موبائل میں قرآن ہوتو بلاوضو چھونے کا شرعی حکم
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس موضوع پر ایک مختصر مگر محتاط قول لکھ کر پوسٹ کیا تو بعض احباب نے نظر ثانی کا فرمایا تو بعض نے اپنے علم کا روپ دیکھایا اور اسے غلط قرار دیا وہ مختصر اسٹیٹس یہ ہے : (موبائل فون میں قرآن کریم ڈاؤن لوڈ کرنا اور اس کی فائل محفوظ رکھنا شرعاً جائز ودرست ہے ، اگر قرآن کریم کے کلمات موبائل اسکرین پر ظاہر ونمایاں ہوں تو اُسے بلا وضو چھونا شرعاً درست نہیں ، البتہ قرآن کریم کی فائل ‘ موبائل میں محفوظ ہو لیکن کلمات اسکرین پر ظاہر نہ ہوں تو بلا وضو ہاتھ لگانا شرعاً جائز ہے ۔ جیساکہ الجوھرۃ النیرۃ ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض میں ہے : وکذا لایجوز لہ مس شیء مکتوب فیہ شییء من القرآن من لوح او درھم او غیر ذالک اذا کان آیۃ تامۃ ۔ ) اب آیئے اس مضمون پر قدرے تفصیل سے پڑھتے ہیں فقیر نے کوشش کی ہے تمام مکاتب فکر کے علماء کے فتاویٰ جات جو اس موضوع کے متعلق ہیں ان کا خلاصہ پیش کیا جائے اور احتیاطی و راجح قول بھی پیش کیا جائے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔
اب آیئے اس موضوع کو ذرا تفصیل سے پڑھتے ہیں
موبائل میں قرآن کو پڑھنا ، قرآن کریم کی تلاوت موبائل، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر کی اسکرین پر تلاوت کرنا جائز ہے ؟ اس صورت میں بھی وہی آداب ِ تلاوت ہوں گے جو مصحف میں دیکھ کر پڑھنے کے وقت ہوتے ہیں۔موبائل وغیرہ کی اسکرین پر اگر قرآن کریم کے نقوش نہ ہو تو اس کو بالاتفاق غیر متوضی( بلاوضو) یا جنبی ہاتھ لگا سکتا ہے ۔لیکن اگر قرآن کریم کے نقوش اسکرین پر موجود ہوں تو جنبی یا غیر متوضی اس موبائل یا اسکرین کو چھو سکتا ہے یا نہیں اس میں تین اقوال ہیں :
(1) موبائل ، کمپیوٹر ٹیبلٹ کی اسکرین کو اس وقت چھونا جائز نہیں ، ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ اس حالت میں مصحف کے مانند ہے اور ارشاد ربانی ہے :لایمسہ الا المطھرون،( الفتاوی مھمہ فی ماابتلت بہ العامہ،چشتی)
(2) صرف جس اسکرین پر قرآن کریم کے نقوش ظاہر ہو رہے ہیں اس کا چھونا جائز نہیں ، موبائل و کمپیوٹر کے دیگر پارٹس کو بلا وضو بھی چھو سکتے ہیں ۔ ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ یہ قرآن کریم کے حکم میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو موبائل کے دیگر پارٹس غلاف منفصل کے حکم میں ہوں گے ۔ واضح رہے کہ جب قرآن کریم موبائل یا میمو ری کارڈ کے اندر ہو یعنی اس کو اسکرین پر کھولا نہ گیا ہو ، تو اس وقت چوں کہ قرآن کریم حروف ونقوش کی صورت میں موجود نہیں اس لیئے اس کو ہاتھ لگانے کے لیئے باوضو ہونا ضروری نہیں ۔ اور جب موبائل یا میموری کارڈ کے حافظے میں موجود قرآن کریم کو اسکرین پر کھول لیا جائے تو اس وقت چوں کہ اسکرین پر موجود نقوش قرآن کریم کے الفاظ پر دلالت کرتے ہیں ، اس وقت اسکرین پر ہاتھ لگانے کے لیئے وضو ہونا ضروری ہے او راس صورت میں چوں کہ قرآن کریم کا صرف وہی حصہ حروف کی شکل میں ہے جو اسکرین پر نظر آرہا ہے ، لہٰذا اسکرین کو ہاتھ لگانا طہارت کے بغیر جائز نہ ہو گا اور اسکرین کے علاوہ موبائل کے بقیہ حصوں کو ہاتھ لگانا جائز ہو گا ۔ البتہ عظمت کا تقاضہ اور مناسب و احوط یہ ہے کہ بقیہ حصوں کو وضو کے ساتھ چھوا جائے ۔
(3) تیسرا قول یہ ہے کہ اس اسکرین کو بھی ہاتھ لگا سکتے ہیں اور دیگر پارٹس کو بھی ، ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کاغذ پر قرآن کریم لکھ کر اس کو فریم میں کردیا ہو ۔ موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بلا وضو یا حالتِ جنابت میں چُھونا جائز ہے ، کیونکہ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین پر جو آیات نظر آتی ہیں ، وہ“ سافٹ وئیر ” ہیں یعنی ایسے نقوش ہیں، جنہیں چُھوا نہیں جاسکتا ۔ نیز ماہرین کے مطابق یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ“ ریم ”پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں لہٰذا اسے مصحفِ قرآنی کے “غلافِ منفصل” پر قیاس کیا جاسکتا ہے یعنی ایسا غلاف جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جُدا ہو ۔ اس کے ساتھ قرآنِ کریم چُھونے کو حضرات فقہائے کرام کی صراحت کے مطابق جائز قراردیا گیا ہے ۔ (دیکھئے الدر المختار ج1 ص293 وھندیہ ج1 ص39 وحاشیة الطحطاوی علی المراقی ص27 ،28،چشتی)۔
اسکرین پر نظر آنے والی آیات کی مثال ایسی ہی ہے کہ گویا قرآنی آیات کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہوں اور وہ کاغذ کسی شیشے کے بکس میں پیک ہو ، پھر باہر سے اس شیشے کو چُھوا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کیونکہ غلافِ منفصل کی طرح ایک تو یہ شیشہ اس جگہ سے جُدا ہے ، جہاں آیات کے نقوش بن رہے ہیں ۔ نیز فقہائے کرام نے صندوق کی مثال دے کر فرمایا کہ اگر اُس کے اندر مصحف موجود ہو تو اس صندوق کوجنبی (مجنب) شخص کے لیئے اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے ، لہٰذا موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو حالتِ جنابت میں یا بلا وضو چُھونا اور پکڑنا جائز ہے اور بے وضو شخص کے لیئے اس سے تلاوت کرنا بھی جائز ہے ۔بندے کے نزدیک۔ قول اول احوط قول ثانی اوسط اورقول ثالث اصح ہے ۔
پہلے قول کو ترجیح : جس وقت موبائل اسکرین پر قرآنِ کریم کی آیات واضح طور پر نظر آرہی ہیں ، تو اُن کو بلاوضو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے ، بظاہر شیشہ حائل نظر آتا ہے ؛ لیکن وہ حقیقت میں منفصل نہیں ہے ، لہٰذا اس صورت میں پہلا قول ہی صحیح ہے ۔ چند اہم عصری مسائل میں ہے : ” اسکرین پر جس وقت قرآنی آیات نظر آتی ہوں، اُس وقت اس پر ہاتھ نہ لگائیں ؛ اس لیئے کہ یہاں اگرچہ درمیان میں شیشہ حائل ہے ؛ لیکن وہ بظاہر منفصل نہیں ہے ۔(چند اہم عصری مسائل ۲/۱۰۴ ، چشتی)
ادب کا تقاضہ اور مستحب یہ ہے کہ اسے بھی بے وضو نہ چھوئیں ، موبائل کی میموری میں فلمیں ، غزلیں گانے ، چٹکلے ، و مزاح کے مکالمے ، ناٹک ، اور جان دار کی تصویریں ، لوڈ ہوں تو ان میں قرآن پاک یا اسکی بعض سورتوں کی تحمیل ڈاؤنلوڈنگ بے ادبی ہے اس سے بچنا چاہئے ۔ ( موبائل فون کے ضروری مسائل صفحہ 156.157 مفتی طفیل احمد مصباحی صاحب)
موبائل کی اسکرین پر جس وقت قرآنی آیات نمایاں ہوں تو اُنہیں بلا وضو چھونا خلافِ ادب ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے اسکرین کو بلا وضو چھونا احتیاط کے خلاف ہے ، یہ دراصل ممانعت کی علت کی طرف اشارہ ہے ۔ اصل حکم یہی ہے کہ جب موبائل کی اسکرین پر قرآنی آیات نمایاں ہوں تو اُن حروف پر بلا وضو ہاتھ رکھنا درست نہیں ۔ قال اللّٰہ تعالیٰ : {لاَ یَمَسُّہٗ اِلاَّ الْمُطَہَّرُوْنَ} [الواقعۃ: ۷۹] ۔ ویمنع دخول مسجد - إلیٰ قولہ - ومسہ أي القرآن ولو في لوح أو درہم أو حائطٍ۔ (شامي ۱؍۴۸۸) ۔ ویمنع مسہ إلا بغلافہ المنفصل أي کالجراب والخریطۃ دون المتصل کالمجلد المشرز ہو الصحیح، وعلیہ الفتویٰ؛ لأن الجلد تبع لہ ۔ (شامي ۱؍۴۸۸ ،چشتی)
آئینہ کی مثال دیکر جو بات پیش کی جاتی ہے اس آئینہ اور موبائل فون کے آئینہ میں کافی فرق ہوتا ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ کسی آیت کو سامنے رکھ کر اس پر شیشہ پیش کیا جائے تو اس شیشہ کو چھونا حرام نہیں ، موبائل فون کے علاوہ جو شیشہ رہتا ہے وہ قرآنی آیات سے متصل نہیں رہتا بلکہ الگ رہتا ہے اور موبائل فون کا شیشہ موبائل فون سے متصل رہتا ہے دوسری بات یہ کہ دیگر شیشوں پر انگلی پھیرنے سے ورق پلٹتے نہیں ہے برخلاف موبائل فون کہ شیشہ پر انگلی پھیرنے سے مصحف کا ورق بھی پلٹتا ہے ، اور ان کا عارضی کہنا بھی درست نہیں اس لیئے کہ موبائل فون کے علاوہ شیشہ کے ہٹانے سے آیت زائل ہوجاتی ہے برخلاف موبائل فون کہ اس میں اگر کوئی موبائل فون کا اسکرین کور نکال دے تو آیتیں موبائل فون سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہے . بھر صورت موبائل فون کا شیشہ موبائل فون سے ہی متصل رہتا ہے اور اسکو حائل شمار کیا جائے تب بھی لگانا ممنوع ہے جیسا کہ نھایۃ الزین کی عبارت "ولو بثخین" سے واضح ہوتا ہے ۔
خلاصہ کلام اور احتیاط : محترم قارئین : آپ نے اوپر تمام مکاتب فکر فتاویٰ جات سے ماخوذ خلاصہ پڑھا آڑی اور محتاط بات یہ ہے کہ موبائل فون اور میموری کارڈ میں قرآن مجید ، نعتیہ کلام اور بیانات ریکارڈ کروانے میں کوئی حرج نہیں ۔ چونکہ قرآن مجید ، نعتیہ کلام اور بیانات اس کے اندر محفوظ ہیں اس لئے موبائل کو باتھ روم میں لے جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ موبائل سکرین کو چھونا یا باتھ روم میں لے جانا اس وقت منع ہے جب موبائل اسکرین پر قرآنی آیات نظر آتی ہوں ۔ یہی حکم پیروں میں رکھنے کا ہے کہ اگر قرآنی آیات اسکرین پر واضح نظر آتی ہوں تو اس موبائل کا پیروں میں رکھنا منع ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment