اولاد کے رشتے کرتے وقت ضرور احتیاط کیجیئے
جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے‘ ہماری مضبوط نسبت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے کل تک تھی‘ وہ کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے‘ جب نسبت و محبت میں کمی واقع ہوئی تو حق اور باطل میں تمیز بھی ختم ہوگئی ۔ پاکیزگی اور گندگی میں تمیز ختم ہوگئی۔ ہم بدمذہبوں سے تعلقات استوار کرنے لگے۔ انہیں اپنی پیاری پیاری بیٹیاں دینے لگے‘ ان کی بیٹیاں لینے لگے اور یوں پوری نسل کی بربادی کا سامان تیار کرلیا۔
آج ہم معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات صاف اور واضح نظر آتی ہے کہ فلاں صاحب کی لڑکی کی شادی کسی بدمذہب سے ہوئی تھی‘ آج اس کی لڑکی بدمذہب ہوچکی ہے۔ ابا جان پر شرک و بدعت کے فتوے لگاتی ہے پھر اس کے یہاں پیدا ہونے والی اولاد بھی بدمذہب بن جاتی ہے۔
فلاں صاحب کا لڑکا پہلے سنی صحیح العقیدہ تھا‘ بدمذہب گھرانے کی لڑکی سے اس کا رشتہ ہوا اور لڑکا بھی کچھ عرصے بعدبدمذہب ہوگیا‘ پھر اس طرح اسکی اولاد بھی بدمذہب ہوگئی۔
آج ہم معاشرے کے رنگ میں ایسے رنگ چکے ہیں کہ مسلک حق اہلسنت کے چمپئن بننے والے معتبر حضرات بھی اس آندھی میںبہہ گئے۔ انہوں نے بھی اپنی نسبت کا لحاظ نہیں رکھا اور اپنی لڑکیوں کو بدمذہب گھرانے میں بیاہ دیا۔
ہم لڑکے سے رشتے کرتے وقت سب کچھ پوچھتے ہیں‘ اس کی تنخواہ‘ بھائی‘ بہنوں‘ صحبت اور دوستوں کے متعلق مکمل جانکاری کرتے ہیں مگر سب سے اہم اور قیمتی چیز اس لڑکے کا ایمان و عقیدہ نہیں پوچھتے جس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اس سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ اس کو نظر انداز کیاجاتا ہے۔
یہ وہ مسئلہ ہے جس کا ہم سب شکار ہیں۔ ہماری اسی نااہلی کی وجہ سے آج پورے کے پورے گھرانے بدمذہب و بے دین ہوچکے ہیں ‘ والدین کے گھر میلاد ہو تو سسرالی اپنی بہو کو جانے سے روک دیتے ہیں‘ نیاز کا کھانا بھجوایا جائے تو واپس کروایا دیا جاتا ہے۔ یوں سنی صحیح العقیدہ والدین کی بیٹی بدمذہبوں کی ہوکر رہ جاتی ہے پھر اس کی اولاد بھی بدمذہب ہوجاتی ہے۔
میرا سوال ان والدین سے ہے جن کی اولاد شادی کے بعد بدمذہب ہوچکی ہے۔ والدین کو مشرک کہتی ہے آخر اس بھولی بھالی لڑکی کو بدعقیدگی کے طوفان میں دھکیلنے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے ایمان کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی اولاد کے عقائد کی خرابی کا ذمے دار کون ہے؟
یہی سوالات سنی والدین سے قیامت کے دن پاک پروردگار جل جلالہ نے کرلئے تو والدین کیا جواب دیں گے؟
کیا ہم نے اپنی بیٹی یا بیٹے کا رشتہ بدمذہبوں سے طے کرتے وقت کبھی یہ سوچا یہ تمام باتیں مدنظر رکھیں؟ اگر نہیں تو پھر سوچئے اور نیت کریں کہ ہم جب بھی رشتہ طے کریں گے تو رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکا یا لڑکی سے اس طرح پوچھیں گے۔
بیٹا: آپ کیا کام کرتے ہیں؟ پھر باتیں کرتے کرتے پوچھ لیں کہ بیٹا! آپ کے یہاں کبھی میلاد یا گیارہویں ہوتی ہے؟ آپ کبھی اس میں شرکت کرتے ہیں؟ کیا آپ کے گھر والے ان محافلوں میں شرکت کرتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات میں اس کا عقیدہ واضح ہوجائے گا۔ معلوم ہوجائے گا کہ اس کا عقیدہ کیا ہے۔ یہ طریقہ کار اپناکر ہم معاشرے کو بدعقیدگی کی غلاظت سے بچا سکتے ہیں اپنی اولاد اور نسلوں کے ایمان و عقائد کی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اپنی اولاد کو بچپن ہی سے اسلامی عقائد کی تعلیم دیں۔ ان کی ذہن سازی کریں‘ وہابیوں‘ دیوبندیوں‘ شیعوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی گستاخیاں‘ بداعتقادیاں اور ان کے کفریہ عقائد بچوں کو بتائیں تاکہ انہیں حق اور باطل کی پہچان ہوسکے اور یہی خوش عقیدہ اولاد آپ کی بخشش کا بھی ذریعہ بنے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بدمذہبوں کی دوستی‘ محبت اور ان کے مکروفریب سے محفوظ فرمائے۔آمین‘ ثم آمین ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
اب میں آپ کو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں لے جاتا ہوں کیونکہ امتی کے لئے سب سے مقدم اس کے آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا فرمان ہوتا ہے۔
حدیث شریف: حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا اور بدمذہبوں کے ساتھ نہ بیٹھو‘ ان کے ساتھ کھانا نہ کھائو اور پانی نہ پیو اور شادی بیاہ نہ کرو‘ میل جول نہ کرو اور ان کے بیماروں کی عیادت نہ کرو اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو اور مرجائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھو (بحوالہ: صحیح ابن حبان 277/1‘ سنن البیہقی الکبریٰ 205/10)
اس حدیث کو پڑھ کر بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ کفار کے متعلق ہے کہ ان سے میل جول اور شادی بیاہ نہ کرو۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا کفار کبھی نماز پڑھتے ہیں؟ کیا ان پر نماز پڑھی جاتی ہے؟ لہذا معلوم ہوا کہ بعض نمازیں پڑھنے والے بھی بدمذہب ہیں‘ ان سے رشتہ ناطہ جوڑنا سخت منع ہے۔
دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے بدمذہب سے شادی کرنے کے بارے میں فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : کہ کیا تم میں کسی کو پسند آتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہن کسی کتے کے نیچے بچھے! تم اسے برا جانو گے (سنن ابن ماجہ‘ ابواب النکاح‘ ص 139‘ مسند احمد 86/1 دارالفکر بیروت لبنان)
یعنی بدمذہب جہنم کے کتے ہیں اور انہیں بیٹی یا بہن دینا ایسا ہے جیسے کتے کے تصرف میں دیا لہذا ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ بدمذہبوں سے میل جول رکھنا اور ان سے رشتہ ناطہ جوڑنا سخت ممنوع ہے۔
موجودہ دور کے گستاخ فرقے جن میں دیوبندی جنہوں نے گستاخیاں کی گستاخانہ عبارات لکھیں یا ان کو مانا ‘ وہابی (غیر مقلد)‘ شیعہ‘ بوہری‘ قادیانی اور مودودی شامل ہیں‘ یہ تمام بدمذہب ہیں ۔ ان سے رشتہ ناطہ جوڑنا منع ہے۔ یہ تمام بدمذہب ہم اہلسنت و جماعت سنی حنفی بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والوں بدعتی اور مشرک کہتے ہیں۔
ان فرقوں کے نزدیک نذرونیاز کرنا‘ مزارات پر حاضری دینا‘ بزرگوں کے وسیلے سے دعائیں مانگنا‘ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کہنا‘ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محافل کا انعقاد کرنا‘ بزرگوں کی دست بوسی کرنا‘ مقدس راتوں کو عبادات کے ساتھ زندہ رکھنا‘ عطائی علم غیب ماننا‘ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام کی حیات ماننا‘ بزرگوں کے اعراس‘ برسی‘ سوئم اور چہلم کا انعقاد‘ چار خلفائے راشدین کو برحق ماننا اور ختم نبوت پر یقین رکھنا بدعت اور گمراہی ہے۔
کیا ہمیں ایسے عقائد رکھنے والوں کو اپنی بیٹی دینی چاہئے یا ان کا بیٹا یا بیٹی لینی چاہئے؟ نہیں ہرگز نہیں! کیونکہ ہماری یہی خوش عقیدہ بیٹی کل اپنے شوہر اور سسرال کے رنگ سے رنگ جائے گی اور ہم پر شرک و بدعت کا فتویٰ لگائے گی۔
اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوگا پھر کچھ نہ ہوسکے گا۔ وہ صاف صاف آپ سے کہہ دے گی کہ میں اپنے شوہر اور سسرالیوںکو نہیں چھوڑ سکتی؟ اس وقت والدین ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو کو گمراہ فرقوں کے شر سے بچائے آمین ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment