Tuesday 3 April 2018

موجودہ بناؤ سنگھار کے فوائد و نقصانات طبی و شرعی لحاظ سے

0 comments
موجودہ بناؤ سنگھار کے فوائد و نقصانات طبی و شرعی لحاظ سے

زیب و زینت اور ظاہری خوشنمائی مردوں کی بنسبت عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، بناؤسنگھار کا مقصود خود کا چہرہ، ہاتھ، بال وغیرہ کی خوشنمائی ہوتی ہے، رب کی دی ہوئی فطری نعمتوں پر مصنوعی اشیاء چڑھا کر اعضاء کی رنگت و ہیئت بدلنے کا نام زینت نہیں ہے ، ظاہر جسم اور اعضاء کا بھدا پن دور کرنے کا نام زینت ہے ۔ مثلا ناخن بڑھ جائیں تو کاٹ لینا، چہرہ کی جلدی خرابی دور کرنے کے لئے دوا کا استعمال، اور دھو ، دھلاکر چہرہ ، ہاتھ، پاؤں صاف رکھنا ، زیر بغل ، زیر ناف بالوں کا ازالہ کرنا ، ان سب امور پر عمل آوری زینت کہلاتی ہیں ۔

ناخن پالش

فی زمانہ نیل پالش کا رجحان نہ صرف بڑھ چکا ہے بلکہ اسے ضروریات زندگی میں لازم سمجھا جارہا ہے، نیل پالش میں شرعی و طبی ہر دو اعتبار سے نقصان پایا جاتا ہے۔ شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناخن پالش ایک نئی ایجاد ہے، صحابیات و صالحات کی اشیاء زینت میں یہ شامل نہیں تھا اور نہ ہی ناخن رنگنے کا مزاج تھا، البتہ مہندی سے ناخن رنگے جاتے تھے، صحابیات کی زندگی کے قدم بقدم چلنے والی خواتین کو ان کا نفس اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ انہیں وہ کام کرنا چاہئے جو امہات المؤمنین و صحابیات نے نہیں کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ نیل پالش کے لئے ناخن بڑھائے جاتے ہیں جو عین خلاف سنت ہے،کم از کم ہفتہ میں ایک بار ناخن تراشنا سنت میں داخل ہے، ناخن تراشنے کا حکم اور اس کے فوائد ہمیں احادیث شریفہ میں ملتے ہیں، جیسا کہ مروی ہے:عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس من الفطرة الاستحداد والختان وقص الشارب ونتف الابط وتقلیم الاظفار۔ ترجمہ ؛ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا ؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پانچ عادات فطرت میں سے ہیں ، زیرناف بال نکالنا ، ختنہ کرنا، مونچھ کم کرنا ، زیربغل بال نکالنا، ناخن نکالنا۔ ﴿جامع ترمذی ، باب ماجاء فی تعلیم الاظفار ، حدیث ؛ 2981،چشتی)

عن انس بن مالک عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ وقت لھم فی اربعین لیلة تقلیم الاظفار واخذ الشارب وحلق العانة ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے ناخن نکالنے ، مونچھ ترشوانے ، زیرف بال نکالنے کے لئے زیادہ سے زیادہ چالیس دن کا وقت مقرر فرمایا۔ ﴿جامع ترمذی ، باب فی التوقیت فی تعلیم الاظفار ، حدیث نمبر؛ 2983،چشتی)

جو ناخن بڑھ جاتے ہیں انہیں کاٹ لینا چاہئے کیونکہ ناخنوں پر شیطان سوار ہوتا ہے جیساکہ احیاء العلوم میں ہے ؛ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اباھریرة اقلم اظفارک فان الشیطان یقعد علی ماطال منھا ۔ ﴿احیاء العلوم ، فیما یحدث فی البدن من الاجزاء ، ج1ص150،چشتی)

دور جاہلیت میں ناخن تراشنے، دانت صاف کرنے کا تصور بھی نہیں تھا، دین قیم نے ناخن تراشنے، مسواک کرنے، فاسد بال نکالنے کو فطرت قرار دیا، نیل پالش کی خاطر ناخن لامبے رکھنا کیا خلاف فطرت و شریعت نہیں؟جسم ظاہر کی زینت کا تو ہم نے خیال کیا لیکن حسن باطن کو بگاڑ دیا ۔

شرعی اعتبار سے تیسری خرابی یہ ہے کہ نیل پالش ناخن تک پانی پہنچنے سے روکتا ہے، ناخن پر پالش ہو اور حالت جنابت طاری ہو تو لاکھ بدن دھو لیا جائے پاکی حاصل نہ ہوگی، اسی طرح وضو بھی نہ ہوگا اور بے وضو و بے غسل نماز بھی ادا نہ ہوگی ۔

اس وقت سائنسی دنیا یہ کہتی ہے کہ دیگر جسمانی اعضاء کی طرح ناخن بھی زندہ ہوتے ہیں اور انہیں بھی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پانی کے طلب گار بھی ہوتے ہیں،نیل پالش سے ناخن نہ ہوا پاتے ہیں اور نہ پانی،چنانچہ اس کا اثر جلد اور جسم پر پڑتا ہے، عموما ہاتھوں کے جلدی امراض نیل پالش کے سبب آتے ہیں ۔

اس کے علاوہ محققین طبیات کی تحقیق نے بتایا ہے کہ نیل پالش میں کچھ کمیکل ہوتے ہیں جو امراض کا باعث ہیں، خصوصا اس کا اثر، ہارمونری سسٹم پر پڑتا ہے۔
نیل پالش کا استعمال نقصان دہ ہے تو مہندی سے ناخنوں کو رنگت دی جاسکتی ہے، اس سے نہ شرعی مخالفت ہوگی نہ طبی نقصان ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خواتین کےلیئے مطب فیض چشتی کی طرف سے نکھار حسن کورس تیار کیا گیا ہے جو بالکل بے ضرور ہے اور قدرتی حسن کو بحال کرتا ہے مکمل ایک ماہ کورس صرف تین ہزار روپئے میں گھر بیٹھے منگوانے کےلیئے ہمارے ان نمبرز پر رابطہ فرمائیں : 0321،0308،5555970 ۔03458018584،03037555506 ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔