Saturday 28 April 2018

خطاء اجتہادی شان صحابہ و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہار شریعت حصۃ اوّل

0 comments
خطاء اجتہادی شان صحابہ و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہار شریعت حصۃ اوّل

محترم قارئین سنیوں کے لبادے میں چھپے بعض رافضی حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی رحمۃ اللہ خلیفہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بہار شریعت کا آدھا حوالہ دے کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں فقیر بہار شریعت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کا پورا باب پیش کر رہا ہے تاکہ آپ ان چھپے ہوئے رافضیوں کو پہچان سکیں اور انہیں منہ توڑ جواب دے سکیں ۔ دعاؤں کا طالب ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امامت کا بیان ۔ امامت دو ۲ قسم ہے : (۱) صغریٰ۔ (۲) کبریٰ۔ ( (ھي صغری وکبری). ''الدر المختار''، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ ، ج۲، ص۳۳۱. )

امامتِ صغریٰ، امامتِ نماز ہے (ھي صغری وکبری). ''الدر المختار''، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ ، ج۲، ص۳۳۱.، اِس کا بیا ن اِن شاء اﷲ تعالیٰ کتابُ الصلاۃ میں آئے گا۔
امامتِ کبریٰ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نیابتِ مطلقہ، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام اُمورِ دینی ودنیوی میں حسبِ شرع تصرّفِ عام کا اختیار رکھے اور غیرِ معصیت میں اُس کی اطاعت، تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو۔(في ''المقاصد''، الفصل الرابع في الإمامۃ، ج۳، ص۴۹۶: (الإمامۃ: وھي ریاسۃ عامۃ في أمر الدین والدنیا خلافۃ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم).وفي ''المسامرۃ''، الأصل السابع في الإمامۃ، ص۲۹۵: (الإمامۃ بأنّہا خلافۃ الرسول في إ قامۃ الدین وحفظ حوزۃ الملۃ بحیث یجب اتباعہ علی کافۃ الأمۃ). و''رد المحتار''، باب الإمامۃ، ج۲، ص۳۳۲. وفي ''شرح المقاصد''، الفصل الرابع في الإمامۃ، ج۳، ص۴۷۰: (یجب طاعۃ الإمام ما لم یخالف حکم الشرع). اِس امام کے لیے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، قادر، قرشی ہونا شرط ہے۔ ہاشمی، علوی، معصوم ہونا اس کی شرط نہیں۔ (في ''الدر المختار''، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج۲، ص۳۳۳: (ویشترط کونہ مسلماً حراً ذکراً عاقلاً بالغاً قادراً قرشیاً، لا ہاشمیاً علویاً معصوماً).وفي ''شرح العقائد النسفیۃ''، مبحث الإمامۃ، ص۱۵۶: (ولا یشترط أن یکون ہاشمیاً أو علویاً، ولا یشترط في الإمام أن یکون معصوماً). ملتقطاً. وفي ''المعتقد المنتقد''، الباب الرابع في الإمامۃ، ص۱۹۰۔۱۹۱: (ولا یشترط کونہ ھاشمیاً، ولا معصوماً؛ لأنّ العصمۃ من خصائص الأنبیاء). ملتقطاً.) اِن کا شرط کرنا روافض کا مذہب ہے، جس سے اُن کا یہ مقصد ہے کہ برحق اُمرائے مؤمنین خلفائے ثلٰثہ ابو بکر صدیق و عمرِ فاروق وعثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کو خلافت سے جدا کریں(في ''رد المحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب: شروط الإمامۃ الکبری ،ج۲، ص۳۳۳ ۔ ۳۳۴: (قولہ: لا ھاشمیا...الخ) أي: لا یشترط کونہ ھاشمیاً: أي: من أولاد ھاشم بن عبد مناف کما قالت الشیعۃ نفیاً لإمامۃ أبي بکر وعمر وعثمان رضي اللہ تعالی عنھم، ولا علویاً: أي: من أولاد عليّ بن أبي طالب کما قال بہ بعض الشیعۃ نفیاً لخلافۃ بني العباس، ولا معصوماً کما قالت الإسماعیلیۃ والاثنا عشریۃ: أي: الإمامیۃ).)، حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کا اِجماع ہے۔(في ''شرح المقاصد''، المبحث الثاني، الشروط التي تجب في الإمام، ج۳، ص۴۸۲: (وکفی بإجماع المسلمین علی إمامۃ الأئمۃ الثلا ثۃ حجۃ علیہم).) مولیٰ علی کرّم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم و حضرا ت حسنَین رضی اﷲ تعالیٰ عنھما نے اُن کی خلافتیں تسلیم کیں( اعلی حضرت عظیم البرکت، عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن'' فتاوی رضویہ ''شریف میں فرماتے ہیں: امام اسحٰق بن راہو یہ ودارقطنی وابن عساکر وغیرہم بطرقِ عدیدہ واسانید کثیرہ راوی، دوشخصوں نے امیر المومنین مولی علی کرم ا للہ وجہہ الکریم سے ان کے زمانہ خلافت میں دربارہ خلافت استفسارکیا: اعھدعھدہ إلیک النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم أم رای رأیتہ.کیا یہ کوئی عہد وقرارداد حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف سے ہے یا آپ کی رائے ہے فرمایا: بل رائ رأیتہ بلکہ ھماری رائے ہے أما أن یکون عندي عھد من النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عھدہ إلیّ في ذلک فلا، واللہ لئن کنت أوّل من صدّق بہ فلا أکون أوّل من کذب علیہ.رہا یہ کہ اسباب میں میرے لئے حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کوئی عہدہ قرارداد فرمادیا ہو سو خدا کی قسم ایسا نہیں ،اگر سب سے پہلے میں نے حضور کی تصدیق کی تو میں سب سے پہلے حضور پر افتراء کرنے والا نہ ہوں گا، ولو کان عندي منہ عھد في ذلک ما ترکت أخا بني تیم بن مرۃ وعمر بن الخطاب یثوبان علی منبرہ ولقاتلتھما بیدي ولولم اجد إلاّ بردتي ھذہ. اوراگر اسباب میں حضور والا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف سے میرے پا س کوئی عہد ہوتا تو میں ابوبکر وعمر کو منبر اطہر حضوراقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر جست نہ کرنے دیتا اوربیشک اپنے ہاتھ سے اُن سے قتال کرتا اگرچہ اپنی اس چادر کے سواکوئی ساتھی نہ پاتا ولکن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یقتل قتلا ولم یمت فجأۃ مکث في مرضہ أیّاماً ولیا لي یأتیہ المؤذن فیؤذنہ بالصلاۃ فیأمر أبابکر فیصلي بالناس وھو یری مکاني ثم یأتیہ المؤذن فیؤذنہ بالصلاۃ فیأمر أبابکر فیصلي بالناس وھو یری مکاني بات یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم معاذاللہ کچھ قتل نہ ہوئے نہ یکایک انتقال فرمایا بلکہ کئی دن رات حضور کو مرض میں گزرے ، مؤذن آتا نماز کی اطلاع دیتا، حضور ابوبکر کو امامت کا حکم فرماتے حالانکہ میں حضور کے پیش نظر موجودتھا،پھر مؤذن آتا اطلاع دیتا حضور ابوبکر ہی کو امامت دیتے حالانکہ میں کہیں غائب نہ تھا، ولقد أرادت إمرأۃ من نسائہ أن تصرفہ عن أبي بکر فأبی وغضب وقال :أنتنّ صواحب یوسف مروا أبابکر فلیصل بالناس. اورخدا کی قسم ازواج مطہرات میں سے ایک بی بی نے اس معاملہ کو ابوبکر سے پھیرنا چاہاتھا، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نہ مانا اورغضب کیا اورفرمایا تم وہی یوسف (علیہ السلام)والیاں ہو، ابوبکر کو حکم دو کہ امامت کرے، فلمّا قبض رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نظرنا في أمورنا فاخترنا لدنیا نا من رضیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لدیننا فکا نت الصلوۃ عظیم الإسلام وقوام الدین، فبایعنا أبابکر رضي اللہ تعالی عنہ فکان لذلک أھلاً لم یختلف علیہ منا اثنان. پس جبکہ حضورپرنور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ہم نے اپنے کاموں میں نظر کی تو اپنی دنیایعنی خلافت کے لئے اسے پسندکرلیا جسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ھمارے دین یعنی نماز کے لئے پسند فرمایاتھاکہ نماز تو اسلام کی بزرگی اوردین کی درستی تھی لھذا ہم نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بیعت کی اوروہ اس کے لائق تھے ہم میں کسی نے اس بارہ میں خلاف نہ کیا۔ یہ سب کچھ ارشاد کر کے حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الاسنٰی نے فرمایا: فادّیت إلی أبي بکر حقہ وعرفت لہ طاعتہ وغزوت معہ في جنودہ وکنت اٰخذاً إذا أعطاني وأغزو إذا غزاني وأضرب بین یدیہ الحدود بسوطي. پس میں نے ابو بکر کو ان کا حق دیا اوران کی اطاعت لازم جانی اور ان کے ساتھ ہوکر ان کے لشکروں میں جہاد کیا جب وہ مجھے بیت المال سے کچھ دیتے میں لے لیتا اور جب مجھے لڑائی پر بھیجتے میں جاتا اورانکے سامنے اپنے تازیانہ سے حد لگاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بعینہٖ یہی مضمون امیرالمومنین فاروق اعظم وامیر المومنین عثمان غنی کی نسبت ارشاد فرمایا، رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین۔''الفتاوی الرضویۃ''، ج۲۸، ص۴۷۲۔۴۷۳.) اور عَلویت کی شرط نے تو مولیٰ علی کو بھی خلیفہ ہونے سے خارج کر دیا، مولیٰ علی، علوی کیسے ہو سکتے ہیں! رہی عصمت، یہ انبیا و ملائکہ کا خاصہ ہے، جس کو ہم پہلے بیان کر آئے(دیکھیں اسی کتاب کا صفحہ نمبر۳۸)، امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے۔ (في''شرح المقاصد''، المبحث الثاني، الشروط التي تجب في الإمام، ج۳، ص۴۸۴: (من معظم الخلافیات مع الشیعۃ اشتراطھم أن یکون الإمام معصوما).)
مسئلہ(۱): محض مستحقِ امامت ہونا امام ہونے کے لیے کافی نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ اھلِ حَلّ و عقد( دینی اور دنیاوی انتظامی معاملات کوجاننے والے۔) نے اُسے امام مقرر کیا ہو، یا امامِ سابق نے۔ (في ''الفقہ الأکبر''، نصب الإمام واجب، ص۱۴۶: (الإمامۃ تثبت عند أھل السنۃ والجماعۃ إمّا باختیار أھل الحل والعقد من العلماء وأصحاب العدل والرأي کما تثبت إمامۃ أبي بکر رضي اللہ عنہ، وإمّا بتنصیص الإمام وتعیینہ کما تثبت إمامۃ عمر رضي اللہ عنہ باستخلاف أبي بکر رضي اللہ عنہ إیاہ).وفي ''المسامرۃ''، ما یثبت عقد الإمامۃ، ص۳۲۶: (ویثبت عقد الإمامۃ) بأحد أمرین: (إمّا باستخلاف الخلیفۃ إیّاہ کما فعل أبو بکر الصدیق رضي اللہ عنہ) حیث استخلف عمر رضي اللہ عنہ، وإجماع الصحابۃ علی خلافتہ بذلک إجماع علی صحۃ الاستخلاف، (وإمّا بیعۃ) من تعتبر بیعۃ من أھل الحل والعقد، ولا یشترط بیعۃ جمیعہم، ولا عدد محدود، بل یکفي بیعۃ (جماعۃ من العلماء أو) جماعۃ (من أھل الرأي والتدبیر).
مسئلہ (۲) : امام کی اِطاعت مطلقاً ہر مسلمان پر فرض ہے، جبکہ اس کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، خلافِ شریعت میں کسی کی اطاعت نہیں۔ ((یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ) پ۵، النساء:۵۹.
في ''تفسیر المدارک''، ص۲۳۴، تحت الآیۃ: (دلت الآیۃ علی أنّ طاعۃ الأمراء واجبۃ إذا وافقوا الحق، فإذا خالفوہ فلا طاعۃ لہم لقولہ علیہ السلام: ((لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق))).
عن ابن عمر رضي اللہ عنھما عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((السمع والطاعۃ حق ما لم یؤمر بمعصیۃ، فإذا أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ)). ''صحیح البخاري''، کتاب الجہاد، باب السمع والطاعۃ للإمام، الحدیث: ۲۹۵۵، ج۲، ص۲۹۷.
عن عبد اللہ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما أحب وکرہ ما لم یؤمر بمعصیۃ، فإذا أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ)).
''صحیح البخاري''، کتاب الأحکام، باب السمع والطاعۃ للإمام مالم تکن معصیۃ، الحدیث: ۷۱۴۴، ج۴، ص۴۵۵.
''صحیح مسلم''، کتاب الإمارۃ، باب وجوب طاعۃ الأمرائ۔۔۔۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۱۸۳۹، ص۱۰۰۸.في ''الدر المختار'': (طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض)۔وفي ''ردّ المحتار'': (والأصل فیہ قولہ تعالی: (وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ) وقال صلی اللہ علیہ وسلم: ((اسمعوا وأطیعوا ولو أمّر علیکم عبد حبشي أجدع))، وروي: ((مجدع))۔ وعن ابن عمر أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قال: ((علیکم بالسمع والطاعۃ لکلّ من یؤمر علیکم ما لم یأمرکم بمنکر))، ففي المنکر لا سمع ولا طاعۃ)۔''الدر المختار'' مع ''رد المحتار''، کتاب الجہاد، باب البغاۃ، ج۶، ص۴۰۳۔۴۰۴۔)
مسئلہ (۳): امام ایسا شخص مقرر کیا جائے، جو شجاع اور عالم ہو، یا علماء کی مدد سے کام کرے۔
مسئلہ (۴): عورت اور نابالغ کی امامت جاءز نہیں(في ''المسامرۃ'' بشرح ''المسایرۃ''، الأصل التاسع: شروط الإمام، ص۳۱۸: (لا تصحّ إمامۃ الصبي والمعتوہ؛ لقصور کلّ منھما عن تدبیر نفسہ، فکیف تدبیر الأمور العامۃ؟۔۔۔۔۔۔ وأنّ إمامۃ المرأۃ لا تصحّ؛ إذ النساء ناقصات عقل ودین کما ثبت بہ الحد یث الصحیح)، ملتقطاً. )، اگر نابالغ کو امامِ سابق نے امام مقرر کر دیا ہو تو اس کے بلوغ تک کے لیے لوگ ایک والی مقرر کریں کہ وہ احکام جاری کرے اور یہ نابالغ صرف رسمی امام ہو گا اور حقیقۃً اُس وقت تک وہ والی اِمام ہے۔ ( في ''الدر المختار''، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج۲، ص۳۳۵۔۳۳۶: وتصح سلطنۃ متغلب للضرورۃ، وکذا صبي. وینبغي أن یفوّض أمور التقلید علی وال تابع لہ، والسلطان في الرسم ہو الولد، وفي الحقیقۃ ہو الوالي لعدم صحۃ إذنہ بقضاء وجمعۃ کما في ''الأشباہ'' عن ''البزازیۃ''، وفیہا: لو بلغ السلطان أو الوالي یحتاج إلی تقلید جدید).
وفي ''رد المختار''، تحت قولہ: ( وکذا صبي) أي: تصح سلطنتہ للضرورۃ، لکن في الظاہر لا حقیقۃ. قال في ''الأشباہ'': وتصح سلطنتہ ظاہراً، قال في ''البزازیۃ'': مات السلطان واتفقت الرعیۃ علی سلطنۃ ابن صغیر لہ ینبغي أن تفوّض أمور التقلید علی وال، ویعدّ ھذا الوالي نفسہ تبعاً لابن السلطان لشرفہ والسلطان في الرسم ہو الابن، وفي الحقیقۃ ہو الوالي لعدم صحۃ الإذن بالقضاء والجمعۃ ممن لا ولایۃ لہ ا ہـ. أي: لأن الوالي لو لم یکن ہو السلطان في الحقیقۃ لم یصح إذنہ بالقضاء والجمعۃ، لکن ینبغي أن یقال: إنّہ سلطان إلی غایۃ وہي بلوغ الابن، لئلا یحتاج إلی عزلہ عند تولیۃ ابن السلطان إذا بلغ. تأمل).
عقیدہ (۱): نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ برحق و امامِ مطلق حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق، پھر حضرت عمرِ فاروق، پھر حضرت عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم ہوئے( في''منح الروض الأزہر''، ص۶۸: (خلافۃ النبوۃ ثلاثون، منھا خلافۃ الصدیق رضي اللہ عنہ سنتان وثلاثۃ أشہر، وخلافۃ عمر رضي اللہ عنہ عشر سنین ونصف، وخلافۃ عثمان رضي اللہ عنہ اثنتا عشرۃ سنۃ، وخلافۃ عليّ رضي اللہ عنہ أربع سنین وتسعۃ أشہر، وخلافۃ الحسن ابنہ ستۃ أشہر).
في''شرح العقائد النسفیۃ''، مبحث أفضل البشر بعد نبینا أبو بکر ثم عمر ثم عثمان ثم علي۔۔۔۔۔۔ إلخ، ص۱۵۰: (وخلافتھم أي: نیابتھم عن الرسول في إقامۃ الدین بحیث یجب علی کافۃ الأمم الا تباع علی ھذا الترتیب أیضًا یعني: أنّ الخلا فۃ بعد رسول اللہ علیہ السلام لأبي بکر ثم لعمر ثم عثمان ثم لعلي رضي اللہ تعالی عنھم).
وفي'' النبراس''، وخلافۃ الخلفاء الراشدین، ص۳۰۸: (في روایۃ: الخلافۃ بعدي ثلاثون سنۃ ثم تکون ملکاً عضوضاً، وقد استشہد عليّ رضي اللہ عنہ علی رأس ثلثین سنۃ أي: نہایتہا من وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ھذا تقریب، والتحقیق أنّہ کان بعد عليّ نحوستۃ اشھر باقیۃ من ثلثین سنۃ وھي مدۃ خلا فۃ الحسن بن علي رضي اللہ عنھما). و''المسامرۃ''، ص۳۱۶)، اِن حضرات کو خلفائے راشدین اور اِن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں( في ''فیض القدیر''، ج۴، ص۶۶۴، تحت الحدیث: ۶۰۹۶: ((وسنۃ)) أي: طریقۃ ((الخلفاء الراشدین المہدیین)) والمراد بالخلفاء الأربعۃ والحسن رضی اللہ عنھم).
) ، کہ انھوں نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا۔
عقیدہ (۲): بعد انبیا و مرسلین، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں، پھر عمر فاروقِ اعظم، پھر عثمٰن غنی، پھر مولیٰ علی رضی اﷲ تعالیٰ عنھم ۔ (في''شرح العقائد النسفیۃ''، مبحث أفضل البشر بعد نبینا... إلخ، ص۱۴۹ ۔ ۱۵۰: (وأفضل البشر بعد نبینا (أي: بعد الأنبیاء) أبو بکر الصدیق، ثم الفاروق، ثم عثمان ذوالنورین، ثم علي المرتضی)، ملخصاً. وفي ''منح الروض الأزہر''، للقاریئ، باب أفضل الناس بعدہ علیہ الصلاۃ والسلام الخلفاء الأربعۃ علی۔۔۔۔۔۔ إلخ، ص۶۱ ۔۶۳: (وأفضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم: أبو بکر الصدیق رضي اللہ عنہ، ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علي بن أبي طالب رضوان اللہ تعالی علیہم أجمعین).
اعلی حضرت عظیم البرکت، عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن'' فتاوی رضویہ ''شریف میں فرماتے ہیں:''اھل سنت وجماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ ورسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق ِالہی سے افضل ہیں، تمام امم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت ووجاہت وقبول وکرامت وقرب وولایت کو نہیں پہنچتا۔
(وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ)فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے (ت)۔
پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدہم، ومولا ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم۔ اس مذہبِ مہذب پر آیاتِ قرآنِ عظیم واحادیث ِکثیرہ ئ حضورپرنور نبی کریم علیہ وعلی آلہ وصحبہ الصلوۃ والتسلیم وارشادات جلیلہ واضحہ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمئہ اھلبیت طہارت وار تضاواجماعِ صحابہ کرام وتابعین عظام وتصریحاتِ اولیائے امت وعلمائے امت رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین سے وہ دلائل باہر ہ وحجج قاہر ہ ہیں جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔'الفتاوی الرضویۃ''، ج۲۸، ص۴۷۸.
نوٹ : ''فتاوی رضویہ'' شریف کے مندرجہ ذیل کلام میں قوسین ( ) کی عبارت ، حضرت خلیل ملت علامہ مولانا خلیل خان قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی ہے ۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
اب ان سب میں افضل وا علیٰ و اکمل حضرات عشرہ مبشرہ ہیں وہ دس صحابی جن کے قطعی جنتی ہونے کی بشارت وخوشخبری رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں سنادی تھی وہ عشرہ مبشرہ کھلاتے ہیں۔ یعنی حضرات خلفائے اربعہ راشدین،حضرت طلحہ بن عبید اﷲ،حضرت زبیر بن العوام،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت سعید بن زید،حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ۔ ؎
دہ یار بہشتی اند قطعی بوبکر و عمر ' عثمان وعلی
سعد ست سعید وبوعبیدہ طلحہ ست وزبیر وعبدالرحمن
اور ان میں خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین اور ان چار ارکان قصر ملت (ملّت اسلامیہ کے عالی شان محل کے چار ستونوں) و چار انہار باغ شریعت (اور گلستان ِ شریعت کی ان چار نہروں) کے خصائص وفضائل ،کچھ ایسے رنگ پر واقع ہیں کہ ان میں سے جس کسی کی فضلیت پر تنہا نظر کیجئے یہی معلوم (و متبادرو مفہوم) ہوتا ہے کہ جو کچھ ہیں یہی ہیں ان سے بڑھ کر کون ہوگا ۔ )
بہر گلے کہ ازیں چار باغ می نگرم
بہار دامن دل می کشد کہ جا اینجاست
(ان چار باغوں میں سے جس پھول کو میں دیکھتا ہوں تو بہار میرے دل کے دامن کو کھینچتی ہے کہ اصل جگہ تو یہی ہے)۔
علی الخصوص شمع شبستان ولایت ، بہار چمنستانِ معرفت، امام الواصلین،سیّد العارفین، (واصلانِ حق کے امام اھل معرفت کے پیش رو) خاتمِ خلافت نبوت، فاتح سلاسل طریقت ، مولیٰ المسلمین ، امیر المومنین ابوالائمۃ الطاھرین (پاک طینت ،پاکیزہ خصلت، اماموں کے جدا مجد طاہر مطہر، قاسمِ کوثر، اسد اﷲالغالب،مظہر العجاءب والغرائب، مطلوب کل طالب،سیدنا و مولانا علی بن ابی طالب کرم اﷲتعالیٰ وجہہ الکریم وحشرنا في زمرتہ في یوم عقیم کہ اس جناب گردوں قباب (جن کے قبہ کی کلس آسمان برابر ہے ان ) کے مناقب جلیلہ (اوصافِ حمیدہ) ومحامد جمیلہ ( خصائل حسنہ) جس کثرت و شہرت کے ساتھ (کثیر و مشہورزبان زد عام و خواص) ہیں دوسرے کے نہیں۔
(پھر) حضرات شیخین،صاحبین صہرین (کہ ان کی صاحبزادیاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شرفِ زوجیت سے مشرف ہوئیں اور امہات المومنین مسلمانوں ایمان والوں کی مائیں کھلائیں) وزیرین (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد کہ میرے دو وزیر آسمان پر ہیں جبرائیل ومیکائیل اور دو وزیر زمین پر ہیں ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما) امیرین ( کہ ہر دو امیر المومنین ہیں)مشیرین (دونوں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ کے رکن اعظم (ضجیعین (ہم خواجہ اور دونوں اپنے آقا و مولیٰ کے پھلو بہ پھلو آج بھی مصروفِ استراحت ) رفیقین (ایک دوسرے کے یارو غمگسار) سیّدنا و مولٰنا عبداﷲالعتیق ابوبکر صدیق و جناب حق مآب ابوحفص عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی شانِ والا سب کی شانوں سے جداہے اور ان پر سب سے زیادہ عنایت خدا ور رسول ِ خدا جل جلالہ و صلے اﷲتعالیٰ علیہ وسلم ہے بعد انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین کے جو مرتبہ ان کا خدا کے نزدیک ہے دوسرے کا نہیں اور رب تبارک و تعالیٰ سے جو قرب و نزدیکی اور بارگاہِ عرش اشتباہ رسالت میں جو عزت و سر بلندی ان کا حصہ ہے اوروں کا نصیبا نہیں اور منازل جنت ومواہب بے منت میں انہیں کے درجات سب پر عالی فضائل و فواضل (فضیلتوں اور خصوصی بخششوں ) و حسنات طیبات (نیکیوں اور پاکیزگیوں) میں انہیں کو تقدم و پیشی ( یہی سب پر مقدم۔،یہی پیش پیش) ھمارے علماء و آئمہ نے اس (باب) میں مستقل تصنیفیں فرما کر سعادتِ کونین و شرافتِ دارین حاصل کی(ان کے خصائل تحریر میں لائے،ان کے محاسن کا ذکر فرمایاان کے اولیات و خصوصیات گنائے) ورنہ غیر متناہی (جو ھماری فہم و فراست کی رسائی سے ماورا ہو۔ اس)کا شمار کس کے اختیار واﷲالعظیم اگر ہزاروں دفتر ان کے شرح فضائل (اور بسط فواضل) میں لکھے جائیں یکے ازہزار تحریر میں نہ آئیں۔
وعلی تفنن واصفیہ بحسنہ یغنی الزمان وفیہ ما لم یوصف
(اور اس کے حسن کی تعریف کرنے والوں کی عمدہ بیانی کی بنیاد پر زمانہ غنی ہوگیا اور اس میں ایسی خوبیاں ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا)
مگر کثرتِ فضائل و شہرتِ فواضل (کثیر در کثیر فضیلتوں کا موجود اور پاکیزہ و برتر عزتوں مرحمتوں کا مشہور ہونا) چیزے دیگر (اور بات ہے) اور فضیلت و کرامت (سب سے افضل اور بارگاہِ عزت میں سب سے زیادہ قریب ہونا۔) امرے آخر (ایک اور بات ہے اس سے جدا و ممتا ز) فضل اﷲتعالیٰ کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرمائے ۔
(قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاء ُ) ۔
اس کی کتاب کریم اور اس کا رسول عظیم علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ والتسلیم علی الاعلان گواہی دے رہے ہیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد ماجد مولیٰ علی کرم اﷲوجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں ۔کہ فرماتے ہیں: ((کنت عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم فاقبل أبو بکر وعمر، فقال: یا علي ھذان سیّدا کہول أھل الجنۃ وشبابھا بعد النبیین والمرسلین)). '' المسند'' للإمام أحمد، الحدیث: ۶۰۲، ج۱، ص۱۷۴.''سنن الترمذي''، کتاب المناقب، الحدیث: ۳۶۸۵، ج۵، ص۳۷۶.و''سنن ابن ماجہ''، کتاب السنۃ، فضل أبي بکر الصدیق رضي اللہ عنہ، الحدیث: ۱۰۰، ج۱، ص۷۵. ''میں خدمت اقدس حضور افضل الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر تھا کہ ابوبکر و عمر سامنے آئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ علی!یہ دونوں سردار ہیں اھل جنت کے سب بوڑھوں اور جوانوں کے بعد انبیاء و مرسلین کے''۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے راوی،حضور کا ارشاد ہے: ((أبو بکر وعمر خیر الأولین والآخرین وخیر أھل السموات وخیر أھل الأرضین إلاّ النبیین والمرسلین)). رواہ الحاکم في ''الکنی'' وابن عدی وخطیب.
ابوبکر و عمر بہتر ہیں سب اگلوں پچھلوں کے،اور بہتر ہیں سب آسمان والوں سے اور بہتر ہیں سب زمین والوں سے،سوا انبیا و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کے۔''کنز العمال''، کتاب الفضائل، فضائل أبي بکر وعمر رضي اللہ تعالی عنھما، ج۱۱، ص ۲۵۶، الحدیث: ۳۲۶۴۲.
خود حضرت مولیٰ علی کرم اﷲتعالیٰ وجہہ نے بار بار اپنی کرسی مملکت و سطوت (و دبدبہ)خلافت میں افضلیت مطلقہ شیخین کی تصریح فرمائی (اور صاف صاف واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا کہ یہ دونوں حضرات علی الاطلاق بلا قیدِ جہت و حیثیت تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں) اور یہ ارشاد ان سے بتواتر ثابت ہوا کہ اسّی سے زیادہ صحابہ و تابعین نے اسے روایت کیا۔ اور فی الواقع اس مسئلہ (افضلیت شیخ کریمین)کو جیسا حق مآب مرتضوی نے صاف صاف واشگاف بہ کرّات و مرّات (بار بار موقع بہ موقع اپنی ) جَلَوات وخلوات (عمومی محفلوں ،خصوصی نشستوں ) و مشاہد عامہ و مساجد جامعہ (عامۃ الناس کی مجلسوں اور جامع مسجدوں) میں ارشاد فرمایا دوسروں سے واقع نہیں ہوا۔
(ازاں جملہ وہ ارشاد گرامی کہ) امام بخاری رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ حضرت محمد بن حنفیہ صاحبزاده جناب امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے راوی : قال: قلت لأبي: أيّ الناس خیرٌ بعد النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم؟ قال: ((أبو بکر، قال: قلت: ثم من؟ قال: عمر))۔
یعنی میں نے اپنے والد ماجد امیر المومنین مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ سے عرض کیا: کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: ''ابو بکر، میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا: عمر''۔'صحیح البخاري''، کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم، الحدیث: ۳۶۷۱، ج۲، ص۵۲۲.
ابوعمر بن عبداﷲحکم بن حجل سے اور دار قطنی اپنی ''سنن'' میں راوی جناب امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ فرماتے ہیں:
((لا أجد أحداً فضلني علی أبي بکر وعمر إلاّ جلدتہ حد المفتري)) ''الصواعق المحرقۃ''، ص۶۰۔
جسے میں پاؤں گا کہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما) سے مجھے افضل بتاتا (اور مجھے ان میں سے کسی پر فضیلت دیتا )ہے اسے مُفتری (افتراء و بہتان لگانے والے) کی حد ماروں گا کہ اسّی کوڑے ہیں۔
ابوالقاسم طلحی ''کتاب السّنّتہ'' میں جناب علقمہ سے راوی: بلغ علیّا أنّ أقواماً یفضّلونہ علی أبي بکر وعمر فصعد المنبر فحمد اﷲ وأثنی علیہ ثم قال: أیہا الناس! ((أنّہ بلغني أنّ أقواماً یفضّلوني علی أبي بکر وعمر ولو کنت تقدمت فیہ لعاقبت فیہ فمن سمعتہ بعد ھذا الیوم یقول ھذا فھو مفتر، علیہ حد المفتري، ثم قال: إنّ خیر ھذہ الأمۃ بعد نبیہا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم أبو بکر ثم عمر ثم اﷲ أعلم بالخیر بعدہ، قال: وفي المجلس الحسن بن علی فقال: واﷲ لو سمّی الثالث لسمی عثمٰن)).
یعنی جناب مولیٰ علی کو خبر پہنچی کہ لوگ انہیں حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنھما پر تفضیل دیتے (اور حضرت مولیٰ کو ان سے افضل بتاتے) ہیں۔ پس منبر پر تشریف لے گئے اور اﷲتعالیٰ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا :اے لوگو!مجھے خبر پہنچی کہ کچھ لوگ مجھے ابوبکر و عمر سے افضل بتاتے ہیں اور اگر میں نے پہلے سے سُنا ہوتا تو اس میں سزا دیتا یعنی پھلی بار تفہیم (وتنبیہ) پر قناعت فرماتا ہوں پس اس دن کے بعد جسے ایسا کہتے سنوں گا تو وہ مفتری (بہتان باندھنے والا)ہے اس پر مفتری کی حد لازم ہے، پھر فرمایا :بے شک بہتر اس امت کے بعد ان نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر خداخوب جانتا ہے بہتر کو ان کے بعد، اور مجلس میں امام حسن (رضی اللہ عنہ)بھی جلوہ فرما تھے انہوں نے ارشاد کیا: خدا کی قسم !اگر تیسرے کا نام لیتے تو عثمٰن کا نام لیتے۔ ''إزالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفائ'' بحوالہ أبي القاسم مسند علي بن أبي طالب، ج۱، ص۶۸۔
بالجملہ احادیث ِ مرفوعہ و اقوالِ حضرت مرتضوی و اھلبیت نبوت اس بارے میں لا تعداد ولا تحصی (بے شمار ولا انتہا) ہیں کہ بعض کی تفسیر فقیر نے اپنے رسالہ تفضیل میں کی ۔ اب اھل سنت (کے علمائے ذوی الاحترام)نے ان احادیث و آثار میں جو نگاہ غور کو کام فرمایا تو تفضیل شیخین کی صدہا تصریحیں (سیکڑوں صراحتیں) علی الاطلاق پائیں کہیں جہت و حیثیت کی قید نہ دیکھی کہ یہ صرف فلاں حیثیت سے افضل ہیں اور دوسری حیثیت سے دوسروں کو افضیلت (حاصل ہے) لھذا انہوں نے عقیدہ کرلیا کہ گو فضائل خاصہ و خصائص فاضلہ (مخصوص فضیلتیں اور فضیلت میں خصوصیتیں) حضرت مولیٰ ( علی مشکل کُشا کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ) اور ان کے غیر کو بھی ایسے حاصل (اور بعطائے الہٰی وہ ان خصوصیات کے تنہا حامل) جو حضرات شیخین (کریمین جلیلین )نے نہ پائے جیسے کہ اس کا عکس بھی صادق ہے (کہ امیرین وزیرین کو وہ خصائصِ غالیہ اور فضائل عالیہ بارگاہ ِ الہی سے مرحمت ہوئے کہ ان کے غیر نے اس سے کوئی حصہ نہ پایا)مگر فضل مطلق کُلّ (کسی جہت و حیثیت کا لحاظ کیے بغیر فضیلت مطلقہ کُلّیہ) جو کثرتِ ثواب و زیادتِ قُربِ ربّ الارباب سے عبارت ہے وہ انہیں کو عطا ہوا (اوروں کے نصیب میں نہ آیا)۔
اور (یہ اھل سنت و جماعت کا وہ عقیدہ ثابتہ محکمہ ہے کہ) اس عقیدہ کا خلاف اوّل تو کسی حدیث صحیح میں ہے ہی نہیں اور اگر بالفرض کہیں بوئے خلاف پائے بھی تو سمجھ لے کہ یہ ھماری فہم کا قصور ہے (اور ھماری کوتاہ فہمی) ورنہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور خود حضرت مولیٰ (علی) واھلبیت کرام (صاحب البیت ادرٰی بما فیہ کے مصداق اسرار خانہ سے مقابلۃً واقف تر)کیوں بلا تقیید (کسی جہت و حیثیت کی قید کے بغیر) انہیں افضل و خیر امت و سردار اوّلین و آخرین بتاتے،کیا آیہ کریمہ: (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَاَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ) (تو ان سے فرمادو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباھلہ کریں تو جھوٹوں پر اﷲکی لعنت ڈالیں)
و حدیث صحیح : ((من کنتُ مولاہ فعلي مولاہ)) .(جس کا میں مولا ہوں تو علی بھی اس کا مولا ہے)۔''سنن الترمذي''، کتاب المناقب، الحدیث: ۳۷۳۳، ج۵، ص۳۹۸. ''سنن ابن ماجہ''، کتاب السنۃ، الحدیث: ۱۲۱، ج۱، ص۸۶. اور خبر شدید الضعف وقوی الجرح (نہایت درجہ ضعیف و قابل شدید جرح و تعدیل ) ((لحمک لحمي ودمک دمي)) (تمہارا گوشت میرا گوشت اور تمہارا خون میرا خون ہے)۔ ''کنز العمال''، کتاب الفضائل، فضائل علي رضي اللہ تعالی عنہ، ج۱۱، ص ۲۷۹، الحدیث: ۳۲۹۳۳.
برتقدیر ثبوت (بشرطیکہ ثابت وصحیح مان لی جائے) وغیر ذلک (احادیث و اخبار)سے انہیں آگاہی نہ تھی۔(ہوش و حواس علم و شعور اور فہم وفراست میں یگانہ روزگار ہوتے ہوئے ان اسرارِ درون خانہ سے بیگانہ رہے اور اسی بیگانگی میں عمریں گزاردیں) یا (انہیں آگاہی اور ان اسرار پر اطلاع)تھی تو وہ (ان واضح الدلالۃ الفاظ) کا مطلب نہ سمجھے( اور غیرت و شرم کے باعث اور کسی سے پوچھ نہ سکے۔) یا سمجھے۔ (حقیقتِ حال سے آگاہ ہوئے) اور اس میں تفضیل شیخین کا خلاف پایا (مگر خاموش رہے اور جمہور صحابہ کرام کے برخلاف عقیدہ رکھا زبان پر اس کا خلاف نہ آنے دیا اور حالانکہ یہ ان کی پاک جنابوں میں گستاخی اور ان پر تقیہّ ملعونہ کی تہمت تراشی ہے) تو (اب ہم )کیونکر خلاف سمجھ لیں(کسے کہہ دیں کہ ان کے دل میں خلاف تھا زبان سے اقرار ) اور تصریحات بیّنہ و قاطع الد لالۃ (روشن صراحتوں قطعی دلالتوں) وغیر محتملۃ الخلاف کو (جن میں کسی خلاف کا احتمال نہیں کوئی ہیر پھیر نہیں)کیسے پس پشت ڈال دیں الحمد ﷲرب العلمین کہ حق تبارک و تعالیٰ نے فقیر حقیر کو یہ ایسا جواب شافی تعلیم فرمایا کہ منصف (انصاف پسندذی ہوش)کے لیے اس میں کفایت (اور یہ جواب اس کی صحیح رہنمائی وہ ہدایت کے لیے کافی) اور متعصب کو (کہ آتش غلو میں سُلگتا اور ضد و نفسانیت کی راہ چلتا ہے) اس میں غیظ بے نہایت (قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ) (انہیں آتش ِ غضب میں جلنا مبارک) (ہم مسلمانانِ اھلسنت کے نزدیک حضرت مولیٰ کی ماننا) یہی محبتِ علی مرتضیٰ ہے اور اس کا بھی (یہی تقاضا )یہی مقتضیٰ ہے کہ محبوب کی اطاعت کیجئے اور اس کے غضب اور اَسّی کوڑوں کے استحقاق سے بچئے (والعیاذ باﷲ)''۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۲۹، ص۳۶۳ تا۳۷۰.
جو شخص مولیٰ علی کرّم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کو صدیق یا فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنھما سے افضل بتائے، گمراہ بدمذہب ہے ۔ ( في ''الفتاوی البزازیہ''، کتاب السیر، نوع فیما یتصل بہ۔۔۔ إلخ، ج۶، ص۳۱۹: (الرافضي إن کان یفضل علیاً علیھما فہو مبتدع)، ھامش ''الہندیۃ''۔وفي ''فتح القدیر''، باب الإمامۃ ،ج۱، ص۳۰۴: (وفي الروافض أنّ من فضل علیاً رضي اللہ عنہ علی الثلاثۃ فمبتدع).(مضمون جاری ہے بقیہ حصّہ دوم میں پڑھیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔