نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا طالبِ علم کو خوش آمدید کہنا
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وَهُوَ مُتَّكِیٌٔ فِي الْمَسْجِدِ عَلَى بُرْدٍ لَهُ أحْمَرَ، فَقُلْتُ لَہُ: يَا رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم إِنِّي جِئْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ۔ فَقَالَ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مَرْحَبًا بِطَالِبِ الْعِلْمِ، إِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ لَتَحُفُّهُ الْمَلَاۗئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا، ثُمَّ يَرْكَبُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا حَتّٰى يَبْلُغُوا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا مِنْ مُحَبَّتِھِمْ لِمَا يَطْلُبُ ۔ (رواہ الطبرانی)
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وَهُوَ مُتَّكِیٌٔ فِي الْمَسْجِدِ عَلَى بُرْدٍ لَهُ أحْمَرَ، فَقُلْتُ لَہُ: يَا رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم إِنِّي جِئْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ۔ فَقَالَ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مَرْحَبًا بِطَالِبِ الْعِلْمِ، إِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ لَتَحُفُّهُ الْمَلَاۗئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا، ثُمَّ يَرْكَبُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا حَتّٰى يَبْلُغُوا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا مِنْ مُحَبَّتِھِمْ لِمَا يَطْلُبُ ۔ (رواہ الطبرانی)
ترجمہ : حضرت صفوان بن عسّال مرادی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اُس وقت اپنی سرخ دھاریوں والی چادر پر ٹیک لگائے تشریف فرما تھے ۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں علم حاصل کرنے آیا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : طالبِ علم کو خوش آمدید ہو ، طالبِ علم کو فرشتے اپنے پَروں سے گھیر لیتے ہیں اور پھر اِس کثرت سے آکر ایک کے اوپر ایک جمع ہوتے رہتے ہیں کہ آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ اُس علم کی محبّت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ، جس کو یہ طالبِ علم حاصل کررہا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات سراپا عمل تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس بات کا حکم دیتے خود بھی اُس پر عمل کرتے ، بلکہ اوروں سے بڑھ کر عمل کرتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے طلبہ کے حق میں خیر کی وصیّت فرمائی تو خود بھی اُن کے ساتھ ویسا معاملہ فرمایا ۔
حضرت صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ جب ایک طالبِ علم بن کر نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے راحت وآرام کو تج فرما کر اُن کا پُرجوش استقبال فرمایا، قدردانی اور حوصلہ افزائی فرمائی ۔
طلبۂ علومِ دینیہ کو اِس سے خود اپنے مقام ومرتبہ کا بھی اندازہ لگانا چاہیئے اور سمجھنا چاہیئے کہ دنیا اُن کی پذیرائی کرے یا نہ کرے ، لوگ اُن کا استقبال کریں یا نہ کریں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اُن کی پذیرائی فرما رہے ہیں ، فرشتے اُن سے اپنی محبّتوں کا اظہار کر رہے ہیں ، کیا یہ کم ہے ؟ ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment