قبر کے پاس اور قبر والوں کےلیئے تلاوت کرنا
تلاوت قرآن مجید سے قاری کو ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں مل جاتی ہیں ۔ تو جو شخص تلاوت کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچاتا ہے، اﷲ رب العزت اس کا ثواب دوسروں کو دیتا ہے اور پڑھنے والے کو بھی پورا پورا ثواب ملتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے : عن انس ان رسول اﷲ قال من دخل المقابر فقرا سورة يسين خفف اﷲ عنهم وکان له بعدد من فيها حسنات ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قبر ستان میں گیا اور سورہ یٰسین تلاوت کی تو اﷲ تعالیٰ قبور پر عذاب میں تخفیف فرما دے گا، جبکہ پڑھنے والے کو بھی اس کے اندر جتنی نیکیاں ہیں مل جائیـں گی ۔(شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، 1: 304، دارالمعرفة، لبنان امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ)
عن عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنهما يقول سمعت النبي يقول اِذا مات احدکم فلا تجسوه واسرعوا به اِلی قبره واليقرا عند راسه بفاتحه الکتاب وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره
ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے روک نہ رکھو بلکہ اسے قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کی قبر پر اس کے سر کی جانب سورہ فاتحہ اور اس کے پاؤں کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔(المعجم الکبیر طبرانی ، 12: 444، رقم: 13613، مکتبة الزهراء، الموصل) (شعب الایمان بیہقی ، 7: 16، رقم: 9294، دارالکتب العلمیة، بیروت)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، مشکوٰۃ المصابیح کی شرح اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : میت کے لئے قرآن کا ایصال ثواب کرنے اور اسے ثواب پہنچنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحیح قول یہ ہے کہ ثواب پہنچتا ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پھر آگے قبر پر قرآن خوانی کے جواز کے حوالے سے فرماتے ہیں : اور قبر پر قرآن پڑھنا مکروہ نہیں ہے، یہی صحیح ہے۔ جیسا کہ شیخ ابن الہمام نے ذکر کیا ہے ۔
(اشعة اللمعات، 1: 697، منشي نولکشور لکهنوو، الهند)
الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للخلال ( متوفی 311 ھجری ) باب قرآت فی عندالقبور (ص: 89) میں ہے : أَخْبَرَنِي رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ الصَّبَّاحِ الزَّعْفَرَانِيَّ، يَقُولُ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ عَنِ الْقِرَاءَةِ، عِنْدَ الْقُبُورِ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ ۔ ( اسنادہ صحیح :- رجال کلھم ثقات)
ترجمہ : امام زاعفرانی رحمتہ اللہ علیہ اپنے استاد امام شافعی رحمتہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کی قرآت عندالقبور یعنی قبر کے پاس تلاوت قرآن میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اسی کتاب میں امام احمد، امام یحیی بن معین اور مشھور تابعی ابراہیم نخعی اور صحابی رسول حضرت ابن عمر رضی اللہ سے بھی قرآت عندالقبور کے جواز کا قول صحیح سند سے مروی ہے ۔
بدعت و حرام کے فتوے دینے والے غیر مقلد وہابی اور مقلد وہابی دیوبندی اب کیا کہیں گیں ؟
اس تمام تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ : مرنے والے کے لیئے تلاوت قرآنِ مجید باعثِ اجر و ثواب ہے ، خواہ ایک سورہ ہو یا زیادہ ، قبر کے قریب کھڑے ہوکر تلاوت کی جائے یا فاصلے پر ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment