میک اپ شرعی و طبی آئینہ میں
مشہور قول ’’ چہرہ آئینہ ہوتا ہے دل کا‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ قلب اپنی حالت جب جب بدلتا ہے چہرہ پر اس تغیر کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ انسانی جسم میں قلب اک ایسا عضو ہے جس کی ریاست و سلطنت جملہ اعضاء پر چلتی رہتی ہےٗ چہرہ اشرف الاعضاء ہونے کے باوجود اسی کے زیر حکم رہتا ہے ،چہرہ اور قلب کے درمیان بڑا گہرہ تعلق و مضبوط ربط قائم ہےٗ اس تعلق ہی کا نتیجہ ہے کہ قلب کی خوشحالی چہر ہ پر مسکراہٹ و انبساط کی شکل میں نمایاں ہوتی اور اس کا رنج و غم پثر مردگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ قلب چونکہ تجلیات رحمانی اور وساوس شیطانی دونوں کا متحمل ہوسکتا ہےٗ وساوس شیطانی کا اثر قلب پر ہونے لگے اور وہ وساوس عزم و ارادہ کے درجہ میں آئیں تو قلب کا یہ فساد چہرہ کو دنیا میں بھی متاثر کرتا اور آخرت میں بھی اپنا اثر اس پر چھوڑتا ہے۔اور جب یہ ربانی صندوقچۂدل تجلیات وتوجہات رحمانی کا مرکز بن جائے تو نہ صرف دنیا بلکہ روز محشر میں بھی چہرہ منور و مصفی نظر آتا ہےٗ حق تعالیٰ نے چہرہ کی ان دو قسموں کا ذکر اس طرح فرمایا : یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ۔(سورۂ آل عمران :106) کتنے ہی چہرے اس دن روشن و منور اور کتنے ہی سیاہ و کالے ہوں گے۔
بس یہی وجہ ہے کہ چہرہ کی رونق و رنگت کی طرف نہیں قلب کی اصلاح و پاکیزگی کی طرف ہماری توجہ ہونی چاہئےٗکیونکہ صفائی قلب کے ذریعہ نہ صرف چہرہ بلکہ سارا بدن حسن و جمال کا پیکر بنتا ہےٗجس طرح کہ درخت کی تروتازگیٗ پتوں اور ٹہنوں کی سیرابی سے نہیں بلکہ جڑوں کو پانی پلانے سے ہوتی ہے۔
خالق کے پاس قلب کی اہمیت ہے
یقینا ہمارے دین نے طہارت و نظافت کی تعلیم دی ہےٗ اسی لئے وضو اور غسل میں چہرہ دھونا بھی فرض قرار دیاٗ لیکن میک اپ کے نام پر جلد کی فطری صحت بگاڑنے اور قدرتی رنگت میں دخل اندازی کا نام صفائی وستھرائی نہیں۔ یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حسن و جمال محض رنگت اور گورے پن پر منحصر نہیںٗ بہت سارے گندمی وسیاہ رنگ افراد میں بھی حسن کا اک جوہر ملاحت پایا جاتا ہے۔
اس سے زیادہ اہمیت والی بات یہ ہے کہ ہمارے خالق و مالک حق تعالیٰ کے پاس محبت کا معیار گوری رنگت نہیںٗ بلکہ صفائی قلب ہےٗ جو جتنا زیادہ دل صاف رکھتا ہے اور دنیوی آلائشوںٗ گناہوں اور امراض قلبی جیسے حسدٗ کینہٗ بغضٗ بد عقیدگی سے اپنا قلب دور رکھتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہےٗ مسلمان مرد و خواتین اپنے قلب کی صفائی وسالمیت کی طرف توجہ دیں کہ اسی سے ہم اپنے ایک مولی کو راضی کرسکتے ہیںٗ حدیث شریف ہے : ان اللہ لا ینظر الی اجسادکم وصورکم ولکن ینظر الی قلوبکم۔ (صحیح مسلم ، باب تحریم ظلم المسلم ، حدیث نمبر:6707 ،چشتی)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہارے جسم اور چہرہ کو نہیں قلب کو دیکھتا ہے؛ جو قلب انوار و توجہات ربانی کا مصدر ہے ۔
غور کریں کہ اسے کتنا سنوارنا چاہئے!!۔
فی زمانہ ہماری مسلم بہنوں نے چہرہ سنوارنے کا معمول بنا رکھا ہے اور میک اپ کاسامان خرید کر سینکڑوں بلکہ ہزاروں روپئے ضائع کئے جا رہے ہیںٗ لیکن غور کرنا چاہئے کہ دل سنوارنے کے لئے ہماری بہنوں نے کونسے میک کا سامان استعمال کیا؟
ویسے ہمارے دین نے حسن ظاہر بنائے رکھنے سے منع نہیں فرمایا لیکن اس کام پر بے جا روپیہ لٹانے سے منع فرمایا اور بن سنورکر غیروں کی نگاہوں کا ہدف بننا تو حرام اور سخت ترین گناہ ہے اس سے منع فرمایا۔
ہاں! ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ چہرہ کی اصلی رنگت چھپاکر ظاہری و فرضی اشیاء سے ہم چہرہ کی رونق بنارہے ہیں یہ رونق ہمیشہ رہنے والی ہے یا چند گھنٹوں کی بہار ہےٗ کیا اس کے سوا چہرہ کی رنگت و رونق بنانے کے لئے کوئی اور ایسا سامان اور دوا نہیں جس کے استعمال سے نہ دولت زیادہ لٹے اور نہ ہی اس کے ذریعہ آنے والی رونق و قتیہ چند گھنٹوں کی ہو۔
چہرہ کی رونق بڑھانے والا قدرتی نسخہ
بنیادی اور اساسی طورپر ہم اس سے واقف ہیںکہ حق تعالیٰ نے انسان کو ساری کائنات میں سب سے زیادہ حسین و جمیل بنایا اس کے اعضاء میں تناسب و ملاحت رکھا اسے حسن کا پیکر بنایا ارشاد خداوندی ہے : لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ۔
ترجمہ:بے شک ہم نے انسان کو بہترین حسین سانچے میںڈھالا۔(والتین:4)
حق تعالیٰ کا دیا ہوا حسن و جمال دائمی ہےٗ اس کی حفاظت کرنا انسان کی ذمہ داریوں میں سے اک ذمہ داری ہےٗ طہارت اور نظافت کے ذریعہ انسان اپنے رب کی دی ہوئی نعمتِ حسن کی نگہداشت کرسکتا ہےٗ اور اس حسن پر آنے والی بلاؤں یعنی امراض وغیرہ کا علاجٗدوا وغیرہ سے کرسکتا ہےٗ البتہ رب کے دئے ہوئے حسن میں دوبالاپن اور اس کی مزید رونق بڑھانے کے لئے انسانی مصنوعات و کمیکل والی اشیاء یعنی سامان میک اپ کا استعمال کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ قدرتی نسخہ استعمال کیا جائےٗکمیکل والی اشیاء سے حسن تو نہیں آتا البتہ رہا سہا حسن بھی رخصت ہو جاتا ہے۔ چہرہ کی رونق اور اس کی نورانیت بڑھانے کے لئے حضور اکرم رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم نے اک بہترین و حسین نسخہ اپنی امت کو بخشا جس پر عمل کرکے مسلمان خواتین وہ رونق حاصل کرسکتی ہیں جس کو زوال نہیں یہ حسن ، دنیا میں ساتھ رہتا ہے تو آخرت میں بھی یارانہ نہیں چھوڑتاٗ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے: عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کثرت صلاتہ باللیل حسن وجھہ بالنھار۔ ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رات میں جس کی نمازیں زیادہ ہوں اُس کا چہرہ دن میں حسین رہتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ، باب ماجاء فی قیام اللیل ، حدیث نمبر:1394،چشتی)
چہرہ کی رونق بڑھانا یا اسی کو باقی رکھنا ہی مسلمان خواتین کا ارادہ ہو تو اپنی کد و کاوش ایسے عمل میں ضائع نہیں کرنی چاہئےٗ جو لاحاصل و بے فائدہ ہوٗ حسن و جمال اور رونق بڑھانے کے لئے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قدرتی نسخہ عطا فرمایا ہے اس پر عمل آوری ہو تو دائمی رونق عطا ہوگی اور فرضی و جعل سازی سے بھر پور اشیاء سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور فرضی زیب و زینت پر لٹائے جانے والے روپئے کی حفاظت بھی ہوگی۔
میک اپ کا طبّی ضرر
میک اپ کا رواج ہمارے معاشرہ میں مختلف خرابیوں کا سبب بن چکا ہے۔
(1) مال کا اسراف اور بے جا خرچٗ اک طرف غریب اور تنگدست بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے ہیں ان کے پاس امراض کے علاج کے لئے بھی پیسہ نہیںٗدوسری جانب مالدار خواتین ہزاروں روپیہ میک اپ پر خرچ کر رہی ہیںٗ اس خواہش و فیشن نے رحمدلی و غمخواری کا جذبہ ہی ختم کر دیا۔
(2) بے جا خواہشات اور زائد از ضرورت ارمانوں نے والدینٗ بھائیٗ شوہر کو یا تو پریشان کر رکھا ہے یا وہ اپنی بچیوںٗ بیویوں اور بہنوں کی خواہش پوری کرنے کے لئے بلا تمییز حرام و حلال دولت کمانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ایسے کئی ایک نقصانات کے علاوہ میک اپ میں طبی نقصانات بھی پائے جاتے ہیں جس کو محقق ڈاکٹر و اطباء نے اپنی تحقیقات سے بیان کیا ہے چند نقصانات یہ ہیں :
(1) چہرے پر کالے داغ آنا Black Heads
2) پس دار تھیلی نما مہاسے CYST
(3) پھوڑے پھنسیاں Folliculitis
﴿4) چہرہ کی جلد ضعیف العمر خواتین جیسی بن جانا ۔
﴿5﴾ میک اپ میں زہریلا اور کمیکل والا مادہ ہونا ۔
یہی وجہہ ہے کہ دنیوی تعلیم سے آراستہ محققین نے بھی میک اپ سے منہ موڑ کر سادگی والی زندگی اور قدرتی رونق پر اکتفاء کو ترجیح دے کر اسی کو سمجھ داری کا نام دیا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment