حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خانوادہ حضرت علی رضی اللہ عنہم کی نظر میں
آج کل سوشل میڈیا پر سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے بیان حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یوم منانے ان کے نام مساجد و مدارس بنانے کو لے کر اپنی جہالت کے ساتھ ساتھ اپنی رافضیت بھی دیکھا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر انتہائی گستاخانہ انداز میں کر رہے یہ سب اہلبیت رضی اللہ عنہم کی محبت کی آڑ میں کھلے رافضی کرتے چلے آرہے تھے اب چھپے رافضی بھی یہی کچھ کر رہے ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس سے پہلے بھی بہت کچھ لکھا اصل اسکن پیش کیئے شاید کچھ احباب کو بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر فقیر یہ کیوں لکھ رہا ہے امید ہے اب سمجھ آگئی ہوگی آج کے اس مضمون میں اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آڑ لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والوں کو اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے اقوال کی روشنی میں جواب دیا جا رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ لوگ گستاخیوں سے باز آجائیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین ۔ فقیر نے کوشش کی ہے کہ اخلاق کا دامن کہیں نہ چھوٹے پھر بھی اہل علم اگر کہیں غلطی پائیں تو ضرور آگاہ فرمائیں ۔ اور ساتھ ہی اصل اسکن بھی پیش ہیں ۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں رضی اللہ عنہم کے تاثرات ذکر کرنے سے پہلے ذرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں: '' اللہم اجعلہ ھادیا مہدیا و اہدبہ'' یعنی اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت پانے والا بنادے اور معاویہ کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (ترمذی،جلد:2ص: 225)(اس حدیث کی مکمل تحقیق و تخریج ہم پیش کر چکے ہیں)
ایک موقع پر ارشاد فرمایا : اے اللہ ! معاویہ کو قرآن اور حساب کا علم عطا فرمااور اسے عذاب سے نجات دے۔ (البدایہ، جلد:8، ص:140، کنزل العمال، جلد:7ص: 87)
امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں
جنگ صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے زیر حکومت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا۔ اس مراسلہ کو نہج البلاغہ کے شیعہ مصنف نے صفحہ 151پر درج کیا ہے : ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ ) کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک، ہمارا اور ان کانبی ایک، ہماری اور ان کی دعوت اسلام میں ایک، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں نہ ہم ان سے زیادہ نہ وہ ہم سے زیادہ، پس معاملہ دونوں کا برابر ہے ۔ صرف خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہم اور ان میں اختلاف ہوا اور ہم اس سے بری ہیں ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں ۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا : جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ مشر ک نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا: کیا وہ منافق ہیں ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ منا فق بھی نہیں ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا : پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟
جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''ہم اخواننا بغواعلینا''
ترجمہ : وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف زیادتی کی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد: 4ص: 1013، چشتی)
آپ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتب اٹھائیں اور پڑھیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ جو لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے قیدی بن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں غسل دیا جائے اور کفن دیا جائے، پھر انہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :''قتلانا و قتلاہم فی الجنۃ''ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد:4ص: 1036)
کتنے افسوس کامقام ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو اپنے جیسا ایماندار اورمسلمان اور ان کے مقتولین کو جنتی بتلائیں اور دشمنانِ صحابہ سبائی انہیں کافر اور منافق قرار دیں۔ اب قارئین خود فیصلہ فرمائیں کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بات معتبر سمجھی جائے یا سبائی گروہ کی ۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیئے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کچھ اختلاف کے باوجود ان کا کتنا احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں کس قدر حسنِ ظن رکھتے تھے۔
تاریخِ اسلام کے اوراق میں آپ کو نظر آئے گا کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین جنگ جاری ہے۔ منافقین کی شرارتوں، خباثتوں اور کارستانیوں کے نتیجے میں گھمسان کا رن پڑ رہا ہے کہ اس دوران قیصر روم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا۔ اس کا خیال تھا کہ مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں اور مجھے اس سے زیادہ مناسب موقع پھر کبھی میسر نہیں آئے گا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اندرونی طور پر سخت مشکل میں ہیں ان کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ٹھنی ہوئی ہے، میرے اس اقدام سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خوش ہوں گے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کے خطرناک اور زہریلے عزائم کی اطلاع ملی تو بے حد پریشان ہوئے۔ کیونکہ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا اور دو محاذوں پر جنگ جاری رکھنا ان کے لیے بہت دشوار اور مشکل تھا، مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس پریشانی اور اضطراب کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی للکار نے دور کردیا۔
قیصرِ روم کے اس ارادے کی اطلاع جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو وہ بے چین ہوگئے اور اسی وقت ایک خط قیصر روم کے نام تحریر فرمایا جس کے ذریعے انہوں نے قیصر روم کی غلط فہمیوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ دور کیا کہ خط لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ خط کیا تھا؟ ایک مؤثر ہتھیار تھا، پر مغز ، مؤثر اور جلال سے بھر پور، رعب و دہشت کا مجسمہ جسے پڑھ کر قیصر روم کے حواس اڑ گئے اور اوسان خطا ہوگئے۔ قیصر روم پر ایسی دہشت اور ایسا رعب طاری ہوا کہ ا س کے قدم جہا ں تھے وہیں رک گئے۔ سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خط کامضمون اور طرز تحریر کس قدر ایمان افروز اور کفر سوز ہے یہ ایک الگ حقیقت ہے ، مگر خط کی ا بتداء میں آپ نے جس تیز و تلخ ، رعب دار اور جلال سے بھر پور لہجے میں قیصر روم کو مخاطب کیا ہے وہ انداز اپنی جگہ ''اشداء علی الکفار '' کی عملی تصویر ہے۔
خط کے آغاز میں تحریر فرمایا : الے لعنتی انسان ! مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس پلٹ نہ گیا تو کان کھول کر سن !!!پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی تیرے خلاف صلح کرلیں گے۔پھر تجھے تیرے ملک سے نکال دیں گے اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ کردیں گے۔ (البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص:119، چشتی)
حضرات مولا علی المرتضیٰ و امیر معاویہ رضی اﷲ عنہما کا باہمی تعلق
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی اﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا۔ امارات معاویہ رضی اﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ ( شرح عقیدہ واسطیہ)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے (البدایہ ج 8 ص 130)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا ۔ (البدایہ‘ ج 8ص 131)
حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے‘ افضل ہونا تو کجا ہے ۔ (الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے رجوع کیا ۔ ( موطا امام مالک)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا ۔ (تاج العروس ص 221)
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا۔(بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی نظر میں : حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ بیٹا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت سے نفرت نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو ضائع کر دیا تو آپس میں کشت و خون دیکھو گے ۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد: 8ص: 131، شرح نہج البلاغہ ابن ابی لحدید شیعی جلد: 3ص: 836)
جب سبائیوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے خلافت ان کے سپر د کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ نیزہ کے زخم کی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور فرما رہے تھے: اللہ کی قسم میں معاویہ کو اپنے لیئے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے آپ کو میرا پیروکار کہتے ہیں انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا ، میرا خیمہ لوٹا، میرے مال پر قبضہ کیا ۔ (شیعہ کتب ، جلاء العیون، احتجاج طبرسی، ص:148، چشتی)
زخم مندمل ہوجانے کے فورا بعد امیر المومنین حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلینا ہی بہتر ہے چنانچہ آپ نے ربیع الاول 41 ھ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کر دی اور یہ صلح ڈر کر یا دب کر نہیں کی بلکہ آپ چاہتے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑ سکتے تھے۔ آپ کے پاس چالیس ہزار فوج مرنے کو تیار تھی مگر آپ نے مسلمانوں کو خونریزی سے بچانے کے لیے اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا صحیح اہل سمجھ کر صلح کی تھی ۔ (الاستیعاب لابن عبد البر جلد: 3ص: 298)
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے صلح کرنے سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ پیشینگوئی پوری ہو گئی جو آپ نے اس وقت فرمائی تھی جب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ میرا یہ بیٹا سردار بیٹا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کروائے گا ۔ (بخاری، جلد:1ص: 530)
انصاف آپ خود فرمائیں کہ نصف سلطنت خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی اور باقی نصف بھی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے صلح کرکے سپر د کردی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل ، صحابی رسول، صاحبِ سیادت و فراست اور مدبر تھے اور اس وقت ان سے بڑھ کر اور کوئی بھی اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نظر میں : حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو سبائیوں نے جو صلح کے مخالف تھے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوآمادہ کرنا چاہا کہ وہ بیعت ختم کر کے مقابلہ کریں لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا: ہم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی ، عہد کر لیا ہے، اب ہمارا بیعت توڑنا ممکن نہیں ۔ (شیعہ کتب : اخبار الطوال، ص: 234، رجال کشی، ص: 102)
کتب تاریخ و سیر اس پر گواہ ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں بھائی اکثر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جایا کرتے تھے وہ دونوں کی بہت عزت و تکریم کرتے، محبت و شفقت سے پیش آتے اور اپنے برابر تخت پر بٹھاتے اور ایک ایک دن میں ان کو دو، دو لاکھ درہم عطا کرتے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بدستور ان کی مجلس میں تشریف لے جایا کرتے او روظائف او رعطایا حاصل کرتے۔
(البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص: 150)
آپ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بھانجی آمنہ بنت میمونہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ اولیٰ تھیں ، اس لحاظ سے حضرت امام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے داماد تھے ۔ (طبری، جلد: 13ص: 19، چشتی)
اسی طرح حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ محترمہ ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں اس لحاظ سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام مومنوں کے ماموں ہوئے ۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ اور امام خفاجی رحمۃُاللہ علیہ یہ دونوں امام فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی روفضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )(سنیوں کا لبادہ اڑھے جہنمی کتوں کو پہچانیئے ، چشتی)
علامہ شہاب خفا جی رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔ ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے۔
(نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)
جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ فرماتے ہیں ۔ (المفوظ، جلد:3ص:71)
حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اختلافی اُمور کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دائرہ صحابیت سے خارج کرنا ،کافر،مشرک ثابت کرنا نہ صرف گناہ عظیم بلکہ توہین رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے اور موجب کفر ہے ۔ (نام و نسب باب نہم صفحہ نمبر 519 حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃُ اللہ علیہ)
محترم قارئین کرام : دشمنان صحابہ سبائی ٹولہ نے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہمہ گیر پروپییگنڈہ کیا ہے کہ حقائق خرافات کے انبار میں دب کر رہ گئے ہیں اور مسلمان نسلاً بعد نسل اس شر انگیز پروپیگنڈے سے اس حد تک متاثر ہوتے چلے گئے ہیں کہ مدت سے نہ صرف عامۃ المسلمین بلکہ بہت سے خواص کے احساسات بھی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم و جلیل القدر اورکاتبِ وحی صحابی کے بارے میں ویسے باقی نہیں رہ گئے جیسے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں عموما پائے جاتے ہیں ۔
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہی ایسا جذبات انگیز تھا کہ خانوادہ علی سے گہری محبت رکھنے والی امتِ مسلمہ کو اس کی آڑ میں بہت آسانی سے غلط خیالات و آراء میں مبتلا کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے، حالانکہ جذباتی و خیا لی بلند پروازیوں سے الگ ہو کر ٹھوس حقیقی بنیادوں پر علمی و عقلی گفتگو کی جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دامن مقدس اسی طرح داغِ طغیان و معصیت سے پاک ہے جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ۔
محترم قارئین : چلیے! بقول کسے ایک منٹ کے لیئے تسلیم کرلیتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے سیاسی خطا ہوئی مگر کیا ایک جلیل القدر صحابی کو چند سیاسی خطائیں اتنا پست و حقیر بنا سکتی ہیں کہ ہم جیسے حقیر و بے بضاعت اور گھٹیا لوگ بھی اس کی بے ادبی پر اتر آئیں ۔ ان کا احترام ہمارے دلوں سے اٹھ جائے اور ہم بلا تکلف انہیں جنگ و تفرقہ کا بانی ، باغی اور منافق کہہ گزریں ۔ کیا ستارہ سیا ہ بدلی میں آجائے تو اتنا بے نور ہو جاتا ہے کہ تیل کے چراغ اس پر زبانِ طعن دراز کریں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آسمان دنیا پر چمکنے والے روشن ستارے تھے صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لئے ہدایت کا چرغ تھے ۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اگر صحابی تھےاور یقینا تھے اورآخر سانس تک دین اسلام پر ثابت قدم رہے تو ''اصحاب" کے دائرے سے انہیں کون نکال سکتا ہے ؟
ویسے بھی ہمارا اور آپ کا جج بن بیٹھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عدالتِ خیال میں فریقین بنا کر لانا ایسی ناروا جسارت ہے کہ دُرّوں سے ہماری پیٹھ کُھرچ دینی چاہیے ۔ ہمیں کیا حق ہے کہ تقریبا چودہ سو برس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعض محترم اصحاب میں سے ایک کو بر سرِ حق اور ایک کو مجرم اور غلط ثابت کرنے بیٹھیں اور تاریخی واقعات کو صحیفۂ آسمانی تصور کرلیں ۔ چاہے ان کی بعض تفصیلات سے قرآن کا توثیق فرمودہ کردارِ صحابہ مجروح ہوتا ہے ۔ ہمیں کچھ بھی حق نہیں سوائے اس کے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے لیئے دلوں میں عقیدت او رحسنِ ظن پر ورش کریں اور ان کے ہر فعل و عمل کی اچھی توجہیہ نکالنے میں کوشاں رہیں۔
محترم قارئین : یقین کیجیے کہ ہماری اس تحریر کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دامنِ صحابیّت سے ان چھینٹوں کو دھویا جائے جو دنیا ناحق ان پر ڈالتی ہے ۔ ہماری نظر میں صحابیت عظمتِ پیغمبر کے حِصار کا درجہ رکھتی ہے ۔ نبوت کے قصر کی فصیلیں صحابیّت ہی کے رنگ و روغن سے زینت پاتی ہیں۔ اکرام ِ صحابیت کا طلائی حِصار اگر ٹوٹ جائے تو پیغمبر کی آبرو تک ہاتھ پہنچنا آسان ہوجاتا ہے ۔ پس جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں وہ در اصل امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آبرو اور ختم نبوت کے دشمن ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر بددیانتی اور خیانت کا الزام لگا کر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment