درس قرآن موضوع آیت وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمً
وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ۔ ﴿سورہ نساء آیت نمبر 113﴾
ترجمہ : اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے ۔
وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما ای من الاحکام و الغیب انزل اللہ علیک الکتاب و الحکمۃ و اطلعک علی اسرار ھما وواقفک علی حقائقھا ۔ یعنی من احکام الشرع و امور الدین و قیل علمک من علم الغیب مالم تکن تعلم و قیل معناہ علمک من خفیات الامور و اطلعک علی صنمائر القلوب و علمک من احوال المنافقین و کیدھم من امور الدین و الشرائع او من خفیات الامور و صنمائر القلوب ۔
ترجمہ : اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے ۔ (تفسیر جلالین ) یعنی احکام اور علم غیب ( تفسیر کبیر ) اللہ نے آپ پر قرآن اتارا اور حکمت اتاری اور آپ کو ان کے بھیدوں پر مطلع فرمایا اور انکی حقیقتوں پر واقف کیا۔ (خازن ) یعنی شریعت کے احکام اور دین کی باتیں سکھائیں اور کہا گیا ہے کہ آپ کو علم غیب میں وہ باتیں سکھائیں جو آپ نہ جانتے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں آپ کو اچھی چیزیں سکھائیں اور دلوں کے راز پر مطلع فرمایا اور منافقین کے مکر و فریب آپ کو بتا دئیے ( مدارک) دین اور شریعت کے امور سکھائے اور چھپی ہوئی باتیں دلوں کے راز بتائے ۔
تفسیر حسینی میں بحر الحقائق کے حوالے سے اسی آیت کے ماتحت ہے : آں علم ماکان وما یکون ہست کہ حق سبحانہ، در شب اسرابداں حضرت عطا فرمود۔ چناچہ در حدیث معراج ہست کہ من در زیر عرش بودم قطرہ در حلق من ریختندہ فعلمت ماکان وما یکون جامع البیان قبل نزول ذالک من خفیات المور ۔
ترجمہ : یہ ماکان اور مایکون کا علم ہے کہ حق تعالٰی نے شب معراج میں حضور علیہ السلام کو عطافرمایا۔ چناچہ معراج شریف کے حدیث میں ہے کہ ہم عرش کے نیچے تھے ایک قطرہ ہمارے حلق میں ڈالا پس ہم نے سارے گزشتہ اور آئندہ کے واقعات معلوم کر لئے یعنی آپ کو وہ سب باتیں بتا دیں جو قرآن کے نزول سے پہلے آپ نہ جانتے تھے ۔
وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ : اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے ۔ یہ آیتِ مبارکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح پر مشتمل ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو دین کے اُمور ، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ عُلوم عطا فرما دئیے جو آپ نہ جانتے تھے ۔
نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب سے متعلق چند ضروری باتیں
یہاں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب سے متعلق چند ضروری باتیں ذہن نشین رکھیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ اس بارے میں کیا ہے۔ یہ باتیں پیشِ نظررہیں تو اِنْ شَآءَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ کوئی گمراہ بہکانہ سکے گا، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ فرماتے ہیں :
(1) بے شک غیرِ خدا کے لیے ایک ذرہ کا علمِ ذاتی نہیں اس قدر (یعنی اتنی بات) خود ضروریاتِ دین سے ہے اور اس کامنکر کافر ہے ۔
(2) بے شک غیرِ خدا کا علم اللہ تعالیٰ کی معلومات کو حاوی نہیں ہوسکتا، برابر تو درکنار ۔ تمام اَوّلِین و آخِرین، اَنبیاء ومُرسَلین ، ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ دونوں مُتَناہی ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے)، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کے علوم وہ غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہی نہیں ) ۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق ومغرب ،روزِ اول تا روزِآخر جملہ کائنات کو محیط ہوجائیں پھر بھی متناہی ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں ، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب متناہی ہے ۔
(3) بالفعل غیر متناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جملہ علومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً نسبت ہونی محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَاللہتَوَہُّمِ مساوات ۔
(4) اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے ۔
(5) اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمدٌ رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامو تمام جہان سے اَتَمّ و اعظم ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیبِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۹/۴۵۰-۴۵۱)
یاد رہے کہ یہاں ’’ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ‘‘ میں وہ سب کچھ داخل ہے جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نہیں جانتے ۔ معتبر تفاسیر میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ چنانچہ ان پانچ قدیم تفاسیر میں اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔ (1) تفسیر البحر المحیط، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳،۳/۳۶۲ ۔ (2)تفسیر طبری، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ۴/۲۷۵، ۔ (3) نظم الدرر ، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳،۲/۳۱۷ ۔ (4) زاد المسیر فی علم التفسیر، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ص۳۲۴ ۔ (5) روح المعانی، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ۳/۱۸۷ ۔
وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا:اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے پوری مخلوق کو جو علم عطا فرمایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : وَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیۡلًا (بنی اسرائیل:۸۵)
ترجمہ : اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔
اسی طرح پوری دنیا کے بارے میں ارشاد فرمایا : قُلْ مَتٰعُ الدُّنْیَا قَلِیۡلٌ (النساء :۷۷)
ترجمہ : اے حبیب تم فرما دو کہ دنیا کاسازو سامان تھوڑا ساہے ۔
تو جس کے سامنے پوری دنیا کا علم اور خود ساری دنیا قلیل ہے وہ جس کے علم کوعظیم فرما دے ا س کی عظمتوں کا اندازہ کون لگا سکتا ہے ۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۴/۲۱۷)
اس آیت اور ان تفاسیر سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو تمام آئندہ اور گزشتہ واقعات کی خبر دے دی گئی ۔ کلمہ ما عربی زبان میں عموم کے لئے ہوتا ہے تو آیت سے یہ معلوم ہواکہ شریعت کے احکام دنیا کے سارے واقعات۔ لوگوں کے ایمانی حالات وغیرہ جو کچھ بھی آپ کے علم میں تھا سب ہی بتا دیا اس میں یہ قید لگانا کہ اس سے مراد صرف احکام ہیں اپنی طرف سے قید ہے جو قرآن و حدیث اور امت کے عقیدے کے خلاف ہے ۔ جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا ۔
No comments:
Post a Comment