نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (حصّہ اوّل)
کچھ لوگوں نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو کم کرنے کی نا پاک جسارت کی ہے ان کی کتابوں کو پڑھ کر اپنے ایمان کو ضائع نہ کریں۔ ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے لکھی ہوئی کتابوں کو بھی دیکھیں اور ان کے مقابل مدارج النبوۃ اور ’’ضیاء النبی‘‘ کو بھی پڑھیں خود بخود نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کن حضرات نے عشقِ رسول، محبت رسول میں ڈوب کر علم و عرفان کے سمندر سے موتی نکال کر پیش کیے اور کن لوگوں نے زہر پر مٹھائی چڑھا کر لوگوں کے ایمان کو قتل کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ بات صرف قسمت کی ہے کسی کی قسمتیں رب تعالیٰ نے یہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ وہ دن رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو تلاش کرتا رہتا ہے اسی میں اس کی عمر بیت جاتی ہے۔ اور کچھ کم بختوں کی عمر اس میں گزرجاتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقص تلاش کرتے رہتے ہیں۔ فضائل پر مشتمل احادیث اور اقوال علماء و صلحاء ان کی عقلوں میں انہیں ضعیف نظر آتے ہیں اور بتوں کے حق میں نازل شدہ آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو عجز و انکساری پر مشتمل ہیں وہ انہیں حقیقت نظر آتے ہیں۔ سیدھے سادے لوگوں کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ واقعہ درست نہیں‘‘ اس طرح کے گمراہ کن ہتھکنڈے ان کا وطیرہ ہے۔ الا مان والحفیظ
تخلیق اول نورِ محمدی: ’’وروی عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللہ قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذالک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذالک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا منٰک ولا سماء ولا ارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انس‘‘ (زرقانی ج ۱ ص ۴۹، الانوار المحمدیۃ ص ۱۳، موھب) عبد الرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے یہ خبر دیجیے کہ تمام چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسے پیدا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جابر بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر وہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جہاں بھی اسے منظور تھا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اور نہ جنت اور نہ دوزخ اور نہ فرشتے اور نہ آسمان اور نہ زمین اور نہ سورج اور نہ چاند اور نہ جن اور نہ انسان تھے۔ خیال رہے کہ یہ حدیث مولوی اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں بھی نقل کی ہے۔ ’’عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اللہ ﷺ انہ قال انی عند اللہ مکتوب خاتم النبین وان آدم لمنجدل فی طینتہ‘‘ (شرح السنۃ، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، مواھب مع زرقانی ص ۳۹) حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی تک اپنے خمیر میں تھے۔ مولوی اشرف تھانوی صاحب دیوبندی اپنی کتاب نشر الطیب میں بیان کرتے ہیں کہ اسے احمد، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور مشکوۃ میں یہ حدیث شرح السنہ سے مذکور ہے۔ اس حدیث پاک کی وضاحت میں استاذ المکّرم حضرت علامہ ابوالحسنات محمد اشرف سیالوی صاحب مدظلہ العالیٰ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث پاک سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحقیقاً آدم علیہ السلام سے قبل نبی ہونا بھی ثابت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہونا بھی ثابت موجود ہونا بھی ثابت اور آپ کی حقیقت کا نور ہونا بھی ثابت کیونکہ بشروں کا باپ بعد میں پیدا کیا جارہا ہے اور آپ کی حقیقت پہلے ہی موجود متحقق تھی اور ان صفات کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی‘‘۔ اس مقام پر مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے بیان کردہ نکتہ اور ایک تو ہم کا ازالہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں: ’’اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ شائد مراد یہ ہے کہ میرا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ سو اس لیے آپ کے وجود کا تقدم آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا۔ جواب یہ ہے اگر یہ مراد ہوتی تو آپ کی کیا تخصیص تقدیر تمام اشیاء مخلوقہ کی ان کے وجود سے مقدم ہے پس یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہ کے ثبوت کی پس اس سے آپ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا اور چونکہ مرتبہ بدن متحقق نہیں ہوتا اس لیے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہو گیا‘‘۔ اس سوال و جواب نے واضح کردیا کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محض علم الٰہی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ خارج اور واقع میں آپ کا نور انور اور روح اقدس اور حقیقت محمدیہ اس کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی اور یہی ہمارا نظریہ و عقیدہ ہے کہ بشریت کے لحاظ سے اولاد آدم بھی ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے اصل موجودات ہیں اور آدم علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اس لحاظ سے آپ بنیاد ہیں۔ یہی تھانوی صاحب ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں سوال یہ ہے جب انبیاء موجود ہوتے تو ان کے خاتم کا موجود ہونا بھی متصور ہوسکتا تھا جب ان کا بلکہ ان کے والد اور معدن واصل کا وجود نہیں تھا تو آپ خاتم النبیین کس طرح ہوگئے تھانوی صاحب کی زبانی سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں۔ ’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس برس کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب نبیوں کے بعد مبعوث ہوئے اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا یہ وصف تو خود تاخیر کو مقتضی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر مرتبہ ظہور میں ہے مرتبہ نبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ مل جائے تو تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھی بھیجے کے بعد‘‘۔ یعنی جس طرح اس تحصیلدار کے منصب کا لوگوں کو علم اس وقت ہوگا جب وہ تحصیل میں جاکر چارج سنبھالے گا اس وقت معلوم کریں گے کہ یہ ہمارے تحصیلدار صاحب ہیں حالانکہ سرکار کے نزدیک وہ اس وقت سے تحصیلدار ہے جب سے اسے نامزد کیا گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین کے مرتبہ پر اس وقت فائز ہوچکے تھے جب آدم علیہ السلام ہنوز عالم آب وگل میں تھے اگرچہ لوگوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپ کا ظہور ہوا، الغرض ظہور اگرچہ بعد میں ہوا لیکن وجود پہلے تھا اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ حقیقت نوریہ کے لحاظ سے آپ اصل موجودات اور بنیاد آدم علیہ السلام ہیں اگرچہ ظہور اور نشاۃ دینویہ کے لحاظ سے اولاد آدم ہیں۔ (تنویر الابصارص ۱۹) عن ابی ھریرہ قال قالوا یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ قال و آدم بین الروح والجسد (ترمذی، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، زرقانی ج ۱ ص ۳۴)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی آپ نے فرمایا جس وقت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی ان کے جسم میں جب جان بھی نہیں آئی تھی میں اس وقت سے نبی ہوں۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ایسے ہی الفاظ سے میسرہ ضبی کی روایت ہے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تاریخ اور ابو نعیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حلیہ میں اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو تصریح کی ہے۔ صحابہ کرام کے پوچھنے اور سوال کرنے سے کہ آپ کب سے نبی بنے ہیں۔ پتہ چل گیا کہ جن کے گھر آپ پیدا ہوئے اور عمر شریف کے چالیس سال گزارے تھے اور اس قدر طویل عرصہ گزار نے کے بعد نبوت کا اعلان فرمایا جب وہ اس طرح کا سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کب سے نبی ہیں؟ معلوم ہوا ان کے ایمان نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ نبوت کا اعلان اور اظہار چالیس سال کے بعد کیا لیکن آپ نبی بنے ہوئے پہلے کے تھے انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اعلان نبوت و رسالت کب فرمایا؟ بلکہ پوچھا ہے ..... ’’متی وجبت لک النبوۃ یا رسول اللہ‘‘ آپ کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کس وقت سے ثابت ہے؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب کہ میں اس وقت سے نبی ہوں جب تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسم میں پھونکی نہیں گئی تھی صحابہ کرام کے اس نظریہ و عقیدہ پر مہر تصدیق ہے کہ تم نے درست سمجھا واقعی میں عمر شریف کے چالیس سال گزار کر نبی نہیں بنا بلکہ اس وقت سے یہ منصب اور اعزاز مجھے حاصل ہے جب کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے تن بدن میں جان نہیں آئی تھی۔ اس روایت کو ترمذی شریف میں نقل کیا گیا ہے اور ترمذی شریف حدیث کی وہ کتاب ہے کہ جس کے متعلق محدثین نے فرمایا جس کے گھر میں یہ کتاب موجود ہو وہ یوں سمجھے کہ رب تعالیٰ کا رسول میرے گھر میں موجود اور تشریف فرما ہے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت بھی نہیں کہا اور ضعیف بھی نہیں کہا بلکہ انہوں نے اس کو حسن کہا ہے اصول حدیث میں یہ واضح ہے کہ حسن حدیث حجت و دلیل اور سند ہوسکتی ہے۔ اور پھر اشرف علی تھانوی صاحب نے تصریح کردی ہے کہ میسرہ ضبی کی روایت میں بھی اسی طرح کے الفاظ آتے ہیں گویا یہ روایت دو صحابیوں سے مروی ہوئی اس طرح کل چار صحابیوں (حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت ابوھریرہ اور حضرت میسرہ ضبی رضی اللہ عنہم) کی شہادت اور گواہی اب تک آچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں اس کو امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے جو اہل سنت کے چوتھے امام ہیں اور امام ابو حنیفہ، امام ابو مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا درجہ ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی تاریخ میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے استاد ابو نعیم نے اس کو حلیہ میں نقل کیا ہے اور حاکم جیسے محدث نے اس کی تصحیح کی ہے۔ حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ وہ محدث ہیں جس نے بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ و مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ سے رہ جانے والی صحیح احادیث کو جمع کیا ہے اور اس کتاب کا نام مستدرک رکھا ہے۔ (تنویر الابصار ص ۲۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور و بشر ہونا: قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مسئلہ پر دلیل قائم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر بشری ہے اور باطن نوری ہے۔ ’’کما قال ﷺ تنام عینی ولا ینام قلبی یعنی فیما یدل علی ان باطنہ ملکی وظاھرہ بشری‘‘ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ کا باطن ملکی (فرشتوں کی طرح نورانی) ہے اور آپ کا ظاہر بشری ہے قاضی شہاب خفاجی فرماتے ہیں: ’’وکذالک سائر الانبیاء تنام اعینھم دون قلوبھم کما ورد مصر حابہ فی حدیث البخاری‘‘ اسی طرح دوسرے تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتے ہیں۔ جس طرح بخاری کی حدیث میں صراحتاً ذکر ہے۔ یعنی تمام انبیائے کرام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا ظاہر بشر اور باطن نور ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نور من نور اللہ ہے اور تمام کائنات کے لیے اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے یعنی آپ کا نور تمام انبیائے کرام کی نورانیت کا بھی اصل ہے۔ ’’وھذا دلیل علی ان ظاھرہ ﷺ بشری وباطنہ ملکی ولذا قالوا ان نومہ لا ینقض الوضوء کما صرحوا بہ ولا یقاس علیہ غیرہ من الامۃ کما توھم ونوضأ بعد نومہ استحبابا او تعلیما لغیرہ اولعروض ما یقتضیہ‘‘ (نسیم الریاض ج ۳ ص ۵۴۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار ہوتا ہے یہ دلیل ہے اس پر کہ آپ کا ظاہر بشری ہے اور باطن ملکی نورانی ہے اسی وجہ سے محدثین کرام فقہاء عظام نے اتفاقی طور پر ارشاد فرمایا کہ بے شک آپ کی نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند پر آپ کے کسی امتی کی نیند کو قیاس نہیں کیا جاسکتا یعنی صحابہ کرام اولیائے کرام اور امت کے کسی فرد کو بھی یہ مقام حاصل نہیں اگر کسی صحابی یا ولی کے متعلق کوئی یہ کہے کہ اس کی نیند سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا یہ اس کا وہم ہوگا غلط سوچ ہو گی اس شخص کی بات کو تسلیم نہ کیا جائے۔ خیال رہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نیند سے ان کے وضو نہیں ٹوٹتے تھے میں نور الایضاح کے عربی حاشیہ ذیعۃ النجاح میں بفضلہ تعالیٰ اسے ذکر کیا ہے جبکہ ہدایہ تک تمام فقہی کتب کے محشی حضرات اسے ذکر نہ کرسکے یا دیدہ دانستہ ذکر نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگنے کے بعد وضو کرتے تھے آپ کا یہ وضو کرنا وجوبی طور پر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مستحب سمجھ کر آپ وضو کرتے یا تعلیم امت کے لیے یا آپ کو چونکہ معلوم ہوتا تھا کہ سوتے ہوئے کوئی چیز وضو کے خلاف سرزد ہوئی ہے اس لیے آپ کبھی کبھی اپنے علم کے مطابق وضو ٹوٹنے کی وجہ سے وضو کرتے ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کا ثبوت قرآن پاک سے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌo (پ ۶ سورۃ المائدۃ آیت ۱۵) بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تین قول ملتے ہیں ایک عام مفسرین کا جنہوں نے نور سے مراد نبی کریم اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا ہے دوسرا قول معتزلہ کا ہے جنہوں نے نور اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا تیسرا قول محققین کا ہے جیسے علامہ آلوسی اورملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ انہوں نے نور اور کتاب مبین دونوں سے ہی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’قد جاء کم من اللہ نور عظیم وھو نور الانوار والنبی المختارﷺ‘‘ نور سے مراد نور عظیم ہے جو سب نوروں کا نور ہے۔ یعنی تمام نوروں کا اصل ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ’’والی ھذا ذھب قتادہ و اختارہ الزجاج‘‘ یہی قول قتادہ کا ہے اور ز جاج نے بھی اسی قول کو مختار قرار دیا ہے۔ ’’وقال ابو علی الجبائی عنی بالنور القرآن لکشفہ واظھارہ طرق الھدی والیقین واقتصر علی ذالک زمحشری وعلیہ فالعطف فی قولہ تعالیٰ وکتاب مبین لتنزیل المغایرۃ بالعنوان منزلۃ المغایرۃ بالذات‘‘ ابو علی جبائی نے کہا ہے نور سے مراد بھی قرآن ہے کیونکہ قرآن ہدایت و یقین کے راستوں کو ظاہر کرنے والا ہے اور منکشف کرنے والا ہے اس لیے اسے نور کہا گیا ہے زمحشری نے بھی اسی قول پر اقتصار کیا ہے اس قول پر بظاہر ایک اعتراض تھا کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے جب معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد قرآن پاک ہے لیکن دو نام علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں علیحدہ علیحدہ عنوان کی وجہ سے جو مغائرت پائی گئی ہے وہ مغائرت ذاتی کے درجے میں ہے۔ ’’واما علی الاول فھو ظاھر‘‘ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے جس میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مرد قرآن پاک ہے۔ ’’وقال الطیبی انہ اوفق لتکریر قولہ سبحانہ قد جاء کم بغیر عطف فعلق بہ اولا وصف الرسول والثانی وصف الکتاب‘‘ علامہ طیّبی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ پہلے ’’قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا‘‘ ذکر کیا گیا ہے اور پھر بغیر حرف عطف کے’’ قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللہِ نُوْرٌ‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہی ذات ہے اس لیے حرف عطف ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ولا یبعد عندی ان یراد بالنور والکتاب المبین النبی ﷺ والعطف علیہ کالعطف علی ماقالہ الجبائی ولا شک فی صحۃ اطلاق کل علیہ علیہ الصلوۃ والسلام‘‘ میرے نزدیک یہ کوئی بعید بات نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد ایک ذات کیسے؟ تو اس کا ہم بھی وہی جواب دیں گے جو جبائی نے دیا ہے کہ عنوان کی مغائرت کو مغائرت کے درجے میں رکھ کر عطف کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔(از روح المعانی پ ۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں کا اطلاق کیسے صحیح ہے؟ اس کا جواب ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے آپ فرماتے ہیں: ’’ای مانع من ان یجعل النعتان للرسول ﷺ فانہ نور عظیم لکمال ظھورہ بین الانوار وکتاب مبین حیث انہ جامع لجمیع الاسرار ومظھر للاحکام والا حوال والا خبار‘‘ (شرح شفا ج ۱ ص ۴۲) نور اور کتاب مبین دونوں صفتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنانے میں کون سا مانع موجود ہے؟ یعنی کوئی مانع نہیں؛ کیونکہ آپ نور عظیم ہیں اس لیے کہ سب نوروں سے آپ کا نور زیادہ ظاہر ہے۔ اور آپ کتاب مبین (روشن کتاب) ہیں کیونکہ آپ تمام اسرار کے جامع ہونے کی وجہ سے کتاب ہیں اور تمام احکام احوال اور اخبار کے ظاہر کرنے کی وجہ سے ’’مبین‘‘ ہیں۔ تنبیہ: مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ آیت کریمہ میں نور سے مراد قرآن پاک جبائی اور زمحشری نے لیا ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ معتزلہ کے رئیس ہیں عام اہل علم کا قول یہ ہے کہ نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک اور محققین حضرات نے دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
کچھ لوگوں نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو کم کرنے کی نا پاک جسارت کی ہے ان کی کتابوں کو پڑھ کر اپنے ایمان کو ضائع نہ کریں۔ ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے لکھی ہوئی کتابوں کو بھی دیکھیں اور ان کے مقابل مدارج النبوۃ اور ’’ضیاء النبی‘‘ کو بھی پڑھیں خود بخود نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کن حضرات نے عشقِ رسول، محبت رسول میں ڈوب کر علم و عرفان کے سمندر سے موتی نکال کر پیش کیے اور کن لوگوں نے زہر پر مٹھائی چڑھا کر لوگوں کے ایمان کو قتل کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ بات صرف قسمت کی ہے کسی کی قسمتیں رب تعالیٰ نے یہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ وہ دن رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو تلاش کرتا رہتا ہے اسی میں اس کی عمر بیت جاتی ہے۔ اور کچھ کم بختوں کی عمر اس میں گزرجاتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقص تلاش کرتے رہتے ہیں۔ فضائل پر مشتمل احادیث اور اقوال علماء و صلحاء ان کی عقلوں میں انہیں ضعیف نظر آتے ہیں اور بتوں کے حق میں نازل شدہ آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو عجز و انکساری پر مشتمل ہیں وہ انہیں حقیقت نظر آتے ہیں۔ سیدھے سادے لوگوں کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ واقعہ درست نہیں‘‘ اس طرح کے گمراہ کن ہتھکنڈے ان کا وطیرہ ہے۔ الا مان والحفیظ
تخلیق اول نورِ محمدی: ’’وروی عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللہ قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذالک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذالک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا منٰک ولا سماء ولا ارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انس‘‘ (زرقانی ج ۱ ص ۴۹، الانوار المحمدیۃ ص ۱۳، موھب) عبد الرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے یہ خبر دیجیے کہ تمام چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسے پیدا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جابر بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر وہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جہاں بھی اسے منظور تھا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اور نہ جنت اور نہ دوزخ اور نہ فرشتے اور نہ آسمان اور نہ زمین اور نہ سورج اور نہ چاند اور نہ جن اور نہ انسان تھے۔ خیال رہے کہ یہ حدیث مولوی اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں بھی نقل کی ہے۔ ’’عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اللہ ﷺ انہ قال انی عند اللہ مکتوب خاتم النبین وان آدم لمنجدل فی طینتہ‘‘ (شرح السنۃ، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، مواھب مع زرقانی ص ۳۹) حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی تک اپنے خمیر میں تھے۔ مولوی اشرف تھانوی صاحب دیوبندی اپنی کتاب نشر الطیب میں بیان کرتے ہیں کہ اسے احمد، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور مشکوۃ میں یہ حدیث شرح السنہ سے مذکور ہے۔ اس حدیث پاک کی وضاحت میں استاذ المکّرم حضرت علامہ ابوالحسنات محمد اشرف سیالوی صاحب مدظلہ العالیٰ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث پاک سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحقیقاً آدم علیہ السلام سے قبل نبی ہونا بھی ثابت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہونا بھی ثابت موجود ہونا بھی ثابت اور آپ کی حقیقت کا نور ہونا بھی ثابت کیونکہ بشروں کا باپ بعد میں پیدا کیا جارہا ہے اور آپ کی حقیقت پہلے ہی موجود متحقق تھی اور ان صفات کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی‘‘۔ اس مقام پر مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے بیان کردہ نکتہ اور ایک تو ہم کا ازالہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں: ’’اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ شائد مراد یہ ہے کہ میرا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ سو اس لیے آپ کے وجود کا تقدم آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا۔ جواب یہ ہے اگر یہ مراد ہوتی تو آپ کی کیا تخصیص تقدیر تمام اشیاء مخلوقہ کی ان کے وجود سے مقدم ہے پس یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہ کے ثبوت کی پس اس سے آپ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا اور چونکہ مرتبہ بدن متحقق نہیں ہوتا اس لیے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہو گیا‘‘۔ اس سوال و جواب نے واضح کردیا کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محض علم الٰہی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ خارج اور واقع میں آپ کا نور انور اور روح اقدس اور حقیقت محمدیہ اس کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی اور یہی ہمارا نظریہ و عقیدہ ہے کہ بشریت کے لحاظ سے اولاد آدم بھی ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے اصل موجودات ہیں اور آدم علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اس لحاظ سے آپ بنیاد ہیں۔ یہی تھانوی صاحب ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں سوال یہ ہے جب انبیاء موجود ہوتے تو ان کے خاتم کا موجود ہونا بھی متصور ہوسکتا تھا جب ان کا بلکہ ان کے والد اور معدن واصل کا وجود نہیں تھا تو آپ خاتم النبیین کس طرح ہوگئے تھانوی صاحب کی زبانی سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں۔ ’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس برس کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب نبیوں کے بعد مبعوث ہوئے اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا یہ وصف تو خود تاخیر کو مقتضی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر مرتبہ ظہور میں ہے مرتبہ نبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ مل جائے تو تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھی بھیجے کے بعد‘‘۔ یعنی جس طرح اس تحصیلدار کے منصب کا لوگوں کو علم اس وقت ہوگا جب وہ تحصیل میں جاکر چارج سنبھالے گا اس وقت معلوم کریں گے کہ یہ ہمارے تحصیلدار صاحب ہیں حالانکہ سرکار کے نزدیک وہ اس وقت سے تحصیلدار ہے جب سے اسے نامزد کیا گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین کے مرتبہ پر اس وقت فائز ہوچکے تھے جب آدم علیہ السلام ہنوز عالم آب وگل میں تھے اگرچہ لوگوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپ کا ظہور ہوا، الغرض ظہور اگرچہ بعد میں ہوا لیکن وجود پہلے تھا اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ حقیقت نوریہ کے لحاظ سے آپ اصل موجودات اور بنیاد آدم علیہ السلام ہیں اگرچہ ظہور اور نشاۃ دینویہ کے لحاظ سے اولاد آدم ہیں۔ (تنویر الابصارص ۱۹) عن ابی ھریرہ قال قالوا یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ قال و آدم بین الروح والجسد (ترمذی، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، زرقانی ج ۱ ص ۳۴)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی آپ نے فرمایا جس وقت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی ان کے جسم میں جب جان بھی نہیں آئی تھی میں اس وقت سے نبی ہوں۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ایسے ہی الفاظ سے میسرہ ضبی کی روایت ہے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تاریخ اور ابو نعیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حلیہ میں اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو تصریح کی ہے۔ صحابہ کرام کے پوچھنے اور سوال کرنے سے کہ آپ کب سے نبی بنے ہیں۔ پتہ چل گیا کہ جن کے گھر آپ پیدا ہوئے اور عمر شریف کے چالیس سال گزارے تھے اور اس قدر طویل عرصہ گزار نے کے بعد نبوت کا اعلان فرمایا جب وہ اس طرح کا سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کب سے نبی ہیں؟ معلوم ہوا ان کے ایمان نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ نبوت کا اعلان اور اظہار چالیس سال کے بعد کیا لیکن آپ نبی بنے ہوئے پہلے کے تھے انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اعلان نبوت و رسالت کب فرمایا؟ بلکہ پوچھا ہے ..... ’’متی وجبت لک النبوۃ یا رسول اللہ‘‘ آپ کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کس وقت سے ثابت ہے؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب کہ میں اس وقت سے نبی ہوں جب تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسم میں پھونکی نہیں گئی تھی صحابہ کرام کے اس نظریہ و عقیدہ پر مہر تصدیق ہے کہ تم نے درست سمجھا واقعی میں عمر شریف کے چالیس سال گزار کر نبی نہیں بنا بلکہ اس وقت سے یہ منصب اور اعزاز مجھے حاصل ہے جب کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے تن بدن میں جان نہیں آئی تھی۔ اس روایت کو ترمذی شریف میں نقل کیا گیا ہے اور ترمذی شریف حدیث کی وہ کتاب ہے کہ جس کے متعلق محدثین نے فرمایا جس کے گھر میں یہ کتاب موجود ہو وہ یوں سمجھے کہ رب تعالیٰ کا رسول میرے گھر میں موجود اور تشریف فرما ہے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت بھی نہیں کہا اور ضعیف بھی نہیں کہا بلکہ انہوں نے اس کو حسن کہا ہے اصول حدیث میں یہ واضح ہے کہ حسن حدیث حجت و دلیل اور سند ہوسکتی ہے۔ اور پھر اشرف علی تھانوی صاحب نے تصریح کردی ہے کہ میسرہ ضبی کی روایت میں بھی اسی طرح کے الفاظ آتے ہیں گویا یہ روایت دو صحابیوں سے مروی ہوئی اس طرح کل چار صحابیوں (حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت ابوھریرہ اور حضرت میسرہ ضبی رضی اللہ عنہم) کی شہادت اور گواہی اب تک آچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں اس کو امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے جو اہل سنت کے چوتھے امام ہیں اور امام ابو حنیفہ، امام ابو مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا درجہ ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی تاریخ میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے استاد ابو نعیم نے اس کو حلیہ میں نقل کیا ہے اور حاکم جیسے محدث نے اس کی تصحیح کی ہے۔ حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ وہ محدث ہیں جس نے بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ و مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ سے رہ جانے والی صحیح احادیث کو جمع کیا ہے اور اس کتاب کا نام مستدرک رکھا ہے۔ (تنویر الابصار ص ۲۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور و بشر ہونا: قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مسئلہ پر دلیل قائم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر بشری ہے اور باطن نوری ہے۔ ’’کما قال ﷺ تنام عینی ولا ینام قلبی یعنی فیما یدل علی ان باطنہ ملکی وظاھرہ بشری‘‘ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ کا باطن ملکی (فرشتوں کی طرح نورانی) ہے اور آپ کا ظاہر بشری ہے قاضی شہاب خفاجی فرماتے ہیں: ’’وکذالک سائر الانبیاء تنام اعینھم دون قلوبھم کما ورد مصر حابہ فی حدیث البخاری‘‘ اسی طرح دوسرے تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتے ہیں۔ جس طرح بخاری کی حدیث میں صراحتاً ذکر ہے۔ یعنی تمام انبیائے کرام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا ظاہر بشر اور باطن نور ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نور من نور اللہ ہے اور تمام کائنات کے لیے اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے یعنی آپ کا نور تمام انبیائے کرام کی نورانیت کا بھی اصل ہے۔ ’’وھذا دلیل علی ان ظاھرہ ﷺ بشری وباطنہ ملکی ولذا قالوا ان نومہ لا ینقض الوضوء کما صرحوا بہ ولا یقاس علیہ غیرہ من الامۃ کما توھم ونوضأ بعد نومہ استحبابا او تعلیما لغیرہ اولعروض ما یقتضیہ‘‘ (نسیم الریاض ج ۳ ص ۵۴۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار ہوتا ہے یہ دلیل ہے اس پر کہ آپ کا ظاہر بشری ہے اور باطن ملکی نورانی ہے اسی وجہ سے محدثین کرام فقہاء عظام نے اتفاقی طور پر ارشاد فرمایا کہ بے شک آپ کی نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند پر آپ کے کسی امتی کی نیند کو قیاس نہیں کیا جاسکتا یعنی صحابہ کرام اولیائے کرام اور امت کے کسی فرد کو بھی یہ مقام حاصل نہیں اگر کسی صحابی یا ولی کے متعلق کوئی یہ کہے کہ اس کی نیند سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا یہ اس کا وہم ہوگا غلط سوچ ہو گی اس شخص کی بات کو تسلیم نہ کیا جائے۔ خیال رہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نیند سے ان کے وضو نہیں ٹوٹتے تھے میں نور الایضاح کے عربی حاشیہ ذیعۃ النجاح میں بفضلہ تعالیٰ اسے ذکر کیا ہے جبکہ ہدایہ تک تمام فقہی کتب کے محشی حضرات اسے ذکر نہ کرسکے یا دیدہ دانستہ ذکر نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگنے کے بعد وضو کرتے تھے آپ کا یہ وضو کرنا وجوبی طور پر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مستحب سمجھ کر آپ وضو کرتے یا تعلیم امت کے لیے یا آپ کو چونکہ معلوم ہوتا تھا کہ سوتے ہوئے کوئی چیز وضو کے خلاف سرزد ہوئی ہے اس لیے آپ کبھی کبھی اپنے علم کے مطابق وضو ٹوٹنے کی وجہ سے وضو کرتے ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کا ثبوت قرآن پاک سے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌo (پ ۶ سورۃ المائدۃ آیت ۱۵) بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تین قول ملتے ہیں ایک عام مفسرین کا جنہوں نے نور سے مراد نبی کریم اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا ہے دوسرا قول معتزلہ کا ہے جنہوں نے نور اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا تیسرا قول محققین کا ہے جیسے علامہ آلوسی اورملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ انہوں نے نور اور کتاب مبین دونوں سے ہی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’قد جاء کم من اللہ نور عظیم وھو نور الانوار والنبی المختارﷺ‘‘ نور سے مراد نور عظیم ہے جو سب نوروں کا نور ہے۔ یعنی تمام نوروں کا اصل ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ’’والی ھذا ذھب قتادہ و اختارہ الزجاج‘‘ یہی قول قتادہ کا ہے اور ز جاج نے بھی اسی قول کو مختار قرار دیا ہے۔ ’’وقال ابو علی الجبائی عنی بالنور القرآن لکشفہ واظھارہ طرق الھدی والیقین واقتصر علی ذالک زمحشری وعلیہ فالعطف فی قولہ تعالیٰ وکتاب مبین لتنزیل المغایرۃ بالعنوان منزلۃ المغایرۃ بالذات‘‘ ابو علی جبائی نے کہا ہے نور سے مراد بھی قرآن ہے کیونکہ قرآن ہدایت و یقین کے راستوں کو ظاہر کرنے والا ہے اور منکشف کرنے والا ہے اس لیے اسے نور کہا گیا ہے زمحشری نے بھی اسی قول پر اقتصار کیا ہے اس قول پر بظاہر ایک اعتراض تھا کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے جب معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد قرآن پاک ہے لیکن دو نام علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں علیحدہ علیحدہ عنوان کی وجہ سے جو مغائرت پائی گئی ہے وہ مغائرت ذاتی کے درجے میں ہے۔ ’’واما علی الاول فھو ظاھر‘‘ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے جس میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مرد قرآن پاک ہے۔ ’’وقال الطیبی انہ اوفق لتکریر قولہ سبحانہ قد جاء کم بغیر عطف فعلق بہ اولا وصف الرسول والثانی وصف الکتاب‘‘ علامہ طیّبی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ پہلے ’’قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا‘‘ ذکر کیا گیا ہے اور پھر بغیر حرف عطف کے’’ قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللہِ نُوْرٌ‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہی ذات ہے اس لیے حرف عطف ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ولا یبعد عندی ان یراد بالنور والکتاب المبین النبی ﷺ والعطف علیہ کالعطف علی ماقالہ الجبائی ولا شک فی صحۃ اطلاق کل علیہ علیہ الصلوۃ والسلام‘‘ میرے نزدیک یہ کوئی بعید بات نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد ایک ذات کیسے؟ تو اس کا ہم بھی وہی جواب دیں گے جو جبائی نے دیا ہے کہ عنوان کی مغائرت کو مغائرت کے درجے میں رکھ کر عطف کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔(از روح المعانی پ ۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں کا اطلاق کیسے صحیح ہے؟ اس کا جواب ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے آپ فرماتے ہیں: ’’ای مانع من ان یجعل النعتان للرسول ﷺ فانہ نور عظیم لکمال ظھورہ بین الانوار وکتاب مبین حیث انہ جامع لجمیع الاسرار ومظھر للاحکام والا حوال والا خبار‘‘ (شرح شفا ج ۱ ص ۴۲) نور اور کتاب مبین دونوں صفتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنانے میں کون سا مانع موجود ہے؟ یعنی کوئی مانع نہیں؛ کیونکہ آپ نور عظیم ہیں اس لیے کہ سب نوروں سے آپ کا نور زیادہ ظاہر ہے۔ اور آپ کتاب مبین (روشن کتاب) ہیں کیونکہ آپ تمام اسرار کے جامع ہونے کی وجہ سے کتاب ہیں اور تمام احکام احوال اور اخبار کے ظاہر کرنے کی وجہ سے ’’مبین‘‘ ہیں۔ تنبیہ: مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ آیت کریمہ میں نور سے مراد قرآن پاک جبائی اور زمحشری نے لیا ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ معتزلہ کے رئیس ہیں عام اہل علم کا قول یہ ہے کہ نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک اور محققین حضرات نے دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment