شفاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ دوم
امام احمد بسندِ صحیح اپنی مسند میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اور ابن ماجہ حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : خُیِّرت بین الشفاعۃ وبین ان یدخل نصف امتی الجنۃ فاخترت الشفاعۃ لانھا اعم واکفٰی ترونھا للمتقین لا ولکنھا للمذنبین الخطائین المتلوثین ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو شفاعت لو یا یہ کہ تمہاری آدمی امت جنت میں جائے میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ تمام اور زیادہ کام آنے والی ہے، کیا تم یہ سمجھ لیے ہو کہ میری شفاعت پاکیزہ مسلمانوں کے لیے ہے؟ نہیں بلکہ وہ ان گنہگاروں کے واسطے ہے جو گناہوں میں آلودہ اور سخت خطا کار ہیں ۔
(سنن ابن ماجہ ابواب الزہد باب ذکر الشفاعۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۹)
(مسند احمد بن حنبل عن عبداﷲ بن عمرالمکتب الاسلامی بیروت ۲ /۷۵،چشتی)
ابن عدی حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : شفاعتی للہالکین من اُمتی ۲ ؎۔ میری شفاعت میرے ان امتیوں کے لیے ہے جنہیں گناہوں نے ہلاک کر ڈالا۔حق ہے اے شفیع میرے، میں قربان تیرے، صلی اللہ علیک ۔ (الکامل لابن عدی ترجمہ عمرو بن المحرم دارالفکر بیروت ۵ /۱۸۰۱)(کنزالعمال حدیث ۳۹۰۷۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴ /۴۰۱)
حضرت ابوداؤد و ترمذی و ابن حبان و حاکم و بیہقی بافادہ صحیح حضرت انس بن مالک اور ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، و حاکم حضرت جابر بن عبداللہ اور طبرانی معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن عباس اور خطیبِ بغدادی حضرت عبداﷲ ابن عمر فاروق و حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : شفاعتی یوم القٰیمۃ لاھل الکبائر من امّتی ۔ میری شفاعت میری امت میں ان کے لیے ہے جو کبیرہ گناہ والے ہیں۔ صلی اللہ علیک وسلم، والحمد ﷲ رب العلمین ۔ اﷲ تعالٰی آپ پر درود و سلام نازل فرمائے اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا رپروردگار ہے ۔ (سُنن ابنِ ماجہ ابواب الزہد باب ذکر الشفاعۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۹)۔(سُنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی الشفاعۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۹۶)۔(جامع الترمذی ابواب صفۃ القیمۃ باب ماجاء فی الشفاعۃ امین کمپنی دہلی۲ /۶۶)۔(المستدرک للحاکم کتاب الایمان شفاعتی لاہل الکبائر من امتی دارالفکر بیروت ۱ /۶۹)۔(السنن الکبرٰی کتاب الجنایات۸ /۱۷ وکتاب الشہادات دارصادر بیروت ۱۰ /۱۹۰)۔(المعجم الکبیر حدیث ۱۱۴۵۴المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت۱۱ /۱۸۹)۔ (موارد الظمٰان الٰی زوائد ابن حبان حدیث ۲۵۹۶المطبعۃ السلفیہ ص۳۴۵)۔(کنز العمال حدیث ۳۹۰۵۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت۱۴/ ۳۹۸،چشتی)
ابوبکر احمد بن بغدادی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : شفاعتی لاھل الذنوب من امتی ۔ میری شفاعت میرے گنہگار امتیوں کے لیے ہے۔ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : واِن زَنٰی واِن سَرَقَ اگرچہ زانی ہو، اگرچہ چور ہو) فرمایا : وان زنٰی وان سرق علٰی رغم انفِ ابی الدرداء ۔ ( اگرچہ زانی ہو اگرچہ چور ہو برخلاف خواہش ابودرداء کے)
(تاریخ بغداد ترجمہ محمد بن ابراہیم الغازی ابن البصری دارالکتاب العربی بیروت ۱ /۴۱۶)
طبرانی و بیہقی حضرت بریدہ اور طبرانی معجم اوسط میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان اشفع یوم القیمٰۃ لِاکثرمما علٰی وجہ الارض من شجروحجر ومدر ۔ یعنی رُوئے زمین پر جتنے پیڑ، پتھر، ڈھیلے ہیں میں قیامت یں ان سب سے زیادہ آدمیوں کی شفاعت فرماؤں گا ۔ (مسند احمد بن حنبل عن بریدہ الاسلمی المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۳۴۷)۔(المعجم الاوسط حدیث ۵۳۵۶ مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۱۷۲)۔(کنزالعمال حدیث ۳۹۰۶۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴ /۳۹۹،چشتی)
بخاری، مسلم ، حاکم، بیہقی حضرت ابوہریرہ رضی ا للہ تعالٰی عنہ سے راوی ، واللفظ لھٰذین ( اور لفظ حاکم و بیہقی کے ہیں۔ت) حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : شفاعتی لمن شہدان لا اٰلہ الا اﷲ مخلصاً یصدق قلبہ لسانہ ۔
میری شفاعت ہر کلمہ گو کے لیے ہے جو سچے دل سے کلمہ پڑھے کہ زبان کی تصدیق دل کرتا ہو ۔ (المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب شفاعتی لمن یشھد الخ دارالفکر بیروت ۱ /۷۰)۔(مسند احمد بن حنبل عن ابی موسی الاشعری المکتب الاسلامی بیروت ۴/۴۰۴ و ۴۱۵)۔(کنزالعمال حدیث ۳۹۰۷۹ و ۳۹۰۸۰ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰/ ۳۶۸ و ۳۶۹)۔(مجمع الزوائد کتاب البعث باب ما جآء فی الشفاعۃ دارالکتاب بیروت ۱۰/ ۳۶۸ و۳۶۹،چشتی)
احمد ، طبرانی وبزار حضرت معاذ بن جبل و حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : انہا اوسع لھم وھی لمن مات ولایشرک باﷲ شیئ ۔ شفاعت میں امت کے لیے زیادہ وسعت ہے کہ وہ ہر شخص کے واسطے ہے جو اﷲ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے یعنی جس کا خاتمہ ایمان پر ہو ۔
طبرانی معجم اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اٰتی جہنم فاضرب بابہا فیفتح لی فادخلھا فاحمداﷲ محامد ما حمدہ احد قبلی مثلہا ولا یحمداحد بعدی ثم اخرج منھا من قال لا الہ الا اللہ ملخصاً ۔ میں جہنم کا دروازہ کھلوا کر تشریف لے جاؤں گا وہاں خدا کی تعریف کروں گا، ایسی نہ مجھ سے پہلے کسی نے کیں نہ میرے بعد کوئی کرے، پھر دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال لوں گا جس نے خالص دل سے لا الٰہ الا اﷲ کہا۔
(المعجم الاوسط حدیث ۳۸۵۷ مکتبہ المعارف ریاض ۴ /۵۰۳،چشتی)
حاکم بافادہ تصحیح اور طبرانی و بیہقی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : یوضع للانبیاء منابر من ذھب فیجلسون علیھا ویبقٰی منبری لا اجلس علیہ او لا اقعد علیہ قائما بین یدی ربی مخافۃ ان یبعث بی الی الجنۃِ ویبقی اُمّتی بعدی فاقول یارب امتی امتی فیقول اﷲ عزوجل یا محمد ما ترید ان اصنع بامتک فاقول یا رب عجل حسابھم فما ازال اشفع حتی اعطٰی صکاکاً برجال قد بعث بھم الی النار حتی اَنّ مالکاً خازن النار فیقول یا محمد ما ترکت لغضب ربک فی امتک من نقمۃ ۔ انبیا کے لیے سونے کے منبر بچھائیں گے وہ ان پر بیٹھیں گے، اور میرا منبر باقی رہے گا کہ میں اس پر جلوس نہ فرماؤں گا بلکہ اپنے رب کے حضور سر وقد کھڑا رہون گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو مجھے جنت میں بھیج دے اور میری امت میرے بعد رہ جائے پھر عرض کروں گا اے رب میرے ! میری امت ، میری امت، اﷲ تعالٰی فرمائے گا اے محمد، تیری کیا مرضی ہے میں تیری امت کے ساتھ کیا کروں؟ عرض کروں گا اے رب میرے ان کا حساب جلد فرمادے، پس میں شفاعت کرتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ مجھے ان کی رہائی کی چھٹیاں ملیں گی جنہیں دوزخ بھیج چکے تھے یہاں تک کہ مالک داروغہ دوزخ عرض کرے گا اے محمد ! آپ نے اپنی امت میں رب کا غضب نام کو نہ چھوڑا ۔(المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب الانبیاء منابرمن ذہب دارالفکر بیروت ۱ /۶۵و ۶۶)(المعجم الاوسط حدیث ۲۹۵۸ مکتبۃ المعارف ریاض ۳ /۴۴۶ و ۴۴۷)۔( الترغیب والترہیب کتاب البعث فصل فی الشفاعۃ مصطفٰی البابی مصر ۴ /۴۴۶)۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بخاری و مسلم و نسائی حضرت جابر بن عبداﷲ اور احمد بسندِ حسن اور بخاری تاریخ میں اور بزار اور طبرانی و بیہقی و ابونعیم حضرت عبداﷲ بن عباس، اور احمد بسندِ حسن و بزار بسندِ جیدّ و دارمی و ابن ابی شیبہ و ابویعلٰی وابونعیم وبیہقی حضرت ابوذر، اور طبرانی معجم اوسط میں بسند حضرت ابوسعید خدری، اور کبیر میں حضرت سائب بن زید، اور احمد باسنادِ حسن اور ابن ابی شیبہ و طبرانی حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی : واللفظ لجابر قال قال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُوعطیت ما لم یعط احد قبلی الٰی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واعطیت الشفاعۃ ۔ اور لفظ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھے وہ کچھ عطا ہوا جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا"۔
(صحیح بخاری کتاب التیم وقولہ تعالٰی فلم تجدواماءً قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۴۸)
(صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب قولہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جعلت لی الارض مسجداً کراچی ۱ /۶۲)(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوۃقدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۹)(سنن النسائی کتاب الغسل والتمیم باب التمیم بالصعید نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی۱ /۷۴)(مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ عنہالمکتب الاسلامی بیروت /۳۰۱)(المعجم الکبیرعن ابن عباس رضی اللہ عنہالمکتب الاسلامی بیروت ۱ /۳۰۱)(المعجم الکبیرعن ابن عباس رضی اللہ عنہ حدیث ۱۱۰۸۵ المکتب الاسلامی بیروت ۱۱ /۷۳)(مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۱۶۲)(الترغیب و الترھیب بحوالہ البزار فصل فی الشفاعۃ مصطفٰے البابی مصر۴ /۴۳۳)(المعجم الاوسط حدیث ۷۴۳۵ مکتبۃ المعارف ریاض۸ /۲۱۲)(المعجم الکبیر عن سائب بن زید حدیث ۶۶۷۳ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۷ /۱۵۵)(مسند احمد بن حنبل عن ابی موسٰی المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۰۴،چشتی)
ان حدیثوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں شفیع مقرر کردیا گیا اور شفاعت خاص مجھی کو عطا ہوگی میرے سوا کسی نبی کو یہ منصب نہ ملا ۔
ابن عباس وابوسعید وا بو موسٰی سے انہیں حدیثوں میں وہ مضمون بھی ہے جو احمد و بخاری و مسلم نے انس اور شیخین نے ابوہریرہ (رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین) سے روایت کیا کہ حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان لکل نبی دعوۃ قددعا بہا فی امتہ واستجیب لہ۱؎۔ وھذااللفظ الانس ولفظ ابی سعید لیس من نبی الا وقد اُعطی دعوۃ فتعجّلہا ۔ (ولفظ ابن عباس) لم یبق نبی الا اُعطی سؤلہ ۔ رجعنا الٰی لفظ انس والفاظ الباقین کمثلہ معنیً قال وانی اختبات دعوتی شفاعۃ لِاُمتی یوم القٰیمۃ ۔ (زاد موسٰی) جعلتہا لمن مات من امتی لایشرک باﷲ شیئا ۔
ہر نبی کے لیے ایک خاص دعا ہے جو وہ اپنی امت کے بارے میں کرچکا ہے اور وہ قبول ہوئی ہے، یہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لفظ ہیں، اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لفظ یوں ہیں کہ نہیں ہے کوئی نبی مگر یہ کہ اُسے ایک خاص دعا عطا ہوئی جسے اس نے دنیا میں مانگ لیا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے لفظ ہیں کہ کوئی نبی نہ بچا جس کو خاص دُعا عطا نہ ہوئی ہو، ہم حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے الفاظ کی طرف رجوع کرتے ہیں، باقی راویوں کے الفاظ معنی کے اعتبار سے اُن ہی کی مثل ہیں۔ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ۔ میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا رکھا ہے۔" ابو موسٰی نے اضافہ کیا کہ میں ہر اُس امتی کے لیے شفاعت کروں گا جو اس حال پر مرا کہ اﷲ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔
یعنی انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی اگرچہ ہزاروں دُعائیں قبول ہوتی ہیں مگر ایک دُعا انہیں خاص جناب باری تبارک و تعالٰی سے ملتی ہے کہ جو چاہے مانگ لو بے شک دیا جائے گا تمام انبیاء آدم سے عیسٰی تک ( علیہم الصلوۃ والسلام) سب اپنی اپنی وہ دُعا دنیا میں کرچکے اور میں نے آخرت کے لیے اٹھا رکھی، وہ میری شفاعت ہے میری امت کے لیے قیامت کے دن، میں نے اسے اپنی ساری امت کے لیے رکھا ہے جو ایمان پر دنیا سے اُٹھی ۔
(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول اﷲ تعالٰی ادعونی استجب لکم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۳۲)(صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۱۱۳)(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۰۸ )( مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخذری رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۰)(السنن الکبری کتاب الصلوۃ باب اینما ادرکتک الصلوۃ فصل الخ دارصادر بیروت ۲ /۴۳۳)(صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۳)(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۰۸)( مسند احمد بن حنبل عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۱۶،چشتی)
اے گنہگار ان اُمّت! کیا تم نے اپنے مالک و مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ کمال رأفت و رحمت اپنے حال پر نہ دیکھی کہ بارگاہِ الہٰی عزوجلالہ سے تین سوال حضور کو ملے کہ جو چاہو مانگ لو عطا ہوگا۔ حضور نے ان میں کوئی سوال اپنی ذات پاک کے لیے نہ رکھا، سب تمہارے ہی کام میں صرف فرمادیئے دو سوال دنیا میں کیے وہ بھی تمہارے ہی واسطے ، تیسرا آخرت کو اٹھا رکھا، وہ تمہاری اس عظیم حاجت کے واسطے جب اس مہربان مولٰی رؤف و رحیم آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا کوئی کام آنے والا، بگڑی بنانے والا نہ ہوگا۔( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) حق فرما یا حضرت حق عزوجل نے : عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم ۔ ( القرآن الکریم ۹/ ۱۲۸ ) ۔ اُن پر تمہارا مشقّت میں پڑنا گراں ہے ، تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر کمال مہربان ۔ قسم اس کی جس نے انہیں آپ پر مہربان کیا ہر گز ہر گز کوئی ماں اپنے عزیز پیارے اکلوتے بیٹے پر زنہار اتنی مہربان نہیں جس قدر وہ اپنے ایک امتی پر مہربان ہیں۔(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)الہٰی ! تو ہمارا عجزو ضعف اور اُن کے حقوقِ عظیمہ کی عظمت جانتا ہے۔ اے قادر ! اے واجد!ہماری طرف سے اُن پر اور اُن کی آل پر وہ برکت والی درودیں نازل فرما جو ان کے حقوق کو وافی ہوں اور ان کی رحمتوں کو مکافی ۔ سبحان اﷲ ! امتیوں نے ان کی رحمتوں کا یہ معاوضہ رکھا کہ کوئی افضلیت میں تشکیلیں نکالتا ہے۔ کوئی ان کی تعریف اپنی سی جانتا ہے، کوئی ان کی تعظیم پر بگڑ کر کرّاتاہے۔ افعالِ محبت کا بدعت نام اجلال وادب پر شرک کے احکام ۔(مضمون جاری ہے)(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment