Thursday, 5 April 2018

تعظیم اور عبادت کا معنیٰ و مفہو

تعظیم اور عبادت کا معنیٰ و مفہو

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ ۔ ﴿سورہ فاتحہ آیت نمبر 4 ﴾
ترجمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ اس سے پہلی آیات میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہے جو کہ سب جہانوں کا پالنے والا، بہت مہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے اور اس آیت سے بندوں کو سکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جا سکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔

عبادت اور تعظیم میں فرق

عبادت کا مفہوم بہت واضح ہے ، سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اُس کی کسی قسم کی تعظیم کرنا ’’ عبادت‘‘ کہلات اہے اور اگر عبادت کے لائق نہ سمجھیں تو وہ محض’’ تعظیم‘‘ ہوگی عبادت نہیں کہلائے گی، جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے لیکن یہی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا اُستاد ، پیر یا ماں باپ کے لئے ہو تو محض تعظیم ہے عبادت نہیں اوردو نوں میں فرق وہی ہے جو ابھی بیان کیاگیا ہے ۔

عبادت عربی زبان کے لفظ ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے ۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں : العبادةُ أَبْلَغُ مِنْهَا لِأَنَّهَا غَايَةُ التَّذُلَّلِ . ترجمہ : عبادت عاجزی و فروتنی کی انتہا کا نام ہے ۔
(راغب اصفهانی، المفردات : 319)

عبادت عاجزی و تعظیم کی آخری حد کا نام ہے آخری حد کی تعظیم کا اظہار صرف اُسی ہستی کے لئے رَوا ہے جو معبودِ برحق ہے ۔ عبادت ، صرف ایسے فعل کا نام ہے جو کسی کی نسبت معبود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے لیے تعظیم ، عاجزی اور فروتنی کے اظہار کی خاطر صادر ہو ۔

حقیقی اَدب و اِحترام اور اِنتہائی تعظیم کی حق دار و سزا وار صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اس عظیم ہستی کی تعظیم و تکریم کا اظہار صرف عبادت کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔ عبادت ایک ایسا عمل ہے جو سراسر اللہ بزرگ و برتر کے لئے دل کی گہرائیوں سے تعظیم و تکریم اور ادب واحترام کے اعلیٰ ترین درجے سے عبارت ہے ۔ کسی اور کے لئے تعظیم اور ادب و احترام کے جتنے بھی درجے ہوسکتے ہیں وہ اس درجہ سے کم تر اور فروتر ہوں گے اور ان کی نوعیت بھی عمومی درجہ کی ہو گی۔ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی آداب میں یہ بات شامل ہے کہ افرادِ اُمت درجہ بدرجہ ایک دوسرے کی عزت و تعظیم کریں ۔ اولاد والدین کی تعظیم کرے ، شاگرد استاد کی اور چھوٹا بڑے کی ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو بڑا چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور چھوٹا بڑے کی توقیر نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ۔ (سنن ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، 4: 321، رقم: 1919،چشتی)

گویا توقیر اور تعظیم کے ساتھ ایک دوسرے سے پیش آنا معاشرتی تقاضا ہے جسے شائستگی اور تہذیب کی حدود میں رہتے ہوئے پورا کرنا ہر ایک کے لئے لازمی ہے ۔

تعظیم کا لغوی معنی و مفہوم

تعظیم کا مادہِ اِشتقاق ع، ظ، م ہے۔ عربی لغت میں : عَظُمَ يَعْظُمُ عِظَمًا و عَظَامَةً کا معنی ہے: بڑا ہونا ۔

عَظْمُ الشَّیْء کا معنی ہے: کسی چیز کا بڑا حصہ ۔

أعْظم الأمر کا معنی ہے: بڑا اہم کام ۔
(جوہری، الصحاح، 2: 130)

أعظم الشیء کا معنی ہے: کسی چیز کو بڑا بنانا، شاندار بنانا، بڑا جاننا۔

العَظَمَة ُ کا معنی ہے: شان و شوکت، وقار، بڑائی اور اہمیت ۔
(بطرس بستانی، محیط المحیط: 613)

اسی سے العَظِيْمُ ہے جس کا معنی ہے: بڑا، باوقار، اہم، زبردست ۔ (جوہری، الصحاح، 2: 130)

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَعَظُمَ الشَّيئُ أَصْلُهُ کَبُرَ عَظْمُه ثُمّ اسْتُعِيْرَ لِکُلِّ کبيرٍ فأجْرِيَ مَجْرَاه محسُوْسًا کان أومعقُوْلًا، عَيْنًا کَان أو معنی .

ترجمہ : عظم الشئ کے اصل معنی کسی کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں۔ بعد میں یہ لفظ مجازًا ہر بڑی چیز کے لئے بولا جانے لگا۔ خواہ اس کا تعلق محسوس اشیاء سے ہو یا عقل و فکر سے یا یہ کہ وہ چیز مادی اعتبار سے بڑی ہو یا معنوی اعتبار سے ۔
(أصفہانی، المفردات: 339 ،چشتی)

غور کیا جائے تو عَظُمَ سے مشتق تمام الفاظ میں بڑائی کا تصور نمایاں طور پر موجود ہے ۔ تعظیم بھی درحقیقت کسی شخص کی بلندیِ شان اور عام لوگوں سے مقام و مرتبہ میں اس کا بڑا ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اسی لئے عربی میں حکمران اور بادشاہ کو بھی تعظیما صَاحِبُ العَظَمَۃ کہا جاتا ہے : باب تفعیل میں اس کا معنی ادب و احترام کرنا ہے پس عَظَّمَهُ کا معنی ہے کسی شخص کو شان والا سمجھنا یا اس شخص کی تعظیم و احترام کرنا ۔ (بطرس بستانی، محیط المحیط: 613،چشتی)

تعظیم کا شرعی معنی و مفہوم

اَنبیائے کرام علیہم السّلام ، صالحینِ عظام ، والدین، شیوخ ، اساتذہ یا کسی اور معزز ہستی کی عزت و توقیر ، ان کا ادب و احترام ، ان کی فرمان برداری ، تعمیلِ ارشاد اور ان سے منسوب اشیاء کی حرمت وتکریم ان کی تعظیم ہے ۔ چونکہ یہ عمل درجہِ عبادت یعنی عاجزی و تذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد سے کم تر اور فروتر ہوتا ہے اور اس کی نوعیت بھی عمومی ہوتی ہے اس لئے عبادت کے زمرے میں نہیں آتا اور شرعی حوالے سے یہ ایک جائز امر ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کو ئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی تعظیم عبادت کی نیت سے ہر گز نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افعال جو بزرگوں کی تعظیم پر مبنی ہوں وہ اسلامی تعلیمات کی تعمیل ہے ۔ یہ شرک کے دائرے میں ہرگز نہیں آتے اِس لئے کہ وہ توحید سے کسی طرح بھی متعارض و متصادم نہیں ۔ ایک دوسرے کی عزت و توقیر اور ادب و احترام کے حوالے سے چند احادیث ملاحظہ کریں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ کَانَ يَوْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَـلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ کَانَ يُوْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ .
ترجمہ : جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات زبان سے نکالے یا پھر خاموش رہے۔‘‘

(صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ، 5: 2240، رقم: 5672)(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الحثّ علی إکرام الجار والضیف، 1: 68، رقم: 47،چشتی)

چھوٹوں پر رحمت و شفقت اور بڑوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احترام کا تعلق اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا، وَيَعْرِفْ شَرَفَ کَبِيْرِنَا .
ترجمہ : وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی قدر و منزلت نہ پہچانے ۔
(سنن ترمذی ، کتاب البر والصلۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان، 4: 322، رقم: 1920)(سنن أبوداود ، کتاب الأدب، باب فی الرحمۃ، 4: 286، رقم: 4941)(مسند أحمد بن حنبل، 2:222، رقم: 7073،چشتی)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک کے مطابق تعظیم حکمِ شریعت ہے ۔ اگر یہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہوتا تو کسی فرد کو کسی دوسرے کی تعظیم کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ لہٰذا تعظیم نہ صرف شرعی واجبات میں سے ہے بلکہ مطلقاً مطلوب و مقبول عمل ہے جسے ترک کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اُمت سے خارج ہے۔ تعظیم کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اپنے استاد، بزرگ، والد یا کسی اور معزز ہستی کی تعظیم بجا لاتے ہیں جو بالکل جائز اور صائب عمل ہے جس کی شریعتِ مطہرہ نے تعلیم و تلقین کی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کے لئے بھی ایسی تعظیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو عبادت کے درجے کو پہنچ جائے اور نہ ہی کوئی مؤمن شخص عبادت کی نیت سے کسی کی تعظیم کرنے کا تصور کرسکتا ہے۔ تعظیم کے ان دونوں انتہائی درجوں میں تمیز کرنا اور فرق روا رکھنا لازمی ہے۔ اس لیے ہر تعظیم کو عبادت نہیں کہا جا سکتا۔ ایک وحدہ لاشریک ہستی کے لئے بجا لائی جانے والی بلند ترین تعظیم ہی کو عبادت سے موسوم کیا جائے گا ۔

تعظیم کے اِطلاقات

عبادت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے جبکہ تعظیم کے اطلاقات بہت سے ہیں ۔ اس بنیادی فرق اور واضح امتیاز کو سمجھے بغیر اکثر لوگ تعظیم کو عبادت کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں اور یہیں سے مغالطوں کا لا متناعی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ توحید اور تعظیم کی بحث میں تعظیم کی مختلف شکلوں پر الگ الگ روشنی ڈالیں ۔ کیونکہ یہی شکلیں تعظیم کی اَقسام بھی ہیں اور اس کے مختلف اطلاقات بھی ۔ اس کی انہی حالتوں اور صورتوں کو سمجھے بغیر سطح بِین لوگ تعظیم کو اوّلاً عبادت سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس عبادت پر شرک کو چسپاں کر دیا جاتا ہے ۔

استحقاقِ عبادت

پوجا، بندگی ، غایت تعظیم انتہائے تذلل و خشوع و خضوع اور عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو اپنے وجود میں مستقل بالذات ہو، کسی کا محتاج نہ ہو۔ جس کا وجود واجب بالذات ہو گا، وہ اپنے ہر کمال اور اپنی ہر صفت میں بھی استقلالِ ذاتی سے متصف ہو گا۔ یعنی اس کا کوئی کمال اور کوئی صفت کسی کی دی ہوئی نہ ہو گی بلکہ اس کے تمام کمالات و صفات بمقتضائے ذات ہوں گے۔ جو موجود یہ شان نہیں رکھتا وہ عبادت کے لائق نہیں ہو سکتا ۔

ظاہر ہے کہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی واجب الوجود ہے اور اپنے ہر کمال میں مستقل بالذات ہے ۔ لہٰذا عبادت کے قابل وہی اور صرف وہی ہے ۔ اس کے سوائے کسی کو معبود ٹھہرانا گویا اسے واجب الوجود اور ہر صفت میں مستقل بالذات ماننا ہے۔ اگرچہ اس ماسویٰ اللہ کو معبود ٹھہرانے والا اس کے حق میں وجوب وجود اور استقلالِ ذاتی کا عقیدہ نہ رکھتا ہو ، لیکن جب وہ اسے الٰہ اور معبود سمجھتا ہے تو گویا وہ اسے واجب الوجود مستقل بالذات بھی قرار دیتا ہے ۔ کیونکہ معبود برحق کا ان صفات سے متصف نہ ہونا عقلاً اور شرعاً ہر طرح محال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مشرک قرار دیا جو اپنے باطل معبودوں یعنی بتوں کو اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کی پوجا کرتے تھے ۔ کہ باوجود انہیں مخلوق تسلیم کرنے کے بھی انہیں معبود مانتے تھے۔ مخلوق کا معبود ہونا عقل و شرع کی رو سے قطعاً محال اور ممتنع ہے اور شرک ہمیشہ امر ممتنع لذاتہ کا اعتقاد ہی ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس محال عقلی کے معتقدین کو مشرک قرار دیا ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...