Tuesday, 3 April 2018

ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں اور لفظ ”شب باشی ”کا تحقیق جائزہ

ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں اور لفظ ”شب باشی ”کا تحقیق جائزہ




انجینئر محمد علی مرزا اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے : علماء کا نظریہ : بلکہ سیدی محمد بن عبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : ’’کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں ۔ وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں ۔ (اندھا دھند پیروی کا انجام صفحہ نمبر 4 رقم : 16) ۔ وحی کا فیصلہ : النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔ [سورۃ الاحزاب آیت:۶ ۔ اس اجہل مرزا جیسی گھٹیا جاہلانہ سوچ رکھنے والے لوگ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے یہی روایت بیان فرمائی تو ان پر غلیظ و گندی جملے کستے اور گھٹیا پوسٹیں بناتے ہیں اس سے قبل ہم مختصر جواب دے چکے ہیں آیئے اس مسلہ پر تفصلی گفتگو کرتے ہیں : صاحب ِعقل و شعور اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کوئی قول نقل کرے یا کسی کے قول کو بیان کرے تو اس کی ذمہ داری صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ جس سے نقل کر رہا ہے یا بیان کر رہا ہے اسے ثابت کردے ۔ اگر وہ ثابت کر دے تو اس قول کی وجہ سے کوئی بھی دیانتدار اسے ملامت نہیں کرے گا کیونکہ اس کا کام صرف نقل دکھانا یا جس سے وہ بیان کر رہا ہے اس کا ثبوت فراہم کرنا ہے ۔ جیسا کہ غیر مقلدین کے نواب صدیق حسن بھوپالوی صاحب کے صاحبزادے علی حسن صدیقی نے لکھا کہ :’’ناقل کا کام ہے کہ نقل دکھا دے ۔ (معاصر صدیقی۴/۱۷۸)
البتہ بعض مقامات پر سکوت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے لیکن عمومی اعتبار سے گفتگو میں اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ، خاص کر جب کسی موضوع پر گفتگو کی جا رہی ہو اور نفس مسئلہ دلائل سے ثابت ہو تو اس کے متعلق کسی کا قول بیان کر دینا اور کہنا کہ فلاں نے یہ بھی کہا ہے یہ متکلم کے لئے قابل ِگرفت امر نہیں ۔
مگر کیا کہا جائے ان مصنفین ، واعظین اور جہلاء کو جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے’’ ملفوظات‘‘ کی اس عبارت کو خود پڑھ کر یا سن کر عوام الناس میں جہالت ،تعصب ،عناد ، ہٹ دھرمی ،حسد یا اپنے دل کی کجی کی وجہ سے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی کی طرف اسے منسوب کر کے عوام اور سادہ لوح لوگوں کو آپ سے متنفر کرنے کی سعیٔ لا حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں ، یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ ہم فریب ، دھوکہ ، الزام یا بد دیانتی کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔

ان مصنفین ، واعظین اور جہلاء کو چاہئیے تو یہ تھا کہ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کی طرف رخ کرتے اور اس بات کو ان کی تصانیف میں تلاش کرتے ، اگر مل جاتی تو اس کے بارے میں قرآن و حدیث کی طرف رخ کرتے ہوئے اس کی تحقیق کرتے کہ آیا یہ بات درست ہے یا تعلیمات ِاسلامیہ کے مخالف ، پھر اپنے فہم و فراست کے لحاظ سے اختلاف کرتے یا اتفاق کرتے ، مگر ان رٹے رٹائے الفاظ کے حاملین نے اس بات کو جان بوجھ کر سمجھتے ہوئے ان کا ذکر ہی نکال دیا اور جہالت کی آڑ میں یا جھوٹ کا سہارا لے کر دھوکہ و فریب کو اپناتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اپنی عاقبت کو خراب کرنے کے درپے ہو گئے بلکہ عوام کے ذہنوں میں بھی انتشار و افتراق کی چنگاریاں جلادیں ۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ذاتی قول نہیں ، بلکہ انہوں نے واضح فرمایا کہ : سیدی محمد بن عبد الباقی زرقانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، اس میں قطعا کوئی شک نہیں کہ یہ قول علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف لطیف ’’ شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ للعلامۃ القسطلانی جلد ۸ صفحہ ۳۵۸،دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان ، الطبعۃ الأولی۱۴۱۷ھ۔ ۱۹۹۶ء؁ ‘‘ میں موجود ہے اور علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ یہ قول خود اپنی طرف سے بیان نہیں کر رہے بلکہ ابن عقیل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کر رہے ہیں، الفاظ ملاحظہ فرمائیں : ’’ قال ابن عقیل الحنبلي : ویضاجع أزواجہ ویستمتع بھن أکمل من الدنیا ، وحلف ذلک ،وھو ظاھر ولا مانع منہ ‘‘۔ (اس کا اصل اسکن ہم ساتھ پیش کر رہے ہیں)
علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے بارے میں غیر مقلدین کے عصر حاضر کے محدث و محقق ارشاد الحق اثری فیصل آبادی نے دیوبندیوں کے محدث و محقق سرفراز خان صفدر کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’’اسی طرح علامہ محمد بن عبد الباقی رحمۃ اللہ علیہ الزرقانی المتوفی ۱۱۲۲ھ بھی بلند پایہ محدث ہیں ، ان کی موطا کی شرح چار جلدوں میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہے علامہ الکتانی نے انہیں ’’محدث الدیار المصریہ‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے تلامذہ وغیرہ انہیں خاتمۃ الحفاظ اور خاتمۃ المحدثین کہتے تھے ، بلکہ الشہاب المرجانی نے انہیں مالکیہ کے ۱۱ ہجری کے مجددین میں شمار کیا ہے ۔ علامہ کتانی فرماتے ہیں بلا شبہ وہ اپنے آثار علمیہ کی بناء پر اسی منصب کے لائق ہیں (فہرس الفہارس :ص۴۵۶،۴۵۷ج۱)
بتلائیے اگر یہ بھی محقق نہیں تو اور کون ہے جسے محققین میں شمار کیا جائے ؟ ۔ خود علامہ صفدر دیوبندی صاحب علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ پر تساہل کے الزام کے جواب میں جو کہ شرح المواہب ہی کے حوالہ کے بارے میں ہے ، لکھتے ہیں : ’’ بلا شبہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ متساہل تھے لیکن علامہ نور الدین ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا تساہل ثابت نہیں اور بلا حوالہ اور بدون دلیل ان حضرات کا تساہل غیر مسلم ہے ۔ (تسکین الصدور :ص۲۴۲) ۔ (مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینہ میں ،ص ۷۵،۷۶، ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد )
علامہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت جب غیر مقلدین کے عصر حاضر کے محدث و محقق کے نزدیک نہ صرف اہل ِعلم میں سے ہیں بلکہ ایک بلند پایہ محدث و محقق ہیں اور دیوبندیوں کے ماضی قریب کے امام و محدث کے نزدیک وہ متساہل بھی نہیں ،خاص کر جب وہ حوالہ ذکر کریں تو مسلم ہیں ۔
پس اگر اپنی اسی کتاب ،جس کا مذکورہ بالا عبارت میں ذکر ہوا ہے ، میں بلا تردید لکھی ہے تو ان پر کوئی الزام نہیں اور نہ ہی وہ اس بات کو لکھنے کی وجہ سے مورد ِالزام قرار پاتے ہیں ، تو اگر انہیں سے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے حکایتاً نقل کر دی تو اس کی وجہ سے آپ کو قابل گردن زدنی کیوں قرار دیا جا رہا ہے ! کیا یہ عدل و انصاف ، صداقت وامانت ہے ؟ ۔
اوپر بیان کردہ گفتگو کے پیش نظر اگر کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر وہ مصنفین اور واعظین علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ کرنے کی وجہ سے مورد ِالزام ہیں تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تو علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اسے منسوب کیا ہے جبکہ یہ قول ابن عقیل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ یہ قول بحیثیت شارح نقل کر رہے ہیں اور یہ قول علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ ایک عبارت کی شرح میں ذکر کر رہے ہیں اور جب کوئی شارح کسی بات کی شرح میں کوئی بات خواہ کسی سے نقل کر رہا ہو وہ اس کا اپنا مؤقف ہوتا ہے اگر وہ اس کی تردید نہ کرے تو ، اور یہاں ایسا ہی ہے کہ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’طبقات ‘‘کے حوالہ سے ابن فورک رحمۃ اللہ علیہ کی بات کی شرح کرتے ہوئے علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ اس قول کو لائے ہیں اور اس کی انہوں نے کوئی تردید نہیں فرمائی ، لہٰذا یہ ان کا مؤقف ٹھہرا گو کہ یہ اسے کسی اور سے نقل کر رہے ہیں ، لہذا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ابن عقیل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ذکر نہ کرنا مورد ِالزام نہیں کیونکہ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت شارح اس قول کو بلا تردید نقل کر رہے ہیں تو ان کا اپنا نظریہ بھی یہی ہے ، لہٰذا ان کی طرف منسوب کرنا بھی درست تھا ، اس لیئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عقیل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ذکر کئے بغیر فرمایا کہ سیدی محمد بن عبد الباقی زرقانی فرماتے ہیں ۔
پھر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قول علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ پر رد کرنے کے نظریہ سے منسوب نہیں کیا بلکہ بحیثیت حکایت اس کو بیان فرمایا ہے ، اور اہل ِعلم و دانش اس سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ کسی پر رد کرنے کے لئے کسی بات کو ذکر کرنا اور حکایت کے طور پر کسی کی طرف منسوب کرنے میں بھی بہت فرق ہے ۔

معترض مصنفین ، واعظین اور فیس بکی جہلاء اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت پر عام طور پر دو طرح سے اعتراض کرتے ہیں ، ایک تو یہ کہ دیکھو جی ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قبر میں ازواج ِمطہرات پیش ہوں ، اور دوسرا یہ کہ دیکھو قبر میں شب باشی یہ گستاخی ہے ۔
ان دونوں باتوں کے بارے میں اپنی علمی حیثیت جو اللہ عزوجل نے عطا فرمائی ہے، کے مطابق چند باتیں ذکر کرتا ہے، بحیثیت انسان میری فہم و فراست میں غلطی اور کوتاہی کا بھی امکان موجود ہے، اگر کوئی صاحب ِعلم اس کی طرف رہنمائی کرے گا تو ان شاء اللہ العزیز بغیر کسی تمیز و تفریق ِمسلک حق کو تسلیم کیا جائے گا ۔
(1) دنیاوی زندگی بسر کرنے کے بعد جو اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے اس کے ساتھ کسی حالت میں قبل از قیام ِقیامت اس کے اہل ِخانہ ، اپنی بیویوں وغیرہ کی ملاقات ہو سکتی ہے یا کہ نہیں ؟
حدیث نمبر 1 : عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: اجتمعن نساء النبي ﷺ فلم تغادر منھن انرأۃ ، فجاء ت فاطمۃ کأن مشیتھا مشیۃ رسول اللّٰہ ﷺ فقال : مرحبا بابنتي ثم أجلسھا عن شمالہ ، ثم انہ أسر الیھا حدیثا ، فبکت فاطمۃ ، ثم انہ سارھا ، فضحکت أیضا ، فقلت لھا : ما یبکیک ؟ قالت : ما کنت لأفشي سر رسول اللّٰہ ﷺ ، فقلت : ما رأیت کا لیوم فرحا أقرب من حزن ، فقلت لھا حین بکت : أخصک رسول اللّٰہ ﷺ بحدیث دوننا ثم تبکین ؟ وسألتھا عما قال ،قالت : ما کنت لأفشي سر رسول اللّٰہ ﷺ ، حتی اذا قبض سألتھا عما قال ، فقالت : انہ کان یحدثني أن جبرائیل کان یعارضہ بالقرآن في کل عام مرۃ ، وأنہ عارضہ بہ العام مرتین ، ولا أراني الا قد حضر أجلي ،وأنک أول أھلي لحوقا بي ، ونعم السلف أنا لک فبکیت ، ثم انہ سارني فقال : ألا ترضین أن تکوني سیدۃ نساء المأمنین ، أو نساء ھذہ الأمۃ ؟ فضحکت لذلک ۔
(أخرجہ مسلم في الصحیح ،کتاب الفضائل ص ۱۱۲۹(۶۲۶۴) ، وابن ماجہ ،کتاب الجنائز ،۲۳۹(۱۶۲۱) لفظ لہ ، والنسائي في السنن الکبری ۵/۹۶،وأحمد في فضائل الصحابۃ ۱/۵۶، والدینوري في المجالسۃ و جواھر العلم ۴/۲۰۷،وغیرہم ۔کلھم من طریق : فراس عن عامر عن مسروق عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا ۔)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی عورتیں سب اکٹھی ہوئیں ، کوئی ان میں سے باقی نہیں رہی (یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس حجرے میں مرض الموت میں ) اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں ، ان کی چال بعینہ آنحضرت ﷺ کی چال تھی ، آپ ؐ نے فرمایا ، مرحبا میری بیٹی ، پھر ان کو بٹھایا اپنی بائیں طرف بعد اس کے چپکے سے ایک بات ان سے فرمائی ، تو وہ رونے لگی ، پھر چپکے سے ایک بات ان سے فرمائی ، تو وہ ہنسنے لگیں ، میں نے ان سے کہا ، تم کیوں روئیں ، انہوں نے کہا میں آنحضرت ﷺ کا بھید کھولنے والی نہیں ۔ میں نے کہا آج کا سا دن میں نے نہیں دیکھا جس میں خوشی ہے لیکن رنج سے ملی ہوئی ( خوشی تو یہ کہ آنحضرت ﷺ نے کوئی بشارت حضرت فاطمہ کو دی جب تو وہ ہنسیں اور رنج یہ کہ آپ کی بیماری کا صدمہ دوسرے یہ راز معلوم نہ ہوا ) میں نے حضرت فاطمہ سے کہا جب وہ روئیں ، آنحضرت ﷺ نے کوئی خاص بات تم سے فرمائی جو اپنی بی بیوں سے نہیں کہی پھر بھی تم روتی ہو، اور میں نے پوچھا آخر آپؐ نے کیا فرمایا ، انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں آنحضرت ﷺ کا بھید فاش کرنے والی نہیں ، خیر جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہو گئی تو میں نے حضرت فاطمہ سے پوچھا کہ آپ نے اس روز کیا فرمایا تھا (دوسری روایت میں ہے کہ میں نے ان کو اپنے حق کی قسم دی ) انہوں نے کہا پہلے آپ ؐ نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت جبریل علیہ السلام ہر سال ایک بار مجھ سے قرآن شریف کا ورد کرتے تھے اب کے سال دو بار دور کیا ، تو میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت آگیا ہے اور تم سب میرے عزیزوں سے مجھ کو پہلے ملو گی ، اور میں بہت عمدہ پیش خیمہ ہوں تمہارے لئے یہ سن کر میں روئی پھر آپؐ نے آہستہ سے مجھ کو فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوییں کہ مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں [کی] تم سردار ہو گی یہ سن کر میں ہنسی ۔
(حاشیہ : دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب آپؐ نے فرمایا میری وفات ہونے والی ہے تو میں روئی ۔ پھر یہ فرمایا کہ تم سب سے پہلے مجھے ملو گی ، تو میں ہنسی ) (ترجمہ وحاشیہ : وحید الزمان غیر مقلد)
اس بارے میں کئی اور روایات موجود ہیں جن کو مکمل نقل کرنا طوالت کا باعث بنے گا، لہٰذا ان میںسے اپنے مؤید الفاظ بمع طریق ذکر کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر 2 : ومن طریق :عن أبي سلمۃ عن عائشۃ عن فاطمۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہما أن النبي ﷺ قال لھا : أنت أول أھلي لحوقا بي فضحکت لذلک ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف ۱۴/۱۲۷، و۱۲۹)۔
حدیث نمبر 3 : ومن طریق عائشۃ بنت طلحہ عن عائشۃ أم المؤمنین رضی اللّٰہ تعالی عنہا ۔۔۔انک لأول أھلي لحوقا بي ۔۔۔الخ ۔ (أخرجہ ابن راھویہ في مسندہ ۵/۸(۲۱۰۳،چشتی)۔
حدیث نمبر 4 : و من طریق :یحییٰ بن عباد بن عبد اللّٰہ بن الزبیر عن أبیہ عن عائشۃ ۔۔۔فقال انک أول أھلي لحوقا بي ،فضحکت ۔۔۔الخ ۔ (أخرجہ الطبراني في الکبیر ۹/۳۷۵(۱۸۴۶۹)۔
حدیث نمبر 5 : و من طریق عکرمۃ عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنہما ۔۔۔فقال لھا رسول اللّٰہ ﷺ : لا تبکي فانک أول أھلي لحوقا لا حقا بي ۔۔۔۔ الخ ۔ (أخرجہ الطبراني في الکبیر ۹/۳۷۱،۳۷۲(۱۸۴۶۰)، وأحمد في فضائل الصحابۃ ۲/۷۶۴،وأبو نعیم في الحلیۃ ۲/۴۰،وغیرہم ۔
حدیث نمبر 6 : و من طریق : محمد بن عبد اللّٰہ بن عمرو بن عثمان أن فاطمۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا قالت : قال لی رسول اللّٰہ ﷺ أنت أول أھلي لحوقا بي ۔۔۔الخ ۔ (أخرجہ ابن شاہین في جزء فضائل فاطمۃ ۲۱(۹) ۔
مذکورہ بالا احادیث ِمبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے اپنی علالت کی حالت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرمایا کہ میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے تمہاری ملاقات میرے ساتھ ہو گی۔ اگر کسی کی ملاقات محال تھی تو نبی اکرم ﷺ نے سیدہ کو کیوں ارشاد فرمایا کہ تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی ؟ ۔
پس معلوم ہوا کہ بعد از وصال اہل ِخانہ یا دوسرے لوگوں سے ملاقات قبل از قیامِ قیامت نا ممکن و محال نہیں بلکہ ہوتی ہیں، تبھی تو نبی اکرم ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ فرمایا اور انہوں نے بھی اظہار خوشی کر کے اس بات کو تسلیم کر لیا،جو ان کے اس نظریہ پر دلالت کرتا ہے کہ اس دنیا سے پردہ کر جانے والوں کی بھی ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہوتی ہیں ۔
حدیث نمبر 7 : عن عائشۃ أن بعض أزواج النبي ﷺ قلن للنبي ﷺ أینا أسرع بک لحوقا ؟ قال : أطولکن یدا ، فأخذوا قصبۃ یذرعونھا فکانت سودۃ أطولھن یدا ، فعلمنا بعد أنما کانت طول یدھا الصدقۃ ، وکانت أسرعنا لحوقا بہ وکانت تحب الصدقۃ ۔
( صحیح بخاری ،کتاب الزکاۃ ،جزئ۲ص۱۱۰(۱۴۲۰) ، والتاریخ الأوسط ۲۷، ومسانید فراس المکتب ۸۱، وأحمد في مسندہ ۶/۱۲۱، وابن حبان في الصحیح ۸/۱۰۸،۱۰۹(۳۳۱۵)،والنسائي في السنن، کتاب الزکاۃ ،۳۷۴(۲۵۴۳)، وفي السنن الکبری۱/۳۷۹ (۲۳۳۳)، والبیہقي في دلائل النبوۃ ۶/۳۷۱ ،والخطیب في تاریخہ۴/۱۸۹ ، وابن سعد في طبقاتہ ۸/۲۶۹، وابن عساکر في الأربعین في مناقب أمھات المؤمنین ۹۶۔
کلھم من طریق : فراس عن الشعبي عن مسروق عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ بعض بیویوں نے حضرت ﷺ سے کہا کہ ہم میں سے آپ کے ساتھ جلد تر ملنے والی بیوی کون ہے ؟ حضرت ﷺ نے فرمایا جس کا ہاتھ زیادہ تر لمبا ہے سو آپ کی بیویوں نے کانے کا ایک ٹکڑا لیا اس حال میں کہ اپنے ہاتھ ناپتی تھیں سو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ٹھہرا جب حضرت ﷺ کے انتقال کے بعد زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو ہم نے معلوم کیا کہ لمبے ہاتھ سے سخاوت مراد ہے اور ہم میں سے حضرت ﷺ کے ساتھ جلد تر ملنے والی زینب رضی اللہ عنہا تھی کہ وہ خیرات کرنے کو بہت دوست رکھتی تھی ۔ (ترجمہ :ابو الحسن سیالکوٹی)
حدیث نمبر 8 : ومن طریق : اسماعیل عن الشعبي عن مسروق عن عائشۃ ۔۔۔الخ، نحوہ ۔
(أخرجہ ابي نعیم في تاریخ اصبھان ۲/۱۵۰،وابی الشیخ في طبقات المحدثین باصبھان (۳۲۸) ،وغیرہما ۔
حدیث نمبر 9 : ومن طریق مجالد عن الشعبي عن مسروق عن عائشۃ قالت : ۔۔۔۔الخ، نحوہ ۔(أخرجہ الطبراني في الأوسط ۷/۱۵۰،۱۵۱(۶۲۷۲،چشتی)۔
حدیث نمبر 10 : وعن الشعبي مرسلا ،نحوہ ، (رواہ البیہقي في الدلائل ۳۷۴۶۔)
نوٹ : قطع نظر اس کے کہ سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ازواجِ مطہرات میں سے حضرت سودہ ؓیا حضرت زینب ؓمیں سے کون ملیں،اس تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیںمذکورہ بالا اور مندرجہ ذیل روایات و فتح الباری ، عمدۃ القاری وغیرہما شروحاتِ صحیح بخاری ۔
اس بارے میں بھی کئی روایات موجود ہیں جن کو مکمل نقل کرنا طوالت کا باعث بنے گا ، لہٰذا ان میںسے اپنے مؤید الفاظ بمع طریق ذکر کرتے ہیں ،ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر 11 من طریق : طلحۃ بن یحیٰی بن طلحۃ عن عائشۃ بنت طلحۃ عن عائشۃ : ۔۔۔أسرعکن لحاقا بي ۔۔۔الخ ۔ (أخرجہ مسلم في الصحیح ، کتاب فضائل الصحابۃ ،۱۱۳۰(۶۲۶۶)، وابن حبان في الصحیح ۸/۱۰۸(۳۳۱۴)،و۱۵/۵۰،والبیہقي في الدلائل ۶/۳۷۴،وابن عبد البر في الاستیعاب ۴/۱۸۴۹،۱۸۵۰، وعبد الحق في الأحکام الشریعۃ الکبری ۴/۴۰۹، وغیرہم ۔
حدیث نمبر 12 : من طریق یحیٰی بن سعید عن عمرۃ عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا قالت : قال رسول اللّٰہ ﷺ لأزواجہ أسرعکن لحوقا بي أطولکن یدا ۔۔۔۔۔الخ ۔
أخرجہ الحاکم في المستدرک ۴/۲۵،وقال : ھذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ ۔ووافقہ الذھبي في التلخیص ۔ والبزار في مسندہ ۱۸/۲۴۵،و۲۶۲، والشیباني في الاحاد والمثاني ۵/۲۵۳، والطبراني في الکبیر ۱۰/۱۷۲ (۱۹۶۲۷) ، وأبو نعیم في الحلیۃ ۲/۵۴،وغیرہم ۔
حدیث نمبر 13 : وفي الباب عن عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ ،رواہ البزار في مسندہ ۱/۳۶۰(۲۴۱)، والطحاوي في شرح مشکل الآثار ۱/۲۰۱۔
حدیث نمبر 14 : وعن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ، رواہ ابن سعد في طبقاتہ ۸/۱۰۸۔
مذکورہ بالا تمام روایات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اس دنیاکی ظاہری حیات کے بعد اور روزِ قیامت سے پہلے اس دنیا سے پردہ کرنے والوں کے درمیان ملاقات ہونا ثابت ہے جس پر تعلیمات ِاسلامیہ میں نصوص موجود ہیں، اگر ظاہری حیات کے بعد قیامِ قیامت سے پہلے کسی کی کسی کے ساتھ ملاقات محال تھی تو نبی اکرم ﷺ کبھی بھی اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور اپنی ازواج مطہرات کو اس بات کا نہ فرماتے کہ تم میں سے فلاں سب سے پہلے مجھ سے ملے گی، آپ ﷺ کا فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات آپ ﷺ کے ظاہری دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی آپ ﷺ سے واصل و لاحق ہوسکتی ہیں ۔
دوسری کئی روایات جن میں دوسرے لوگوں کی بھی اس ظاہری دنیا سے پردہ کرنے کے بعد ملاقات کا ثبوت ہے، کتب احادیث و سیر میں مثالیں موجود ہیں جن میں ایک سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ملاقات ہونے کے حوالے سے گزر چکی،پس ہم طوالت کے پیش ِنظر انہی پر اکتفا کرتے ہیں ،یہی وہ بات ہے جس کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لفظوں میں امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے یوں بیان کیا کہ : کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج ِمطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں ۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ عبارت میں اگلہ جملہ جس کو انتہائی غلط انداز میں بیان کر کے مفہوم غلط مراد لے کر لوگوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ اور ازواج ِمطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کی گستاخی ہے اور اس جملہ میں سے لفظ ’’شب باشی ‘‘ پر بڑا زور دیا جاتا ہے اور بڑی ٹون کے ساتھ اس پر غلط انداز میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ کس زبان کے ہیں اور اہل زبان اس کے کیا معنی مراد لیتے ہیں ۔

شب باشی کے لغوی معنی

شب باشی کامعنی رات گزارنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
شب باشی : رات کا قیام ، رات رہنا۔ (فیروزاللغات صفحہ نمبر۷۶۰)
شب باشی : (مؤنث) رات گزارنا۔ ( اردو لغت ،صفحہ نمبر۲۴۲ مطبوعہ مرکزی اردو بورڈ لاہور،از مرزا مقبول احمد بدخشانی )
شب باش : رات گزارنے والا۔ (رائل اردو ڈکشنری صفحہ نمبر۳۳۲،چشتی)
اردو لغت کی مشہور معروف کتاب ’’ فیروز اللغات ،ص۷۳۶،مطبوع فیروز سنز لمیٹڈ لاہور ‘‘ میں ہے کہ : ’’ شب باشی (ف۔ا۔مث) رات کا قیام ۔رات رہنا ۔
یعنی یہ فارسی ہے ،اسم ، مونث ہے جس کا معنی رات بسر کرنا ،رات رہنا ،رات گزارنا ہیں ۔
اب اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ عبارت کو دیکھیں ، جس کا معنی یہ بنتا ہے کہ ازواجِ مطہرات آپ ﷺ پر پیش کی جاتی ہیں ،یعنی ملاقات ہوتی ہے اور آپ ﷺ ان کے ساتھ رات بسر کرتے ہیں ۔
اب اس میں باعث ِاعتراض بات کون سی ہے ، جب احادیث ِمبارکہ میں ملاقات ہونے پر دلیل موجود ہے تو پھر اس پر اعتراض یا تو کم علمی ہے یا صرف حسد ، بغض اور عناد ہے۔اب اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے ازواجِ مطہرات کے ساتھ ملاقات کو تو ہم تسلیم کرتے ہیں مگر رات بسر کرنا اس پر کون سے دلیل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ملاقات کا ثبوت موجود ہے اور اس میں کسی وقت کی قید اور تخصیص بھی موجود نہیں تو رات بسر کرنے پر بھی اعتراض درست نہیں، یہ اعتراض تب پیدا کیا جا سکتا ہے جب مطلق کو مقید کرنے یا عموم میں تخصیص پیدا کرنے پر کوئی دلیل موجود ہو، جب اس بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں تو یہ اعتراض کرنا خود اپنی جہالت کو ثابت کرنا ہے ۔
وہ لوگ جو اس شب باشی کو غلط رنگ دے کر لوگوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی مذموم سعی میں لگے رہتے ہیں ان کو پہلے اپنے گھروں کی خبر لینی چاہئے کہ ان کے اپنے علماء نے یہی لفظ کہاں کہاں استعمال کئے ہیں ۔ سب سے پہلے غیر مقلد قاضی اسلم سیف فیروز پوری کی ایک تحریر جس میں اس نے ’’پاکستان میں عرب شیوخ کی تشریف آوری ‘‘ کو اپنا موضوع سخن بناتے ہوئے ان کی مختلف مقامات پر مختلف غیر مقلدین سے ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے ،اس میں وہ لکھتا ہے کہ : ’’نماز عشاء کے بعد عرب شیوخ کا یہ وفد مولانا ثناء اللہ اور مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کی قیادت میں منصورہ میں میاں طفیل محمد ،امیر جماعت اسلامی پاکستان کے پاس پہنچا اور میاں صاحب سے ان کے دفتر میں ایک لمبی نشت میں خوب تبادلۂ خیالات ہوا ،مختلف مسائل پر شرح و بسط سے میاں صاحب سے گفتگو ہوئی ترجمانی کے فرائض جناب فیض الرحمن صاحب سر انجام دے رہے تھے تقریبا ساڑھے گیارہ بجے وہاں سے فارغ ہو کر وفد ماڈل ٹاؤن پہنچا ۔ عرب شیوخ کی شب باشی کا انتظام ۔۱۱۱۔ ملتان روڈ پر کیا گیا تھا ۔ ( ہفت روزہ الاسلام لاہور ،۲۳ربیع الاول ۱۴۰۴ھ )(اسکن دیا جارہا ہے)
اگر شب باشی کا ایک ہی معنی ہے جو وہ مصنفین و واعظین مراد لے کر واویلا کرتے ہیں تو انہیں پہلے اپنے بزرگوں سے سوال کرنا چاہئے تھا کہ ہم تو اعلیٰ حضرت پر اس کی وجہ سے اعتراض کر رہے ہیں ،آپ بتائیں کہ آپ نے ان نجدی عرب شیوخ کی شب باشی کے لئے کیا کچھ انتظام کیا تھا ؟۔
اوریہ بھی سوال کریں کہ ان کے نظریہ کے مطابق جو شب باشی کا معنی وہ مراد لے رہے ہیں اس کا انتظام کرنے والے ہمارے علاقائی پیشہ کے مطابق کیا بنتے ہیں ؟
اسی طرح غیر مقلد فیض عالم صدیقی نے اپنی کتاب ’’صدیقۂ کائنات ‘‘ میں دو مقامات پر یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے لکھاہے کہ : آپ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا ) اس خیال سے قافلہ کی شب باشی کے مقام پر بیٹھ جاتی ہیں کہ مجھے کوئی تلاش کرنے کیلئے ضرور آئے گا ۔ (صدیقہ کائنات ،ص۱۱۷)
دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ : سب سے پہلے قابل ِتوجہ بات یہ ہے کہ ازواجِ مطہرات کے حجرات ساتھ ساتھ تھے اور پھر مسجد نبوی سے فارغ ہو کر نبی علیہ السلام کا اکثر یہ معمول تھا کہ چند لمحات کیلئے ہر زوجہ مطہرہ کے ہاں تشریف لے جاتے ۔اور جہاں آپ ﷺ کی شب باشی کی باری ہوتی وہاں کچھ وقت کیلئے سب جمع ہو جاتیں ۔ ( صدیقہ کائنات ،ص ۱۵۰)
اسماعیل سلفی غیر مقلد نے اپنے ’’فتاوی ‘‘میں یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : چنانچہ رات کے دھندلکے میں اسد بن زرارہ تشریف لائے انہوں نے اپنا منہ لپیٹا ہوا تھا حضرت ﷺ نے فرمایا تم رات کو آئے ہو حالانکہ اپنے ہمسایہ قبیلہ کیساتھ تمہارے تعلقات کافی ناخوشگوار ہیں ۔ اسعد نے فرمایا حضرت ! جناب کی آمد کی خبر پا کر صورت حال کچھ بھی ہو مجھے خدمت گرامی میں پہنچنا تھا ۔چنانچہ حضرت اسعد بن زرارہ وہیں شب باش ہوئے اور صبح واپس چلے گئے ۔ ( فتاوی سلفیہ ص۹۴ )
اب اگر کوئی ان سے سوال کرے کہ اگر شب باشی کا مقصد صرف وہی ہے جو یہ مصنفین وواعظین لیتے ہیں تو کیا مجاہدین اسلام کا پورا لشکر جنگ سے واپسی پر جنگلوں میں یہی کام کرتا رہا ؟ ۔
کیا رسول اللہ ﷺ ہر رات اسی حالت میں بسر فرماتے تھے ؟
کیا حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں جس رات حاضر ہوئے انہوں نے یہ رات اسی حالت میں بسر کی جب کہ نہ وہ ان کا اپنا علاقہ تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اہل خانہ میں سے موجود تھا ؟ ۔
علماء دیوبند اور غیر مقلدین کی عبارات و تحریرات سے ایسی کئی عبارات و تحریرات پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ہم اختصار کے پیش ِنظر انہی پر اکتفا کرتے ہیں ۔
اگر کوئی علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے اسی بات کو ثابت کرنے پر بضد ہو تو بھی اس میں کسی قسم کی گستاخی یا اعتراض پیدا نہیں ہوتا ، غیر مقلدین کے نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ اُخروی کے بارے میں آپ نے پیچھے ان کے نظریات پڑھے جن میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ اس وقت جنت میں زندہ ہیں، جیسا کہ غیر مقلدین کے عصر حاضر کے غیر مقلدین کے محقق و محدث حافظ زبیر علیزئی نے لکھا ہے کہ : خلاصۃ التحقیق : اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں ، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں آپ کی یہ زندگی اُخروی ہے ، جسے برزخی زندگی بھی کہا جاتا ہے ، یہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے‘‘ ۔ (تحقیقی ،اصلاحی اور علمی مقالات جلد۱صفحہ ۲۶)
غیر مقلدین کے اس محقق و محدث کے نزدیک آپ ﷺ جنت میں زندہ ہیں ، پس جب جنت میں زندگی آپ ﷺ کو حاصل ہے تو جنت کی نعمتوں سے مستفیض ہونا قبل از قیامِ قیامت بھی ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کی کئی احادیث ِمبارکہ اس پر دلیل ہیں ، ہم صرف یہاں پر ایک کو نقل کرتے ہیں اور چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ جنت کی نعمتیں قیامت کے بعد دخول ِجنت سے پہلے بھی حاصل ہوتی ہیں اور ہو سکتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
(1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں اپنی سند کے ساتھ عدی بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’أنہ سمع البراء رضی اللّٰہ عنہ قال : لما توفي ابراھیم علیہ السلام قال رسول اللّٰہ ﷺ : ان لہ مرضعا في الجنۃ ‘‘ ۔
انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب ابراہیم علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے مر گئے تو آپ ؐ نے فرمایا : بہشت میں ان کے لئے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔ (صحیح بخاری شریف مترجم جلد ۱ صفحہ ۶۱۴ ،حدیث ۱۲۹۹ ،ترجمہ : وحید الزمان غیر مقلد )
’’ان لہ مرضعا في الجنۃ ‘‘ یہی وحید الزمان صاحب ابن ماجہ کی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیان کردہ روایت کا یوں ترجمہ کرتے ہیں کہ :
’’ جنت میں ان کو دودھ پلایا جاتا ہے کیونکہ ایام ِرضاعت پورے نہیں ہوئے تھے کہ ان کی وفات ہوئی ‘‘ ۔
عدی بن ثابت کے طریق سے اس روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مندرجہ ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے : (أخرجہ البخاري في الصحیح جزء ۲ ص ۱۰۰(۱۳۸۲) ، وجزء ۴ ص ۱۱۹(۳۲۵۵) ، وجزء ۸ ص ۴۴(۶۱۹۵) ، و الطیالسی في مسندہ (۷۶۰) ، وأحمد في مسندہ ۴/۳۰۰،و۳۰۲، و ابنہ في فضائل الصحابۃ (۱۲۴۴) ،وابن حبان في الصحیح ۱۵/۴۰۰(۶۹۴۹)، وأبو بکر القطبعی في جزء الالف دینار (۲۴۳) ،والحاکم في المستدرک۴/۴۱ ، وأبو نعیم في معرفۃ الصحابۃ ۱/۲۰۶،والبیہقي في البعث والنشور (۱۹۹) واثبات عذاب القبر (۶۱) ،وابن عبد البر في الاستیعاب۱/۵۸ ،و في التمہید ۱۸/۱۱۴، والبغوی في شرح السنۃ ۱۴/۱۱۵،وتھذیب الکمال ۱۱/۳۹۲،وابن تیمیۃ في الأربعون التیمیۃ ۱۱۶(۴۱) وغیرہم ۔
ومن طریق :عامر الشعبي عن البراء رضی اللّٰہ عنہ ،رواہ ابن سعد في الطبقات۱/۱۴۰، وابن ابی عاصم في الاحاد والمثاني ۵/۲۹۹(۳۱۳۵) ، وغیرہما ۔
ومن طریق : مسلم بن صبیح عن البراء رضی اللّٰہ عنہ، رواہ ابن شبہ في تاریخ المدینۃ۱/۹۷ ،والرویاني في مسندہ ۱/۴۸۲(۴۰۹)،وغیرہما۔
ومن طریق : مسلم بن عمران عن البراء رضی اللّٰہ تعالی عنہ ، رواہ ابن سعد في الطبقات۱/۱۴۱۔وغیرہ ۔
ومن طریق : یزید بن البراء عن أبیہ رضی اللّٰہ عنہ ، رواہ ابن أبي عاصم في الاحاد والمثاني ۵/۳۰۰(۳۱۳۶) ،وغیرہ ۔
یاد رہے کہ اس بارے میں حضرت انس بن مالک ،حضرت عبد اللہ بن عباس ،حضرت حسین بن علی وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی روایات مروی ہیں ۔
پس جب یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل ایمان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے بھی جنت کی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے توجنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اہل جنت کو ان کی جنتی بیویاں ملیں گی،جس پر قرآن مجید کی کئی آیات ِمبارکہ دلیل ہیں، جن میں سے چند ملاحظہ فرمائیں :
آیت نمبر 1 : {وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ أَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْریْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھٰرُکُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ أُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھَا وَلَھُمْ فِیْھَا أَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ }[البقراۃ :۲۵]
اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جب کبھی وہ پھلوں کا رزق دیئے جائیں گے اور ہم شکل لائے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔[ ترجمہ : محمد جونا گڑھی غیر مقلد ]
آیت نمبر 2 : {قُلْ أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَاد }[آل عمران :۱۵]
آپ کہہ دیجئے کیا میں تمہیں اس سے بہت ہی بہتر چیز بتاؤں ؟ تقوی والوں کے لئے ان کے رب تعالی کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے سب بندے اللہ تعالی ٰکی نگاہ میں ہیں ۔ [ ترجمہ : محمد جونا گڑھی غیر مقلد ]
آیت نمبر 3 : {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا أَبَدًا لَھُمْ فِیْھَا أزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا }[النساء :۵۷]
اور جو لوگ ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم گھنی چھاؤں اور پوری راحت میں لے جائیں گے ۔ [ ترجمہ : محمد جونا گڑھی غیر مقلد ]
پس معلوم ہوا کہ اہل ِجنت کو پاک و صاف عورتیں دی جائیں گی جو حوروں کی شکل اور اس دنیا میں جو موجود تھیں ان میں سے نیک جنتی بیویاں اپنے نیک و جنتی شوہروں کے ساتھ ہوں گی اور وہ ان کے ساتھ اپنی خواہش کے مطابق ازدواجی تعلق بھی قائم کریں گے جس کے لئے انہیں اس دنیا کی طاقت سے سو گناہ زیادہ طاقت عطا فرمائی جائے گی ۔جیسا کہ احادیث مبارکہ میں موجود ہے ، ملاحظہ ہو :
حدیث نمبر 1 : حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے کہ :
’’ یعطی المؤمن في الجنۃ قوۃ کذا وکذا من الجماع ، قیل : یا رسول اللّٰہ ﷺ أو یطیق ذلک ؟ قال : یعطی قوۃ مائۃ ‘‘۔ ( ترمذی ،ابواب صفۃ الجنۃ (۲۵۴۱)،وابن حبان في الصحیح ۱۶/۴۱۳(۷۴۰۰) ، والطیالسي في مسندہ (۲۰۱۲)،والمقدسي في المختارۃ ۳/۸۸ ، والطبرانی في الأوسط ۳/۲۵۱(۲۵۳۸) ،وابن أبي الدنیا في صفۃ الجنۃ ۱۹۳(۲۷۲) ،چشتی) ، وغیرہم ۔ کلھم من طریق : عمران القطان عن قتادۃ عن أنس رضی اللّٰہ تعالی عنہ ۔
یعنی مومن کو جنت میں جماع کے لئے اتنی اتنی طاقت عطا کی جائے گی، عرض کیا گیا ،کیا اس کی بھی طاقت دی جائے گی؟ فرمایا: اس لئے سو آدمیوں کی طاقت عطا فرمائی جائے گی ۔ اور سعید بن ابی عروبہ عن قتادہ عن انس رضی اللہ تعالی عنہ کے طریق میں تعدد ازواج کا بھی ذکر کیا گیا ہے بعض میں تیس اور بعض میں ستر بیویاں ذکر کی گئی ہیں ، ملاحظہ فرمائیں : تفسیر یحییٰ بن سلام۲/۸۴۹ ، مسند البزار(۲۶۰۸) ، ضعفاء العقیلی۳/۱۶۶، وغیرہم ، لیکن ان میں کلام ہے۔
حدیث نمبر 2 : عن زید بن أرقم قال أتی النبي ﷺ رجل من الیھود ، فقال : یا أبا القاسم ألست تزعم ان أھل الجنۃ یأکلون و یشربون فیھا ؟ فقال رسول اللّٰہ ﷺ والذی نفسی بیدہ ان احدھم لیعطی قوۃ مئۃ رجل في المطعم والمشرب والشھوۃ والجماع ۔۔۔
(أخرنہ ابن حبان في الصحیح ۱۶/۴۴۳،۴۴۴،و أحمد في مسندہ ۴/۳۶۷۔۳۷۱، والدارمي في السنن ۲/۴۳۱، والنسائي في السنن الکبری ۶/۴۵۴، والطبراني في الأوسط ۲/۴۳۱(۱۷۴۳)،و في الکبیر ۳/۲۹۵۔۲۹۶(۴۸۶۸،و۴۸۶۹،و۴۸۷۰ ،و۴۸۷۱)، والبیہقی في البعث والنشور ۱۸۸(۳۰۶)، وابن أبي الدنیا ۱۱۵(۱۱۲)، وأبو نعیم في الحلیۃ ۷/۳۶۶،و في صفۃ الجنۃ (۳۵۰) ،ابن المقری في المعجم ۱۶۷۔۱۶۸(۵۱۴) ،وابن المبارک في الزھد ۵۱۲، وابن السري في الزھد ۱/۷۳، و۸۸ ) ۔ کلھم من طریق : ثمامۃ بن عقبۃ عن زید بن ارقم رضی اللّٰہ عنہ ۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اہل یہود سے ایک آدمی آیا ،پس اس نے کہا : اے ابو القاسم ﷺ کیا آپ کا یہ گمان نہیں کہ جتنی جنت میں کھائیں پئیں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ،بے شک ان میں سے ہر ایک کو کھانے ،پینے ،خواہشات اور مباشرت کے لئے سو آدمیوں کی قوت عطا کی جائے گی ۔۔۔الخ ۔
اس باب میں اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی روایات مروی ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں، اب ملاحظہ فرمائیں کہ جنت میں اہل ِجنت روازانہ سو کنواری عورتوں سے حقوق زوجیت ادا کریں گے ، امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی معجم صغیر ،اوسط اور کبیر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ : ’’ قال :قلنا :یا رسول اللّٰہ ﷺ نفضي الی نسائنا في الجنۃ ؟ فقال : اي ، والذي نفسي بیدہ ، ان الرجل لیفضي في الغداۃ الواحدۃ الی مائۃ عذراء ‘‘۔
(أخرجہ الطبراني في الصغیر ۲/۶۸ (۷۹۵)، وفي الأوسط ۱/۴۰۶۔۴۰۷(۷۲۲)، و۶/۱۲۸(۵۲۶۳) ، وفي الکبیر ۱۱/۱۰۵(۱۷۵)، و۱۳۲(۳۱۳)، و۳۲۰ (۱۳۰۵) وأبو نعیم في صفۃ الجنۃ (۳۹۷)، والدارقطني في العلل ۱۰/۳۰ ، والدیلمي في الفردوس ۴/۳۷۴(۷۰۸۵)، والبزار في مسندہ ،کما في کشف الاستار ۴/۱۹۸ (۳۵۲۵) ، والخطیب في تاریخہ ۱/۳۷۱،چشتی) ۔وقال الأباني في السلسلۃ الصحیحۃ ۱/۶۴۱: قال المقدسي : قلت :ورجالہ عندی علی شرط الصحیح۔ قلت : وھو کما قال فالسند صحیح ولا نعلم لہ علۃ ۔
فرمایا : ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اپنی عورتوں سے جنت میں حقوق زوجیت پورے کریں گے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک شخص ایک دن میں سو کنواری عورتوں سے حقوق زوجیت ادا کرے گا ۔
اس باب میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت مروی ہے ، ملاحظہ فرمائیں : ’’ البعث والنشور، للبیہقي ۲۰۴۔۲۰۵(۳۵۵) ،وصفۃ الجنۃ لابن أبي الدنیا ۱۹۲(۲۶۹)، وصفۃ الجنۃ لأبي نعیم (۳۹۸)، والزھد لھناد بن السری ۱/۸۷ (۸۸)، وغیرہم ۔ مذکورہ بالا روایات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اہل جنت کو جماع کی قوت و طاقت سو آدمی کے برابر عطا کی جائے گی اور اہل جنت اپنی بیویوں سے جماع بھی کریں گے ، مذکورہ بالا گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ اہل جنت قبل از قیام قیامت اپنی قبور میں بھی جنت کی نعمتوں سے سرفراز کیے جاتے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی ازواج کے ساتھ ملاقات ہونا بھی ثابت ہے اور آپ ﷺ کی قبر انور جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، جب یہ باتیں ثابت ہیں اور بقول علیزئی رسول اللہ ﷺ جنت میں زندہ ہیں تو جنت کی نعمتوں سے بھی مستفیض ہو رہے ہیں ، پس اس پر اعتراض کرکے نازیبا قسم کے الفاظ استعمال کرنا نہ صرف تعلیماتِ اسلامیہ سے بے خبری ہے بلکہ جہالت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے ۔ پس ان لوگوں اپنی کم علمی کا ماتم کرنا چاہئے تھا ، مگر انہوں نے عدل وانصاف کا خون کرتے ہوئے موردِ الزام اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو ٹھہرا دیا ، (اِعْدِلُوْا ھُوْ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...