خطاء اجتہادی شان صحابہ و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہار شریعت حصّہ سوم
عقیدہ (۶): تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم اھلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ (في ''المسامرۃ''، ص۳۱۳: (واعتقاد أھل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللہ عنھم وجوباً بإثبات العدالۃ لکل منھم والکف عن الطعن فیہم، (والثناء علیہم کما أثنی اللہ سبحانہ وتعالی علیہم إذ قال: (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ)) وقال تعالی: ( وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ) وسطاً أي: عدولاً خیاراً.وفي ''منح الروض الأزہر'' للقاریئ، أفضلیۃ الصحابۃ بعد الخلفائ، ص۷۱: (ولا نذکر الصحابۃ) أي: مجتمعین ومنفردین، وفي نسخۃ : ولا نذکر أحداً من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم إلاّ بخیر، ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ((إذا ذکر أصحابي فأمسکوا))، ولذلک ذھب جمھور العلماء إلی أنّ الصحابۃ رضي اللہ عنھم کلھم عدول قبل فتنۃ عثمان وعلي وکذا بعدہا)، ملتقطاً ، وفي''شرح العقائد النسفیۃ''، ص۱۶۲: (ویکف عن ذکر الصحابۃ إلاّ بخیر)
عقیدہ (۷): کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے، کہ وہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے( عن عبد اللہ بن مغفل قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:((اللہ اللہ في أصحابي، لا تتخذوہم غرضا بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم ومن أبغضھم فببغضي أبغضھم، ومن آذاہم فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذی اللہ، ومن آذی اللہ فیوشک أن یأخذہ)). ''سنن الترمذي''، کتاب المناقب، باب من سبّ أصحاب النبيصلی اللہ علیہ وسلم، الحدیث: ۳۸۸۸، ج۵، ص۴۶۳.
في ''فیض القدیر''، ج۲، ص۱۲۴، تحت الحدیث: (((اللہ اللہ في)) حق (أصحابي) أي: اتقوا اللہ فیہم ولا تلمزوہم بسوئ، أو اذکروا اللہ فیہم وفي تعظیمہم وتوقیرہم، وکررہ إیذاناً بمزید الحث علی الکف عن التعرض لہم بمنقص ((لا تتخذوہم غرضاً)) ہدفاً ترموہم بقبیح الکلام کما یرمی الہدف بالسہام، ہو تشبیہ بلیغ ((بعدي)) أي: بعد وفاتي۔۔۔۔۔۔ ((ومن آذاہم)) بما یسوء ہم ((فقد آذاني ومن آذاني فقد آذی اللہ ومن آذی اللہ یوشک أن یأخذہ)) أي: یسرع انتزاع روحہ أخذۃ غضبان منتقم عزیز مقتدر جبار قہار (ِانَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ))، ملتقطاً.)،ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے، مثلاً حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہند، اسی طرح حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص، و حضرت مغیرہ بن شعبہ،وحضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنھم، حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیّدنا سید الشہدا حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اَخبث الناس خبیث مُسَیْلِمَہ کذّاب ملعون (نبوت کا جھوٹا دعویدار مسیلمہ لعنتی۔) کو واصلِ جہنم کیا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے :کہ میں نے خیر النّاس و شر النّاس کو قتل کیا ( (وحشي بن حرب الحبشي قاتل حمزۃ بن عبد المطلب رضي اللہ عنہ یوم أحد، وشَرِک في قتل مسیلمۃ الکذاب یوم الیمامۃ، وکان یقول: قتلت خیر الناس في الجاھلیۃ وشرّ الناس في الإسلام). ''أسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ''، الجزء الخامس، رقم الترجمۃ: ۵۴۴۲، ص۴۵۴.)، اِن میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرّا(نفرت کا اظہار کرنا۔) ہے اور اِس کا قائل رافضی، اگرچہ حضراتِ شیخین رضی اﷲ تعالیٰ عنھما کی توہین کے مثل نہیں ہوسکتی، کہ ان کی توہین، بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔ (في ''الدر المختار''، کتاب الجہاد، باب المرتد، ج۶، ص۳۶۲: (من سب الشیخین أو طعن فیھما کفر ولا تقبل توبتہ).وفي ''البزازیۃ''، ج۶، ص ۳۱۹: (الرافضي إن کان یسب الشیخین ویلعنھما فہو کافر)، (ھامش ''الہندیۃ'').وفیہا ج۶، ص ۳۱۸: (من أنکر خلافۃ أبي بکر رضي اللہ عنہ فہو کافر في الصحیح، ومنکر خلافۃ عمر رضي اللہ عنہ فہو کافر في الأصحّ)، (ھامش ''الہندیۃ'').وفي ''فتح القدیر''، باب الإمامۃ ،ج۱، ص۳۰۴: (وفی الروافض أنّ من فضل علیاً رضی اللہ عنہ علی الثلاثۃ فمبتدع وإن أنکر خلافۃ الصدیق أو عمر رضي اللہ عنھما فہو کافر).وفي ''البحر الرائق''، کتاب الصلاۃ، إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق...إلخ، ج۱، ص۶۱۱: (والرافضی إن فضل علیاً علی غیرہ فہو مبتدع ، وإن أنکر خلافۃ الصدیق فہو کافر).في ''رد المحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج۲، ص۳۵۸: (وإن أنکر خلافۃ الصدیق أو عمر فہو کافر).وفي ''تبیین الحقائق''، کتاب الصلاۃ، الأحق بالإمامۃ، ج۱، ص۳۴۷: (وفي الروافض إن فضل علیاً رضي اللہ عنہ علی الثلاثۃ فمبتدع وإن أنکر خلافۃ الصدیق أو عمر فہو کافر). انظر للتفصیل ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۵۱.)
عقیدہ (۸): کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کاہو، کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔ (في ''المرقاۃ''، کتاب الفتن، تحت الحدیث: ۵۴۰۱، ج۹، ص۲۸۲: (من القواعد المقررۃ أنّ العلماء والأولیاء من الأمۃ لم یبلغ أحد منھم مبلغ الصحابۃ الکبرائ).اعلی حضرت امام اھلسنت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: ''تابعین سے لے کرتا بقیامت امت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم کو پہنچے صاحب ِسلسلہ ہو خواہ غیر ان کا، ہرگز ہرگز ان (یعنی صحابہ) میں سے ادنی سے ادنی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، اور ان میں ادنی کوئی نہیں۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۲۹، ص۳۵۷.)
مسئلہ (۵): صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔
عقیدہ (۹): تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں، وہ جہنم کی بِھنک(ھلکی سی آواز بھی۔) نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انھیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ((اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰۤئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ لَایَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْ مَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خٰلِدُوْنَ لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰھُمُ الْمَلٰۤئِکَۃُ ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ) پ۱۷، الأنبیائ: ۱۰۱۔ ۱۰۳.)، یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے۔
عقیدہ (۱۰): صحابہ کر ام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم، انبیا نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں، مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خلاف ہے۔ ( (وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِم مِّنْ غِلٍّ) پ۸، الأعرف: ۴۳۔في ''التفسیر الکبیر''، ج۵، ص۲۴۲۔۲۴۳: تحت الآیۃ: (ومعنی نزع الغل: تصفیۃ الطباع وإسقاط الوساوس ومنعہا من أن ترد علی القلوب،۔۔۔۔۔۔۔۔ وإلی ھذا المعنی أشار علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ فقال: إنی لأرجو أن أکون أنا وعثمان وطلحۃ والزبیر من الذین قال اللہ تعالی فیہم: (وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِم مِّنْ غِلٍّ))۔وفي ''روح البیان''، تحت الآیۃ: ج۳، ص۱۶۲: (قال ابن عباس رضی اللہ عنھما: نزلت ہذہ الآیۃ في أبي بکر وعمر وعثمان وعلي وطلحۃ والزبیر وابن مسعود وعمار بن یاسر وسلمان وأبي ذر ینزع اللہ في الآخرۃ ما کان في قلوبہم من غشّ بعضھم لبعض في الدنیا من العداوۃ والقتل الذي کان بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والأمر الذي اختلفوا فیہ فیدخلون) اﷲ عزوجل نے ''سورہ حدید'' میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں، مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا:( وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ )'سب سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا۔''إخواناً علی سرر متقابلین)۔
ساتھ ہی ارشاد فرما دیا:(وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰﴾)ـ((لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ) پ۲۷، الحدید : ۱۰.)ـ'اﷲ خوب جانتا ہے، جو کچھ تم کرو گے۔'' تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکے تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے...؟! کیا طعن کرنے والا اﷲ (عزوجل) سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ (''الفتاوی الرضویۃ''، ج۲۹، ص۱۰۰ ۔ ۱۰۱، ۲۶۴، ۳۳۶، ۳۶۱۔۳۶۳.)
عقیدہ (۱۱): امیرِ معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مجتہد تھے، اُن کا مجتہد ہونا حضرت سیّدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھما نے حدیث ِ''صحیح بخاری'' میں بیان فرمایا ہے( حدثنا ابن أبي مریم: حد ثنا نافع بن عمر: حدثنی ابن أبی ملیکۃ: (قیل لابن عباس: ھل لک فی أمیر المؤمنین معاویۃ فإنہ ما أوتر إلاّ بواحدۃ قال: أصاب إنہ فقیہ). ''صحیح البخاري''، کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، باب ذکر معاویۃ رضي اللہ تعالٰی عنہ، الحدیث: ۳۷۶۵، ج۲، ص۵۰۵. ''المشکاۃ''، کتاب الصلاۃ، باب الوتر، الحدیث: ۱۲۷۷، ج۱، ص۲۵۰۔ في ''المرقاۃ''، ج۳، ص ۳۴۹۔۳۵۰، تحت الحدیث: (قال: أي: ابن عباس أصاب، أي: أدرک الثواب في اجتہادہ إنّہ فقیہ، أي: مجتہد وہو مثاب وإن أخطأ).)، مجتہد سے صواب و خط ا( صحیح اور غلط) دونوں صادر ہوتے ہیں۔( في''شرح العقائد النسفیۃ''، مبحث المجتھد قد یخطیئ ویصیب، ص۱۷۵: (والمجتھد في العقلیات والشرعیات الأصلیۃ والفرعیۃ قد یخطیئ وقد یصیب).وفي ''منح الروض الأزہر'' للقاریئ، المجتہد في العقلیات یخطیئ ویصیب، ص۱۳۳: ( أنّ المجتھد في العقلیات والشرعیات الأصلیۃ والفرعیۃ قد یخطیئ وقد یصیب).)
خطا دو قسم ہے: خطاء عنادی، یہ مجتہد کی شان نہیں اور خطاء اجتہادی، یہ مجتہد سے ہوتی ہے اور اِس میں اُس پر عند اﷲ اصلاً مؤاخذہ نہیں۔ مگر احکامِ دنیا میں وہ دو قسم ہے: خطاء مقرر کہ اس کے صاحب پر انکار نہ ہوگا، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس سے دین میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہوتا ہو، جیسے ھمارے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا۔
دوسری خطاء منکَر، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس کے صاحب پر انکار کیا جائے گا، کہ اس کی خطا باعثِ فتنہ ہے۔ حضرت امیرِ معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا حضرت سیّدنا امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرّم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے خلاف اسی قسم کی خطا کا تھا ( ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۲۹، ص۳۳۵ ۔ ۳۳۶.) اور فیصلہ وہ جو خود رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مولیٰ علی کی ڈِگری ( یعنی تائید و سندِ حق) اور امیرِ معاویہ کی مغفرت، رضی اﷲ تعالیٰ عنھم اجمعین ۔ (عن عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ قال: (رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في المنام وأبو بکر وعمرجالسان عندہ، فسلمت علیہ وجلست، فبینما أنا جالس إذ أتي بعلي ومعاویۃ، فأدخلا بیتا وأجیف الباب وأنا أنظر، فما کان بأسرع من أن خرج علي وہو یقول: قضی لي ورب الکعبۃ، ثم ما کان بأسرع من أن خرج معاویۃ وہو یقول: غفر لي ورب الکعبۃ).''البدایۃ والنہایۃ''، ج۵، ص۶۳۳.وفي ''مختصر تأریخ دمشق''، قال یزید بن الأصم: لما وقع الصلح بین علي ومعاویۃ خرج علي فمشی في قتلاہ فقال: ہؤلاء في الجنۃ، ثم مشی في قتلی معاویۃ فقال: ہؤلاء في الجنۃ، ولیصیر الأمر إلي وإلی معاویۃ، فیحکم لي ویغفر لمعاویۃ؛ ہکذا أخبرني حبیبي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم..وعن ابن عمر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((أوّل من یختصم في ہذہ الأمۃ بین یدي الرب علي ومعاویۃ، وأوّل من یدخل الجنۃ أبو بکر وعمر))، قال ابن عباس:کنت جالساً عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم وعندہ أبو بکر وعمر وعثمان ومعاویۃ إذ أقبل علي بن أبي طالب، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لمعاویۃ: ((أتحب علیاً یا معاویۃ؟)) فقال معاویۃ: إي واللہ! الذي لا إلہ إلاّ ہو إنّي لأحبہ في اللہ حباً شدیداً، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إنّہا ستکون بینکم ہنیہۃ))، قال معاویۃ: ما یکون بعد ذلک یا رسول اللہ؟ فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: غفر اللہ ورضوانہ، والدخول إلی الجنۃ))، قال معاویۃ: رضینا بقضاء اللہ فعند ذلک نزلت ہذہ الآیۃ: (وَلَوْ شَآءَ اللہُ مَا اقْتَتَلُوْا وَلٰـکِنَّ اللہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ).(جاری ہے)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment