطار رونے لگ جاتے، اتنا روتے کہ ان کی حالت غیر ہو جاتی حتی کہ لوگ اُنہیں اِسی حالت میں چھوڑ کر چلے جاتے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اور ذکر سن کر ان کا گریہ و بکا نہ رکتا۔
قاضی عياض، الشفا : 521
5۔ مصعب بن عبد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں کہ بیشک میں نے امام جعفر بن محمد الصادق کو دیکھا ہے- حالانکہ
وکان کثير الدعابة والتبسم، فإذا ذکر عنده النبي صلی الله عليه وآله وسلم اصفرّ.
قاضی عياض، الشفا : 521
’’وہ انتہائی خوش مزاج اور ظریف الطبع تھے - لیکن جب بھی ان کے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جمیل کیا جاتا تو ان کا چہرہ زرد ہو جاتا تھا۔‘‘
6۔ حضرت عبد الرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر کے بارے میں قاضی عیاض روایت کرتے ہیں کہ جب کبھی مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا تو خدا کی قسم ان کے چہرے کا رنگ اس طرح ہو جاتا کہ جیسے کسی نے خون نچوڑ لیا ہو اور زبان گنگ ہو جاتی۔ ان کی زبان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق اور محبت اور ہیبت، ہیبت و جلال محمدی میں کوئی کلمہ نہیں نکلتا تھا۔
قاضی عياض، الشفا : 522
7۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : میں نے عامر بن عبد اﷲ بن زبیر کو دیکھا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا تو نام سن کر زار و قطار رو پڑتے اور چیخ نکل جاتی۔
قاضی عياض، الشفا : 522
8۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے امام زہری کو دیکھا کہ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آ جاتا ان کی حالت اتنی غیر ہو جاتی کہ سامنے بیٹھے ہوئے دوست کو بھی پہچان نہ سکتے اور نہ کوئی ان کو پہچان سکتا کہ یہ امام زہری ہیں۔
قاضی عياض، الشفا : 522
9۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں : میں نے امام صفوان بن سلیم کو دیکھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہوتا تو نام سنتے ہی ان کی چیخ و پکار نکل جاتی، اتنا روتے کہ آہ و بکا کی آواز بلند ہو جاتی تھی۔
قاضی عياض، الشفا : 522
10۔ قاضی عیاض، امام ابن سیرین کے بارے میں فرماتے ہیں : وہ کثیر التبسم تھے، مسکرانا ان کا معمول تھا مگر ادھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کرنے کا وقت آتا تو سارا جسم لرزا براندام ہو جاتا اور کانپنے لگ جاتے۔
قاضی عياض، الشفا : 522
11۔ امام مالک رضی اللہ عنہ کے محبت و ادب کے بارے میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں :
قال مطرف : کان إذا أتی الناس مالکاً خرجت إليهم الجارية وتقول لهم : يقول لکم الشيخ : تريدون الحديث أو المسائل؟ فإن قالوا : المسائل. خرج إليهم، وإن قالوا : الحديث. دخل مغتسله، واغتسل وتطيب، ولبس ثياباً جدداً، ولبس ساجه وتعمم، ووضع علی رأسه رداء، وتلقی له منصة، فيخرج فيجلس عليها وعليه الخشوع، ولا يزال يبخر بالعود حتی يفرغ من حديث رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : ولم يکن يجلس علی تلک المنصة إلا إذا حدث عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم .
قال ابن أبي أويس : فقيل لمالک في ذلک، فقال : أحب أن أعظم حديث رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولا أحدث به إلا علی طهارة متمکناً. وقال : وکان يکره أن يحدث في الطريق، أو وهو قائم، أو مستعجل. وقال : أحب أن أفهم حديث رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.
قاضي عياض، الشفا : 524، 525
’’مُطَرِّفْ فرماتے ہیں کہ جب لوگ حضرت امام مالک کے پاس آتے تو پہلے آپ کی خادمہ آتی اور ان سے کہتی کہ حضرت امام رحمۃ اﷲ علیہ نے دریافت فرمایا ہے کہ کیا تم حدیث کی سماعت کرنے آئے ہو یا مسلہ دریافت کرنے؟ اگر وہ کہتے کہ مسلہ دریافت کرنے آئے ہیں تو آپ فوراً باہر تشریف لے آتے اور اگر وہ کہتے کہ حدیث کی سماعت کرنے آئے ہیں تو آپ(اہتماماً) پہلے غسل خانہ جاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہنتے۔ عمامہ باندھتے، پھر اپنے سر پر چادر لپیٹتے، تخت بچھایا جاتا پھر آپ باہر تشریف لاتے اور اس تخت پر جلوہ افروز ہوتے۔ اس طرح پر کہ آپ پر انتہائی عجز و انکساری طاری ہوتی جب تک درس حدیث سے فارغ نہ ہوتے برابر اَگر کی خوشبو سلگائی جاتی رہتی۔ دیگر راویوں نے کہا کہ اس تخت پر آپ جب ہی تشریف فرما ہوتے جبکہ آپ کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنی ہوتی۔
’’حضرت ابن ابی اویس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : ’’میں اسے بہت محبوب رکھتا ہوں کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب تعظیم کروں۔ میں با وضو بیٹھ کر حدیث بیان کرتا ہوں۔ فرمایا میں اسے مکروہ جانتا ہوں کہ راستہ میں یا کھڑے کھڑے یا جلدی میں حدیث بیان کی جائے اور فرمایا کہ میں یہ پسند کرتا ہو ں کہ حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوب سمجھا کر بیان کروں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو اتنا مقام و مرتبہ دینے کا یہ عالم ہے توان کے ہاںصاحب حدیث کے مرتبہ کا عالم کیا ہوگا۔ یہ عزت وہی دے سکتا ہے جس کے دل میں تعظیم و تکریم محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سمندر موجزن ہو اور عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سینہ لبریز ہو۔ جب تک عشق، محبت، ادب اور تعظیم و تکریم اپنے کمال کو نہیں پہنچتا اُس وقت تک ان نسبتوں ان حدیثوں کی ایسی عزتیں اور ایسی تکریمیں نہیں ہوتیں۔ قاضی عیاض چونکہ خود مالکی المذہب ہیں وہ تو کثرت سے امام مالک کا ذکر لائے ہیں۔ عاشق رسول ہونے کی حیثیت میں ان کا حق بھی ہے۔ امام مالک ان عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں کہ 94 ہجری میں پیدا ہوئے اور 180 ہجری میں وفات ہوئی۔ یعنی 86 برس یا 87 برس عمر پائی۔ لیکن انہوں نے پوری زندگی میں صرف دو حج کیے اور ستر برس یا ساٹھ برس گزار دیے۔ حج کرنے، نفلی حج کرنے یا عمرے کے لیے بھی نہیں گئے۔ کسی نے پوچھا : سارا جہاں جاتا ہے آپ کیوں نہیں جاتے؟ انہوں نے کہا : فرض ادا کر چکا، اب معلوم نہیں کہاں موت آ جائے، میں حضور کے شہر سے باہر موت گوارا نہیں کرتا۔
12۔ امام مالک مدینہ کی گلیوں میں نہیں بلکہ دیواروں کے ساتھ گھسیٹ گھسیٹ کر چلتے کہ جن گلیوں پر حضور کے قدم لگے ہیں، ابھی تک وہی گلیاں ہیں۔ میں گوارا نہیں کرتا کہ میرے قدم وہاں ان جگہوں پر لگ جائیں، جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم رنجہ فرمایا۔ قاضی عیاض نقل کرتے ہیں :
کان مالک لا يرکب بالمدينة دابةً، وکان يقول : أستحي من اﷲ أن أطأ تربة فيها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بحافر دابة.
قاضي عياض، الشفا : 540
’’حضرت امام مالک مدینہ منورہ میں جانور پر سوار ہو کر نہ چلتے اور فرماتے کہ مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ میں سواری کے جانور سے اِس اَرضِ مقدس کو پامال کروں جہاں اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ فرما ہیں۔‘‘
13۔ امام عبد اللہ بن المبارک روایت کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں تھا اور آپ حدیث بیان کر رہے تھے۔ حدیث کو بیان کرتے ہوئے ایک بچھو نے سولہ مرتبہ آپ کو ڈس لیا۔ ہر دفعہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوتا۔ لیکن وَلَا يَقْطَعُ حديثَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بغیر توقف کے بیان کرتے رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بیان کرتے ہوئے کوئی آواز نہیں لگائی۔ جب فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا :
يَا اَبَا عَبدِ اﷲِ! قَد رَأَيْتُ مِنکَ اَليَومَ عَجَبَا.
’’اے ابو عبد اﷲ! آج آپ کا عجب حال دیکھا ہے۔‘‘
آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہوگیا اور عجیب تکلیف کی کیفیت محسوس ہوئی مگر آپ نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت اور بیان کو منقطع نہیں کیا۔ کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے : ’’عبد اللہ بن مبارک! سولہ مرتبہ بچھو نے مجھے ڈسا ہے۔‘‘ تو آپ اسے جھٹک دیتے؟ فرمایا :
اِنَّمَا صَبَرتُ اِجْلَالاً لِحَدِيْثِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.
قاضی عياض، الشفا : 526
’’لیکن میں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و جلال کی بنا پر صبر کیا۔‘‘
14۔ ہشام بن غازی نے ایک مرتبہ راستے میں چلتے ہوئے امام مالک سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پوچھ لی۔ امام مالک کے ہاتھ میں چھوٹی سی ایک چھڑی تھی۔ راستے میں کھڑے ہوئے آپ نے اس چھوٹی چھڑی سے بیس ضربیں ہشام بن غازی کو ماریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث راستے میں چلتے ہوئے نہیں پوچھتے، یہ بے ادبی ہے۔ بیس ضربیں لگا کر پھر اس کو مناسب جگہ پر بٹھایا اور بدلے میں 20 حدیثیں سنائیں۔ ہشام بن غازی فرمایا کرتے تھے : میری خواہش تھی کہ مجھے ضربیں لگاتے جاتے اور حدیثیں سناتے جاتے۔
قاضی عياض، الشفا : 526
15۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ان کا ایک اونٹ تھا، ایک جگہ چٹیل میدان میں گھما رہے ہیں۔ کسی نے پوچھا : یہ کیا کر رہے ہیں؟ اُنہوں نے کہا : مجھے اور کچھ معلوم نہیں۔
إلا أنی رَأَيتُ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فعله، ففعلته.
قاضی عياض، الشفا : 487، 488
سوائے اس کے کہ میں نے تو ایک دن دیکھا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ کو یہاں اسی طرح چکر لگوا رہے تھے۔ بس میں تو یار کی ادا نبھا رہا ہوں۔ اور کوئی کام نہیں ہے۔
16۔ سونا مردوں کے لیے حرام ہے۔ آقا علیہ السلام نے ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اُس کے ہاتھ سے چھین کر پھینک دی، بعد ازاں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس سے تشریف لے گئے تو صحابی بھی اُٹھ کر چل پڑے۔ یعنی اُن کی اتباع میں بھی عشق تھا۔ کسی نے روک لیا، اور کہا کہ عورتوں کے لیے تو سونا حلال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُتار کر پھینکنے کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے لیے حرام ہے۔ اُٹھا کر لے جاؤ اور جا کر بیوی کو دے دینا۔ اُس نے کہا کہ یہ مسئلہ مجھے بھی معلوم ہے کہ عورتوں کے لیے حلال ہے۔ مگر جس شے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار نفرت سے پھینک دیا ہو میں اس کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔
مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، 3 : 1655، رقم : 2090
یہ تابعین کا عالم تھا اور تبع تابعین تسلسل کے ساتھ ان کے نقش قدم پر تھے۔ امت کا وہ تسلسل کہاں گیا؟ آج آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق اور محبت کو کچھ اور نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہ وراثت اور میراث ہے جو اﷲ رب العزت نے پتھروں کے اندر، درختوں میں، جانوروں میں، شجر و حجر میں رکھی تھی۔ یہ میراث صحابہ کے ایمان کو ملی تھی۔ ان سے تابعین میں آئی۔ تبع تابعین میں آئی۔ امت میں جب تک ایمان زندہ و سلامت رہا اس عشق اور ادب و تعظیم کی انتہا کے ساتھ سلامت رہا۔ آج امت نے اپنا رشتہ اس سے کاٹ ڈالا ہے۔
آقا علیہ السلام کے عشق و محبت اور تعظیم کا یہ حال پیدا کرنے کے لئے امت کو اس رشتے کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔ اس عقیدہ اس نسبت، اس فہم، اس شعور کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔ ان کی اتباع میں بھی عشق و ادب مضمر ہے۔
یہ محبت کے پیمانے اور قرینے تھے۔ یہ ہر سال آقا علیہ السلام کا جو یومِ ولادت اور ماہ ربیع الاول اسی لیے آتا ہے کہ آقا علیہ السلام کے ساتھ اس نسبت کو پھر سے زندہ اور تازہ کیا جائے۔ اور وہ ٹوٹا ہوا عہد و پیمان جو اللہ نے انبیاء سے لیا تھا، پھر ان کی امتوں سے نبیوں نے لیا تھا، اور پھر حضور کی امت سے رب نے خود لیا :
فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.
الأعراف، 7 : 157
’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo‘‘
ایک عہد اللہ تعاليٰ نے انبیاء کرام علیھم السلام سے لیا تھا میثاقِ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا؛ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت سے رب نے خود قرآن میں لیا کہ وہی لوگ فلاح پائیں گے جو میرے محبوب سے محبت کریں گے، ادب کریں گے، ان کی تعظیم و تکریم کریں گے اور میرے مصطفی کا حد سے بڑھ کر ادب کریں گے۔ اللہ پاک نے یہ جو عہد وپیمان لیا اس رشتہ محبت کو، رشتہ تعظیم و ادب کو، رشتہ اتباع کو آقا علیہ السلام کی پیروی کو مستحکم کرنے کے لئے ہر سال بدل بدل کہ جو یہ مہینہ آتا ہے یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم اس رشتے کو دوبارہ زندہ اور تازہ کریں۔ امت بہت دور چلی گئی ہے۔ ہم دنیا میں، مال و دولت کمانے میں کھوگئے۔ دنیاوی جاہ و منصب میں کھوگئے۔ عیش و آرام میں کھوگئے۔ لطف و آسائش میں کھوگئے۔ جوں جوں دن آگے گزرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ایمان سے روحانیت نکلتی جا رہی ہے اور مادیت غالب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں، ہم اپنی پوری زندگیاں دنیا کے عیش و آرام اور آسائش میں گنوا رہے ہیں اور جوں جوں مادیت چھا رہی ہے روحانیت کم ہو رہی ہے اور عشق و محبت ادب تعظیم و تکریم کا عقیدہ فنا ہو رہا ہے۔ نتیجتاً اللہ رب العزت کا لطف و کرم اس کے انعام و احسان بھی ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اس کا وعدہ تو ان لوگوں کو کامیابی، کامرانی، ابدی عزت اور فلاح دینے کا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تعظیم و تکریم اور اتباع کا حق ادا کریں گے۔ اگر ہم اپنا حق ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ رب العزت کا وعدہ تو ہمارے ساتھ نہیں رہے گا۔
حرفِ آخر
آج پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پلٹ کر اس نسبت کو زندہ اور تازہ کریں۔ ہم چاہے جس دنیا میں بھی رہیں مگر روحیں چودہ سو سال قبل حضور کی اس دنیا میں چلی جائیں۔ وہ رنگ و سلیقہ و قرینہ ادب کا عشق کا، پلٹا کے دوبارہ لے آئیں جو ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم نے دنیا کو دکھایا جو تابعین تبع تابعین ائمہ و اولیاء کا صلحاء اور پندرہ صدیوں سے اکابرین اور اسلاف اور اولیاء کارہا ہے۔
ہر چیز نئی اچھی ہے۔ گاڑی نئے ماڈل کی آجائے اور سہولت ہو تو بے شک لے لیں۔ نئے گھر، نئی نئی تکنیک، نئے نئے تعمیراتی ڈیزائن لے لیں، کوئی گناہ نہیں۔ ہر حلال چیز سے حلال طریقے سے آپ استفادہ کریں۔ تعلیم جتنی نئی ملے لے لو، ٹیکنالوجی نئی لے لو۔ کپڑے نئے نئے لے لو۔ گھر بار، سفر کی سہولتیں، ہر چیز بشرطیکہ وہ حلال ہو، لے لو۔ جدید سے جدید تر لے لو، کوئی مضائقہ نہیں، مگر ایمان و عقیدہ کبھی نیا نہ لو، وہی پرانا رکھو۔ زندگی کی ہر آسائش نئی مگر عقیدہ اور ایمان پرانا، اور جتنا پرانا رکھو گے اتنا اعليٰ، اتنا قیمتی ہوگا۔ اس میں اتنا نور، اتنی روشنی، اتنی کشش ہوگی، عقیدہ نیا نہ لو۔ ہر نیا عقیدہ فتنہ ہے، ہر نیا عقیدہ بدعت ہے ہر نیا عقیدہ گمراہی اور ضلالت ہے اور ہر نیا عقیدہ دہلیز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور لے جا رہا ہے۔
ہرشے کو عقل کے پیمانے پر قبول کرو، ہر علم سے، ہر ٹیکنالوجی سے، ہر فکر سے، ہر تحقیق سے، ہر شے سے عقل کا تعلق اور رشتہ رکھو۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عقل کا چراغ کبھی نہ جلاؤ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق دل کا رکھو عقل کا نہیں۔ وہاں جھکے رہو، عاشق لوگ محبوب کی باتوں کو عقل کے پیمانے پر نہیں پرکھتے۔ جہاں عقل کا دخل ہوا وہاں تنقید آتی ہے، جہاں تنقید آئی وہاں ایمان گیا۔ اللہ رب العزت نے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 3 میں پہلا سبق ہی یہ دیام : يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ یعنی بن دیکھنے والے ماننے والے ایمان دار۔ اور بن دیکھے ماننا عشق کا شیوہ ہے عقل کا شیوہ نہیں۔
آقا علیہ السلام سے تعلق، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی اتباع کرو بغیر عقل کے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں غرق ہو جاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرو عشق کے طریق سے۔ ادب اور تعظیم کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس جس شے کو نسبت ہے اس کا ادب کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت ایمان ہے اور ان کا ادب و تعظیم واجب ہے، صرف اس لیے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جان نثار ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ہیں۔ اہل بیت اطہار کی محبت ایمان ہے، اس لیے کہ حضور نے کندھوں پر حسن و حسین علیہ السلام کو اٹھایا اور کھلایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا۔ (1) ہر شے کی نسبت حضور سے ہے۔
(1) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 400، رقم : 9671
2. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777
حرمین سے محبت ہے تو اس لیے کہ حضور کا وطن ہے۔ آقا نے ان نسبتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ سارے شہر خدا کے، مگر کیوں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب میں اٹھوں گا تو میرے ساتھ سب سے پہلے اہل جنت بقیع اٹھیں گے؟ پھر اہل مکہ اٹھیں گے۔ پھر دنیا اٹھے گی۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو اَبدی آرام کر رہے ہیں، پہلے مدینہ والے اٹھیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : باری تعاليٰ! ہمارے لیے مدینے کی محبت مکہ سے بھی زیادہ کر دے۔ یہ صحیحین بخاری، مسلم کی حدیث ہے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الحج، 2 : 667، رقم : 1790
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، 2 : 994، رقم : 1369
فرمایا : باری تعاليٰ! ہمارے لیے مدینہ کی محبت مکہ جیسی، اور پھر فرمایا : اس سے بھی زیادہ کردے۔ شدید تر کر دے مدینہ کی محبت مکہ سے زیادہ۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہاں خدا کا گھر ہے، اور یہاں خدا کے مصطفی کا در ہے۔ گھر خدا کا وہاں ضرور ہے مگر خدا کی محبت کا مرکز و محور بھی مصطفی کا در ہے۔ اس لیے جہاں حضور آرام فرما ہیں لاکھ کعبے بھی اس خطہ زمین پر قربان ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی دعا کی : باری تعاليٰ! مدینہ کی برکت کو بڑھا دے۔ اور حدیث پاک میں ہے، بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے، اتنی بڑھا دے کہ مکہ کی برکت سے بھی دوگنا کر دے۔
اس فضیلت کا جو فرق رکھا اس کا مدار کیا ہے؟ حج تو مکہ میں ہوتا ہے، مدینہ کی زیادہ برکت کیوں؟ محبت مدینہ کی زیادہ کیوں؟ سوائے اس کے کیا کوئی اور سبب ہے کہ مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے اور مدفن ہے۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن ساری دنیا کا ایمان سکڑ کر مدینہ میں آ جائے گا۔ (1) جیسے سانپ ہر طرف سے بھاگ کر اپنے بل میں جا کر چھپ جاتا ہے (2) اور محفوظ ہو جاتا ہے۔ جب پوری دنیا پر ایک وقت آئے گا کفر چھا جائے گا تو ایمان سکڑ کر مدینہ میں آ جائے گا۔
(1) بخاری، الصحيح، کتاب فضائل المدينة، 2 : 663، رقم : 1777
(2) مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، 1 : 131، رقم : 147
آقا علیہ السلام نے بار بار ان چیزوں کی نشان دہی کی اور فرمایا :
مَا بَينَ منبري وروضتي روضة من رياض الجنة.
بخاری، الصحيح، کتاب الجمعة، 1 : 399، رقم : 1138
میرے گھر - جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور ہے، مزار اقدس - اور میرے منبر کے درمیان جنت کا باغ ہے۔ یہ ساری باتیں اس دوسرے شہرکے لیے تو نہیں کہی۔ جو بیت اللہ اور مسجد الحرام، مسجد حرام کا شہر ہے۔ حج وہیں ہے۔ مگر آقا علیہ السلام کی رغبتیں، جب مدینہ آ گئے تو ساری محبتیں مدینہ میں سما گئیں۔ یہ اشارہ اُمت کو ایک سمتِ محبت دینے کے لئے تھا کہ مکہ سے محبت بھی اسی کی معتبر ہوگی جس کی کثرت کے ساتھ محبت مدینہ سے ہو۔
مدینہ کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا : جس نے اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھا، وہ دوزخ کی آگ میں اس طرح پگھل جائے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، 2 : 992، رقم : 1363
یہ اہل مدینہ کا اعزاز ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمت محبت سکھا رہے ہیں آقا علیہ السلام کا ارشاد ہے : اے میرے امتیو! تمہاری محبت کا رخ یہ ہونا چاہیے، کہ محبت اور عشق کی سمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم ہوں، مصطفی کی جگہ اور ذات ہو۔ اگر یہ محبت نصیب ہوگئی تو اس کے صدقے کعبہ کی محبت بھی نصیب ہو جائے گی۔ اسلام کی محبت، دین کی محبت اور ایمان کی محبت بھی مل جائے گی۔ اس رشتے کو دوبارہ زندہ کر لیں، پھر اپنی نسلوں میں اپنی اولادوں کو سکھائیں، یہ وراثت ان کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بہت بڑی غلطی کرتے ہیں کہ ان کو بچپن میں نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور جب عمر کے اس حصے میں جا پہنچتے ہیں تو وہ نئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر ہم شکوہ کرتے ہیں۔ اس شیوہ ایمان کو خود بھی اپنائیں اور اپنی اولادوں کو یہ ساری وراثت منتقل کریں۔ تب جا کے ہم اس قابل ہوں گے کہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جب قیامت کے دن پیش ہوں تو سرخ رُو ہو سکیں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِهِ وَصَحْبِهِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ.