درس قرآن موضوع تہجد اور مقام محمود سورہ اسراء آیت نمبر 79 ۔
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوۡدًا ﴿سورہ اسراء آیت نمبر 79﴾
ترجمہ : اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کرو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدْ بِہ : اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو ۔} نمازِ تہجد سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض تھی، جمہور کا یہی قول ہے جبکہ حضورِاکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اُمت کے لئے یہ نماز سنت ہے ۔ (تفسیر خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳/۱۸۵-۱۸۶، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱،)
تہجد کے فضائل
اِس آیت میں تہجد کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے، اس مناسبت سے نمازِ تہجد کی فضیلت پر مشتمل چند اَحادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
(1) حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوںکو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵/۳۲۳ الحدیث: ۳۵۶۰)
(2) حضرت اسماء بنتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے ،حضورِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا ۔ (شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا لیلاً ونہاراً۔۔۔ الخ، ۳/۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3) حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی ، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، وہ کس کے لیئے ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اُس کے لیئے جو اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں ۔ (مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، صلاۃ الحاجۃ، ۱/۶۳۱، الحدیث: ۱۲۴۰)
(4) حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہلِ خانہ کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے ۔ (مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، تودیع المنزل برکعتین، ۱/۶۲۴، الحدیث: ۱۲۳۰،چشتی)
(5) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی ایسا کام ارشاد فرمائیے جسے میں اختیار کرو ںتو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ ارشاد فرمایا ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں توسلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔ (مستدرک، کتاب الاطعمۃ، فضیلۃ اطعام الطعام، ۵/۱۷۹، الحدیث: ۷۲۵۶)
تہجد سے متعلق چند مسائل
(1) صَلَاۃُ الَّیْل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کی نماز کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ۔
(2) تہجد نفل کا نام ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو گیا پھر اٹھ کر قضا نماز پڑھی تو اُس کو تہجد نہ کہیں گے ۔
(3) کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں اور حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے آٹھ تک ثابت ہیں ۔
(4) جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اُسے تہجد چھوڑنا مکروہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ارشاد فرمایا : ’’اے عبداللّٰہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اُٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا ۔ (بخاری، کتاب التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ، ۱/۳۹۰، الحدیث: ۱۱۵۲ ، چشتی)
مقام محمود : عَسٰۤی اَنۡ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوۡدًا : قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔ آیت میں مقامِ محمود کا ذکر ہے اور مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اوّلین و آخرین حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے ، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :مقامِ محمود کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شفاعت ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵/۹۳، الحدیث: ۳۱۴۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر یہ آیت اور مختلف کتب سے اوپر بیان کردہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’اور شفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اور صحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ۔ اس دن آدم صفی اللّٰہ سے عیسیٰ کلمۃ اللّٰہ تک سب انبیاء اللّٰہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفسی نفسی فرمائیں گے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’اَنَا لَھَا اَنَا لَھَا ‘‘ میں ہوں شفاعت کے لئے ، میں ہوں شفاعت کے لئے (فرمائیں گے) انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اور وہ متکلم ،سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم، سب محلِ خوف میں، وہ آمن وناہم (یعنی خود امن میں اور امت کے امن کے خواہش مند)، سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر ِعوالم ،سب زیرِ حکومت، وہ مالک وحاکم، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرینگے ، ان کا رب انہیں فرمائے گا ’’یَا مُحَمَّدْ اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ‘‘ اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اور مانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔ اس وقت اولین وآخرین میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گا اور دوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی افضلیت ِکُبریٰ وسیادتِ عظمیٰ پر ایمان لائے گا ۔ (فتاوی رضویہ، ۳۰/۱۷۰-۱۷۱، چشتی)
حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے وسیلہ اور مقامِ محمود کی دعا مانگنے کی فضیلت : حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اذان سن کر یہ دعا کرے ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب ! محمد مصطفی کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقامِ محمود پر کھڑے کرنا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ تو اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہو گئی ۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب الدعاء عند الندائ، ۱/۲۲۴، الحدیث: ۶۱۴)
اور مسلم شریف کی روایت میں اس دعا کے پڑھنے سے پہلے درود پڑھنے کا بھی فرمایا گیا ہے ۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذّن لمن سمعہ ثمّ یصلّی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ص۲۰۳، الحدیث: ۱۱(۳۸۴))
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنه قَالَ : إِنَّ النَّاسَ يَصِيْرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُوْلُوْنَ : يَا فُلَانُ! إِشْفَعْ، يَا فُلَانُ! اِشْفَعْ، حَتَّی تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَالِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اﷲُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے روز لوگ گروہ در گروہ اپنے اپنے نبی کے پیچھے چلیں گے اور عرض کریں گے : اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے، اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے حتی کہ طلب شفاعت کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آکر ختم ہو جائے گا۔ یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا ۔ اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التفسير، باب قوله : عسی أن يبعثک ربک مقاماً محموداً، 4 / 1748، الرقم : 4441، والنسائی في السنن الکبری، 6 / 381، الرقم : 11295، وابن منده في الإيمان، 2 / 871، الرقم : 927، والقرطبی في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 309، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 56.چشتی)
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّی يْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ. وَقَالَ : إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّی يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ، فَبَيْنَاهُمْ کَذٰلِکَ اسْتَغَاثُوْا بآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم. وَزَادَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ صَالِحٍ : حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ : حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ : فَيَشْفَعُ لِيُقْضَی بَيْنَ الْخَلْقِ، فَيَمْشِي حَتَّی يْخُذَ بِحَلَقَةِ الْبَابِ فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اﷲُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا، يَحْمَدُهُ أَهْلُ الْجَمْعِ کُلُّهُمْ.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ منده وَالْبَيْهَقِيُّ.
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی شخص (دنیا میں بھکاری بن کر) لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ ہوگا۔ اور فرمایا : قیامت کے دن سورج (مخلوق کے) اتنا قریب ہوگا کہ (ان کا) پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا۔ پس وہ اس حال میں حضرت آدم علیہ السلام سے مدد طلب کریں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کرنے جائیں گے۔ عبد اﷲ بن جعفر نے اتنا زیادہ بیان کیا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ان سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔ آپ جائیں گے حتی کہ جنت کے دروازے کا کنڈا پکڑ لیں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جب اﷲ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا اور سارے اہل محشر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کریں گے ۔ اسے امام بخاری، ابن مندہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : من سأل الناس تکثراً، 2 / 536، الرقم : 1405، وابن مندہ في الإيمان، 2 / 854، الرقم : 884، والبيهقی في شعب الإيمان، 3 / 269، الرقم : 3509، والديلمی في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 377، الرقم : 3677، والطبری في جامع البيان في تفسير القرآن، 15 / 146، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 : 56.چشتی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فِي قوْلِهِ (عَسٰی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo) [بني إسرائيل، 17 : 79] سُئِلَ عَنْهَا قَالَ : هِيَ الشَّفَاعَةُ.رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گاo) [بنی اسرائیل، 17 : 79] کے بارے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ مقامِ شفاعت ہے ۔ اسے امام ترمذی، احمد، ابنِ ابی شیبہ اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن، باب : من سورة بني إسرائيل، 5 / 303، الرقم : 3137، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 444، الرقم : 9735، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 319، الرقم : 31745، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 364، الرقم : 784، والبيهقی في شعب الإيمان، 1 / 681، الرقم : 299، والصيداوي في معجم الشيوخ، 2 / 664، الرقم : 293، والطبری في جامع البيان في تفسير القرآن، 15 / 145، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 59، والقرطبی في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 309، والعسقلانی في فتح الباری، 11 / 426.چشتی)
32 / 5. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الخدري رضی اﷲ عنه، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ : فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُوْلُوْنَ : أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ، فَيَقُولُ إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَی الْأَرْضِ، وَلَکِنِ ائْتُوا نُوحًا فَيَأْتُوْنَ نُوْحًا، فَيَقُولُ إِنِّي دَعَوْتُ عَلَی أَهْلِ الْأَرْضِ دَعْوَةً فَأُهْلِکُوا، وَلَکِنِ اذْهَبُوا إِلَی إِبْرَهِيْمَ فَيَأْتُوْنَ إِبْرَهِيْمَ، فَيَقُوْلُ : إِنِّي کَذَبْتُ ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْهَا کَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِيْنِ اﷲِ وَلَکِنِ ائْتُوا مُوسَی فَيَأْتُوْنَ مُوسَی، فَيَقُولُ : إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا وَلَکِنِ ائْتُوا عِيْسَی فَيَأْتُونَ عِيْسَی، فَيَقُوْلُ : إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُونِ اﷲِ وَلَکِنِ ائْتُوا مُحَمَّدًا، قَالَ : فَيَأْتُونَنِي، فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ : قَالَ أَنَسٌ فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا، فَيُقَالُ : مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُوْنَ لِي وَيُرَحِّبُوْنَ بِي، فَيَقُولُونَ : مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا، فَيُلْهِمُنِي اﷲُ مِنَ الثَّنَائِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي : اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِکَ، وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي قَالَ اﷲُ (عَسٰی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo) [الإسراء، 17 : 79] قَالَ سُفْيَانُ لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا هَذِهِ الْکَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا.رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنه الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا قائد ہوں گا اور مجھے اس پر فخر نہیں۔ حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور کوئی فخر نہیں، حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ سارے لوگ اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور مجھے کوئی فخر نہیں۔ میں ہی وہ ہوں جس سے سب سے پہلے زمین شق ہوگی اور مجھے کوئی فخر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ تین بار گھبرانے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے : آپ ہمارے باپ ہیں اپنے رب سے ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ فرمائیں گے : مجھ سے لغزش واقع ہوئی جس کے باعث مجھے زمین پر اترنا پڑا تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، پھر وہ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو آپ فرمائیں گے : میں نے زمین پر ایک دعا مانگی جس کے باعث سارے لوگ ہلاک کردیئے گئے تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو آپ فرمائیں گے میں نے تین مرتبہ (بظاہر) خلاف واقعہ بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہوںنے ان تینوں باتوں سے دین الٰہی کو بچانے کے لئے حیلہ کیا، حضرت ابراہیم فرمائیں گے حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے تو آپ فرمائیں گے : میں نے ایک آدمی کو قتل کیا تھا تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، وہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے : لوگوں نے اﷲ عزوجل کے علاوہ مجھے بھی معبود بنا ليا تھا تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : پھر وہ میرے پاس آئیں گے تو میںان کے ساتھ چلوں گا۔ ابنِ جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا گویا کہ میں اب بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جنت کے دروازے کی زنجیر پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا، تو کہا جائے گا : کون؟ جواب دیا جائے گا : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ چنانچہ وہ میرے لئے دروازہ کھولیں گے اور مجھے مرحبا کہیں گے، میں (اﷲ عزوجل کے سامنے) سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء کا کچھ حصہ الہام فرمائے گا۔ مجھے کہا جائے گا : سر اٹھائیے، مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی اور فرمائیے آپ کی بات مانی جائے گی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) یہی وہ مقامِ محمود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo) [بنی اسرائیل، 17 : 79]۔‘‘اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض راویوں نے بواسطہ ابو نضرہ، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو مفصل روایت کیا ہے۔(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن، باب : ومن سورة بني إسرائيل، 5 / 308، الرقم : 3148.چشتی)
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قوْلِهِ تَعَالَی : (عَسٰی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo) [بني إسرائيل، 17 : 79] قَالَ : أَلْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ : الشَّفَاعَةُ. يُعَذِّبُ اﷲُ قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْيْمَانِ بِذُنُوْبِهِمْ ثُمَّ يُخْرِجُهُمْ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فَيُوْتَی بِهِمْ نَهَرًا، يُقَالُ لَهُ : الْحَيَوَانُ. فَيَغْتَسِلُوْنَ فِيْهِ ثُمَّ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَيُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيُّوْنَ، ثُمَّ يَطْلُبُوْنَ مِنَ اﷲِ تَعَالَی فَيُذْهِبُ عَنْهُمْ ذٰلِکَ الْإِسْمَ. رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ.
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا o) [بنی اسرائیل، 17 : 79] کے بارے میں فرمایا : مقامِ محمود شفاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں میں سے ایک قوم کو ان کے گناہوں کے باعث عذاب دے گا، پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے انہیں (جہنم) سے نکال کر ایسی نہر کے پاس لایا جائے گا جسے حیات آور کہا جاتا ہے۔ پس وہ اس میں غسل کریں گے اور پھر جنت میں داخل ہو جائیں گے، انہیں (جنت میں) جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے (اس نام کے خاتمہ کا) مطالبہ کریں گے تو وہ اس نام کو ان سے ختم کر دے گا ۔ اسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد للإمام أبي حنيفة، 1 / 148.چشتی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَلْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ : الشَّفَاعَةُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مقامِ محمود شفاعت ہے۔‘‘ اسے امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 478، الرقم : 10200، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 281، الرقم : 299، وأبو نعيم الأصبهانی في حلية الأولياء، 8 / 372.)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی (عَسٰی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo) [بني إسرائيل، 17 : 79] قَالَ : وَهُوَ الْمَقَامُ الَّذِي أَشْفَعُ لِأُمَّتِي فِيْهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گاo) [بنی اسرائیل، 17 : 79] کے بارے فرمایا : یہ وہ مقام ہے جس میں، میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ۔ اسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 441، الرقم : 9684، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 59، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 8 / 454.چشتی)
عَنْ عَبْدِ اﷲِ. یعني ابن مسعود. رضی اﷲ عنه قَالَ : ثُمَّ يَأْذَنُ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ فِي الشَّفَاعَةِ، فَيَقُوْمُ رُوْحُ الْقُدُسِ جِبْرِيْلُ، ثُمَّ يَقُوْمُ إِبْرَاهِيْمُ خَلِيْلُ اﷲِ، ثُمَّ يَقُوْمُ عِيْسٰی أَوْ مُوْسٰی. قَالَ أَبُوالزَّعْرَاء : لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا؟ قَالَ : ثُمَّ يَقُوْمُ نَبِيُّکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم رَابِعًا، فَيَشْفَعُ لَا يَشْفَعُ لِأَحدٍ بَعْدَه أَکْثَرَ مِمَّا يَشْفَعُ، وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي قَالَ اﷲُ : (عَسٰی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْدًاo) [بني إسرائيل، 17 : 79]. رَوَاهُ الطَّيَالِسِيُّ.
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں : پھر اﷲ تعالیٰ شفاعت کا اِذن عطا فرمائے گا تو روح القدس جبرئیل علیہ السلام شفاعت فرمائیں گے، پھر اﷲ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام شفاعت فرمائیں گے، پھر عیسیٰ یا موسیٰ علیہما السلام شفاعت فرمائیں گے۔ ابو زعراء کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کون ہوگا؟ فرماتے ہیں : پھر (عموماً) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوتھے شفاعت فرمائیں گے، آپ اتنی کثرت سے شفاعت کریں گے کہ آپ کے بعد کوئی بھی التجا نہ کرے گا۔ یہی مقام محمود ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گاo) [القرآن، بنی اسرائیل، 17 : 79]۔‘‘ اسے امام طیالسی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطيالسي في المسند، 1 / 51، الرقم : 389، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 58. وأخرج الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 30 / 113، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 59، 4 / 489. عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَدَّ اﷲُ الْأَرْضَ حَتَّی لَا يَکُوْنَ لِبَشَرٍ مِنَ النَّاسِ إِلَّا مَوْضِعُ قَدَمَيْهِ، فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ يُدْعٰی، وَجِبْرِيْلُ عَنْ يَمِيْنِ الرَّحْمٰنِ، وَاﷲِ! مَا رَآهُ قَبْلَهَا، فَأَقُوْلُ : يَارَبِّ! إِنَّ هَذَا أَخْبَرَنِي أَنَّکَ أَرْسَلْتَه إِلَيَّ، فَيَقُوْلُ : صَدَقَ. ثُمَّ أَشْفَعُ فَأَقُوْلُ : يَا رَبِّ! عِبَادُکَ عَبَدُوْکَ فِي أَطْرَافِ الْأَرْضِ. قَالَ : وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ.)
محترم قارئین : یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یقینی طور پر وسیلہ اور مقامِ محمود عطا فرمائے گا ، چاہے مسلمان نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے اس کی دعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے وعدہ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا، البتہ مسلمانوں کو اس کی دعا مانگنے کی جو ترغیب دی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ اس میں ان کا اپنا عظیم فائدہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے انہیں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شفاعت نصیب ہو گی ان شاء اللہ العزیز ابھی اس موضوع پر اور بہت سی احادیث مبارکہ موجود ہیں طوالت کے خوف سے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی انہیں پر اکتفا کرتا ہے عقل مند کےلیئے اشارہ کافی ہوتا ہے اور بے عقل کےلیئے دلائل کے انبار بے فائدہ ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment