Wednesday 4 April 2018

امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور شرک

0 comments
امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور شرک

دورحاضرمیں خارجی نئے ناموں اور نئے لباس میں سامنے آ چکے ہیں ، شرک و بدعت کا نام لے کر ، اپنے گمراہ کن عقائد باطلہ کو ہمارے بھولے بھالے مسلمانوں میں پھیلا کر ان کے قلوب سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زوال کے لئے مصروف عمل ہیں حالانکہ ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کریمہ بھی ہوتی ہے،کہ امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی شرک کرہی نہیں سکتی جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں : صَلَّی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَتْلَی أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِی سِنِینَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْیَاءِ وَالْأَمْوَاتِ ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ إِنِّی بَیْنَ أَیْدِیکُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَیْکُمْ شَہِیدٌ وَإِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْحَوْضُ وَإِنِّی لَأَنْظُرُ إِلَیْہِ مِنْ مَقَامِی ہَذَا وَإِنِّی لَسْتُ أَخْشَی عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا وَلَکِنِّی أَخْشَی عَلَیْکُمْ الدُّنْیَا أَنْ تَنَافَسُوہَا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آٹھ برس کے بعد احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی ،جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو رخصت کرتا ہے پھر واپس آکر منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ : میں تمہارا پیش خیمہ ہوں تمہارے اعمال کا گواہ ہوں اور میری اور تمہاری ملاقات حوض کوثر پر ہوگی اور میں تو اسی جگہ سے حوض کو ثر کو دیکھ رہا ہوں مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو ۔ (بخاری شریف۔ رقم الحدیث3736۔ جلد 12 صفحہ 436۔مکتبۃالشاملۃ)۔(صحیح بخاری صفحہ 993 دار ابن کثیر بیروت)

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطاء کی گئیں ، مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔ (صحیح بخاری صفحہ 885 دار ابن کثیر بیروت)

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔(صحیح مسلم صفحہ 1149 دارالفکر بیروت)

محترم قارئین : ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اعلان فرمادیا ،کہ میری امت سے مجھ کو شرک کا خوف نہیں ہے
پھر آج گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ٹولہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اقدس کے خلاف جا کر آپ (علیہ السلام) کی امت پر شرک کے الزامات کیوں لگاتا ہے ؟ آخرکچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے چنانچہ اس سلسلے میں یہ حدیث کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں حضرت حذیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اِنَّ مَا اَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ قَرَۃَ الْقُرْآنَ حَتَّی اِذَا رُءِیَتْ بَھْجَتُہُ عَلَیْہِ وَ کَانَ رِدْءًا لِلْاِسْلَامِ غَیْرَہُ اِلَی مَاشَاءَ اﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْہُ وَ نَبَذَہُ وَرَاءَ ظُھْرِہِ وَ سَعَی عَلَی جَارِہِ بِالسَّیْفِ وَرَمَاہُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اﷲِ، اَیُھُمَا اَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِیُّ اَمِ الرَّامِی قَالَ : بَلِ الرَّامِی ۔
ترجمہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اوراس پر شرک کا الزام لگایا راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ،کہ اے اﷲ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا ؟ شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،کہ شرک کا الزام لگانے والا ۔ ( صحیح ابن حبان ۔رقم الحدیث81۔جزء 1۔صفحہ157۔مکتبۃالشاملۃ)

مذکورہ بالا دو احادیث کریمہ آپ بغورمطالعہ فرمائیں ، تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی ، کہ جو لوگ شرک و بدعت کے نعرے لگا کراس کی آڑ میں لوگوں کوگمراہی پر مائل کرتے ہیں درحقیقتا یہی لوگ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موجب ہیں ، یعنی یہی لوگ مرتکب شرک ہوتے ہیں ۔ نہ صرف مرتکب شرک ، بلکہ یہی لوگ ، جناب رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کے سلسلے میں بھی منکر ہوتے ہیں ، چہ جائیکہ وہ کتنی ہی نمازیں کیوں نہ پڑھ لیں ، کتنی ہی عبادات کیوں نہ کرلے ، مگر دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن نہ ہونے کی بنا پردخول فی الاسلام سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ یاد رہے کہ ایمان و اسلام کا تعلق عشق ومحبت پرمبنی ہے یعنی اسلام و ایمان تب ہی معتبر ہے جب دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو ورنہ اگرفقط عبادات کو معیار بنایا جائے اور دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہو ، تو واضح رہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ عبادات ، اگرکسی نے کی ہے ، تو وہ شیطان ہے ، جس کا اتنا مرتبہ تھا کہ وہ معلم الملائکۃ کہلایا جاتا تھا ، یعنی ملائکہ کو علم سکھاتا تھا ، لیکن بارگاہ الٰہی سے اگر مردودوملعون ہوابھی ، توفقط اسی وجہ سے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے نبی علیہ السلام کی تعظیم نہ کی ۔

یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ ایک لمحہ کے لئے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے ۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں عدم شرک دنیا پرستی اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کے لئے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام کے لئے ہے۔ اگر جمیع امت کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ اور اگر صرف صحابہ کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کے لئے ہے ۔ پس معنی یہ ہوگا اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کردیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوگی۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں تو
پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے ۔

آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے ۔ آپ لوگوں کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرمادیا۔ لہٰذا امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہئے اور جو حضور نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرامینِ اقدس کو جھوٹا کہے یا اپنے دلائل دے کر جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرے اس پر اللہ عزوجل ، اس کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ۔ خارجیوں سے ہوشیار رہیں اور قطعی طور پر ان سے کوئی حدیث قبول نہ کریں کیونکہ حدیث کی آڑ میں یہ لوگ فتنہ خارجیت کا غلط انجکشن آپکو لگا کر آپکا ایمان برباد کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔