حلالہ کیا ہے ؟ حلالہ کا معنیٰ ہے حلال کرنے والا نکاح
انتہائی افسوسناک مقام ہے موجودہ دور کے مسلمانوں کےلیئے شرعی مسائل کو مذاق بنایا جاتا ہے ، جنہیں علم تک نہیں ہوتا کہ شرعی مسائل پر بات کرنے کے اصول و ضوابط کیا ہیں ؟ شرع مسائل پر بحث کرنے کےلیئے کن کن علوم کا حاصل ہونا ضروری ہے اس کے باوجود بھی شرعی مسائل پر بحث کرنے میں احتیاط برتنا ضروری ہے ۔ مگر موجودہ دور میں مسلمان کہلانے والوں کی روش بن چکی ہے جسے استنجا کرنے کے مسائل معلوم نہیں وہ بھی اہم شرعی مسائل پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب علم نہیں ہوتا تو پھر گالم گلوچ شروع ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ ہمیں اس فتنے و گناہ سے بچائے آمین آیئے اب اس مسلہ کو سمجھتے ہیں :
اصل حلالہ نکاح صحیح کے ساتھ حقوق زوجیت کی ادائیگی کا نام ہے اور یہ ایک ایسا امر ہے جو عین شریعت کے مطابق ہے اگر مطلقہ عورت کو شوہر سابق کے ساتھ پھر عقد کرنے کے لئے دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح بشرط حلالہ کیا جائے تو نکاح میں فرق نہیں پڑے گا صرف یہ شرط لگانی مکروہ ہوگی کیونکہ حلالہ کی شرط سے نکاح کرنے کرانے والے پر لعنت کی گئی ہے۔ اس لئے کہ نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن اللہ علی المحلل و المحل لہ۔ حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے ملعون ہیں لہٰذا یہ شرط لگانی مکروہ نکاح میں کوئی فرق نہیں پڑھتا کیونکہ نکاح کے منافی شروط خود اڑ جاتی ہے نکاح متاثر نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ کو غلط اور ادھورے طریقہ سے پیش کیا جاتا ہے ۔
قارئین محترم پہلے یہ سمجھیں کہ حلالہ کیا ہے ؟ حلالہ کا معنیٰ ہے حلال کرنے والا نکاح حقیقت میں تو ہر نکاح منکوحہ کو ناکح کے لئے حلال کرتا ہے مگر یہ خاص صورت وہ جب کوئی عورت منکوحہ طلاق مغلظہ کے ساتھ (تین طلاقوں کیساتھ ) اپنے پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے اس کے بعد یہ عورت پہلے شوہر کے ساتھ رشتہ ازدواجیت قائم کرنا چاہے تو اس کی ایک ہی صورت شریعت اسلامیہ نے رکھی ہے وہ کسی اور مرد سے نکاح کرکے حقوق زوجیت ادا کرے اور وہ دوسرا شوہر اس کو طلاق دیکر زوجیت سے خارج کرے یہ عورت عدت گزارنے کے بعد زوج اول سے نکاح کر سکتی ہے اب یہ نکاح ثانی حلالہ کی شرط کے ساتھ ہو یا اتفاقاً (نارمل طریقہ سے) نکاح ہو دونوں صورتوں میں نکاح بھی صحیح ہوگا۔ حلالہ بھی ہو جائے گا ۔
مشروط بشرط حلالہ نکاح کو بدکاری کہنا بالکل غلط ہے اور زوجین پر بہتان ہے حلالہ کی شرط سے نکاح کرنے والا شرعاً طلاق دینے کا پابند نہیں وہ عورت شرعاً اس کی بیوی اس سے قرار پانے والا حمل جائز و حلال اور اگر ان میں سے کوئی ایک طلاق سے پہلے مر جائے تو وراثت جاری ہوگی ۔ دوسرا یہ کہنا کہ مرووجہ حلالہ یک بار تین طلاقوں پر ہوتا ہے غلط ہے اصل حلالہ کی یہ صورت تین طلاقیں واقع کرنے کے بعد پیش آتی ہے چاہے یک بار تین طلاقیں واقع کی جائیں یا ایک ایک ماہ کے وقفے میں کی جائے۔ اگر طلاق سنی یعنی ایک ایک ماہ کے بعد تین ماہ میں طلاقیں واقع کرنے کے بعد پھر وہی عورت پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہیے تو حلالہ کے بغیر ممکن نہیں چاہے نکاح حلالہ کے پروگرام سے ہو یا بغیر حلالہ کے پروگرام کے ہو نکاح ثانی مع ادائے حقوق زوجیت اب طلاق کے بعد یہ عورت شوہر سابق کے لئے حلال ہوئی یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنا حلال و جائز ہوا۔ اب رہی یہ بات حلالہ کا ثبوت کہاں ہے اور کیا تین طلاقوں کے بعد ہی حلالہ کی صورت آتی ہے جواباً دو دلیلیں عرض ہیں ۔
(1) کتاب اللہ عز و جل (2) سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم
پہلی دلیل : سورہ بقرہ آیت نمبر1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔
ترجمہ اگر مرد اپنی بیوی کو تیسری طلاق بھی دے دے پس یہ عورت اس مرد کے لئے حلال نہیں ہو سکتی جب تک یہ اس کے علاوہ کسی اور مرد کے ساتھ نکاح صحیح سے حقوق زوجیت ادا نہ کرلے ۔ یہ ہے حلالہ قرآن سے ثابت اب ان کا انکار مسلمان نہیں کر سکتا ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دوسری دلیل حدیث شریف میں ہے : ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا عورت کو شوہر نے طلاق دے دی اور اسی عورت نے ایک اور مرد سے نکاح کرلیا اب اس عورت کا پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کا خیال ہوا مگر دوسرے شوہر سے مجامعت نہ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی پہلے شوہر کے پاس نکاح کے ساتھ جانے کا خیال ظاہر کیا اور اشاروں اشاروں میں عرض کیا کہ حقوق زوجیت ادا نہیں ہوئے (دوسرے شوہر سے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک ایک دوسرے کا شہد نہ چکھا جائے (یعنی حقوق زوجیت ادا نہ ہوں) تم پہلے شوہر کے لئے حلال (بطور بیوی) نہیں ہو سکتی ( سنن ابن ماجہ)
یہ حلالہ کے ثبوت ہر دلیل حدیث سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے ۔ اور خالی نکاح نہیں قرآن و حدیث دونوں سے ادائیگی حقوق زوجیت ثابت ہے ۔
محترم قارئین پر واضح ہو حلالہ ایک امر شرعی ہے اور اسکا ثبوت قطعی ہے اس سے مطلق انکار نہیں کیا جا سکتا ہاں اگر خرابی ہے تو وہ حلالہ کی شرط لگا کر نکاح کرنا یہ باعث لعنت ہے مگر نکاح پھر بھی صحیح اور شرط کے بعد بھی اگر وہ مرد طلاق نہ دے تو کوئی شرعی جرم نہیں ۔ حلالہ کو شرعی اور مروجہ کہہ کر خواہ مخواہ امت کو الجھایا گیا ہے حلالہ بھی ہو اور غیر شرعی (بدکاری) ہو یہ ممکن نہیں رہی یہ بات کہ تین طلاقیں یک بار واقع ہوتی ہیں کے نہیں ؟ تو حلالہ اس پر موقوف نہیں وہ مطلق تین طلاقیں واقع کرنے پر ہے ۔
باقی اہل غیر مقلد وہابی علماء خود تسلیم کر چکے ہیں کے آئمہ اربعہ (امام اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم )کا مذہب یہی ہے کہ واقع ہو جاتی ہیں ۔ سعودی نجدی وہابی علماء کا فتویٰ تین طلاق تین ہی ہیں ۔ ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، یہی أئمہ أربعہ علیہم الرّحمہ اور جمہور امت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک ہے.(الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠)کیا کہتے ہیں وہابی ؟ بانی وہابی نجدی مذہب اور نجدی علماء کے بارے میں ۔ مجموعہ رسائل و مسائل علماء نجد کے جامع شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب كا فرمان لکھتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ (ابن تیمیہ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیم اور امام ابن تیمیہ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد ﷺ کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے، مثلا انہی مسائل میں سےایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ(امام أبوحنیفہ، امام شافعی، امام أحمد بن حنبل، امام مالک علیہم الرّحمہ) کی پیروی کرتے ہیں، (ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، یہی أئمہ أربعہ علیہم الرّحمہ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک ہے.(الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠) ۔ تو پھر اور دلیل کی ضرورت ہے۔ جو احادیث پڑھ کر اہل حدیث استدلال کرتے ہیں۔ ان احادیث کی کتب کے جامع مثلا امام بخاری، امام مسلم، امام ابن ماجہ وغیرہ خود ان آئمہ کے مقلد ہیں اصل ان احادیث کو آئمہ اربعہ نے سمجھا ہے اور ان کی سمجھ پر امت نے اعتماد کیا ہے کیونکہ ان کے پائے کے عالم آج تک پیدا نہیں ہوئے۔ قارئین غور فرمائیں غوث پاک بہائو الدین نقشبند، شہاب الدین سہروردی، خواجہ معین الدین چشتی، داتا علی ہجویری لاہوری، مجدد الف ثانی اور آئمہ تفسیر و احادیث علیہم الرّحمہ سب ان آئمہ کے مقلد ہیں تو پھر ماننا پڑے گا جو آئمہ دین نے فرمایا بالکل صحیح ہے لہٰذا ادھر ادھر کی بات نہ کرو ہمیں آئمہ دین اور اکابرین امت، اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کے راستے پر رہنے دو جو کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہے الحمد للہ ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment