Monday 23 April 2018

کاتبین وحی اور ان کا مختصر تعارف حصّہ حصّہ دوم

0 comments

کاتبین وحی اور ان کا مختصر تعارف حصّہ حصّہ دوم

کاتب وحی امیر المؤمنین حضرت سید نا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ​

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (مُتَوَفّٰی ۹۲۳ھ ) نے المواھب اللدنیہ میں ان کاتبین کے اسمائے گرامی ذکر کیئے ہیں جو یہ ہیں :

(1) حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق (2) حضرت سیِّدُنا عمر فاروق

(3) حضرت سیِّدُنا عثمان غنی (4) حضرت سیِّدُنا علی المرتضی

(5) حضرت سیِّدُنا طلحہ بن عبید ﷲ (6) حضرت سیِّدُنا زبیر بن عوام

(7) حضرت سیِّدُنا سعید بن عاص (8) حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص

(9) حضرت سیِّدُنا عامر بن فہیرہ (10) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن ارقم

(11) حضرت سیِّدُنا ابی بن کعب (12) حضرت سیِّدُنا ثابت بن قیس

(13) حضرت سیِّدُنا حنظلہ بن ربیع (14) حضرت سیِّدُنا ابو سفیان

(15) حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ (16) حضرت سیِّدُنا زید بن ثابت

(17) حضرت سیِّدُنا شُرَحْبِیْل بن حسنہ (18) حضرت سیِّدُنا علا بن حضرمی

(19) حضرت سیِّدُنا خالد بن ولید (20) حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص

(21) حضرت سیِّدُنا مغیرہ بن شعبہ (22) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن رواحہ

(23) حضرت سیِّدُنا مُعَیْقِیب بن ابی فاطمہ (24) حضرت سیِّدُنا خالد بن سعید بن عاص

(25) حضرت سیِّدُنا حذیفہ بن یمان (26) حضرت سیِّدُنا حویطب رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔ (المواھب اللدنیہ، الفصل السادس، ج۱، ص۴۳۴)۔(اور کچھ دیگر نام بھی ہیں)

نام ونسب : ابو عبد الرحمن معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ بن صخر بن حرب بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی ۔

پیدائش : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل پیدا ہوئے ۔

اسلام قبول کرنے سے پہلے : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سردار قریش ابو سفیان کے صاحبزادے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 ِافرا دمیں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ کی والدہ ہند بنت عتبہ ،والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور ایک قیافہ شناس کے اقوال نقل کئے ہیں فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ جبکہ آپ رضی اللہ نوعمر ہی تھے آپ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ کی طرف دیکھ کہ کہا : میرا بیٹا بڑے سروالا ہے اور اس قابل ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے “۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اپنے شوہر کے یہ الفاظ سنے تو کہنے لگیں : آپ صرف اپنی قوم کی سرداری کی بات کررہے ہیں ۔ اس کی ماں اس کو روئے اگر یہ پورے عالم عرب کا قائد اور سردار نہ بنے ۔ ایک قیافہ شناس نے آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے ہی تھے تو کہنے لگا ” یہ اپنی قوم کا سردار بنے گا “ ۔
اسلام کے دامن رحمت میں: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں حصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہر تھے نیز آپ رضی اللہ عنہ کے والد ان معرکوں میں قریش کے صف اول کے قائدین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ فتح مکہ میں چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے ،اس لئے حالات سازگار دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قبول اسلام کاا علان کردیا ۔ اس سے پہلے قبول اسلام کا اعلان نہ کرنے کی وجہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے: ” میں عمرة القضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا ، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا ، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہوکر مدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے “ ( طبقات ابن سعد، چشتی)

خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں : اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہءنسب پانچویں پشت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے ملتاتھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کے تعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ دوستانہ تھے ، یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے دار ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دار الامن قراردے دیا تھا ، نیز حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے حرم میں داخل تھیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ، ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی دربار نبوی میں حاضری کے متعلق علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ شب وروز کتابت وحی کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی شغل نہ تھا۔( جامع السیر)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نےحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبرائیل علیہ السّلام سے مشورہ کے بعد کاتب وحی بنایا جبرائیل علیہ السّلام نے عرض کیا کیوں نہیں وہ امین ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر مترجم حصّہ ہفتم ، ہشتم صفحہ 158)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی تھے (معانی الاخبار صفحہ 394 شیعہ مصنف شیخ صدوق کا انتہائی گستاخانہ انداز میں مجبورا اقرار) سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی منکر اب کیا کہتے ہیں ؟

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی اور اُمتِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے ماموں ہیں ۔ (تاریخ مدینہ دمشق الجزء التّاسع و الخمسون صفحہ 55)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ اُمتِ مُسلمہ کے ماموں اور رب العالمین کی وحی کے کاتب ہیں دیگر کاتبان وحی کے ساتھ وحی لکھتے تھے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد نمبر ہفتم ، ہشتم صفحہ نمبر 33، چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی لکھواتے حروف بتاتے یہ ایسے ایسے لکھو ۔ (تفسیر دُرِّ منثور جلد اوّل صفحہ نمبر 45 مترجم اردو )

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے خطوط اور وحی الٰہی لکھا کرتے تھے (مدارج النبوت جلد دوم صفحہ نمبر 602 حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، چشتی)

امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ) اور کاتب وحی اور وحی الٰہی کےامین ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کو دوسروں پر قیاس مت کرو۔(کتاب الشفا مترجم اردو جلد نمبر 1 صفحہ نمبر61 ، چشتی)

کتا بت وحی کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں ہونے والے حنین اور طائف کے معرکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : ” وہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی خدمت میں عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! میں اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں سے لڑتا تھا ، اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم مجھے حکم دیجئے کہ میں کفار سے جہاد کروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ضرور ، جہاد کرو،“
دور خلافت راشدہ رضی اللہ عنہم میں آپ رضی اللہ عنہ کے جہادی کارنامے: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کی طرف جو لشکر بھیجے گئے آپ رضی اللہ عنہ اس کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں گورنر شام کی حیثیت سے آپ رضی اللہ عنہ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہرا یا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا ایک اہم جہادی کارمانہ قبرص کی فتح ہے ۔
شام کے قریب واقع یہ حسین وزرخیز جزیرہ اس حیثیت سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ یورپ اور روم کی جانب سے یہی جزیزہ مصر وشام کی فتح کا دروازہ تھا ۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سمندری مشکلات کے پیش نظر آپ رضی اللہ عنہ کو لشکر کشی کی اجازت نہیں دی تھی ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے عزم کامل اور شدید اصرار کو دیکھتے ہوئے اجازت مرحمت فرمادی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہاں حملہ کرنے کی غرض سے 500 جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ تیار فرمایا ۔ جب اہل قبرص نے اتنے عظیم بحری بیڑے کو قبرص میں لنگر انداز دیکھا تو ابتدا میں کچھ شرائط پر مسلمانوں سے صلح کرلی، لیکن موقع پاکر عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف رومیوں کومدد فراہم کی چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حملہ کردیا اور اس اہم جزیرے کو مسخر کرلیا ۔
یہ اسلام کا پہلا بحری بیڑہ تھا اور باتفاق محدثین آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اس بیڑے میں شامل مجاہدین ہی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے بحری جہاد کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے ، علاوہ ازیں افرنطیہ ،ملطیہ ،روم کے متعدد قلعے بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فتح کئے ۔
عہدے ومناصب اور خلافت: آپ رضی اللہ عنہ 18 ھ سے 41 ھ تک تقریباً 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ 18 ھ میں آپ رضی اللہ عنہ کے برادراکبر حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ طاعون کے باعث شہید ہوگئے ،چنانچہ ان کی جگہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا گورنر مقرر فرمایا ۔ بعد ازاں حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو ہٹاکر حمص کی اور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو ہٹا کر جابیہ کی گورنری پر بھی آپ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فلسطین ،اردن اور لبنان بھی آپ رضی اللہ عنہ کی گورنری میں دےدئیے ۔ اس طرح شام کا صوبہ اور اس کے مضافات کے تمام علاقے آپ رضی اللہ عنہ کی عملداری میں آگئے ۔ 41 ھ میں حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری پر آپ رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین بنے ، تمام مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے دست حق پر ست پر بیعت کی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تقریباً 20 سال پر محیط ہے ۔
بطور خلیفہ خدمات جلیلہ: ہم انتہائی اختصار کے ساتھ چند اہم کارناموں کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں :
1۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ،ترمذ ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔
2۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
3۔ مردم شماری کےلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔
4۔ بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔
5۔ تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔
6۔ نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔
7۔ نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔
8 ۔ ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔
9 ۔ عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔
10۔ مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔
11۔ بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی ) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔
12 ۔ جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے ۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔
13 ۔ قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور ” دارالضرب “ کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔
14 ۔ امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔
15۔ دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔
الغرض آپ رضی اللہ عنہ کا دو ر ایک مثالی دور تھا ۔ ابو اسحق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بلاشبہ وہ مہد ی زماں تھے ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ احادیث وآثار کے آئینے میں :
1۔اے اللہ ! اسے ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ اوروں کو ہدایت دے ( حدیث مبارکہ )
2۔اے اللہ ! معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب وحساب کا علم دے اور اسے عذاب سے محفوظ رکھ ( حدیث مبارکہ )
3۔ اے اللہ ! اس کے سینے کو علم سے بھر دے ۔ ( حدیث مبارکہ )
4۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلائی کےساتھ کرو۔ ( اسے حدیث سمجھنا غلط فہمی ہے ) ( حضرت عمر فاروق ؓ)
5۔ لوگو ! فرقہ بندی سے بچو ۔ اگر تم نے فرقہ بندی اختیار کی تو یاد رکھو معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں موجود ہیں ۔ ( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ )
6۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو برا نہ سمجھو کیونکہ جب وہ نہیں ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا دیکھو گے ( حضر ت علی رضی اللہ عنہ )
7۔ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امو ر سلطنت وبادشاہت کے لائق کسی کو نہیں پایا۔ ( حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ )
8۔ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والا نہیں پایا ۔ ( حضرت سعدؓبن ابی وقاص)
9۔میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر برد بار ،سیادت کے لائق ، باوقار اور نرم دل کسی کو نہیں پایا ۔( حضرت قبیصہ بن جابر )
10۔اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پاتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ عدل وانصاف کیا ہے ؟ ( امام اعمش )
جنگ صفین کی آڑلیکر اس عظیم صحابیؓ رسول ﷺکی شان میں زبان درازی کرنے والے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں ۔ ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی بھی صحابی کے خلاف زبان طعن وتنقید دراز کرے ۔صحابہ رضی اللہ عنہم کے کردار کو تاریخ کے آئینے میںدیکھنا ایسا ہے جیسے ہیرے جواہرا ت کا وزن لکڑی تولنے والے سے کرایاجائے ۔
وفات: یہ آفتاب رشد وہدایت ،فاتح بحر وبر اور امام سیاست 22 رجب المرجب 60 ھ میں دمشق میں راہی ملک بقا ہو ا ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)







0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔