Wednesday 25 April 2018

حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما پر سب و شتم کرواتے کا جواب حصّہ اوّل

0 comments
حضرت امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما پر سب و شتم کرواتے کا جواب حصّہ اوّل 

رافضی شیعوں اور سنیت کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کی طرف سے اکثر اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکہا تھا کہ ہر خطبہ مین امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں اور انہیں برا بھلا کہیں ۔ اس کام کو وہ خود بھی کرتے تھے اپنے ہر خطبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتے تھے ۔
سب و شتم کا مطلب ہے برا بھلا کہنا ۔ عربی میں ان الفاظ کا مفہوم وسیع ہے اور اس میں تنقید بھی شامل ہے۔ یہ تنقید سخت الفاظ میں بھی ممکن ہے اور نرم الفاظ میں بھی۔ اس میں گالی دینے کا مفہوم بھی شامل ہے اور نرم انداز میں ناقدانہ تبصرے کا بھی۔
باغی راویوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت عائد کی ہے کہ ان کے زمانے میں وہ اور ان کے مقرر کردہ گورنر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے خطبہ کے دوران معاذ اللہ گالیاں دیا کرتے تھے۔ اس تہمت کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بنو امیہ کے خلاف نفرت پیدا کر کے اپنی پارٹی کے نوجوانوں کو مشتعل کیا جائے۔ اس تہمت کا جھوٹ صرف اتنی سی بات سے واضح ہو سکتا ہے کہ اگر آج کے دور میں کوئی خطیب کسی بھی صحابی کے بارے میں یہ حرکت کرے تو کیا سننے والے اسے چھوڑ دیں گے؟ ہمارے ہاں تو اس مسئلے پر بارہا کشت و خون کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس دور میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اولاد موجود تھی اور ان کے زمانے میں یہ حرکت کی گئی تو کیا یہ حضرات معاذ اللہ ایسے غیرت مند تھے کہ انہوں نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس وقت ان کی غیرت کہاں چلی گئی تھی؟
کیا ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ آزادی اظہار کے اس دور میں اگر کوئی حکمران یہ رسم جاری کرے کہ جمعہ کے خطبوں میں منبر پر کھڑے ہو کر اپوزیشن کے فوت شدہ راہنماؤں کو گالیاں دی جائیں؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا اس طرح وہ حکمران بغیر کسی مقصد کے اپنے خلاف مزاحمتی تحریک پیدا نہ کرے گا؟ ہم کسی بھی ایسے حکمران کے بارے میں یہ تصور نہیں کر سکتے جس میں عقل کا ذرا سا بھی شائبہ ہو۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے غیر معمولی تدبر، حلم اور سیاست کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کیا ان سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ جنگ کی جس آگ کو انہوں نے اپنے حلم اور تدبر سے ٹھنڈا کیا تھا، وہ اسے ایک لایعنی اور فضول حرکت سے دوبارہ بھڑکا دیں۔ پھر یہ حرکت پورے عالم اسلام کی مساجد میں عین جمعہ کے خطبے میں انجام دی جائے اور اس کے رد عمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کی غیرت جوش نہ مارے اور کوئی مزاحمتی تحریک تو کجا یا کم از کم تنقید ہی ان حضرات کی جانب سے سامنے نہ آئے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب و شتم محض باغی راویوں کے ذہنوں میں تھا، جسے انہوں نے اپنے زمانے کے باغیوں کو بھڑکانے کے لیے روایات کی شکل میں بیان کیا۔
ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عربی میں لفظ ’’سبّ‘‘ کا مطلب صرف گالی دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص ، دوسرے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر تنقید کرے اور اپنے دلائل پیش کرے، تو اسے بھی ’سبّ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا ’سبّ‘ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں اور کوئی برا نہیں مانتا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے دوران لوگوں کو ایک تالاب کا پانی پینے سے منع فرمایا۔ دو افراد نے اس حکم کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر ’سبّ‘ فرمایا۔( مسلم، کتاب الفضائل، حدیث 706) ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی شخص یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ آپ نے انہیں معاذ اللہ گالیاں دی ہوں گی۔ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے ان پر تنقید فرمائی ہو گی اور انہیں اپنی اصلاح کا کہا ہو گا۔
ممکن ہے کہ کسی شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پالیسی پر تنقید کی ہو، تو ان راویوں نے ا س پر یہ بہتان گھڑ لیا کہ وہ معاذ اللہ حضرت علی کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہم حضرت حسن، حسین اور حضرت علی کے دیگر بیٹوں سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ خاموشی سے سنتے رہتے۔یہاں ہم وہ روایات بیان کر رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان راویوں نے بات کا بتنگڑ بنا کر اسے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کے دو گورنر ہیں، جن کے بارے میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف منبر پر سب و شتم کرتے تھے۔ ایک مروان بن حکم اور دوسرے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ۔ ان دونوں سے متعلق روایات کا ہم جائزہ لیتے ہیں۔
سب و شتم کی روایت اکثر حضرت سعد بن ابی وقاص سے کی جاتی ہے جو کہ مختلف کتب میں پائی جاتی ہے ہم یہاں صحیح مسلم کتاب فضائل باب فضائل امیر المومنین علی رضہ عنہ سے حوالہ پیش کریں گے۔
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص ، عن أبيه ، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو کون سی چیز مانع کرتی ہے کہ آپ ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر سَبّ کریں؟ حضرت سعد نے اس کا سبب بتایا اور حضرت علی کے متعلق ۳ باتوں کا ذکر کیا جو بطور فضائل رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائے تھے۔۔۔۔
یہاں میں نے حدیث کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
(1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیوں نہیں کرتے (یاد رہے ہم اوپر ہم نے طبری کی روایت سے ثابت کیا تھا کہ سب کی معنی تنقید بھی ہے اور یقینن حضرت معاویہ حضرت علی پر تنقید ہی کرتے تھے ) قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، یعنی اُن کا اجتہاد ٹھیک نہیں۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم تھے ، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے۔
(2) اہل شام قصاص نہ لینے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خائف تھے ، یہ ہو سکتا ہے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سنانا مقصود تھے ، تبھی ایسا سوال کیا کیوں کہ سیدھا کہتے تو اھل شام کے شور کا اندیشہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید نہیں کریں گے ، تبھی ایسا سوال کیا۔
حدیث میں اُن پر تنقید کرنے کو نہیں کہا گیا بلکہ سبب دریافت کیا گیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ، میں واقعہ پیش کئے دیتا ہوں:عبد اللہ بن بدیل نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تاریک آندھی میرے پاس سے گزرے اور میں اخ اخ کروں تو میں اونٹنی بٹھا دیتا ہوں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” اگر مومنین کی ۲ جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرا دو اور اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرو حتی کہ امر اللہ ہی کی طرف واپس آجائے ” خدا کی قسم آپ نہ عادل جماعت کے مقابلہ میں باغی جماعت کے ساتھ ہیں نہ ہی باغی کے مقابلہ میں عادل کے ساتھ ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس شخص سے لڑنے کا نہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے لئے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ائے گا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے علاوہ اور کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا فلاں فلاں اورام سلمہ رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے آپ سے یہ بات پہلے سنی ہوتی تو میں ان سے جنگ نہیں کرتا۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سعد رضی اللہ عنہ)۔
اس میں کہیں بھی سَبّ کا لفظ نہیں بلکہ بہت جگہوں پر یہ واقعہ مختلف لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔ بعض روایات میں ” فزکرو علیا فنال منہ معاویہ ” تو کہیں ” فذکرو علیا فقال سعد لہ ثلاث خصال ” جس سے اس واقعہ کی صداقت میں شبہ ہوتا ہے اور کہیں پر جگہ مکہ ہے تو کہیں پر شام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہاں سبب دریافت کر ریے ہیں کہ کیا چیز مانع ہے یا یہ کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے اجتہادی کو غلط کیوں نہیں کہہ رہے۔ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کے متعلق ایک بزرگ صحابی سے رائے لے رہے ہیں۔
ابن ماجہ کی روایت: ۔ حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ینعی حضرت معاویہ سعد رضہ کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہاروں کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے۔
اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین رضہ کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا) اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضہ ، حضرت ابی بکر و عمر کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماء اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ خود سے موازنہ کرںن اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد کا غصہ میں آنا فطری بات ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے حضرت معاویہ بار بار یہ کہتے رہے ہوں جس سے سعد رضہ غصہ ہوئے ہون ۔
اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے،ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے
عبدالرحمن بن سابط تہذیب الکمال میں المزی لکہتے ہیں : عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي.
تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(جلد ۱۷ فحہ127)
ینعی انہوں نے سعد رضہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا
تاریخ کبیر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294)
دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی ۔ابن حجر نے جو لکہا ہے وہ یہ ہے تہذیب التہذیب جلد 6 ص 164)
عبد الرحمن بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سابط بن أبي حميضة ابن عمروابن أهيب بن حذافة بن جمح الجمحي المكي.تابعي أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى عن عمر وسعد بن أبي وقاص والعباس بن عبد المطلب وعباس بن أبي ربيعة ومعاذ بن جبل وأبي ثعلبة الخشني وقيل لم يدرك واحدامنهم . قيل ليحيى بن معين سمع عبد الرحمن بن سعد ابن أبي وقاص قال لا.
یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں حضرت عمر ، سعد رضہ ، عباس رضہ ،عباس بن ابی ربیعہ اور معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی انہوں نے نہیں دیکہا۔یحی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن نے سعد رضہ سماع کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ اسی طرح ابن حجر نے ال اصابہ جلد ۵ ص 176 پہ ان کا زکر کیا ہے ۔
یہ نہ صرف صحابہ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کر تے ہیں ، اس کے علاوہ انہوں نے حضرت ابی بکر رضہ عمر رضہ اور عائشہ رضہ سے بھی روایات کی ہیں لیکن علماء نے ان روایات کو مراسیل کہا ہے اورابن حجر نے لکہا ہے ان میں کسی کو بھی نہیں ملے ۔ بھر حال یہ بات تو طئے ہے کہ یہ مرسل ہیں اور بہت علماء نے اس بات میں ابن معین کی بات کو ہی صحیح مانا ہے ۔
اس لئے علماء انہیں کثیر الارسال کہتے ہیں ۔اسی بنا پر ابن معین نے انہیں سعد رضہ کی روایات میں مرسل قرار دیا اور ان کی صحابہ سے حدیث کو مر سل کہا ہے ۔ یہ بات صحیح کہ ابن معین ان کی بارے میں منفرد ہیں لیکن علماء اہل سنت میں سے کسی نے ابن معین کی بات سے اختلاف نہیں کیا ابن حاتم کو اگر اختلاف تھا تو انہوں جابر رضہ کے مسئلے میں لکہ دیا کہ یہ متصل ہے لیکن سعد رضہ کے بارے میں انہوں نے بھی نہیں لکہا ، گو کہ وہ بھی ابن معین کی بات صحیح جانتے تھے۔اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں تمام علماء رجال ابن معین کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
راوی ابو معاویہ : علماء نے انہیں اعمش کے طریق سے تو پسندیدہ کہا ہے لیکن ان کی دوسری احادیث کو مضطرب کہا ہے مدلس بھی تھے اور وہ مرجئی مذہب کے تھے جن کا ماننا ہے کہ انسان ایک بار کلمہ پڑہ کر مسلمان ہو جائے تو پھر اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے دنیا مین پھر جو چاہے کرے۔
ان کا ترجمہ اس طرح ہے ان کا نام محمد بن خازم الاعمی تھا
ابن حجر طبقات مدلسین صفحہ 46 میں ان کا نام بھی زکر کیا ہے
ابن حبان نے اثقات میں ان کا زکر اس طرح کیا ہے
كان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا خبيثا
یہ حافظ تھے لیکن ساتھ میں مرجئی خبیث بھی تھے
امام ابی داود السجستانی کہتے ہیں کہ كان مرجئا، ومرة: كان رئيس المرجئة بالكوفة
امام احمد بن حنبل أبو معاوية الضرير في غير حديث الأعمش مضطرب , لا يحفظها حفظا جيدا(تھذیب الکمال)یعنی ابو معاویہ اعمش کے علاوہ دوسری احادیث میں مضطرب ہے اور ان کا حافظہ بھی کم تھا۔
الذهبي :الحافظ، ثبت في الأعمش، وكان مرجئا (تہذیب الکمال)
یعنی اعمش کے طریق سے صحیح ہیں اور مرجئے تھے
يحيى بن معين: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش وروى أبو معاوية , عن عبيد الله بن عمر أحاديث مناكير(تہذیب الکمال)
وقال عبدارحمن ابن خراش صدوق، وهو في الأعمش ثقة، وفي غيره فيه اضطراب (اتھذیب الکمال)
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس، وكان مرجئا (طبقات ابن سعد: ٦ / ٣٩٢
قال عبد الرحمان بن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أثبت الناس في الأعمش: الثوري، ثم أبو معاوية الضرير، ثم حفص بن غياث، وعبد الواحد بن زياد، وعبدة بن سليمان أحب إلى من أبي معاوية يعنى في غير حديث الأعمش. (الجرح والتعديل: ٧ / الترجمة 1360.
وقال ابن حجر في التهذيب قال النسائي: ثقة في الأعمش وقال أبو داود: قلت لأحمد كيف حديث أبي معاوية عن هشام بن عروة؟ قال: فيها أحاديث مضطربة يرفع منها أحاديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم (اتہذیب 9 / 139).
ان دونوں راویوں پر جرح کے بعد یہ روایت خود بخود ہی ضعیف ہوجاتی ہے پھر اس حدیث(یعنی ابن ماجہ کی حدیث) میں سب کا لفظ موجود نہیں ہے ۔
باقی جو بھی روایات ہیں وہ تقریبن اسی ہی مضمون کی ہیں اور ہم نے جیسا کہ اوپر لکہا کہ اس میں مقام کا بھی تعین نہیں ہے کہیں پر شام لکہا ہے کہیں پر مکہ تو کہیں پر مدینہ بھرحال ہم نے ان روایات کی مناسب تاویل پیش کی ہے اور پھر ابن ماجہ کی روایت تو صحیح نہیں ہونی چاہئے اگر صحیح ہے بھی تو اس میں صرف شکایت کرنے کا لکہا جس کا مطلب ہے وہ حضرت علی رضہ کا قصاص کے مسئلہ میں جو اجتہا د تھا یا انہوں نے قصاص نہیں لیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ اس کی ہی شکایت کرنے لگیں ہوں۔اس میں سب کا لفظ تک نہیں ہے باقی جن بھی کتب مین یہ روایات پائیں جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)(بقیہ حصّہ دوم میں پڑھیں)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔