Monday 30 April 2018

بغیر خلوصِ نیت کے علم حاصل کرنے کا انجام تباہی ہے

0 comments
بغیر خلوصِ نیت کے علم حاصل کرنے کا انجام تباہی ہے

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضٰى عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ اُسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعْمَتَهُ فَعَرَفَهَافَقَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتّٰى اسْتُشْهِدْتُّ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِيْءٌ، فَقَدْ قِيْلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتّٰى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْاٰنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ، وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيْكَ الْقُرْاٰنَ قَالَ كَذَبْتَ وَلٰكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْاٰنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِیٌٔ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتّٰى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ كَذَبْتَ وَلٰكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَّادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ۔ (رواہ مسلم بحوالہ مشکوٰۃ : ۱/۳۳)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا سب سے پہلا شخص جس کے خلاف قیامت کے دن دوزخ میں ڈالے جانے کا فیصلہ ہوگا وہ ایک ایسا آدمی ہوگا جو (میدانِ جہاد) میں شہید کیا گیا ہوگا۔ چنانچہ اُس کو لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُس کو بتلائیں گے کہ میں نے تجھے کیا کیا نعمتیں دی تھیں ، وہ اُن سب کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اُس سے پوچھیں گے، بتا! ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ وہ کہے گا میں نے آپ کی راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید کردیا گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے جھوٹ کہا، تو نے جہاد اس نیّت سے کیا تھا کہ لوگ تجھے بہادر کہیں سُو کہا جاچکا ۔ پھر اس کے بارے میں اللہ کا حکم ہوگا اور وہ اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا ۔ اور دوسرا وہ شخص ہوگا جس نے علمِ دین حاصل کیا ہوگا اور دوسروں کو اس کی تعلیم بھی دی ہوگی اور قرآن بھی خوب پڑھا ہوگا۔ چنانچہ اس کو لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو بھی اپنی بخشی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں گے، وہ ان سب کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے، بتا! تو نے میری ان نعمتوں سے کیا کام لیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے آپ کی رضا کے لیے علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھایا اور آپ ہی کی رضا کے لیے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے یہ بات جھوٹ کہی، تو نے علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سُو کہا جاچکا۔ پھر اس کے بارے میں بھی اللہ کا حکم ہوگا اور اسے اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا ۔ اور تیسرا وہ شخص ہوگا جس کو اللہ نے دنیا میں بڑی فراخی دی ہوگی اور ہر طرح کا مال اسے عطا فرمایا ہوگا۔ چنانچہ اس کو بھی لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو بھی اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے، وہ ان سب کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے بھی پوچھیں گے کہ تو نے میری ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ وہ عرض کرے گا جن جن کاموں میں خرچ کرنا آپ کو پسند ہے میں نے آپ کا دیا ہوا مال ان سب کاموں میں آپ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا، تو نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں سُو کہا جاچکا۔ پھر اس کے بارے میں بھی اللہ کا حکم ہوگا اور وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا ۔

محترم قارئین : کس قدر لرزا دینے والی ہے یہ حدیث! اِسی کی بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اِس حدیث کو بیان کرتے وقت کبھی کبھی بے ہوش ہوجاتے تھے ۔ اِسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ اُن کے سامنے یہ حدیث بیان کی گئی تو وہ بہت روئے اور روتے روتے بےحال ہوگئے ۔ اِس حدیث میں جن تین اعمال کا ذکر ہے، (1) راہِ خدا میں جہاد اور شہادت ، (2) علمِ دین کا سیکھنا سکھانا اور قرآن میں مشغولیت ، (3) نیک کاموں میں مال خرچ کرنا ۔ ظاہر ہے کہ یہ تینوں کام اعلیٰ درجہ کے اعمالِ صالحہ میں سے ہیں اور اگر اخلاص کے ساتھ یہ عمل ہوں تو پھر اُن کا صلہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنّت کے اعلیٰ درجات ہیں ۔ لیکن یہی اعمال جب دکھاوے اور شہرت کے لیئے یا اِسی قسم کے دوسرے دنیوی مقاصد کے لیئے کیے جائیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ اِس درجہ کے گناہ ہیں کہ دوسرے سب گنہگاروں (چوروں ، ڈاکوؤں ، اور زنا کاروں ) سے بھی پہلے جہنّم کا فیصلہ ان ہی کے لیے کیا جائے گا اور یہی لوگ سب سے پہلے جہنّم میں جھونکے جائیں گے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔