خطاء اجتہادی شان صحابہ و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہار شریعت حصّہ دوم
عقیدہ (۳): افضل کے یہ معنی ہیں کہ اﷲ عزوجل کے یہاں زیادہ عزت و منزلت والا ہو، اسی کو کثرتِ ثواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں، نہ کثرتِ اجر، کہ بارہا مفضول کے لیے ہوتی ہے۔( یعنی اکثر و بیشتر اجر کی زیادتی ایسے شخص کے لیے ہوتی ہے جو افضل نہ ہو۔) حدیث میں ہمراہیانِ سیّدنا اِمام مَہدی کی نسبت آیا کہ: ''اُن میں ایک کے لیے پچاس کا اجر ہے، صحابہ نے عرض کی: اُن میں کے پچاس کا یا ہم میں کے؟ فرمایا: بلکہ تم میں کے۔'' (عن أبي أمیۃ الشعباني قال: أتیت أبا ثعلبۃ الخشني فقلت لہ: کیف تصنع بہذہ الآیۃ؟ قال: أیّۃُ آیۃ؟ قلت: قولہ تعالی: (یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ) قال: أمَا واللہ لقد سألت عنہا خبیرا سألت عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ((بل ائتمروا بالمعروف وتناہوا عن المنکر حتی إذا رأیت شحّاً مطاعاً وہوًی متّبعاً، ودنیَا مؤثرۃً وإعجاب کل ذي رأي برأیہ فعلیک بخاصۃ نفسک ودع العوامّ، فإنّ من ورائکم أیاماً الصبر فیہن مثل القبض علی الجمر، للعامل فیہن مثل أجر خمسین رجلا یعملون مثل عملکم))، قال عبد اللہ بن المبارک: وزادني غیر عتبۃ قیل: یا رسول اللہ! أجر خمسین منّا أو منھم، قال: ((لا، بل أجر خمسین رجلاً منکم)). ''سنن الترمذي''، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، الحدیث: ۳۰۷۹، ج۵، ص۴۲.و''ابن ماجہ''، کتاب الفتن، باب قولہ تعالی: (یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ...إلخ)، الحدیث: ۴۰۱۴، ج۴، ص۳۶۵.في ''فتح الباري''، کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم، ج۷، ص۶، تحت الحدیث: ۳۶۵۱: (أنّ حدیث: ((للعامل منھم أجر خمسین منکم)) لا یدلّ علی أفضلیۃ غیر الصحابۃ علی الصحابۃ؛ لأنّ مجرد زیادۃ الأجر لا یستلزم ثبوت الأفضلیۃ المطلقۃ، وأیضاً فالأجر إنّما یقع تفاضلہ بالنسبۃ إلی ما یماثلہ في ذلک العمل، فأمّا ما فاز بہ من شاہد النبي صلی اللہ علیہ وسلم من زیادۃ فضیلۃ المشاہدۃ فلا یعدلہ فیہا أحد).
تو اجر اُن کا زائد ہوا، مگر افضلیت میں وہ صحابہ کے ہمسر بھی نہیں ہو سکتے، زیادت درکنار، کہاں امام مَہدی کی رفاقت اور کہاں حضور سیّدِ عالَم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحابیت!، اس کی نظیر بلا تشبیہ یوں سمجھیے کہ سلطان نے کسی مہم پر وزیر اور بعض دیگر افسروں کو بھیجا، اس کی فتح پر ہر افسر کو لاکھ لاکھ روپے انعام دیے اور وزیر کو خالی پروانہ خوشنودی مزاج دیا تو انعام انھیں کو زائد ملا، مگر کہاں وہ اور کہاں وزیرِ اعظم کا اِعزاز؟
عقیدہ (۴) : ان کی خلافت بر ترتیب فضلیت ہے، یعنی جو عند اﷲ افضل و اعلیٰ و اکرم تھا وہی پہلے خلافت پاتا گیا، نہ کہ افضلیت بر ترتیب خلافت، یعنی افضل یہ کہ مُلک داری و مُلک گیری میں زیادہ سلیقہ ، جیسا آج کل سُنّی بننے والے تفضیلیے کہتے ہیں(في ''مجموعۃ الحواشي البہیۃ''، ''حاشیۃ عصام'' علی ''شرح العقائد''، ج۲، ص۲۳۶: (قولہ: ''علی ھذا الترتیب أیضاً'': یشعر أنّ مبني ترتیب الخلافۃ علی ترتیب الأفضلیۃ التيحکم بہا السلف). وفي ''الطریقۃ المحمدیۃ'' مع شرح ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱، ص۲۹۳: (وأفضلہم أبو بکر الصدیق رضي اللہ عنہ، ثم عمر الفاروق، ثم عثمان ذو النورین، ثم علي المرتضی، وخلافتہم) أي: ہؤلاء الأربعۃ عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کانت (علی ھذا الترتیب أیضاً) أي: کما ہي فضیلتہم کذلک، (ثم) بعدہم في الفضیلۃ (سائر) أي: بقیۃ (الصحابۃ رضي اللہ عنھم أجمعین).وفي ''المعتقد المنتقد''، الباب الرابع في الإمامۃ، ص۱۹۱: (والإمام الحق بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم أبو بکر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي رضي اللہ تعالی عنھم أجمعین، والفضیلۃ علی ترتیب الخلافۃ).قال الإمام أحمد رضا في حاشیتہ ''المعتمد المستند''، نمبر ۳۱۶، ص۱۹۱، تحت اللفظ: ''والفضیلۃ'' (تبع في ہذہ العبارۃ الحسنۃ الأئمۃ السابقین، وفیہا ردّ علی مفضلۃ الزمان المدعین السنیۃ بالزور والبہتان حیث أوّلوا مسألۃ ترتیب الفضیلۃ بأنّ المعنی الأولویۃ للخلافۃ الدنیویۃ، وہي لمن کان أعرف بسیاسۃ المدن وتجہیز العساکر وغیر ذلک من الأمور المحتاج إلیہا في السلطنۃ، وھذا قول باطل خبیث مخالف لإجماع الصحابۃ والتابعین رضي اللہ تعالی عنھم، بل الأفضلیۃ في کثرۃ الثواب وقرب الأرباب والکرامۃ عند اللہ تعالی، ولذا عبر عن المسألۃ في ''الطریقۃ المحمدیۃ'' وغیرہا في بیان عقائد السنۃ بأنّ أفضل الأولیاء المحمدیین أبو بکر ثم عمر ثم عثمان ثم علي رضي اللہ تعالی عنھم، وللعبد الضعیف في الردّ علی ھؤلاء الضالین کتاب حافل کافل بسیط محیط سمّیتُہ ''مطالع القمرین بإبانۃ سبقۃ العمرین'' ۱۲). یعنی: اور امام بر حق رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد ابو بکر ، پھر عمر ،پھر عثمان ،پھر علی رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین ہیں ، اور (ان چاروں کی ) فضیلت ترتیب خلافت کے موافق ہے ۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس کے حاشیہ میں ''والفضیلۃ'' کے تحت کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حسین عبارت میں مصنف رحمۃاللہ تعالی علیہ نے ائمہ سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے میں تفضیلیوں کا رد ہے جو جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنّی ہونے کے مدّعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلت میں ترتیب کے مسئلے کو (ظاہر سے) اس طرف پھیر ا کہ خلافت میں اولویت (خلافت میں زیادہ حقدار ہونے ) کا معنی دنیوی خلافت کا زیادہ حقدار ہونا ، او ریہ اس کے لئے ہے کہ جو شہروں کے انتظام اور لشکرسازی ، اور اس کے علاوہ دوسرے امور جن کے انتظام وانصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی ہے ان کا زیادہ جاننے والا ہو ۔ اور یہ باطل خبیث قول ہے ، صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالی عنھم کے اجماع کے خلاف ہے۔ بلکہ افضلیت ثواب کی کثرت میں اور رب الارباب (اللہ تعالی) کی نزدیکی میں اور اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک بزرگی میں ہے ، اسی لئے '' طریقہ محمدیہ''وغیرہا کتا بوں میں اھلسنت وجماعت کے عقیدوں کے بیان میں اس مسئلے کی تعبیر یوں فرمائی کہ اولیاء محمد یین (محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت کے اولیائ) میں سب سے افضل ابو بکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان ہیں ، پھر علی ہیں رضی اللہ تعالی عنھم اور اس ناتو اں بندے کی ان گمراہوں کے رد میں ایک جامع کتاب ہے جو کافی او ر مفصل اور تمام گوشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جس کا نام میں نے '' مطلع القمرین في إبانۃ سبقۃ العمرین'' رکھا ۔ ۱۲ امام اھلسنت رضی اللہ تعالی عنہ)
یوں ہوتا تو فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سب سے افضل ہوتے کہ اِن کی خلافت کو فرمایا:(لَمْ أَرَ عَبْقَرِ یًّا یَّفْرِيْ فَرْیَہٗٗ حَتّی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ.))(میں نے کسی کو ایسا جواں مرد نہیں دیکھا جو اتنا کام کرسکے، حتیٰ کہ لوگ (اُن کے نکالے ہوئے پانی سے) سیراب ہوگئے۔
''سنن الترمذي''، کتاب الرؤیا، باب ما جاء في رؤیا النبيصلی اللہ علیہ وسلم المیزان والدلو، الحدیث: ۲۲۹۶، ج۴، ص۱۲۷.
اور صدیقِ اکبر کی خلافت کو فرمایا:(فِيْ نَزْعِہٖ ضَعْفٌ وَاللہُ یَغْفِرُ لَہٗ.))(ان کے (دورانِ خواب، کنوئیں سے پانی) نکالنے میں کمزوری تھی، اﷲ عزوجل ا نہیں معاف فرمائے۔
''صحیح البخاري'' کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، الحدیث: ۳۶۷۶، ج۲، ص۵۲۴.)
عقیدہ (۵): خلفائے اربعہ راشدین کے بعد بقیہ عشرہ مبشَّرہ و حضرات حسنین و اصحابِ بدر و اصحابِ بیعۃ الرضوان کے لیے افضلیت ہے (في ''شرح المسلم'' للنووي، کتاب فضائل الصحابۃ، ص۲۷۲: (واتفق أھل السنۃ علی أنّ أفضلہم أبوبکر، ثم عمر، قال جمہورہم: ثم عثمان، ثم علي، قال أبو منصورالبغدادي: أصحابنا مجمعون علی أنّ أفضلہم الخلفاء الأربعۃ علی الترتیب المذکور ثم تمام العشرۃ، ثم أھل بدر، ثم أُحد، ثم بیعۃ الرضوان)، ملتقطاً.وفي ''منح الروض الأزہر'' للقاریئ، أفضلیۃ الصحابۃ بعد الخلفائ، ص۱۱۹: ( أجمع أھل السنۃ والجماعۃ علی أنّ أفضل الصحابۃ أبو بکر فعمر فعثمان فعلي، فبقیۃ العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ، فأھل بدر، فباقيأھل أحد، فباقي أھل بیعۃ الرضوان بالحدیبیۃ). اور یہ سب قطعی جنتی ہیں۔ ( (اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّاالْحُسْنیۤ اُولٰۤئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ لَایَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْ مَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خٰلِدُوْنَ لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَ تَتَلَقّٰھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ھٰذَایَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ) پ۱۷، الأنبیاء ،۱۰۱۔۱۰۳.(وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانِ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہ، وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہَارُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) پ۱۱، التوبۃ: ۱۰۰.ْ (لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ)پ۲۷، الحدید: ۱۰.عن أبي سعید الخدري رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((الحسن والحسین سیدا شباب أھل الجنۃ)''سنن الترمذ ي''، کتاب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۳۷۹۳، ج۵، ص۴۲۶.''سنن ابن ماجہ''، کتاب السنۃ، الحدیث: ۱۱۸، ج۱، ص۸۴.عن جابر عن أم مبشر عن حفصۃ قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إني لأرجو أن لا یدخل النار إن شاء اللہ أحد شہد بدراً والحدیبیۃ))، قالت: فقلت: ألیس اللہ عزوجل یقول: (وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُہَا)، قال: فسمعتہ یقول: (ثُمَّ نُنَجّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیًّا)۔''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، مسند جابر بن عبد اللہ، الحدیث: ۲۶۵۰۲، ج۱۰، ص۱۶۳۔ (لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ) پ۲۶، الفتح: ۱۸.عن جابر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أنّہ قال: ((لا یدخل النار أحد ممن بایع تحت الشجرۃ)).''سنن أبي داود''، کتاب السنۃ، باب في الخلفائ، الحدیث: ۴۶۵۳،ج۴، ص۲۸۱۔''سنن الترمذي''، کتاب المناقب، باب في فضل من بایع تحت الشجرۃ، الحدیث: ۳۸۸۶، ج۵، ص۴۶۲۔شیخ المحققین خاتم المحدثین شیخ عبد الحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی مایہ ناز کتاب ''تکمیل الایمان'' میں فرماتے ہیں : ذکر عشرہ مبشرہ :باقي العشرۃ المبشرۃ: یعنی بعد از خلفاء اربعہ فضیلت بقیہ عشرہ مبشرہ کے لیے ہے ۔ اور عشرہ مبشرہ جن کی عرفیت ہے ، وہ دس صحابہ کرام ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دنیا میں جنت کی بشارت دے کر فرمایا : ((أبو بکر في الجنۃ وعمر فيالجنۃ وعثمان في الجنۃ وعلي في الجنۃ وطلحۃ في الجنۃ والزبیر في الجنۃ وعبد الرحمن بن عوف في الجنۃ وسعد بن أبي وقاص في الجنۃ وسعید بن زید في الجنۃ وأبو عبیدۃ بن الجراح في الجنۃ)). ''سنن الترمذ ي''، کتاب المناقب، الحدیث: ۳۷۶۸، ج۵، ص۴۱۶. و''المسند'' للإمام أحمد، ج۱، ص۴۱۰، الحدیث: ۱۶۷۵.یعنی: ابو بکر جنتی ہیں ، عمر جنتی ہیں ، عثمان جنتی ہیں ، علی جنتی ہیں ، طلحہ جنتی ہیں ، زبیر جنتی ہیں،عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں ، سعد بن ابی وقاص جنتی ہیں ، سعید بن زید جنتی ہیں ، ابو عبیدہ بن الجراح جنتی ہیں،( رضی اللہ تعالی عنھم)یہ دس صحابہ کرام خیار امت ، افاضل صحابہ ، اکابر قریش ،پیشوائے مہاجرین اور اقاربِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین وسلم ، ان کے لیئے سبقت ایمان اور خد مت اسلام ثابت ہے ، جوکہ اوروں کے لئے نہیں ہے ، ان کا جنتی ہونا قطعی ہے لیکن یہ قطعیت بشارت انہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، بلکہ ان کے سوا بھی اور اصحاب بشارت یافتہ ہیں مثلاً :سید تنا فاطمہ ، امام حسن ، امام حسین ، حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ ، حضرت حمزہ ،حضرت عباس ، حضرت سلمان ، حضرت صہیب ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنھم وغیرھا ۔
ان د س اصحاب مبشرہ کی شہرت ولقب ،وقوع بشارت ایک حدیث اور ایک وقت میں ہونے کی وجہ سے ہے اور ان کا ذکر عقائد کے ضمن میں بسبب اہتمام بشارت ، اور اھل زیغ کے مذہب کے ردوا بطال کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ ان کی شان میں گستاخی کرتے اور بے ادبی کی راہ چلتے ہیں۔ اور عام مخلوق جان لے کہ دخول جنت کی بشارت ان ہی دسوں کے ساتھ قطعی اور مخصوص ہے یہ گمان محض غلط اور صریح جہالت ہے ۔اور بعض عربی کے طالب علم جو نا پختہ اور عام جھلا ء سے بڑ ھ کر ہیں کہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی بشارت ہے لیکن ان عشرہ مبشرہ کی بشارت قطعی ہے اور ان کے سوا اوروں کے لیئے ظنی ہے اور ان دسوں کی درجہ بشارت سے قوت وشہرت اور تواتر میں کم ہے ۔ اس گمان فاسد کی منشاء عد م تتبع احادیث او ر علم حدیث کی خدمت میں کوتا ہی کی وجہ سے ہے ، اللہ تعالی ان سے در گزر فرمائے ، ہم نے اس بحث کو اسی زمانہ میں ایک مستقل کتاب میں جس کانام'' تحقیق الإشارۃ في تعمیم البشارہ''ہے تفصیل وتحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے ، اور مبشرین کے نام بھی جو کہ احادیث میں نظر سے گزرے ذکر کردیے ہیں ۔
حق وصواب یہی ہے کہ خلفاء اربعہ، فاطمہ وحسن وحسین وغیرہم رضی اللہ عنھم کی بشارت مشہور اور اصل بحد تواتر معنوی ہے باقی عشرہ مبشرہ کی بشارت بھی بحد شہرت پہنچی ہوئی ہے اور بعض دیگر صحابہ بھی اخبار احاد سے تفاوت مراتب کے ساتھ صاحب بشارت ہیں ، اور حکم غیر مبشرین کا یہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ: مومنین ومسلمین جنتی، اور کفار دوزخی ،بغیر جزم و یقین، اور بلا قطعی کسی کے جنتی یا نار ی کی خصوصیت کے ، اس کی مکمل تحقیق کتاب مذکور میں ملاحظہ کریں ۔ وباللہ التوفیق۔
ذکر أھل بدر: أھل بدر: یعنی بعد عشرہ مبشرہ کے فضیلت بدری اصحاب کے لئے ہے ۔ اوراھل بد ر تین سو تیرہ (۳۱۳) اصحاب ہیں وہ سب قطعی طور پر جنتی ہیں کیونکہ ان کی شان میں فرمایا گیا: ((إنّ اللہ قد اطّلع علی أھل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم ۔ یعنی: بے شک اللہ تعالی اھل بد ر کو مطلع فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ :جو چا ہو عمل کرو بے شک میں نے تم کو بخش دیا ۔ 'صحیح البخاري''، کتاب الجھاد والسیر، باب الجاسوس، الحدیث: ۳۰۰۷، ج۲، ص۳۱۱.
دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ((لن یدخل اللہ النار رجلاً شہد بدراً والحدیبیۃ)). یعنی: اللہ تعالی بدر و حدیبیہ میں حاضر ہونے والوں کو ہرگز آگ میں داخل نہ کریگا۔
ذکر أھل أحد:فأحد: یعنی بعد از اھل بد ر فضیلت اھل غزوہ اُحد کے لئے ہے جو کہ سال چہارم ہجری میں واقع ہوا۔ درخت کے نیچے مجھ سے بیعت کی۔ یہ سب بھی جنتی ہیں ، اور افضلیت میں یہ ترتیب مذکور مجمع علیہ ہے جسے ابو منصور تمیمی نے نقل کیا ہے ۔ ان تمام مذکور ین صحابہ کے بعد بھی بحسب فضائل ومآ ثر جو ان کے حق میں مروی ہیں ، وہ سب جنتی ہیں ، ان کے درجات ومقامات جدا جدا ہوں گے ، علماء نے ان کی تصریح منظور نہ کی ، واللہ اعلم۔ 'تکمیل الایمان'' (فارسی)، ص۱۶۱۔۱۶۵، (اردو) ص۱۱۷۔۱۲۱.(مضمون جاری ہے)طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment