دیوبندی علماء و اکابرین کی نبوت کی طرف پیش قدمی
محترم قارئین : اس سلسلہ میں چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ کس طرح اکابرین دیوبند بتدریج منصبِ نبوت کی طرف گامزن رہے ۔
(1) سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،اس (منہ مبارک) سے کوئی چیز نہیں نکلتی سوائے حق کے ۔ (سنن ابو دائود ۳۶۴۶)،(سنن دارمی ۱؍۱۲۵)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان ہے کہ آپ کی ہر بات حق ہے اور اس کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی ہر بات حق ہو ۔ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم الشان صحابی بھی فرماتے : یہ عمر کی رائے ہے اگر درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر یہ خطا ہے تو (خود) عمر کی طرف سے ہے ۔ (سنن بیہقی(۱۰؍۱۱۶)،چشتی)
مگر اس کے مقابلے میں دیکھئے دیوبندیوں کے امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کیا فرما رہے ہیں : سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر ۔ (تذکرۃ الرشید: ج۲ص۱۷)
دیکھا آپ نے کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرح رشید احمد گنگوہی صاحب اپنی زبان سے جو نکلے اسے حق بتا رہے ہیں ۔ پھر دوسرا دعویٰ یہ کہ اس زمانہ میں ہدایت و نجات صرف اسی پر موقوف ہے کہ گنگوہی صاحب کی اتباع کی جائے ، سبحان اللہ ۔ حالانکہ یہ بات باعث ہدایت و نجات نہیں بلکہ کفر و گمراہی ہے ۔
چنانچہ دیوبندی حضرات کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی نے فرمایا : کوئی شخص اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو چھوڑ کر اوروں کا اتباع کرے تو بیشک اس کا یہ اصرار اور یہ انکار از قسم بغاوت خداوندی ہو گا،جس کا حاصل کفر و الحاد ہے ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷،چشتی)
اس حقیقت سے معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب اپنی اتباع کی طرف دعوت دے کر لوگوں کو بغاوتِ خداوندی اور کفر و الحاد کی طرف بلاتے رہے۔ اسی طرح قاسم نانوتوی صاحب نے یہ بھی فرمایا : آج کل نجات کا سامان بجز اتباع نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور کچھ نہیں ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷)
جب آپ نے یہ جان لیا ہے کہ نجات کا سامان صرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اتباع کے ساتھ خاص ہے تو رشید احمد گنگوہی صاحب کا ہدایت و نجات کو اپنی اتباع پر موقوف کرنا،اس بات کو بڑا واضح کر دیتا ہے کہ وہ خود کو کس مقام پر باور کروانا چاہتے تھے ۔ عقلمند کے لیئے اشارہ کافی ہے ۔
(2) مناظر احسن گیلانی دیوبندی اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے حوالے سے قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی کے متعلق لکھتے ہیں : مولانا محمد قاسم صاحب میا ں شان ولایت کا رنگ غالب تھا اور مولٰنا گنگوہی میں شان نبوت کا ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص۴۷۷،چشتی)
لیجئے یہاں پر تو بات ہی صاف کر دی گئی کہ رشید احمد گنگوہی صاحب میں شان نبوت کا رنگ صرف موجود ہی نہیں بلکہ غالب بھی تھا ۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نبوت کا رنگ صرف رشید احمد گنگوہی صاحب میں ہی غالب تھا اور قاسم نانوتوی صاحب کی اس مقام تک رسائی نہ تھی بلکہ نبوت کا فیضان تو قاسم نانوتوی صاحب کے قلب پر بھی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس کے لیئے نیچے پیش کی جانے والی دیوبندی روایت ملاحظہ کریں اور خود دیکھئے کہ دیوبندی علماء و اکابرین کی پرواز غلو اور خود پسندی میں کہاں کہاں جا پہنچی ہے ۔
(3) اشرف علی تھانوی صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قاسم نانوتوی صاحب نے اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ سے عرض کی : حضرت حالات و ثمرات تو بڑے لوگوں کو ہوتے ہیں ۔ مجھ سے جتنا کام حضرت نے فرمایا ہے وہ بھی نہیں ہوتا ۔ جہاں تسبیح لے کر بیٹھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے سو سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں ۔ زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں ہی بد قسمت ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے زبان کو جکڑ دیا ہو ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اس بات کو سن کر اپنے ہونہار مرید نانوتوی صاحب سے فرمایا : مبارک ہو یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل (وزن) ہے جو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کووحی کے وقت محسوس ہوتا تھا ۔ (قصص الاکابر:ص ۱۱۴۔۱۱۵، سوانح قاسمی،حصہ اول:ص ۳۰۱،چشتی)
لیجئے جناب دیوبندیوں کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی صاحب پر نبوت کا فیضان بھی ہوتا تھا اور وہ بوجھ بھی ویسا ہی محسوس کرتے تھے جیسا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بوقتِ وحی محسوس کرتے تھے (معاذ اللہ) ۔ خصوصیاتِ نبوت میں سے باقی کیا رہ گیا ہے جس سے اکابرین ِدیوبند سرفراز قرارنہ دیئے گئے ہوں ؟
(4) اشرف علی تھانوی صاحب کو ان کے ایک مرید و عقید ت مندنے خط لکھا جس میں اپنی حالت کے بارے میں فرماتے ہیں : خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں لیکن محمد رسول اللہ کی جگہ حضور(تھانوی صاحب) کا نام لیتا ہوں اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھسے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں اسکو صحیح پڑھنا چاہئے اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں دل پر تو یہ ہے کہ صحیح پڑھا جاوے لیکن زبان سے بیساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نام کے اشرف علی نکل جاتا ہے حالانکہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ اس طرح درست نہیں لیکن بے اختیاری زبان سے یہی نکلتا ہے ۔۔۔۔۔ اتنے میں بندہ خواب سے بیدار ہو گیا۔۔۔۔۔حالت بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہوا کہ اس خیال کو دل سے دور کیا جاوے اس واسطے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہو جاوے ۔۔۔۔۔ کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی کہتا ہوں اللھم صل علیٰ سیدنا و نبینا و مولانا اشرف علی حالاں کہ اب بیدار ہوں خواب نہیں لیکن بے اختیار ہوں مجبور ہوں زبان اپنے قابو میں نہیں اس روز ایسا ہی کچھ خیال رہا تو دوسرے روز بیداری میں رقت رہی خوب رویا اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جو حضور کے ساتھ باعث محبت ہیں کہاں تک عرض کروں ۔
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں : اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے ۔ (رسالہ الامداد،بابت ماہ صفر ۱۳۳۶ہجری ،جلد۳عدد۸:ص۳۵)
گویا تھانوی صاحب کے ہاں مرید کا خواب میں لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ کی جگہ اشرف علی رسول اللہ پڑھنے اور پھر بیداری کی حالت میں نبینا و مولانا اشرف علی (یعنی ہمارے نبی ، مولانا اشرف علی) کہنے میں تسلی کی بات ہے ۔ جو بات چھپی چھپی سی تھی اس واقعہ میں کیسے کھل کر سامنے آ گئی کہ صاف اقرار کر لیا گیا کہ تھانوی صاحب کو اپنا نبی کہنے میں بھی کچھ حرج نہیں ، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
یونہی تھانوی صاحب آل ِ دیوبند کے حکیم الامت اور مجدد الملت قرار نہیں پائے اس کے پیچھے انہیں مجددانہ اور حکیمانہ کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے ۔
مولانا رفیع الدین صاحب مجددی سابق مہتمم دارالعلوم کا مکاشفہ ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کی قبر عین کسی نبی کی قبر میں ہے ـ ( مبشرات دارالعلوم صفحہ نمبر 70 مطبوعہ محکمہ نشر و اشاعت دارالعلوم دیوبند انڈیا )
ایک دن مولانا نانوتوی نے اپنے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے شکایت کی کہ : جہاں تسبیح لےکر بیثھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے 100 سو 100 سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ـ (سوانح قاسمی ج 1 ص 258 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
اس شکایت کا جواب حاجی صاحب کی زبانی کہ یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل ( گرانی ) ہے جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالی کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ـ (سوانح قاسمی ج 1 ص 259 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)
عین کسی نبی کی قبر میں ہے ، نبوت کا فیضان وحی کی گرانی اور کار انبیاء کی سپردگی ان سارے لوازمات کے بعد نہ بھی صریح لفظوں میں ادعائے نبوت کیا جائے جب بھی اصل مدعا اپنی جگہ پر ہے ـ
نانوتوی صاحب فرشتہ تھے : مولوی نظام الدین صاحب مغربی حیدرآبادی مرحوم جو مولانا رفیع الدین صاحب سے بیعت تھے اور صالحین میں سے تھے احقر سے فرمایا جبکہ احقر حیدرآباد گیا ہوا تھا کہ مولانا رفیع الدین فرماتے تھے کہ میں پچیس برس مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کبھی بلا وضوء نہیں گیا میں نے انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا ہے وہ شخص ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیا گیا ـ ۔(ارواح ثلاثہ صفحہ 192حکایت 241) . دیوبندیوں سے یہ کوئی پوچھے کہ اپنے مولوی کی تعریف کرتے وقت نور و بشر کی بحث بھول گئے ـ یہ تو نانوتوی کو بشر ہی نہیں مانتے فرشتہ مانتے ہیں ـ بھول گئے تقویۃ الایمان کے مصنف اپنے غبی امام کی کفر کی فیکٹری ؟ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
محترم قارئین : اس سلسلہ میں چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ کس طرح اکابرین دیوبند بتدریج منصبِ نبوت کی طرف گامزن رہے ۔
(1) سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،اس (منہ مبارک) سے کوئی چیز نہیں نکلتی سوائے حق کے ۔ (سنن ابو دائود ۳۶۴۶)،(سنن دارمی ۱؍۱۲۵)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان ہے کہ آپ کی ہر بات حق ہے اور اس کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی ہر بات حق ہو ۔ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم الشان صحابی بھی فرماتے : یہ عمر کی رائے ہے اگر درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر یہ خطا ہے تو (خود) عمر کی طرف سے ہے ۔ (سنن بیہقی(۱۰؍۱۱۶)،چشتی)
مگر اس کے مقابلے میں دیکھئے دیوبندیوں کے امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کیا فرما رہے ہیں : سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر ۔ (تذکرۃ الرشید: ج۲ص۱۷)
دیکھا آپ نے کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرح رشید احمد گنگوہی صاحب اپنی زبان سے جو نکلے اسے حق بتا رہے ہیں ۔ پھر دوسرا دعویٰ یہ کہ اس زمانہ میں ہدایت و نجات صرف اسی پر موقوف ہے کہ گنگوہی صاحب کی اتباع کی جائے ، سبحان اللہ ۔ حالانکہ یہ بات باعث ہدایت و نجات نہیں بلکہ کفر و گمراہی ہے ۔
چنانچہ دیوبندی حضرات کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی نے فرمایا : کوئی شخص اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو چھوڑ کر اوروں کا اتباع کرے تو بیشک اس کا یہ اصرار اور یہ انکار از قسم بغاوت خداوندی ہو گا،جس کا حاصل کفر و الحاد ہے ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷،چشتی)
اس حقیقت سے معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب اپنی اتباع کی طرف دعوت دے کر لوگوں کو بغاوتِ خداوندی اور کفر و الحاد کی طرف بلاتے رہے۔ اسی طرح قاسم نانوتوی صاحب نے یہ بھی فرمایا : آج کل نجات کا سامان بجز اتباع نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور کچھ نہیں ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷)
جب آپ نے یہ جان لیا ہے کہ نجات کا سامان صرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اتباع کے ساتھ خاص ہے تو رشید احمد گنگوہی صاحب کا ہدایت و نجات کو اپنی اتباع پر موقوف کرنا،اس بات کو بڑا واضح کر دیتا ہے کہ وہ خود کو کس مقام پر باور کروانا چاہتے تھے ۔ عقلمند کے لیئے اشارہ کافی ہے ۔
(2) مناظر احسن گیلانی دیوبندی اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے حوالے سے قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی کے متعلق لکھتے ہیں : مولانا محمد قاسم صاحب میا ں شان ولایت کا رنگ غالب تھا اور مولٰنا گنگوہی میں شان نبوت کا ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص۴۷۷،چشتی)
لیجئے یہاں پر تو بات ہی صاف کر دی گئی کہ رشید احمد گنگوہی صاحب میں شان نبوت کا رنگ صرف موجود ہی نہیں بلکہ غالب بھی تھا ۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نبوت کا رنگ صرف رشید احمد گنگوہی صاحب میں ہی غالب تھا اور قاسم نانوتوی صاحب کی اس مقام تک رسائی نہ تھی بلکہ نبوت کا فیضان تو قاسم نانوتوی صاحب کے قلب پر بھی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس کے لیئے نیچے پیش کی جانے والی دیوبندی روایت ملاحظہ کریں اور خود دیکھئے کہ دیوبندی علماء و اکابرین کی پرواز غلو اور خود پسندی میں کہاں کہاں جا پہنچی ہے ۔
(3) اشرف علی تھانوی صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قاسم نانوتوی صاحب نے اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ سے عرض کی : حضرت حالات و ثمرات تو بڑے لوگوں کو ہوتے ہیں ۔ مجھ سے جتنا کام حضرت نے فرمایا ہے وہ بھی نہیں ہوتا ۔ جہاں تسبیح لے کر بیٹھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے سو سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں ۔ زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں ہی بد قسمت ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے زبان کو جکڑ دیا ہو ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اس بات کو سن کر اپنے ہونہار مرید نانوتوی صاحب سے فرمایا : مبارک ہو یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل (وزن) ہے جو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کووحی کے وقت محسوس ہوتا تھا ۔ (قصص الاکابر:ص ۱۱۴۔۱۱۵، سوانح قاسمی،حصہ اول:ص ۳۰۱،چشتی)
لیجئے جناب دیوبندیوں کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی صاحب پر نبوت کا فیضان بھی ہوتا تھا اور وہ بوجھ بھی ویسا ہی محسوس کرتے تھے جیسا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بوقتِ وحی محسوس کرتے تھے (معاذ اللہ) ۔ خصوصیاتِ نبوت میں سے باقی کیا رہ گیا ہے جس سے اکابرین ِدیوبند سرفراز قرارنہ دیئے گئے ہوں ؟
(4) اشرف علی تھانوی صاحب کو ان کے ایک مرید و عقید ت مندنے خط لکھا جس میں اپنی حالت کے بارے میں فرماتے ہیں : خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں لیکن محمد رسول اللہ کی جگہ حضور(تھانوی صاحب) کا نام لیتا ہوں اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھسے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں اسکو صحیح پڑھنا چاہئے اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں دل پر تو یہ ہے کہ صحیح پڑھا جاوے لیکن زبان سے بیساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نام کے اشرف علی نکل جاتا ہے حالانکہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ اس طرح درست نہیں لیکن بے اختیاری زبان سے یہی نکلتا ہے ۔۔۔۔۔ اتنے میں بندہ خواب سے بیدار ہو گیا۔۔۔۔۔حالت بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہوا کہ اس خیال کو دل سے دور کیا جاوے اس واسطے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہو جاوے ۔۔۔۔۔ کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی کہتا ہوں اللھم صل علیٰ سیدنا و نبینا و مولانا اشرف علی حالاں کہ اب بیدار ہوں خواب نہیں لیکن بے اختیار ہوں مجبور ہوں زبان اپنے قابو میں نہیں اس روز ایسا ہی کچھ خیال رہا تو دوسرے روز بیداری میں رقت رہی خوب رویا اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جو حضور کے ساتھ باعث محبت ہیں کہاں تک عرض کروں ۔
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں : اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے ۔ (رسالہ الامداد،بابت ماہ صفر ۱۳۳۶ہجری ،جلد۳عدد۸:ص۳۵)
گویا تھانوی صاحب کے ہاں مرید کا خواب میں لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ کی جگہ اشرف علی رسول اللہ پڑھنے اور پھر بیداری کی حالت میں نبینا و مولانا اشرف علی (یعنی ہمارے نبی ، مولانا اشرف علی) کہنے میں تسلی کی بات ہے ۔ جو بات چھپی چھپی سی تھی اس واقعہ میں کیسے کھل کر سامنے آ گئی کہ صاف اقرار کر لیا گیا کہ تھانوی صاحب کو اپنا نبی کہنے میں بھی کچھ حرج نہیں ، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
یونہی تھانوی صاحب آل ِ دیوبند کے حکیم الامت اور مجدد الملت قرار نہیں پائے اس کے پیچھے انہیں مجددانہ اور حکیمانہ کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے ۔
مولانا رفیع الدین صاحب مجددی سابق مہتمم دارالعلوم کا مکاشفہ ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کی قبر عین کسی نبی کی قبر میں ہے ـ ( مبشرات دارالعلوم صفحہ نمبر 70 مطبوعہ محکمہ نشر و اشاعت دارالعلوم دیوبند انڈیا )
ایک دن مولانا نانوتوی نے اپنے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے شکایت کی کہ : جہاں تسبیح لےکر بیثھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے 100 سو 100 سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ـ (سوانح قاسمی ج 1 ص 258 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
اس شکایت کا جواب حاجی صاحب کی زبانی کہ یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل ( گرانی ) ہے جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالی کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ـ (سوانح قاسمی ج 1 ص 259 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)
عین کسی نبی کی قبر میں ہے ، نبوت کا فیضان وحی کی گرانی اور کار انبیاء کی سپردگی ان سارے لوازمات کے بعد نہ بھی صریح لفظوں میں ادعائے نبوت کیا جائے جب بھی اصل مدعا اپنی جگہ پر ہے ـ
نانوتوی صاحب فرشتہ تھے : مولوی نظام الدین صاحب مغربی حیدرآبادی مرحوم جو مولانا رفیع الدین صاحب سے بیعت تھے اور صالحین میں سے تھے احقر سے فرمایا جبکہ احقر حیدرآباد گیا ہوا تھا کہ مولانا رفیع الدین فرماتے تھے کہ میں پچیس برس مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کبھی بلا وضوء نہیں گیا میں نے انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا ہے وہ شخص ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیا گیا ـ ۔(ارواح ثلاثہ صفحہ 192حکایت 241) . دیوبندیوں سے یہ کوئی پوچھے کہ اپنے مولوی کی تعریف کرتے وقت نور و بشر کی بحث بھول گئے ـ یہ تو نانوتوی کو بشر ہی نہیں مانتے فرشتہ مانتے ہیں ـ بھول گئے تقویۃ الایمان کے مصنف اپنے غبی امام کی کفر کی فیکٹری ؟ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment