مصابیح السنہ پر امام ابن حجر عسقلانی کے زمانے میں ایک عالم دین نے ان کی روایت کردہ مصابیح کی بعض احادیث کو امام ابن جوزی اور دیگر ائمہ کا حوالہ دے کر رد کیا کہ یہ احادیث موضوع ہیں لہذا ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے امام ابن حجر عسقلانی کو ایک خط لکھا آپ نے اس کے جواب میں ایک رسالہ (خط) لکھا جو مشکوۃ المصابیح نسخہ ہندیہ جلد5، مطبوعہ دار ابن حزم (بیروت)، مکتبہ التوبہ (الریاض، سعودی عرب) کے آخر پر موجود ہے چونکہ یہ مشکوۃ المصابیح کا حصہ نہیں اس لئے مشکوۃ کے ہر نسخہ میں موجود نہیں ہے۔ اس رسالہ (خط) کا نام ’’اَجْوِبَه اَلْحَافِظْ اِبْنُ الْحَجر العَسْقَلانِیْ عَنْ اَحَادِيْثِ الْمَصَابِيْح‘‘ ہے۔ اس رسالہ میں امام ابن حجر عسقلانی نے مصابیح السنہ پر وارد ہونے والے سوالات کے جوابات ہیں۔ مصابیح السنہ کی بعض احادیث کو موضوع قرار دیتے ہوئے اعتراض کرنے والے صاحب نے مختلف ائمہ کرام کے اقوال درج کئے ہیں کہ فلاں فلاں ائمہ نے ان احادیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ جن احادیث کو موضوع قرار دیا گیا ان میں مناقب حضرت علی رضی اللہ عنہ، باب الحب فی الله والبغض فی الله اور مختلف احادیث شامل ہیں۔ امام عسقلانی نے ان سوالات کے جوابات اپنے اس رسالے میں دیئے۔
جو مضمون میں نے آپ کے سامنے ضعیف، حسن، صحیح، موضوع کے حوالے سے بیان کیا اگر اس کو امام ابن حجر عسقلانی کی زبان میں پڑھنا ہو تو یہ مکمل رسالہ علمی اعتبار سے بڑی عجیب و مفید اور عظیم الشان تحریر کا حامل ہے، جس میں امام ابن حجر عسقلانی نے ان تمام احادیث کے حوالے سے مکمل حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کی۔
اگر کسی محدث نے کسی حدیث کے حوالے سے لکھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس حدیث کا متن ضعیف ہے یا متن قبول نہ ہوگا۔ محدث کا کسی حدیث کو ضعیف لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے اور اس سے بھی مراد صرف وہ ایک سند ہے جس کو آپ اس وقت اس حدیث کے متن کے حوالے سے پڑھ رہے ہیں۔ اس حدیث کو ضعیف لکھنے والا اپنا کوئی حکم اور فیصلہ باقی اسانید کی نسبت نہیں دے رہا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی سند کے مطابق وہ حدیث دیگر کتب حدیث میں ائمہ حدیث نے اپنی اپنی اسانید اور طرق کے ساتھ بااختلاف الفاظ بھی روایت کی ہو اور وہ حدیث صحیح یا حسن ہو۔ وہ ضعیف ہونے کا حکم صرف اس ایک سند پر دے رہا ہے، اعتراض کرنے والوں نے باقی احادیث کی کتنی کتب کھنگال کر دیکھ لی ہیں کہ کیا یہ احادیث دیگر طرق و اسانید سے بھی کتابوں میں آئی ہیں؟ اور اگر آئی ہیں تو ان اسانید کا درجہ کیا ہے؟ یہ فن امام ابن حجر عسقلانی نے اپنے اس رسالہ میں بتایا ہے کہ جب آپ تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے بحث کرتے ہیں تو کسی حدیث کو کلیتاً ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہوئے اجتناب کریں گے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اگر اس سند کی بنیاد پر تم اس حدیث کو ضعیف قرار دے رہے ہو تو یہ قوی سند کے ساتھ فلاں کتاب میں بھی آئی ہے۔۔۔ یہ سند ضعیف ہے تو یہ زیادہ احسن، جید سند کے ساتھ فلاں کتاب میں آئی ہے۔۔۔ اگر یہ سند موضوع بن گئی ہے، اس میں کوئی راوی کذاب آگیا ہے تو یہی مضمونِ حدیث دیگر طرق اور حسن و صحیح اسانید کے ساتھ بھی آیا ہے۔
حتی کہ اگر کسی حدیث کے آگے موضوع کا لفظ بھی لکھ دیا جائے تو محدثین نے کہا ہے کہ وہ موضوع بھی سند کے اعتبار سے ہے، متن کے اعتبار سے نہیں۔ جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو کہ یہ متناً بھی موضوع ہے۔ وہ مضمون بااختلاف الفاظ دوسرے قوی اور مقبول طریق کے ساتھ آگیا تو ایک کا موضوع لکھنا کوئی معنی نہیں رکھے گا۔
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
قَدِاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّه لَا يُعْمَلُ بِالْمَوْضُوْع.
’’اس پر اتفاق ہے کہ اگر حدیث موضوع ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا‘‘۔
وَاِنَّمَا يُعْمَلُ بِالضَّعِيِفِ فِی الْفَضَائِلِ وَفِی التَّرْغِيْبِ وَالتَّرْهِيْب.
’’حدیث ضعیف ہو تو فضائل، ترغیب اور ترہیب میں اس حدیث پر عمل کیا جائے گا‘‘۔
سائل کو مخاطب کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ تم نے فلاں حدیث کو موضوع لکھ دیا ہے، تم نے تو صرف ایک سند دیکھی ہے، یہ حدیث ائمۃ الاسلام اور حفاظ نے اپنے اپنے طریق سے الگ روایت کی ہے وہ تو تم نے دیکھی نہیں۔ آپ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فلاں حدیث جس کو تم نے موضوع قرار دیا، اس کو ابو داؤد نے سنن میں، ترمذی نے جامع میں، ابن خزیمہ نے صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں الگ سند سے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح الاسناد ہے۔
امام ابن حجر نے اس طرح تمام احادیث پر بحث کی ہے اور ہر جگہ یہ نکتہ سمجھایا ہے کہ صرف ایک سند پر جو حکم ہے اس کا اطلاق تمام اسانید پر کرتے ہوئے فیصلہ نہیں کرتے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment