Thursday, 6 July 2017

تراجم قرآن کا تقابلی جائزہ (حصّہ سوم )


(9)لا اقسم بھذا البلد ( پ30، سورۃ بلد، آیت 1)
ترجمہ : قسم کھاتا ہوں اس شہر کی اور تجھ کو قید نہ رہے اس شہر میں۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : قسم کھاتا ہوں میں اس شہر کی اور تو داخل ہونے والا ہے بیچ اس شہر کے۔ ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ : قسم می خورم بایں شہر ۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)
ترجمہ : میں قسم کھاتا ہوں اس شہر مکہ کی۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی)
ترجمہ : میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ ( محمود الحسن)
ترجمہ : ہم اس شہر مکہ کی قسم کھاتے ہیں۔ ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی)
ترجمہ : قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ ( مودودی وہابی)
ترجمہ : مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
اللہ تعالٰی کھانے پینے سے پاک ہے : انسان قسم کھاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں قسم کھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی کھانے پینے سے بے نیاز ہے مترجمین کرام نے اپنے محاورہ کا اللہ کو کیوں پابند کیا۔ کیا اس لئے کہ اس بےنیاز نے کچھ کھایا نہیں تو کم سے کم ہی کھائے۔ ایسی بھی کیا بے نیازی کہ کچھ نہیں کھایا، یا اس باریک مسئلہ کی طرف عام مترجمین کی توجہ نہیں۔ اعلٰی حضرت نے کس خوش اسلوبی سے ترجمہ فرما دیا۔ مجھے اس شہر کی قسم۔

(10) ایاک نعبد و ایا ک نستعین (پ1، سورۃ فاتحہ، آیت4) ترجمہ) ترامی پر ستم واز تومدمی طلہم (شاہ ولی اللہ )
ترجمہ)ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ( فتح محمد جالندھری)
ترجمہ) تجھ ہی کو عبادت کرتے ہیں ہم اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ہم۔ ( شاہ رفیع الدین محمود الحسن دیوبندی)
ترجمہ) ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کرتے ہیں۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)
ترجمہ) ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔ ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
دعا : سورہ فاتحہ، سورۃ الدعا ہے۔۔۔۔ دعا کے دوران دعائیہ کلمات کہے جاتے ہیں۔ خبر نہیں دی جاتی۔ جب کہ تمام تراجم میں خبر کا مفہوم ہے دعا کا نہیں اور ظاہر ہے عبادت کرتے ہیں۔ مدد چاہتے ہیں۔ دعائیہ کلمات نہیں ہیں یہ کلمات خبر کے ہیں جب کہ اعلٰی حضرت نے دعائیہ کلمات سے ترجمہ کیا ہے-(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

(11) ایھا النبی (پارہ 10 سورہ انفال آیت 64 )
ترجمہ : اے نبی ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اے نبی ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : اے پیغامبر ( شاہ ولی اللہ)
ترجمہ : اے پیغمبر ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : اے نبی ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : اے نبی ( اشرف علی تھانوی دیوبندی )
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
قرآن کریم میں لفظ رسول اور نبی متعدد مقامات پر آیا ہے ، مترجم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا ترجمہ کرے ، رسول کا ترجمہ پیغمبر تو ظاہر ہے مگر نبی کا ترجمہ پیغمبر نامکمل ہے ، اعلٰی حضرت لفظ نبی کا ترجمہ اس اسلوب سے کیا ہے کہ لفظ کی معنویت اور حقیقت آشکار ہوکے سامنے آگئی ، مگر افسوس بعض لوگوں کو اس ترجمہ بہت صدمہ ہوا ہے کہ ان کی تنگ نظری اور بد عقیدگی کا جواب ترجمہ اعلٰی حضرت سے ظاہر ہوگیا۔
مفردات امام راغب میں ہے : والنبوۃ سفارۃ بین اللہ و بین ذوی العقول من عبادہ لا زاحۃ علتھم فی امر معادھم و معاشھم والنبی لکونہ منبا بما تسکن الیہ العقول الزکیۃ و ھو یصح ان یکون فعیلا، بمعنی فاعل لقو لہ بناء عبادی الخ۔
( نبوت اللہ تعالٰی اور اس کے ذوی العقول بندوں کے درمیان سفارت کو کہتے ہیں تاکہ ان کی تمام آخرت اور دنیا کی معاشی بیماریوں کو دور کیا جائے اور نبی خبر دیا ہوا ہوتا ہے ایسی باتوں کا جن پر صرف عقل سلیم اطمینان کرتی ہے اور یہ لفظ اسم فاعل بھی صحیح ہے اس لئے کہ بناء کا حکم آیا ہے۔)

(12) بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ : شروع کرتا ہوں میں‌ساتھ نام اللہ بخشش کرنے والے مہربان کے ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ :‌ شروع اللہ نہایت رحم کرنے والے کے نام سے ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں ( اشرف علی تھانوی دیوبندی )
ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
تمام اردو تراجم ملاحظہ کیجیے ۔ سب نے اسی طرح ترجمہ کیا ہے شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے یا شروع ساتھ نام اللہ کے ۔ چنانچہ مترجم کا قول خود اپنی زبان سے غلط ہوگیا ، کیونکہ شروع کرتا ہوں سے ترجمہ شروع کیا ہے اللہ کے نام سے شروع نہیں کیا ، اس پر طرّہ یہ کہ جناب اشرف تھانوی صاحب نے آخر میں ہیں بڑھادیا ان کے تلامذہ یا معتقدین بتائیں کہ ہیں کس لفظ کا ترجمہ ہے ۔ فافھم ۔

(13) وما اھل بہ لغیر اللہ (پ 2 سورہ بقرہ ‘ آیت 173)
ترجمہ : اور جس پر نام پکارا اللہ کے سوا کا- (شاہ عبد القادر )
ترجمہ : اور جس جانور پر نام پکارہ جائے اللہ کے سوا کسی اور کا- (محمود الحسن )
ترجمہ : اور جو کچھ پکارا جاوے اوپر اس کے واسطے غیر اللہ کے - ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ : وا آنچہ نام غیر خدا بوقت ذبح او یادکردہ شود-(شاہ ولی اللہ)
ترجمہ : اور جو جانور غیر اللہ کے لئے نا مزد کر دیا گیا ھو-(عبد الماجد دریا بادی دیو بندی )
ترجمہ : اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ھے - ( اشرف علی تھانوی دیو بندی )
ترجمہ : اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا ھو- ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
کسی پر غیر خدا کا نام حرام نھیں ورنہ ھر چیز حرام ھو گی - جانور کبھی شادی کے لئے نا مزد ہوتا ھے کبھی عقیقہ،ولیمہ،قربانی، اور ایصال ثواب کے لئے مثلا گیارھویں شریف ، با رھویں شریف تو گویا ہر جانور جو ان مذکورہ ناموں پر نا مزد کیا گیا ہے وہ مترجمین کے نزدیک حرام ھے - اعلٰی حضرت نے حدیث و فقہ و تفسیر کے مطا بق ترجمہ کیا ‘‘جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا ھو‘‘ - اس ترجمہ سے وما اھل بہ لغیر اللہ کا مسئلہ واضح ھو گیا -(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قران کریم کا تفسیری ترجمہ نہ کہ لفظی ترجمہ : اگر قران کریم کا لفظی ترجمہ کر دیا جائے تو اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوں گی - کھیں شان الوہیت میں بے ادبی ہو گی تو کہیں شان انبیاء میں اور کہیں اسلام کا بنیادی عقیدہ مجروح ہوگا ۔ چنانچہ آپ مندرجہ بالا تراجم پر غور کریں تو تمام مترجمین نے قرآنی لفظ کے اعتبار سے براہ راست اردو میں ترجمہ کیا ہے مگر اس کے با وجود تراجم کانوں پر گراں ہیں اور اسلامی عقیدے کی رو سے مذ ہبی عقیدت کو سخت صدمہ پہنچ رہا ہے ۔

(14) کیا آپ پسند کریں گے ؟ کہ کوئی کہے ‘ اللہ ان سے ٹھٹھا کرتا ہے ، اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے، اللہ ان سے دل لگی کرتا ہے ، اللہ انھیں بنا رہا ہے ، اللہ ان کی ہنسی اڑاتا ہے،-
آیت کر یمہ اللہ یستھزئ بھم ( پ 1 ، سورہ بقرہ، آیت ؛ 15 ) کا اکثر مترجمین نے یھی ترجمہ کیا ہے۔ ان میں مشھو ر ڈپٹی نذیر احمد صاحب دیو بندی ، شیخ محمود الحسن صاحب و فتح محمد جا لند ھری و عبد الماجد دیو بندی دریا بادی ، مرزا حیرت دہلوی ( غیر مقلّد) و نواب و حیدالزّمان، سر سیّد احمد صاحب علی گڑھی ( نیچری) ، حضرت شاہ رفیع الدین صاحب وغیرہ ھیں۔

(15) اسی طرح ایک مشہور آیت ہے، ثم استوی علی العرش پ 8، سورہ الاعراف، آیت: 54- لفظ استوٰی قرآن کریم میں متعدد مقامات پرآیا ہے- اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا ہے، پھر قائم ہوا تخت پر، (عاشق الٰہی) پھر قرار پکڑا اوپر عرش کے، (شاہ رفیع الدین ) پھر اللہ عرش بریں پر جا برا جا، ( ڈپٹی نذیر احمد )‘ پھر بیٹھا تخت پر‘ ( شاہ عبدالقادر ) ‘ پھر تخت پر چڑھا‘ ( نواب وحید الزّمان غیر مقلّد ) ‘ پھر عرش پر دراز ہو گیا‘ ( وجدی صاحب و محمد یوسف صاحب کا کوری )-

(16) اسی طرح آیت فاینما تو لوا فثم وجہ اللہ پ1، سورہ بقرہ، آیت:115میں وجہ اللہ کا ترجمہ اکثر مترجمین نے کیا ہے۔ اللہ کا منہ، اللہ کا رخ- چنانچہ شاہ رفیع الدین صاحب نے ترجمہ فرمایا ہے، ‘ پس جدھر کو منہ کرو پس وہیں ہے منہ اللہ کا۔ اللہ کا چہرہ ہے۔ ( نواب و حید الزمان غیر مقلد و محمد یوسف صاحب ) ‘ ادھر اللہ ہی کا رخ ہے‘ ( شیخ محمود الحسن و عاشق الٰہی دیوبندی صاحبان، ومولانا اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی ) ‘ ادھر اللہ کا سامنا ہے ‘ ( ڈپٹی نذیر احمد و مرزا حیرت غیر مقلّد دہلوی و سیّد عرفان علی شیعہ ) مذکورہ بالا تمام تراجم پڑھنے کے بعد اعلٰی حضرت، عظیم البرکت کا ترجمہ دیکھئے کہ ہر سہ آیات میں سے کسی آیت کا انہوں نے اردو میں ترجمہ نہیں کیا۔ اس لئے کہ قرآنی الفاظ ‘ استوٰی ‘ - استھزا‘ - ‘ وجہ اللہ‘- کا ترجمہ کرنے کیلئے اردو میں ایسا کوئی لفظ نہیں کہ لفظی ترجمہ کر کے مترجم شرعی گرفت سے اپنے کو محفوظ کر سکے- لٰہذا اعلٰی حضرت نے بلفظہ ترجمہ فرمایا ہے-1: ‘ اللہ ان سے استہزا فرماتا ہے‘ ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے )- 2: پھر عرش پر استوار فرمایا‘ ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ) 3: ‘ تو تم جدھر منہ کرو ادھر وجہ اللہ ہے‘ ( خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے )- اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا لفظی ترجمہ کرنا ہر موقع پر تقریباً نا ممکن ہے- ان مواقع پر ترجمہ کا حل یہ ہے کہ تفسیری ترجمہ کیا جائے تا کہ مطلب بھی ادا ہو جائے اور ترجمہ میں کسی قسم کا سقم باقی نہ رہے۔ اعلٰی حضرت کے ایمان افروز ترجمہ کہ خوبیوں کو دیکھ کر یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ تمام تراجم قرآن میں ایک معیاری ترجمہ ہے جو ترجمہ کی غلطیوں سے مبرّا ہے۔ ( دیگر مترجمین نے خالق کو مخلوق کے درجے میں لا کھڑا کیا )۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...