مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ اوّل
دشمنان دین نے بھی سب سے پہلے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ان کے مقدس کردار کو داغدار کرنے کے لیئے ہر قسم کے حربے اختیار کیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور امت کے درمیان کا یہ واسطہ کمزور پڑجائے اور یوں بغیر کسی محنت کے اسلام کا یہ دینی سرمایا خود بخود زمین بوس ہوجائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد کے اظہار اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی ان دشمنان دین نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ہدف تنقید بنایا۔
مدینہ طیبہ کے گورنر عبداللہ بن مصعب فرماتے ہیں کہ خلیفہ مہدی نے مجھ سے پوچھا کہ جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص کرتے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا : وہ زندیق ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرنے کی تو ان میں ہمت نہ تھی انہوں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص بیان کرنا شروع کردی ۔ گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم برے لوگوں کے ساتھ رہتے تھے ۔ (تعجیل المنفعۃ :ص271) ۔(خطیب بغدادی (م463ھ) نے یہی واقعہ کچھ تفصیل سے تاریخ بغداد (ج8ص220) میں بیان کیا ہے۔
اس تفصیل سے بعض صحابہ کرام اور ان کے بارے میں لب کشائی کا پس منظر واضح ہوجاتا ہے مگر دشمنان اسلام اپنی تمام تدبیروں کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ کے مقرر کردہ اس طبقہ کی عدالت و صداقت کو داغدار نہ کرسکے اور محدثین عظام اور فقہاء کرام نے بیک زبان ”الصحابۃ کلہم عدول“ کی ایسی صدا بلند کی کہ اس کے مقابلے میں تمام کوششیں ہیچ ثابت ہوئیں ۔
اوائل میں اسلام دشمنی کے اس محاذ پر ابن سبا کی ذریت تھی ، رفتہ رفتہ اس میں بعض فرقوں نے بھی حصہ لیا ۔
آخری دور میں مستشرقین اور ان کی معنوی اولاد نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیامگر علمائے حق نے ہر دور میں اس فتنہ کا تعاقب کیا اور دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حق ادا کیا ۔
سبِّ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ممانعت احادیث و آثار کے آئینے میں : چند روایات پیش کی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلاکہنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں ۔
(1) : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذو ہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن آذاہم فقد آذانی .
ترجمہ: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! ان کو میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بد ظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذاء دی تو گویا اس نے مجھے ایذاء دی ۔(مشکوٰۃ المصابیح: ج2ص554،چشتی)
(2) : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
دعولی اصحابی لا تسبو اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر کرو، میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا نہ کہو ۔ (مسند البزار: ج2 ص342 )
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی صحیح بخاری ومسلم کے راوی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)
(3) : حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی .
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص94)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علی بن سہل کے علاوہ اس روایت کے سب راوی صحیح بخاری کے ہیں اور علی بن سہل بھی ثقہ ہے ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)
(4) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین .
ترجمہ : جو میرے صحابہ کو براکہتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت ہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی:ج12 ص142)
(5) : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احفظونی فی اصحابی . (سنن ابن ماجہ: ص172)
ترجمہ : لوگو !میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو ۔
بعض روایات میں ”احسنوا الی اصحابی “ کے الفاظ ہیں ۔ کہ میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ ۔ (سنن النسائی: رقم الحدیث9175)
(6) : حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا ذکر اصحابی فامسکو واذا ذکرت النجوم فامسکوا وذا ذکر القدر فامسکوا.
ترجمہ : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خامو ش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ج2 ص96) ۔ حضرت ابن عباس سے یہی روایت موقوفاً ان الفاظ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا : یا غلام ایاک وسب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فان سبہم مفقرۃ الخ ۔
ترجمہ : اے بر خوردار: صحابہ کرام کو برا کہنے سے اجتناب کرو کیونکہ ان کو برا کہنا فقر و مسکینی کا باعث ہے ۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج8ص3 )
(7) : ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : امروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسبوہم . (صحیح مسلم: ج2ص421)
ترجمہ : لوگوں کو حکم تو دیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔
(8) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لا تسبوا اصحاب محمد فان اللہ عز وجل امرنا بالا ستغفار لہم وھو یعلم انہم سیقتلون .
ترجمہ : صحابہ کرام کو برا مت کہو ،بےشک اللہ نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل و قتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استغفار کا حکم فرمایا ہے ۔ (الصارم المسلول فصل نمبر5 المسئلہ الثانیہ فی استتابۃ الذمی بیروت ،چشتی)
(9) : حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ عراق سے ان کے ہاں ایک وفد آیا جنہوں نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں تو آپ نے فرمایا: کیا تم مہاجرین میں سے ہو؟ انہوں نے کہا :جی نہیں ،پھر آپ نے پوچھا: کیا تم انصار میں سے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ اس پر حضرت زین العابدین فرمانے لگے: جب تم ان دونوں میں سے نہیں ہو تو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی ہرگز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا .
ان تمام احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بری اور ناگوار بات کرنا، ان کی مذمت یا ان کو سب شتم کرنا منع ہے اور اس کے مرتکبین کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ائمہ حضرات کی آراء
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م150ھ) کا موقف : حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی من جملہ تصانیف میں ایک کتاب ”الفقہ الاکبر“بھی ہے ۔ اس کتاب میں آپ فرماتے ہیں : تولاہم جمیعا . ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذکر احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الابخیر . ہم سب صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں : یعنی وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم.
(شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یعنی گو بعض صحابہ کرام سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے۔
الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابو المنتہی احمد بن محمد المگنیساوی لکھتے ہیں:
اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم کما اثنی اللہ ورسولہ علیہم وما جری بین علی و معاویۃ کان مبنیا علی الاجتہاد . (شرح الفقہ الاکبر مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعہ حیدر آباد دکن 1948،چشتی)
اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان لڑائی ہوئی وہ اجتہاد کی بناء پر تھی ۔
امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ (م181ھ) کا فرمان : مشہور محدث، فقیہ،مجاہد اور زاہد امام عبداللہ بن مبارک اس سلسلے میں کس قدر محتاط تھے، اس کا اندازہ ان کے حسب ذیل قول سے لگایا جاسکتا ہے، فرماتے ہیں : السیف الذی وقع بین الصحابۃ فتنۃ ولا اقول لاحد منہم مفتون . (السیر ج8ص405)
ترجمہ : صحابہ کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے ۔
امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(اس پاک فرقہ اہل سنّت و جماعت نے اپنا عقیدہ اور ) اتنا یقین کرلیا کہ سب ( صحابہ کرام) اچھے اور عدل و ثقہ، تقی، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار ) ہیں۔ اوران ( مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر گمراہ کرنے والی ہے، نظیر اس کی عصمتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء ہے کہ اہلِ حق ( اہلِ اسلام ، اہلسنت وجماعت) شاہراہِ عقیدت پر چل کر ( منزل) مقصود کو پہنچے ۔ اور ارباب ( غوایت واہل) باطل تفصیلوں میں خوض ( و ناحق غور) کرکے مغاک ( ضلالت اور) بددینی ( کی گمراہیوں) میں جا پڑے(فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص58،چشتی)
مشاجرات صحابہ کرام حضرت مرتضوی (امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیئے۔ ( اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولٰی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)ہم اہلسنت ان میں حق، جانب جناب مولٰی علی( مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص61)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں کو حق اور ناحق کے پلڑوں میں رکھنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے، صحابہ کرام کا نہیں۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں : و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته ۔
ترجمہ : اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے ۔ (شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن ،چشتی)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں کو حق اور ناحق کے پلڑوں میں رکھنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے، صحابہ کرام کا نہیں۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے ۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ کہ ہوا و ہوس پر۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔(مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول) ۔ مزید فرماتے ہیں : یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے ۔ (مکتوب: 67 دفتر دوم)
اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے، جو شیطان کا کام ہے، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment