(5) فان یشاء اللہ تختم علٰی قلبک ( پ25، سورۃ شورٰی آیت24)
۔۔۔۔:: پس اگر خواہد خدا مہر نہد بر دل تو۔ ( شاہ ولی اللہ )
۔۔۔۔::اگر خدا چاہے تو اے محمد تمہارے دل پر مہر لگا دے۔ ( فتح مھًد جالندھری)
۔۔۔۔:: پس اگر چاہتا اللہ، مہر رکھ دیتا اوپر دل تیرے کے۔ ( شاہ رفیع الدین)
۔۔۔۔:: سو اگر اللہ چاہے مہر کر دے تیرے دل پر۔ ( شاہ عبدالقادر)
۔۔۔۔:: تو اگر اللہ چاہے تو آپ کے قلب پر مہر لگا دے۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
۔۔۔۔::: سو خدا اگر چاہے تو آپ کے دل پر بند لگا دے۔ (سابقہ ترجمہ) ‘ دل پر مہر لگا دے‘۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)
۔۔۔۔:: اور اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر اپنی رحمت و حفاظت کی مہر لگا دے۔ ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
تمام تراجم سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ختم اللہ علٰٰی قلوبھم کے بعد مہر لگانے کی کوئی جگہ تھی تو یہی تھی۔ صرف ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیا کس قدر بھیانک تصور ہے وہ ذات اطہر کہ جس کے سر مبارک پر اسرٰی کا تاج رکھا گیا۔ آج اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم چاہیں تو تمہارے دل پر مہر لگا دیں۔
مہر کی اقسام : مہر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک تو وہ جو ختم اللہ علٰٰٰی قلوبھم میں استعمال ہوئی اور دوسری خاتم النبین کی۔ کاش تمام مترجمین تفاسیر کی روشنی میں ترجمہ کرتے تو ان کی نوک قلم سے رحمت عالم کا قلب مبارک محفوظ رہتا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا قلب مبارک کہ جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت اور انوار کی بارش ہو رہی ہے جس دل کو ہر شے سے محفوظ کیا گیا ہے اس آیت مبارک میں اس کی مزید توثیق ( وضاحت ) کر دی گئ-(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(6) ولئن اتبعت اھوا ئھم من بعد ماجائک من العلم انک اذا لمن الظلمین (پ2، سورۃ بقرہ، آیت 145)
۔۔۔۔:: اور کبھی چلا تو ان کی پسند پر بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا تو تیرا کوئی نہیں اللہ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا نہ مدد گار ۔( شاہ عبدالقادر)
۔۔۔۔:: اور اگر پیروی کرے گا۔ تو خواہشوں ان کی پیچھے اس چیز سے کہ آتی تیرے پاس علم سے نہیں واسطے تیرے اللہ سے کوئی دوست اور نہ کوئی مددگار - ( شاہ رفیع الدین )
۔۔۔۔:: اگر پیروی کر دی آرزو ہائے باطل ایشاں راپس آنچہ آمدہ است بتواز دانش نہ باشد ترا برائے خلاص از عزاب خدا ہیچ دوستی ونہ یارے ہند - ( شاہ ولی اللہ )
۔۔۔۔:: اور اگر آپ بعد اس علم کے جو آپ کو پہینچ چکا ہے ان کی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے تو آپ کیلئے اللہ کی گرفت کے مقابلے میں نہ کوئی یار ہو گا نہ مدد گار۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
۔۔۔۔:: اور اے پیغمبر اگر تم اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم یعنی قرآن آ چکا ہے ان کی خواہشوں پر چلے تو پھر تم کو خدا کے غضب سے بچانے والا نہ کوئی دوست اور نہ مدد گار۔ ( ڈپٹی نزیر دیوبندی و فتح محمد جالندھری)
۔۔۔۔:: اور اگر آپ اتباع کرنے لگیں ان کے غلط خیالات کا علم قطعی ثابت بالوجی آچکنے کے بعد تو آپ کا کوئی خدا سے بچانے والا نہ یار نکلے نہ مددگار۔ (تھانوی دیوبندی )
۔۔۔۔:: اور ( اسے سننے والے کے باشد) اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا بعد اس کے کہ تجھ علم چکا تو اس وقت تو ضرور ستم گار ہو گا۔ ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
ترجمہ تفسیر خازن کی روشنی میں : نبی معصوم جن کی نسبت سے قرآنی صفحات بھرے ہیں۔ جن کو ٰطٰہ، ٰیس، مزمل، مدثر جیسے القاب وآداب دیئے گئے، اچانک اس قدر زجر و توبیح کے کلمات سے اللہ تعالٰی ان کو مخاطب کرے ؟ سیاق و سباق سے بھی کسی تہدید کا پتہ نہیں چلتا۔ لٰہذا مترجم کو چاہئے کہ کھوج لگائے نہ یہ کہ براہ راست کلمات کا ترجمہ کر دے جو بات ان کی عصمت کے خلاف ہے وہ کیسے امکانی طور پر ان کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے۔لٰہذا اعلٰی حضرت نےا س کی تحقیق فرمائی اور تفسیر خازن کی روشنی میں انہوں نے ترجمہ فرمایا کہ مخاطب ہر سامع ہے نہ کہ نبی ء معصوم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور اسی طرح کتب معانی و بیان میں بھی اس بات کی تصریح ہے۔تراجم مزکورہ میں بعض مترجمین نے خاصی حاشیہ آرائی کی ہے مگر کسی مترجم کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غور کرے کہ ڈانٹ ڈپٹ کے الفاظ حضور کی شان میں کہے جا رہے ہیں۔ جب کوئی وجہ نہیں تو مخا طبیت اللہ کے محبوب سے خاص نہیں بلکہ ہر سننے والے سے خطاب ہے۔
(7) ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ( پارہ 25 سورۃ شورٰی آیت 52 )
ترجمہ : تو نہ جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب اور نہ ایمان۔ ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ : تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان ( فتح محمد جالندھری )
ترجمہ : نہ جانتا تھا تو کیا ہے کتاب اور نہ ایمان ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : نمی دانستی کہ چیست کتاب ونمی دانستی کہ چیست ایمان ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : تمہیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ۔ ( مودودی )
ترجمہ : آپ کو نہ یہ خبر تھی کتاب کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا چیز ہے ۔( عبدالماجد دریابادی دیوبندی )
ترجمہ : تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب اللہ کی کیا چیز ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کس کو کہتے ہیں ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : آپ کو یہ نہ خبر تھی کہ کتاب ( اللہ ) کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان کا (انتہائی کمال ) کیا چیز ہے ۔ (اشرف علی تھانوی دیوبندی)
ترجمہ : اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام شرع کی تفصیل ۔( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا) (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ظھور نبوت سے قبل حضور کے مومن ہونے کی نفی ؟ لوح و قلم کو علم ہی نہیں بلکہ جن کو عالم ماکان و مایکون کا علم ہے، معاذ اللہ آیت مزکورہ کے نزول سے پہلے مومن بھی نہ تھے کیونکہ مترجمین کے تراجم کے مطابق ایمان سے بھی نا بلد (کورے) تھے۔ تو غیر مسلم ہوئے۔ موحد بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ بھی آپ کی بعث سے پہلے مومن ہوتا ہے ( بعد میں رسالت پر ایمان لانا شرط ہے ) تراجم مزکورہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی خبر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بعد میں ہوئی۔
اعلٰی حضرت کے ترجمے سے اس قسم کے تمام اعتراضات ختم ہو گئے کہ آپ احکام شرع کی تفصیل نہ جانتے تھے ایمان اور احکام شرع کی تفصیل میں جو فرق ہے وہی اعلٰی حضرت اور دیگر مترجمین کے ترجمہ میں فرق ہے۔
(8) الرحمٰن ہ علم القرآن ہ خلق الانسان ہ علمہ البیان ہ
(پارہ 27 سورۃ الرحمٰن آیت 1 تا 4 )
ترجمہ :: رحمٰن نے سکھایا قرآن ، بنایا آدمی ، پھر سکھائی اس کو بات ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ :: رحمٰن نے سکھایا قرآن ، پیدا کیا آدمی کو ، سکھایا اس کو بولنا۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ :: خدا آموخت قرآن را ، آفرید آدمی راوآمو ختش سخن گفتن- ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ ::خدائے رحمٰن ہی نے قرآن کی تعلیم دی ، اس نے انسان کو پیدا کیا ۔ اس کو گویائی سکھائی -( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : جنوں اور آدمیوں پر خدائے رحمان کے جہاں اور بےشمار احسانات ہیں ازاں جملہ یہ کہ اسی نے قرآن پڑھایا اسی نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو بولنا سکھایا ۔( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی)
ترجمہ :رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا ، انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا ، ماکان و مایکون کا بیان انہیں سکھایا۔( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
مندرجہ بالا تراجم کو غور سے پڑھئے، پھر اعلٰی حضرت کے ترجمہ کا بغور مطالعہ فرمائیں - آیت نمبر 2 میں لفظ علم آیا- جو متعدی بدومفعول ہے- تمام تراجم میں رحمٰن نے سکھایا قرآن- سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کو قرآن سکھایا- اس سے کس کو انکارہو سکتا ہے- خود قرآن شاہد ہے علمک مالم تکن تعلم اللہ نے آپ کو ہر چیز کا علم دیا جو آپ نے جانتے تھے - آیت نمبر3 کا ترجمہ ہے آدمی کو پیدا کیا وہ کون انسان ہے؟ مترجمین نے لفظ بلفظ ترجمہ کر دیا- بعض تراجم میں اپنی طرف سے بھی الفاظ استعمال کئے گئے پھر بھی لفظ انسان کی ترجمانی نہیں ہو سکی- اب آپ اس ذات گرامی کا تصور کریں جو اصل الاصول ہیں جن کی حقیقت ام الحقائق ہے- جن پر تخلیق کی اساس رکھی گئی- جو مبد خلق ہیں، روح کائنات، جان انسانیت ہیں- اعلٰی حضرت فرماتے ہیں انسانیت کی جان محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پیدا کیا- الانسان سے جب حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شخصیت کا تعین ہو گیا تو ان کی شان کے لائق اللہ تعالٰی کی طرف سے تعلیم بھی ہونی چاہیئے- چنانچہ عام مترجمین کی روش سے ہٹ کر اعلٰی حضرت فرماتے ہیں، ماکان ومایکون کا بیان انہیں سکھایا-
سوال---- اس جگہ گستاخ رسول ذہنوں میں ضرور سوال ابھرتا ہے کہ یہاں‘ ماکان و ما یکون کا بیان سکھانا‘ کہاں سے آ گیا- یہاں تو مراد ‘ بولنا سکھانا‘ ہے- یا یہ کہئے کہ قرآن کا علم دوسری آیت ظاہر کر رہی ہے تو اس چوتھی آیت مین اس کا ‘ بیان سکھابا ‘ مراد ہے-
جواب : ماکان و مایکون ( جو کچھ ہوا اور جو کچھ قیامت تک ہو گا) کا علم لوح محفوظ میں اور لوح محفوظ قرآن شریف کے ایک جز میں اور قرآن کا بیان ( جس میں ماکان وما یکون کا بیان بھی شامل ہے) سکھایا- یہ تفسیری ترجمہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا کہ،
مگس کا باغ میں جانے نہ دینا---- کہ ناحق خون پروانوں کا ہو گا
مکھی کو باغ میں نہ جانے دو کہ یہ پھولوں کا رس چوس کر شہد و موم کا سبب بنے اور موم سے موم بتی اور موم بتی جب جلے گی تو پروانے جل کر قربان ہوں گے- اب بتائیے اعلٰی حضرت نے ترجمہ ( ماکان وما یکون کا بیان سکھایا) کیسا کیا؟
میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ مذکورہ چار آیات کا ترجمہ متعدد بار پڑھیں- یقینًا آپ کے ایمان میں بے پناہ نکھار پیدا ہو گا اور عشق رسول میں آپ پر یقینًا ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گی-(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment