حیوانات وجمادات بھی درود پڑھتے ہیں
سبحان اللہ بطفیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کو کیا کیا رتبہ مل رہا ہے کہ جس کا بیان ہو نہیں سکتا مگر یہ بھی معلوم رہے کہ فقط امتی ہونا کافی نہیں مدار اس کا صرف اسی بات پر ہے کہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاملہ ٹھیک رہے ورنہ رتبے کیسے۔ ایمان کا پتا لگنا دشوار ہے حدیث لایؤمن احمدکم حتٰی اکون احب الیہ من نفسہ کو دیکھ لیجئے کہ کیا کہہ رہی ہے۔ کلام اس میں تھا کہ حق تعالیٰ نے خاص اس کام کیلئے دو فرشتے معین کئے ہیں کہ درود پڑھنے والوں کے حق میں دعائے خیر کیا کریں ۔
اب ان فرشتوں کی عظمت کو سونچئے کہ کل روئے زمین کے مسلمان جب کبھی درود پڑھیں وہ سن لیتے ہیں اور ہر ایک کا جواب فوراً ادا کرتے ہیں۔ اگر دور کی خبر ان کو پہنچنا دشوار سمجھا جائے تو چاہئے کہ جسم ان کا اتنا بڑا ہو کہ کل آبادیوں کو گھیرلے اور جسم بڑا بھی ہوا تو کیا صرف دو کان کفایت کریں گے ہر شخص کے پاس ایک کان لگا ر ہنا ضرور ہوگا۔ اول تو صرف دور کی آواز سننا ہی دشوار تھا علاوہ اس کے ہر ایک کو فوراً جواب دینا دوسری مشکل ہے۔
اب اگر حدیث کا بالکل انکار کر لیا جائے اس خیال سے کہ سمجھ میں نہیں آتی تو اکابر محدثین پر الزام آجائے گا جنہوں نے اس کو روایت کیا ہے اور اگر کسی محدث نے اس کو حدیث متروک کہا جب بھی خلاصی نہیں کیونکہ متروک کے معنی موضوع بنائی ہوئی نہیں۔ پھر جب موضوع نہ ہوئی تو بالکل اس کے مطلب کا انکار کرلینا جائز نہ ہو ابالفرض اگر اس ایک حدیث سے انکار کر کے جان چھڑائی بھی تو کیا ۔عزرائیل علیہ السلام کے ہاتھ سے کہاں جاسکیں گے وہ تو مشرقی کو چھوڑیں نہ مغربی کو ،سب کی خبر آن واحد میں برابر لیتے ہیں۔ کیا ان کے وجود کا بھی انکار کیا جائے گا؟
پھر جب عزرائیل علیہ السلام کا وجود اس صفت کےساتھ مان لیاجائے تو ان دو فرشتوں کے انکار سے کیا فائدہ ہوا ؟ اس قسم کے امور کا استبعاد و انکار اکثر اسی وجہ سے ہوا کرتا ہے کہ جو صفت آدمی اپنی جنس یا محسوسات میں نہیں پاتا اس کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے اور جب سمجھ میں نہ آئے تو اس کا انکار کر بیٹھتا ہے۔ پھر بسا وقت اسی انکار کی وجہ سے نوبت کفر تک پہنچ جاتی ہے ۔ نعوذ باللہ من ذالک
نجات کا یہی طریقہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قدرت پر ایمان لائیں اور یہ سمجھ لیں کہ حق تعالیٰ جب کسی کو قدرت دیتا ہے تو اس سے سب کچھ ہوسکتا ہے پھر اس کے خلاف میں عقل لگانا گمراہی ہے۔ مولانائے روم قدس سرہ فرماتے ہیں:
داند آنکو نیک بخت و محرم است
زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است
زیر کی بفردش وحیرانی نجر
زیر کی ظنست و حیرانی نظر
عقل قرباں کن بہ پیش مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
حسبی اللہ گود اللہ ہم کفے
ہمچو کنعان سرز کشتی درکمش
کہ غرورش داونفس زیر کش
خویش ابلہ کن تبع میروسپس
رستگی زین ابلہے یابی و بس
باچنین نورے چوپیش آری کتاب
جان وحی آسای اور آرد عتاب
اکثر اہل الجنہ بلہ اے پدر
بہراین گفتست سلطان البشر
اندرین رہ ترک کن طاق و طرمب
تا قلا وزت نہ جنبد تو مجنب
ہر کہ ادبے سر بجنبد دم بود
جنبشش چون جنببش کژدم بود
الحاصل دو فرشتے ایسے جلیل القدر حق تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں کہ ہر ایک کا در ود برابر سنتے ہیں اور اس کے حق میں دعائے خیر کیا کرتے ہیں اور بے انتہاء فرشتے اس کام پر مقرر ہیں کہ جس قدر درود شریف پڑھا جائے لکھ لیا کریں۔
چنانچہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے قول بدیع میں نقل کیا ہے : وعن عقبة رضی اللہ عنہ بن عامر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان للمساجد اوتادا جلساؤھم الملائکۃ ان غابوا فقد وہم و ان مرضوا عاد وہم و ان راوہم رحبوا بہم و ان طلبوا حاجۃ اعانوہم فاذا جلسوا حفت لھم الملئکۃ من لدن اقدامہم الی عنان السماء بایدیہم قراطیس الفضۃ واقلام الذہب یکتبون الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ الحدیث، رواہ ابو القاسم ابن بشکوال و ذکرہ صاحب الدرالمنظوم ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: ر وایت ہے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مسجدوں میں اوتاد ہوا کرتے ہیں کہ جن کے ہمنشین فرشتے ہیں جب وہ غائب ہوتے ہیں تو ڈھونڈتے ہیں ان کو فرشتے اور جب بیمار ہوتے ہیں تو ان کی عیادت کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں ان کو تو مرحبا کہتے ہیں اور اگر کوئی حاجت طلب کرتے ہیں تو وہ مدد دیتے ہیں پھر جب بیٹھتے ہیں وہ لوگ تو گھیرلیتے ہیں ان کو فرشتے ان کے پاؤں سے آسماں تک ہاتھوں میں ان کے کاغذ چاندی کے ہوتے ہیں اور قلم سونے کے لکھتے ہیں وہ درود جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑھا جاتا ہے۔ روایت کیا اس کو ابو القاسم ابن بشکوال نے اور ذکر کیا اس کو صاحب درمنظوم نے ، انتہیٰ۔
امام سخاوی رحمة اللہ علیہ نے ایک بزرگ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ آنکھیں بند کئے ہوئے درود شریف پڑھ رہے تھے اس حالت میں ان کو محسوس ہورہا تھا کہ جو درود شریف وہ پڑھ رہے ہیں کوئی لکھنے والا اس کو کاغذ پر لکھ رہا ہے، جب آنکھیں کھولیں تو وہ غائب ہوگیا اور سوا ان کے کئ فرشتے اس کام کے لئے خاص کئے گئے ہیں کہ جمعہ کے دن اور رات آسمانوں سے اتریں اور جو لوگ درود پڑھیں لکھ لیا کریں ۔
جیسا حدیث شریف میں وارد ہے:ان للہ ملئکتہ خلقوا من النور لایہبطون الا لیلۃ الجمعۃ بایدیہم اقلام من ذہب ودوی من فضۃ و قراطیس من نور لایکتبون الا الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رواہ الدیلمی عن علی رضی اللہ عنہ ذکرہ فی الوسیلۃ العظمی و کنز العمال۔
ترجمہ: روایت ہے علی کرم اللہ وجہ سے کہ کئے فرشتے نورانی حق تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں جو صرف جمعہ کی رات اور دن میں آسمان سے اترتے ہیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے قلم اور دواتیں چاندی کی اور کاغذ نور کے ہوتے ہیں کام ان کا صرف یہی ہے کہ جو درود نبی صلی اللہ علیہ وسلمپر پڑھے جاتے ہیں لکھ لیتے ہیں ۔ انتہیٰ،
اوردرود شریف پڑھنے سے بساوقت فرشتے بہ کثرت آسمان سے اترآتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے:عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال غدونایوما مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی کنا مجمع طریق المدینة فاذا اعرابی اخذ بخطام بغیرہ حتی وصل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و نحن حولہ فقال السلام علیک ایھا النبی و رحمتہ اللہ و برکاتہ فرد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سلامہ و جاء رجل عقبہ فقال یا رسول اللہ ہذا اعرابی سرق البعیر لی فسمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم حنین البعیر فاقبل علیہ فقال عنہ فان البعیر یشہد علیک انک کاذب فانصرف ثم اقبل النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی الاعرابی فقال ای شیٔ قلت حین جئتنی قال قلت با بی امی اللھم صلی علی محمد حتی لاتبقی صلوٰۃ اللھم بارک علی محمد حتی لاتبقی سلام اللھم صل و ارحم محمد حتی لاتبقی رحمتہ فقال صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ ابدا ہالی والبعیر ینطق بعذرہ و ان الملائکة قد سدوا افق السماء رواہ الطبرانی کذا فی الوسیلۃ العظمی۔
ترجمہ: روایت ہے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ ایک روز صبح کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جب ہم مدینہ منورہ کے چوراہا میں پہنچے دیکھا کہ ایک اعرابی اپنے اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے چلا آرہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر اس طرح سلام کیا السلام علیک ایھا النبی و رحمتہ اللہ و برکاتہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا ساتھ ہی ایک دوسرے شخص نے پہنچ کر کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعرابی میرا اونٹ چرالایا ہے۔ اونٹ نے اس وقت کچھ آواز کی جس کے سنتے ہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ دور ہو خود اونٹ گواہی دے رہا ہے کہ تو جھوٹا ہے۔
چنانچہ وہ چلا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا جس وقت تو یہاں پہنچا کیا کہا تھا ؟ عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر سے فدا ہوں یہ درود پڑھا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے یا اللہ درود بھیج محمد پر اتنا کہ نہ باقی رہے کوئی درود۔ یا اللہ برکت نازل کر محمد پر اتنی کہ نہ باقی رہے کوئی برکت ۔ یا اللہ درود اور سلام بھیج محمد پر اس قدر کہ نہ باقی رہے کوئی ر حمت ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھ پر وہ ظاہر فرمایا دیا تھا جب کہ اونٹ اپنا عذر بیان کر رہا تھا اور فرشتوں نے اس وقت افق کو بھر دیا تھا( یعنی اس درود کی برکت سے اونٹ نے اصل واقعہ بیان کردیا اور فرشتے اس قدر نازل ہوئے کہ تمام افق ان سے بھر گیا) ۔ (انوار احمدی ، مولفہ حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment