اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی مختصر تشریح اور بعض شبہات کا ازالہ
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ، سورۃ فاتحہ آیت نمبر 4 ۔
ترجمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔
تقدیم مفعول مفید حصر ہے۔ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ تیرے غیر کی نہ عبادت کرتے ہیں اور نہ تیرے غیر سے مدد چاہتے ہیں۔ عبادت کے معنی ہیں بندگی۔ بندگی کا مفہوم ہے، غایت تذلل اور خشوع و خضوع، دوسرے لفظوں میں غایت تعظیم سے بھی اسے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ جس کا تعلق محض اعتقاد سے ہے۔ بعض لوگ عبادت کے معنی میں اعتقاد کو شامل نہیں کرتے، بلکہ محض اعمال کو عبادت قرار دیتے ہیں۔ وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اگر عبادت کے معنی میں اعتقاد کا اعتبار نہ کیا جائے اور محض عمل کو عبادت قرار دے دیا جائے تو سجدہ تحیت و تعظیم اور سجدہ عبادت سب کا ایک ہی حکم ہو، کیونکہ ہر صورت میں عمل صرف سجدہ ہے۔ لیکن بالاجماع غیر اللہ کے لئے سجدہ تحیت و تعظیم محض نا جائز و حرام ہیں اور سجدہ عبادت شرک خالص ہے۔ یہ فرق نیت اور اعتقاد کے بغیر نہیں نکل سکتا۔ ثابت ہوا کہ عبادت اعتقاد قلبی کے بغیر نہیں ہوتی۔ رہا فقہاء کرام کا بعض اعمال کو غیر اللہ کی عبادت قرار دے کر حکم تکفیر جاری کرنا، تو یاد رہے کہ وہ تکفیر فقہی ہے، کلامی نہیں، فقہاء کی بحث عمل سے ہوتی ہے۔ اعتقاد ان کا مبحث نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی تعظیم اس کی عبادت نہیں، بلکہ غایت تعظیم عبادت ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ۔ جب شعائر اللہ کی تعظیم ان کی عبادت کے بجائے قلوب کا تقویٰ ٹھہری تو اللہ کے وہ مقرب اور محبوب بندے، جن کے ساتھ شعائر دین وابستہ ہیں، کی تعظیم ان کی عبادت کیونکر قرار پا سکتی ہے؟ بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ محبوبانِ خدا تعالیٰ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے تو یقینا صحیح اور درست ہو گا ۔
استحقاقِ عبادت
پوجا ، بندگی ، غایت تعظیم انتہائے تذلل و خشوع و خضوع اور عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو اپنے وجود میں مستقل بالذات ہو، کسی کا محتاج نہ ہو۔ جس کا وجود واجب بالذات ہو گا، وہ اپنے ہر کمال اور اپنی ہر صفت میں بھی استقلالِ ذاتی سے متصف ہو گا۔ یعنی اس کا کوئی کمال اور کوئی صفت کسی کی دی ہوئی نہ ہو گی بلکہ اس کے تمام کمالات و صفات بمقتضائے ذات ہوں گے۔ جو موجود یہ شان نہیں رکھتا وہ عبادت کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ ظاہر ہے کہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی واجب الوجود ہے اور اپنے ہر کمال میں مستقل بالذات ہے۔ لہٰذا عبادت کے قابل وہی اور صرف وہی ہے۔ اسکے سوائے کسی کو معبود ٹھہرانا گویا اسے واجب الوجود اور ہر صفت میں مستقل بالذات ماننا ہے۔ اگرچہ اس ماسویٰ اللہ کو معبود ٹھہرانے والا اس کے حق میں وجوب وجود اور استقلالِ ذاتی کا عقیدہ نہ رکھتا ہو، لیکن جب وہ اسے الٰہ اور معبود سمجھتا ہے تو گویا وہ اسے واجب الوجود مستقل بالذات بھی قرار دیتا ہے۔ کیونکہ معبود برحق کا ان صفات سے متصف نہ ہونا عقلاً اور شرعاً ہر طرح محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مشرک قرار دیا جو اپنے باطل معبودوں یعنی بتوں کو اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ کہ باوجود انہیں مخلوق تسلیم کرنے کے بھی انہیں معبود مانتے تھے۔ مخلوق کا معبود ہونا عقل و شرع کی رو سے قطعاً محال اور ممتنع ہے اور شرک ہمیشہ امر ممتنع لذاتہ کا اعتقاد ہی ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس محال عقلی کے معتقدین کو مشرک قرار دیا ۔
استعانت کے معنی ہیں طلب عون یعنی مدد مانگنا، جس طرح عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی، اسی طرح استعانت بھی اسی معبودِ حقیقی کے ساتھ خاص ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبادت میں حقیقی مجازی کی تقسیم محال اور یہاں ممکن بلکہ واقع ہے۔ یعنی معبود مجازی محال ہے اور مستعان مجازی ممکن، بلکہ واقع ہے ۔
ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ استحقاقِ عبادت کیلئے استقلالِ ذاتی شرط ہے۔ جب استقلالِ ذاتی غیر کے حق میں متصور نہیں تو غیر کی معبودیت کسی اعتبار سے ممکن نہیں، البتہ استعانت میں دو پہلو نکل سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مستعان مستقل بالذات ہو، دوسرے یہ کہ اسے کسی کی مدد کرنیکی قدرت غیر مستقلہ خدا کی طرف سے عطا کیجائے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کسی بندے کو غیر مستقل قدرت عطا کر دے اور جو چیز تحت قدرت ہو وہ ممکن بالذات ہوتی ہے۔ اور کسی امر ممکن کا اعتقاد کسی صورت میں شرک نہیں ہو سکتا ۔
بعض لوگ اللہ کے مقبول بندوں کو قضائے حاجات کا وسیلہ بنانا بھی شرک سمجھتے ہیں، وہ بڑی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ بھی سخت غلطی پر ہیں، جن کے نزدیک خدا تعالیٰ کے محبوب بندوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت غیر مستقلہ کا اعتقاد بھی شرک ہے۔ ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ جب تک کسی امر ممتنع لذاتہ کا اعتقاد نہ ہو شرک نہیں ہو سکتا۔ اور ظاہر ہے کہ کسی کا وسیلہ ہونا ممکن ہے۔ اسی طرح قدرتِ غیر مستقلہ کی عطا بھی محال نہیں، تو ایسی صورت میں یہ دونوں اعتقاد کیسے شرک ہو سکتے ہیں۔ ہاں، البتہ عطائے الوہیت اور قدرتِ مستقلہ کا دینا عقلاً محال ہے۔ اس لئے جو شخص کسی مخلوق کے حق میں یہ اعتقاد رکھے گا کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ نے اس کو الوہیت کا درجہ عطا کر دیا، مستقل قدرت دے دی، وہ قطعاً مشرک قرار پائے گا۔ کیونکہ اس نے ایک ایسے امر کا اعتقاد کیا، جو عقلاً اور شرعاً ہر طرح محال اور ممتنع بالذات ہے ۔
ہمارے اس بیان سے وہ تمام شکوک و شبہات رفع ہو گئے، جنہیں بعض لوگ ناسمجھی کی وجہ سے پیش کر دیا کرتے ہیں۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ قضائے حاجات میں کسی بزرگ کو خدا کے دربار میں وسیلہ بنانا اس لئے شرک ہے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بتوں کو خدا کے دربار میں وسیلہ ہی بناتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی مشرک قرار دیا ۔
اس کا ازالہ ہمارے بیان سے ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو محض اس لئے مشرک قرار نہیں دیا کہ وہ اپنے بتوں کو اللہ کے دربار میں وسیلہ سمجھتے ہیں (اگرچہ پتھر کے بتوں کو وسیلہ سمجھنا عقل سلیم کی روشنی میں قطعاً محال ہے) بلکہ انہیں اس لئے مشرک قرار دیا کہ وہ ان کی عبادت کرتے تھے۔ کسی چیز کو وسیلہ قرار دے کر اس کی عبادت کرنا یقینا شرک ہے۔ یعنی وسیلہ بنانا شرک نہیں بلکہ اس کی عبادت کرنا شرک ہے۔ مشرکین عرب کا اپنے بتوں کی عبادت کرنا، اسی آیت میں مذکور ہے جس میں ان کے وسیلہ بنانے کا ذکر ہے۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے ان کا مقولہ اس طرح بیان فرمایا : وَمَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقِرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ۔
ترجمہ : ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں ۔
بے شک بتوں کا مقرب الی اللہ ہونا قطعاً باطل ہے لیکن مدار شرک ان کی عبادت پر ہے ، توسل پر نہیں ۔
نظام عالم پر غور کرنے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس جہان کا پورا نظم و نسق مخلوق کے باہم امداد و اعانت پر چل رہا ہے۔ ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچنا اور آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا گویا قانونِ فطرت ہے۔ کیونکہ زمین سے لے کر آسمان تک، موجوداتِ کائنات میں ارتباط پایا جاتا ہے۔ اس قانون کے بغیر ممکن نہیں ، بالخصوص بنی نوع انسان کا گزارہ تو اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر کسی مخلوق سے مدد لینا ناجائز ہو تو انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے ۔
مثال کے طور پر انسان کے ایک فرد کو لیجئے اور دیکھیے کہ اس کی ضروریاتِ زندگی کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے اس کی ولادت پر نظر کیجئے کہ والدین کے بغیر پیدا نہیں ہوا۔ پیدائش کے بعد اس کی تربیت والدین اور دیگر افراد سے متعلق ہے۔ وہ اپنی غذا، لباس، رہائش و دیگر امور میں بے شمار چیزوں کا محتاج اور لا تعداد افراد کا مرہونِ منت ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی اور بڑھاپے سے تک بلکہ پیدائش سے موت تک اور مہد یعنی گود سے لے کر لحد تک ہر مرحلے پر دوسروں کی امداد و اعانت سے وابستہ ہے ۔
اس کو غذا کیلئے غلہ کی ضرورت ہے۔ لباس کیلئے کپڑے اور جوتے کی حاجت ہے۔ بیمار ہو جائے تو علاج کیلئے طبیبوں، ڈاکٹروں اور دواؤں کا محتاج ہے۔ رہنے کے لئے مکان اور اسکی تعمیر کیلئے کاریگروں اور مزدوروں کی ضرورت ہے۔ غلہ کی پیداوار کاشتکاروں کے عمل سے متعلق ہے، آٹا پیسنے کے لئے چکی اور روٹی پکانے کے لئے باورچی کی ضرورت ہے اور کپڑا سینے کے لئے درزی کی حاجت ہے۔ جوتے کے لئے چمڑا اور چمڑے سے جوتا بنانے کے لئے کاریگر کا ہونا لازمی ہے۔ دواؤں کے حصول کے لئے ہر مرحلہ پر سینکڑوں قسم کے کارکنوں کی ضرورت درپیش ہے۔ چلنے کے لئے زمین، سانس لینے کے لئے ہوا، پیاس بجھانے کے لئے پانی، گرمی حاصل کرنے کے لئے آگ اور اسی طرح بقیہ ضروریات اجتماعی نظام کے ماتحت بے شمار افراد کی امداد و اعانت پر موقوف ہیں۔ کوئی شخص کسی کو ایک خط لکھنا چاہے تو ہزاروں افراد کی مدد اور اعانت کو حاصل کئے بغیر وہ خط نہیں لکھ سکتا۔ قلم کی تیاری، روشنائی اور کاغذ کا وجود کتنے مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچتا ہے۔ چاند سورج کی شعاعیں، شب و روز کا اختلاف، ستاروں کی گردشیں، نظام کائنات اور انسانی زندگی پر اس قدر اثر انداز ہیں کہ محتاج بیان نہیں۔ صرف زندگی نہیں بلکہ موت کے بعد بھی اس کو قبر کی منزل تک انسانوں کی مدد درکار ہے ۔
یہ تو ظاہری اعتبار سے کہا گیا، اس سے آگے بڑھ کر باطنی اور معنوی حیثیت سے نظر کیجائے تو مخلوقات کی اس مدد و اعانت کا سلسلہ اس سے بھی آگے پہنچتا ہے۔ مثلاً غذائے روح کیلئے ایک علیحدہ روحانی نظام ہے، جس کی احتیاج سے کوئی فرد خالی نہیں ہو سکتا۔ قربِ خداوندی اور معرفت الٰہی کا حصول جو عین مقصد تخلیق انسانی ہے ۔ انبیاء و رسل کرام علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ سے وابستہ ہے ۔
عبادات و معاملات و دیگر احکام شرعیہ و مسائل دینیہ وحیٔ ربانی و تعلیماتِ نبوی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر اس اجمال کی تفصیل کی جائے تو احتیاج کے دامن کی وسعت اور اس کے پورا ہونے میں افرادِ کائنات سے حصول نفع اور باہم امداد و اعانت کا اتنا طویل اور وسیع سلسلہ سامنے آجاتا ہے، جس کا احصار ممکن نہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ کسی مخلوق سے نفع و ضرر کا عقیدہ رکھنا یا غیر اللہ سے امداد و اعانت طلب کرنا شرک و کفر ہے ، انتہائی مضحکہ خیز اور لا یعنی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہاں ، اس میں شک نہیں کہ جس چیز میں جس نفع کی صلاحیت نہ ہو ، اس سے اس نفع کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا لغو اور بے ہودگی ہے ۔ مثلاً زہر سے تریاق کے نفع کی امید رکھنا ، آگ سے پانی کا کام لینا ، جہل سے حصولِ علم کی توقع قائم کرنا ، قطعاًخلافِ عقل و دانش ہے ۔ اسی طرح جس شخص کو جس کام کی قدرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا نہیں ہوئی ، اس سے وہ کام لینا یقینا حماقت ہے ۔ لیکن ایسے شخص کو بلا دلیل شرعی مطلقاً کافر و مشرک کہہ دینا بھی سراسر حماقت و جہالت ہے ۔
خلاصہ یہ کہ غیر اللہ سے مدد لینا، اس مدد کے جواز کا عقیدہ رکھنا، اسی وقت کفر و شرک قرار پا سکتا ہے، جب کہ اس غیر اللہ کو مستقل بالذات مانے اور اقصیٰ غایت تعظیم کا عقیدہ اس کے حق میں رکھے اور جب کس کو مظہر عون الٰہی تسلیم کرے اور استقلالِ ذاتی کی اس سے نفی کرتے ہوئے اسکی امداد و اعانت کا عقیدہ رکھا جائے اور اسی اعتقاد کیساتھ اس سے مدد طلب کی جائے تو ہرگز کفر و شرک نہیں ہو سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کام کا اہل نہ ہو اور اس وجہ سے یہ مدد مانگنا لغو اور بے ہودہ قرار پائے۔ مگر اس کو کفر و شرک کہنا یقینا باطل ہو گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو مظہر عون الٰہی تسلیم کر لیا جائے اور اس کے حق میں الوہیت یا لوازم الوہیت کا کوئی عقیدہ نہ ہو تو اس کی مدد اور اعانت درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی امداد و اعانت ہو گی، جو کہ ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کی مدلول ہے۔(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment