اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے علماء کا مقام
قَالَ حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ:سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ خَطِیْبًا یَقُوْلُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ:مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ وَلَنْ تَزَالَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃُ قَائِمََۃً عَلٰی اَمْرِاللّٰہِ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَأتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ ۔
ترجمہ : حُمَیْد بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امیر مُعاوِیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحالت خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے اور اس امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہے گی،ان کے مخالفین ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے ۔
(صحیح البخاری،کتاب العلم،باب من یرد اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،الحدیث:۷۱،ج۱،ص۴۲،چشتی)
حضرت امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ : اس حدیث کے راویوں میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہستی قابل ذکر ہے ۔ آپ سردارِ مکہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ہیں ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ’’ ہند ‘‘تھا ۔ فتح مکّہ سے قبل آپ نے اسلام قبول کیا اور دربار رسالت میں اتنے مُعْتَمَد صحابی قرار پائے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ’’کاتِبِ وَحی‘‘ کا عہدہ ان کو عطا فرمایا ۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں شام کے گورنر رہے ۔ پھر تمام عالم اسلام کے بادشاہ ہوگئے ۔ رجب ۶۰ھ میں اٹھتّر برس کی عمر پاکر وفات پائی ۔ آپ سے ایک سو چھتِّیس حدیثیں مروی ہیں ۔ (فیوض الباری،پارہ اوّل،کتاب العلم،باب من یرد اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۳۰۳ واکمال فی اسماء الرجال،حرف المیم،فصل فی الصحابۃ، ص۶۱۷،چشتی)
مختصر شرحِ حدیث : اس حدیث کے تین جزو ہیں ۔ پہلے جزوکا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو دین میں ’’فَقِیْہ ‘‘بناتا ہے یعنی اس کو اتنا علم عطا فرماتا ہے کہ وہ اپنی علمی بصیرت سے دین کو ایمانی مَعْرِفت کے ساتھ سمجھنے لگتا ہے تو پھر یہ سمجھ لینا چاہئے بلکہ یقین کرلینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے ساتھ بھلائی فرمانے کا ارادہ فرمالیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنے اور خیر عطا فرمانے کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کا علم اور دین کو سمجھنے کافہم عطا فرماتاہے۔
اس حدیث کا دوسرا جُزْوْ یہ ہے کہ میں خدا کی نعمتوں کو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ نعمتوں کا عطا فرمانے والا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام نعمتوں کی تقسیم میرے سپرد فرمائیی ہے اس لئے میرے وسیلہ اور واسطے کے بغیر کسی کو خدا کی کوئی نعمت نہیں مل سکتی ۔
اس حدیث کا تیسراجُزْوْیہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک غیب کی خبر دے رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں ہر دور کے اندر ایک جماعت ایسی ضرور رہے گی جو ہمیشہ اور ہر حال میں دین پر پوری اِسْتِقامت کے ساتھ قائم رہے گی اور اس کے مخالفین لاکھ اس کو نقصان پہنچانا چاہیں مگر ان لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور ہزاروں ظلم وجَور کے باوجود بال برابر بھی اس جماعت کو صراط مستقیم سے نہ ہٹاسکیں گے
(1) ’’فِقہ‘‘کے دو معنی آتے ہیں ،ایک لغوی ،دوسرے اصطلاحی، فقہ کے لغوی معنی ’’فہم ،علم،سمجھ‘‘ہیں اور اصطلاحی معنی کی تفصیل یہ ہے کہ احکام ِشریعت کی دو قسمیں ہیں ، اول اَحکام ِ شَرْعِیَّہ اِعْتِقادِیَّہ یعنی وہ مسائل جن کا تعلق صرف عقائد سے ہے جیسے توحید و رسالت اور قیامت وغیر ہ پر ایمان لانا۔ دوم اَحکام ِشَرْعِیَّہ عَمَلِیَّہ یعنی وہ مسائل جن کا تعلق اعتقاد کے بعد عمل سے بھی ہے جیسے نماز و روزہ اور حج وزکوۃ وغیرہ۔ پہلی قسم یعنی اَحکام ِ شَرْعِیَّہ اِعْتِقادِیَّہ کے جاننے کو ’’علم ِکلام‘‘کہتے ہیں اور دوسری قسم یعنی اَحکام ِشَرْعِیَّہ عَمَلِیَّہ کے جاننے کا نام ’’علم ِفقہ‘‘ہے ۔اس حدیث میں فقہ کے لغوی معنی مراد ہی ۔ ’’ یُفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو دین کا فہم یعنی دین کو سمجھنے کا علم عطا فرماتا ہے ۔
(2) اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ کے دونوں جملوں میں اہل علم کو غور کرنا چاہئے کہ ’’قَاسِمٌ اور یُعْطِیْ‘‘ دونوں کا مَفْعول مَحْذوف کیا ہے یعنی رسول کن کن چیزوں کو بانٹتے ہیں اور اللہ کون کون سی چیزیں عطا فرماتا ہے۔اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ مَفْعول مَحْذوف کیا ہے؟اس سوال کو حل کرنا ہے تو اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ ’’ یُعْطِیْ‘‘ کا مفعول یقینا ’’ کُلَّ شَیْیٍٔ‘‘ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہر ہر چیز کا دینے والا ہے ۔تو ظاہر ہے کہ جو ’’یُعْطِیْ‘‘ کا مَفْعول ہوگا وہی ’’قَاسِمٌ‘‘ کا مَفْعول ہوگا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اس حدیث کا صاف صاف حاصل مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ہر چیز کا دینے والا ہے اور میں اللہ کی دی ہوئی ہر ہر چیز کا تقسیم کرنے والا ہوں ۔
اس لئے معلوم ہوا کہ اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں اور دولتوں میں سے کوئی نعمت اور کوئی دولت کسی کو بغیر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ کے نہیں مل سکتی ۔ سبحان اللہ ۔
بے ان کے واسطے کے خدا کچھ عطا کرے حاشا غلط، غلط، یہ ہَوَس بے بَصَر کی ہے
(3) اس حدیث میں مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہ خَیْرًا کے جملہ میں لفظ ’’خَیْرًا‘‘ نکرہ ہے اور اس کی ِتنکِیر یا تونوع کے لئے ہے یا تعظیم کے لئے ۔ اگر اس ِتنکِیرکو نوع کے لئے مانا جائے تو حدیث شریف کا یہ مطلب ہوگا کہ’’جس شخص کے ساتھ ایک خاص قسم کے خیر اور بھلائی کا خداوندتعالیٰ اراد ہ فرماتاہے اس کو علم دین عطا فرماتا ہے۔‘‘اور اگر یہ تَنْکِیر تعظیم کیلئے مانی جائے تو اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر ِعظیم اور بہت بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اُس کو علم ِدین عنایت فرماتا ہے ۔
بہر حال اس حدیث سے علماءِ حق کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اور رحمت ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان میں علماءِ حق کے لئے بہت بڑی بشارت اور تسکین ِقلب کا سامان بھی ہے اور وہ یہ کہ جب اللہ عزوجل نے علماء دین کے ساتھ ایک خاص قسم کی بھلائی یا بہت بڑی بھلائی کا ارادہ فرمالیا ہے تو پھر کسی انسان یا شیطان کا شر خداکے خیر پر کبھی بھی اور کہیں بھی غالب نہیں ہوسکتاہے۔اس لئے ثابت ہوگیا کہ علماء دین کے ساتھ شر اور برائی کا برتاؤ کرنے والا کبھی ہرگز ہرگز فلاح نہیں پاسکتا ۔
علم دیں ہے شمع حق اس کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹاسکتا ہے کون
لہٰذا علما ء کرام کو لاز م ہے کہ وہ کبھی بھی احسا س کمتری میں نہ مبتلا ہوں اور گریجویٹوں اور دولت مندوں کے سامنے کبھی ہرگز ہرگز مرعوب نہ ہوں اور حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد پر نظر رکھیں اور ایک دوسری حدیث بھی ہمیشہ پیش نظر رکھیں ۔خدا کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ رشک کے قابل فَقَط دو ہی آدمیوں کی زندگی ہے ایک تو وہ مالدار جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے ۔دوسرا وہ عالِم جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت (علم ِدین ) عطا فرمایا اور وہ اس سے فیصلہ کرتا ہے اور دوسروں کو علم سکھاتاہے۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب العلم،الفصل الاوّل، الحدیث:۲۰۲، ج۱، ص۵۹،چشتی)
محترم قارئین : دیکھ لیجئے کہ مالدار سخی اور عالم دین کی زندگی کے سواکسی امیر ، وزیر یابادشاہ کی زندگی کو بھی حضور ِاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قابل ِرشک نہیں فرمایا ہے ۔
لہٰذا پتہ چلا کہ علماء ِدین کی مقدس زندگی ساری دنیا کے لئے قابل ِرشک ہے اور جب علماء ِکرام کی زندگی قابل رشک زندگی ہے تو پھر علماء کرام کے لئے احساسِ کمتری کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔علماء ِحق بلاشبہ خدا کی زمین پر چمکتے ہوئے چراغ ہدایت ہیں ۔ خداوند ِکریم نے ان کو اپنے ’’خیرِعظیم‘‘ کے ساتھ نوازا ہے اسی لئے زمین پر درندے، چرندے ، پرندے ،چیونٹیاں اپنے بلوں میں ،مچھلیاں دریاؤں میں ان کیلئے دعائے رحمت کو اپنا وظیفہ بنائے ہوئے ہیں ۔فرشتوں کی مقدس جماعت ان طالبان علم دین کی رضا جوئی کے لئے اپنے پَر بچھا دیتی ہے۔سبحان اللہ ،سبحان اللہ ! جب خالق ِکائنات کا فضل و کرم اور کائناتِ عالم کی دعائیں ، ملائکہ کے بچھے ہوئے پَر ، علماء ِدین کا اعزاز بڑھا رہے ہیں تو اگر چند مردار قسم کے دنیا دارعلماء ِرَبَّانِیِّیْن کو حَقارَت کی نظر سے دیکھیں تو اس کا کیا غم ہے جو لوگ آج علماء کرام کو حَقارَت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے مقدس رسولوں کے فرمانوں سے منہ موڑ لیا ہے اور دنیا کی دولت پر مغرور ہوکر اور اللہ کے نیک بندوں کی تَحْقِیر وتَذْلِیْل کرکے اپنی آخرت کو خراب کر رہے ہیں ۔
علماء ِحق کو لاز م ہے کہ ان مغرور و بد خصال جہال کی اِیذا رَسانِیوں پر صبر کریں اور ہرگز ہرگز دل شکستہ ہو کر اِعْلاء ِکَلِمۃُ الْحَق کے مَنْصَب ِجَلِیل سے الگ نہ ہوں ۔ خداوند ِ قدوس نے اپنے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ حکم دیا ہے کہ : خُذِ الْعَفْوَ وَاۡمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیۡنَ ۔ (پ۹،الاعراف:۱۹۹)
ترجمہ : اے محبوب معاف کرنااختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔ (پ۹،الاعراف:۱۹۹)
یعنی اے محبوب!آپ لوگوں کی خطاؤں کو معاف فرما دیں اور نیکی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے اعراض کرتے رہیں۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment