Thursday 13 July 2017

بارگاہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم میںدرود شریف کا پیش ہو نا

0 comments
بارگاہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم میںدرود شریف کا پیش ہو نا

امراول سے فراغت پاکرامر دوم کی طرف متوجہ ہو تا ہو ں۔ حضور سیدعالم ﷺ پر درود شریف پیش ہو نے کا مضمون ناظرین کرام اس سے پہلے ہمارے بیا ن میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔جو اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے کہ حضور ﷺ قبر انور میں زندہ ہیں ورنہ درود شریف پیش ہو نے کے معنی متحقق نہیں ہو سکتے ۔ اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو درود کا علم کس طرح ہو تا ہے۔ حضور خود سنتے ہیں یا حضور ﷺ کو پہنچا دیا جا تا ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ قبر انور پر درود پڑھا جا ئے تو حضور سنتے ہیں اور دور سے پڑھنے والوں کا درود حضور نہیں سنتے ۔ بلکہ فرشتے حضور ﷺ کو پہنچا دیتے ہیں۔ یہ لو گ اپنے قول کی دلیل میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث پیش کر تے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ۔
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ
ترجمہ: یعنی جس شخص نے میری قبر کے پاس آکر مجھ پر درود پڑھا میں اسے سنتاہوں اور جس نے مجھ پر دور سے درود پڑھا تو وہ مجھے پہنچا دیاجا تا ہے۔

معلو م ہو ا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سننا اسی وقت ہو تا ہے۔ جب قبر شریف کے پاس درود پڑھا جائے اور جو درود دور سے پڑھا جا ئے۔ اسے حضور نہیں سنتے ۔ وہ فرشتوں کے ذریعے حضور کو پہنچا دیا جا تا ہے۔

لیکن ہمارے نزدیک ہر شخص کا درودو سلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سنتے ہیں۔ درود وسلام پڑھنے والا خواہ قبر انور کے پاس حاضر ہو یا کہیں دور ہو قریب اور دور کا فرق رسول کے لئے نہیں بلکہ درود و سلام پڑھنے والے کیلئے ہے۔ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ نزدیک اور دور کی قید عالم خلق کے لئے ہے، عالم امر کے لئے نہیں۔ اس لئے روح زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے ۔ جب عام ارواح اس قید میں مقید نہیں تو روح اقدس جو روح الارواح ہے قرب و بعد کی قید میں کیوں کر مقید ہو سکتی ہے؟

علاوہ ازیں اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ کہاں ارشاد فرمایا ہے کہ دور سے درود پڑھنے والے کا درود صرف فرشتوں کے ذریعہ مجھے پہنچتا ہے۔ میں اسے مطلقاً نہیں سنتا۔ حضور ﷺ کے درود و سلام سننے اور آپ کی خدمت میں پہنچائے جانے کے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ا گر ان سب کو سامنے رکھ کر فکر سلیم سے کا م لیا جائے تو یہ مسئلہ بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس باب میں ایک حدیث تو ناظرین پڑھ چکے ہیں کہ جس نے میری قبر انور پر آکر درود پڑھا تو میں اسے سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا وہ مجھے پہنچا دیا جا تا ہے۔ دوسری حدیث میں وارد ہے
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ من صلی علی عند قبری وکل اللّٰہ بہ ملکا یبلغنی وکفٰی امر دنیاہ وآخرہ وکنت لہ یوم القیامۃ شہیدا او شفیعا
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص میر ی قبر کے پاس آکر مجھ پر درود پڑھتا ہے۔ تو اللہ تعا لیٰ نے اس پر ایک فرشتہ مقر ر کیا ہو ا ہو تا ہے۔ جو اس کا درود مجھے پہنچا دیتا ہے اور وہ اپنے امر دنیا اور آخرت کی کفایت کیا جا تا ہے اور میں اس کے لئے قیامت کے دن شہید یا شفیع ہو ں گا۔

اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ قبرشریف پر جو درود پڑھا جا تا ہے ۔ اسے بھی حضور ﷺ کے سامنے فرشہ پیش کرتا ہے۔ اب اگر فرشہ کا حضور ﷺ کی بارگاہ میں درود پیش کر نا حضور ﷺ کے سننے کے منافی ہو تو اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ میری قبر انور پر جو درود پڑھا جائے۔ میں اسے بھی نہیں سنتا۔ ایسی صورت میں یہ حدیث پہلی حدیث کے معارض ہوگی۔ جس میں صاف مو جو د ہے۔
من صلی علی عند قبری سمعتہ
’’جو میری قبر پر درود پڑھتا ہے میں اسے سنتاہوں۔‘‘

علاوہ ازیں جس طرح اس حدیث سے قبر انور کے پاس درود پڑھنے والے کے درود کا حضور ﷺ کو پہنچا یا جا نا ثابت ہوا ۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث سے دور کا درود شریف سننا حضور ﷺ کے لئے ثابت ہے۔ جیسا کہ احادیث کے ذیل میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسو ل ﷺ نے ارشاد فرمایا
ما من احد یسلم علی الا رد اللّٰہ الی روحی حتّٰی ارد علیہ السلام(رواہ احمد وابی داؤد و بیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: نہیں کوئی جو سلام پڑھے مجھ پر لیکن اللہ تعالیٰ میری طرف میری روح لوٹا دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔

اس حدیث میں ’’ما‘‘ نافیہ ہے ۔’’احد‘‘ نکرہ ہے سب جانتے ہیں کہ نکرہ حیز نفی میں عموم کا فائد ہ دیتا ہے۔ پھر ’’من‘‘ استغراقیہ عموم و استغراق پر نص ہے یعنی مجھ پر سلام بھیجنے والا کوئی شخص ایسا نہیں جس کے سلام کی طرف میری توجہ مبذول نہ ہوتی ہو خواہ وہ قبر انور کے پا س ہو یا دور ہو ہر ایک کے سلام کی طرف میں متوجہ ہو تا ہوں اور ہر شخص کے سلا م کا خود جواب دیتا ہوں۔

یہ حدیث اس امر کی روشن دلیل ہے کہ درود پڑھنے والے ہر فرد کا درود حضور ﷺ خود سنتے ہیں اور سُن کر جواب بھی دیتے ہیں خواہ وہ شخص قبر انور کے پا س ہو یا دور ہو۔ دیکھئے امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث ’’الا رد اللّٰہ الی روحی‘‘ پر کلام کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں۔
و یتو لد من ھذا الجواب جواب آخر وھو ان یکون الروح کنایۃ عن السمع و یکون المراد ان اللّٰہ تعالیٰ یر د علیہ سمعہ الخارق للعادۃ بحیث یسمع سلام المسلم ’’وَاِن بَعُدَ (۱) قُطرُ ہٗ(انباء الاذکیاء بحیوٰۃالانبیاء )
ترجمہ: اور اس جواب سے ایک اور جواب پیدا ہو تا ہے۔ وہ یہ کہ رد روح سے یہ مراد ہو کہ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ پر آپ کی سمع خارق للعادۃ کو لوٹا دیتا ہے ۔ اس طرح کہ حضورﷺ سلام بھیجنے والے کے سلام کو سنتے ہیں۔ خواہ وہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہو اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ رسول اللہﷺ دور سے پڑھنے والے کا درود بھی سنتے ہیں۔

اسی باب میں اور بھی احادیث وارد ہیں لیکن ہم نے قدر ضرورت پر اکتفا کیا اور ہماری پیش کر دہ حدیثوں سے ثابت ہو گیا کہ جس طرح قبر انور کے پاس درود پڑھنے والے کا درود حضور ﷺ سنتے ہیں۔ اسی طرح دور والے کا درود بھی حضور ﷺ اپنی سمع مبارک سے سنتے ہیںاور جس طرح دور کا درود حضور کو پہنچا یا جا تا ہے ۔ اسی طرح قبر انور پر جو درود پڑھا جا ئے اسے بھی ایک فرشتہ حضور ﷺ پر پہنچا تا ہے۔

ثابت ہو ا کہ پہنچا نا سننے کے منافی نہیں اور سننا پہنچا نے کے معارض نہیں یعنی قریب اور دور کا درود حضور سنتے بھی ہیں اور یہی دور اور نزدیک کا درود حضور ﷺ کو پہنچا یا بھی جا تا ہے۔ اس تقریر پر یہ شبہ وارد ہو گا کہ پہلی حدیث
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ
میں’’ابلغتہ‘‘اور ’’سمعتہ‘‘باہم متقابل معلوم ہوتے ہیںاور تقابل کی صورت میں سمع کا ابلاغ کے ساتھ جمع ہو نا محال ہے لہٰذا تسلیم کر نا پڑے گا کہ جب فرشتے درود پہنچاتے ہیں تو اس وقت حضور ﷺ نہیں سنتے ۔

جس کے جواب میں ہم یہ عرض کر یںگے کہ جب ہم نے احادیث کی روشنی میں ثابت کر دیا کہ جو درود قبر انور کے پاس پڑھا جائے۔ اسے بھی فرشتے پہنچاتے ہیں۔ نیز یہ کہ نزدیک و دور سے ہر ایک درود پڑھنے والا جب درود پڑھتا ہے تو وہ اس حال میں پڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی طرف حضور کی روح مقدس اور سمع مبارک لوٹائی ہوئی ہوتی ہے اور حضور ﷺ ہر ایک کا درود سن کر خود جواب دیتے ہیں تو اس کے بعد اس شبہ کیلئے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔

رہا تقابل تو اس کے لئے مطلق سمع ضروری نہیں بلکہ سمع مخصوص بھی تقابل کیلئے کافی ہے اور وہ التفات خصوصی ہے اور بر تقدیر صحت حدیث مطلب یہ ہے کہ قبر انور پر آکر درود پڑھنے والا چونکہ حاضری کی خصوصیات کا حامل ہے ۔اس لئے اس کا درود اس قابل ہے کہ اسے التفات خاص کے ساتھ سنا جائے۔

بلکہ قبر انور پر حاضری کی خصوصیات پر کیا منحصر ہے ۔ دور کے لو گ بھی اگر اسی قسم کی کوئی خصوصیت رکھتے ہوں۔ مثلاً کمال محبت و اشتیاق سے درود پڑھیں تو ان کے درود و سلام کیلئے بھی سمع خصوصی اور مخصوص التفات و توجہ کے ساتھ سمع اقدس کا پایا جانا کچھ بعید نہیں بلکہ دلائل الخیرات کی ایک حدیث اس دعویٰ کی مثبت ہے۔ صاحب دلائل الخیرات نے حضور ﷺ کا ارشاد بایں الفاظ وارد کیا

اسمع (۱) صلٰوۃ اہل محبتی واعرفہم : مختصر یہ کہ ابلاغ اور سمع خصوصی کا تقابل مراد لینے کے بعد حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو شخص خصوصیت کے ساتھ میری قبر انور پر حاضر ہوکر (یا مثلاً کمال محبت و اشتیاق کی خصوصیت کا حامل ہوکر) مجھ پر درود پڑھتا ہے، میں اس کے درود کو خاص توجہ کے ساتھ سنتا ہوں اور جو شخص دور سے (ان خصوصیات کے بغیر) مجھ پر درود پڑھتا ہے (سماع معتاد کے باوجود) میں اس کی طرف خاص توجہ نہیں فرماتا صرف ملا ئکہ میری بارگاہ میں پہنچا دیتے ہیں۔

ابلاغ ملائکہ : فرشتوں کے درود پہنچانے کو جن لوگوں نے مطلق سماع اقدس کے منافی قرار دیا ہے۔ دراصل وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ابلاغ اور تبلیغ ملائکہ کا سبب حضور ﷺ کی لاعلمی ہے ۔ حالانکہ یہ محض غلط ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی ہم ثابت کر چکے ہیں کہ قبر انور پر جو درود پڑھا جائے اسے حضور ﷺ سنتے بھی ہیں اور اسے ملائکہ بھی حضور ﷺ کے دربار میں پہنچاتے ہیں اگر فرشتوں کا پہنچانا لاعلمی کی وجہ سے ہوتا تو مزار مبارک پر جس درود کو حضور ﷺ خود سن رہے ہیں اس کے ابلاغ کی کیا ضرورت تھی؟

فرشتوں کے درود پہنچانے کی حکمت : درود کے الفاظ درحقیقت ایک تحفہ اور ہدیہ ہیں ۔ تحفہ اور ہدیہ کے معنی کی تکمیل (مہدی لہ) کے محض سننے اور جاننے سے نہیں ہوتی بلکہ انہیں الفاظ کی پیش کش سے ہوتی ہے ۔ جو درود شریف کیلئے استعمال کئے گئے ہیں۔

معلوم ہواکہ فرشتوں کے درود پہنچانے کو مہدی لہ کے جاننے یا نہ جاننے سے کوئی تعلق نہیں یہ پہنچانا تو صرف اس لئے ہے کہ ہدیہ اور تحفہ کے معنی متحقق ہوجائیں اور بس ۔ ہم اپنے اس بیان کی تائید کیلئے فیض الباری کی ایک عبار ت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔
واعلم ان حدیث عرض الصلٰوۃ علی النبی ﷺ لا یقوم دلیلاً علی نفی علم الغیب وان کانت المسئلۃ فیہ ان نسبۃ علمہ ﷺ وعلمہ تعالٰی کنسبۃ المتناہی بغیر المتناہی لان المقصود بعرض الملٰئکۃ ھو تلک الکلمات بعینھا فی حضرۃ العالیۃ علمہا من قبل اولم یعلم کعرضہا عند رب الـعزۃ ورفع الاعمال الیہ فان تلک الکلمات ممایحیا بہ وجہ الرحمٰن فلا ینفی العرض العلم فالعرض قد یکون للعلم واخری لمعان آخر فاعرف الفرق (انتہٰی)(فیض الباری جز ۲ ص ۳۰۲)
جاننا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ پر درود پیش کرنے کی حدیث علم غیب کی نفی پر دلیل نہیں بن سکتی۔ اگرچہ علم غیب کے بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے علم کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے علم کے ساتھ ایسی ہے جیسے غیر متناہی کے ساتھ متناہی کی نسبت۔ یہ دلیل نہ ہونا اس لئے ہے کہ فرشتوں کے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ درود شریف کے کلمات بعینھا بارگاہِ عالیہ نبویہ میں پہنچ جائیں۔ حضور ﷺ نے ان کلمات کو پہلے جانا ہو یا نہ جانا ہو بارگاہِ رسالت میں کلمات درود کی پیشکش بالکل ایسی ہے جیسے رب العزت کی بارگاہ میں یہ کلمات طیبات پیش کئے جاتے ہیں اور اس کی بارگاہِ الوہیت میں اعمال اٹھائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کلمات ان چیزوں میں سے ہیں جن کے ساتھ ذاتِ رحمن جل مجدہ کو تحفہ پیش کیا جاتا ہے اس لئے یہ پیش کرنا علم کے منافی نہیں۔ لہٰذاکسی چیز کا پیش کرنا کبھی علم کیلئے بھی ہوتا ہے اور بسا اوقات دوسرے معانی کیلئے بھی اس فرق کو خوب پہچان لیا جائے۔ انتہیٰ (فیض الباری)

سماع کا تعلق صرف آواز سے ہے اور فرشتوں کی پیشکش صلوٰۃ وسلام کے کلمات بعینھا سے متعلق ہے ۔ رہا یہ امر کہ وہ کلمات بعینھا فرشتے کیونکر پیش کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ صلوٰۃ وسلام کے بعینھا اصل کلمات کا پیش کئے جانے کے قابل ہوجانا امر محال نہیں لہٰذا تحت قدرت داخل ہوگا۔ وَاﷲُ عَلٰی مَا یَشَا ئُ قَدِیْرٌ

فیض الباری کی منقولہ بالا عبارت سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ بارگاہِ رسالت میں فرشتوں کا درود شریف پیش کرنا حضور ﷺ کی لاعلمی پر مبنی نہیں۔ بلکہ کلمات درود بعینہا کو بطور تحفہ و ہدیہ پیش کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ سننے اور جاننے کو اس پیشکش سے کوئی تعلق نہیں۔

اس لئے قبر انور پر جو درود پڑھا جائے حضور ﷺ اسے سنتے بھی ہیں اور فرشتہ بھی اسے پیش کرتا ہے ۔ علی ہذا دور سے جو لوگ درود شریف پڑھتے ہیں اسے فرشتے بھی پیش کرتے ہیں اور سمع خارق للعادۃ سے حضور ﷺ استماع بھی فرماتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ’’سمعتہ اور ابلغتہ‘‘ کے مابین تقابل پر زور دے کر جس سماع کی نفی کی جاتی ہے، وہ مطلق سماع نہیں بلکہ سماع مقید (بقید التفات خصوصی) ہے۔ جس کے نظائر قرآن و حدیث میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا
ترجمہ: (ان کفار جن و انس) کی آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں۔ (س: اعراف آیت ۱۷۹)
یہاں مطلق سمع و بصر کی نفی مراد نہیں۔ بلکہ سمع مخصوص اور بصر خصوصی کی نفی مراد ہے۔ نیز اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، وَلاَ یَنظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
’’ اور نہ دیکھے گا اﷲ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن‘‘ (س: آل عمران آیت ۷۷)

یہاں بھی مطلقاً دیکھنے کی نفی نہیں بلکہ ایک خاص قسم کے دیکھنے کی نفی فرمائی گئی ہے جو نظر رحمت کے ساتھ دیکھنا ہے۔

حدیث شفاعت میں وارد ہے : ’’ قُلْ تُسْمَعْ‘‘ آ پ کہیئے سنے جائیں گے۔ (بخاری شریف)

یہاں بھی مطلق سمع مراد نہیں بلکہ سماع خاص مراد ہے ایسے ہی ’’سمعتہ‘‘ سے سماع خصوصی یعنی توجہ اور التفات خاص کے ساتھ سننا مراد ہے اور گر بر بنائے تقابل ابلغتہ کو نفی سماع پر محمول کیا جائے تو نفی اسی کی ہوگی۔ جس کا سمعتہ سے ثبوت ہوا تھا اور ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ثبوت سماع خصوصی کا ہے لہٰذا نفی بھی اسی سماع خاص کی ہوگی۔

ایک شبہ : اگر ابلاغ ملائکہ کے باعث سماع خاص کی نفی مراد لی جائے تو جو درود قبر انور پر پڑھا جاتا ہے اس کو بھی ملائکہ پہنچاتے ہیں۔ ایسی صورت میں قبر انور پر پڑھے جانے والے درود کا بھی سماع خصوصی کے ساتھ سننا منفی قرار پائے گا۔

جواب : ہم نے جس ابلاغ کو سماع خصوصی کا مقابل مانا ہے وہ ’’من صلی علی نائیا‘‘ کی شرط سے مشروط ہے ۔ مطلق ابلاغ ہمارے نزدیک سماع خصوصی کے منافی نہیں۔ پھر نَائِیاًسے بھی محض ظاہری دوری والے مراد نہیں۔ بلکہ وہ تمام افراد مراد ہیں جو قرب ظاہری و معنوی کی خصوصیت سے محروم ہوں جیسا کہ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ کے عموم میں وہ تمام اشخاص شامل ہیں جو عندیت ظاہری یا باطنی کی خصوصیت کے حامل ہوں۔

یہ تمام گفتگو اس تقدیر پر ہے کہ اس حدیث کو صحیح مان لیا جائے اور اگر صحیح نہ ہوجیسا کہ ان شاء اﷲ آگے چل کر معلوم ہوگا تو نفی سماع کی بنیاد ہی باقی نہیں رہتی۔

سردست اس پر مضمون کی تکمیل کیلئے ہم ایک اور حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس کو مؤخر رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پر مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے کچھ کلام کیا ہے مناسبت مقام کی وجہ سے ہم بھی ان کے کلام پر کلام کریں گے اور اسی ضمن میں حدیث زیرِ نظر
’’مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَقَبْریْ سَمِعْتُہٗ وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا اُبْلِغْتُہٗ‘‘
کی صحت و سقم پر بھی مکمل بحث آجائے گی۔ اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس پوری بحث کو آخر میں رکھا جائے۔

جلاء الافہام کی حدیث : وہ حدیث جلا ء الافہام مصنفہ ابن قیم جوزی سے مع سند نقل کرتا ہوں :۱۰۸ قال الطبرانی حدثنا یحییٰ بن ایوّب العلاف حدثنا سعید بن ابی مریم عن خالد بن زید عن سعید بن ابی ھلال عن ابی الدرداء قال قال رسول اﷲ ﷺ اکثر وا الصلٰوۃ علی یوم الجمعۃ فانہ یوم مشہود تشہدہ الملا ئکۃ لیس من عبدٍ یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان قلنا وبعد وفاتک قال وبعد وفاتی ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ذکرہ الحافظ المنذری فی الترغیب وقال رواہ ابن ماجہ (۱) باسناد جید ( جلاء الافہام ص ۶۳۔ ۷۴)

طبرانی نے بسند مذکور کہا حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو۔ اس لئے کہ وہ یوم مشہود ہے اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ کوئی بندہ (کسی جگہ سے)مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے ۔ وہ جہاں بھی ہو حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ ہم (صحابہ) نے عرض کیا حضور! آپ کی وفات کے بعد بھی؟ فرمایا ہاں! میری وفات کے بعد بھی ۔ بیشک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ نبیوں کے جسموں کو کھائے۔

(۱) اس حدیث کو حافظ منذری نے ترغیب میں ذکر کیا اور کہا کہ ابن ماجہ نے اسے بہ سند جیّد روایت کیا۔

حدیث جلاء الافہام پر تھانوی صاحب کا کلام : یہ حدیث ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب جلا ء الافہام میں نقل کی ہے ۔ جس میں صراحۃً مذکور ہے کہ درود پڑھنے والا جہاں بھی ہو اس کی آواز رسول اللہ ﷺ کو پہنچ جاتی ہے ۔ مولوی اشرف علی تھانوی کو کسی نے یہ حدیث مع سند لکھ کر بھیجی اور سوال کیا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ ہر شخص کی آواز کو سماع فرماتے ہیں ۔ علاوہ اس کے کوئی معنی بیان فرمادیں۔ تاکہ تردد رفع ہو یا ایسا ہی عقیدہ رکھنا چاہیے۔ آنحضور کا کیا ارشاد ہے۔ (بو ادرالنوادر جلد اول ص ۲۰۵)

تھانوی صاحب نے اس کے جواب میں سند اور متن حدیث دونوں پر کلام کیا ہے سند پر کلام کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں
’’ اس سند میں ایک راوی یحییٰ بن ایوب بلانسب مذکور ہیں جو کئی راویوں کا نام ہے ۔ جن میں ایک غافقی ہیں۔ جن کے باب میں ربما اخطاء لکھا ہے ۔ یہاں احتمال ہے کہ وہ ہوں(انتہیٰ) (بوادر النوادر، ج ۱، ص ۳۰۵)

اقول: تھانوی صاحب جس سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ احتمال پیدا کررہے ہیں۔ اس سوال کو انہوں نے بوادرلنوادر کے صفحہ ۲۰۵ پر خود ارقام فرمایا ہے اور اس میں یہ عبارت موجود ہے ۔

حدثنا یحییٰ بن ایوب العلاف حدثنا سعید بن ابی مریم الخ : کتب اسماء الرجال میں یحییٰ بن ایوب العلاف اور یحییٰ بن ایوب الغافقی دونوں کو’’ علاف‘‘ اور ’’غافقی‘‘ کے الفاظ میں ممتاز کرکے الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ احتمال کہا ں سے پیدا ہوگیا؟ دیکھئے تہذیب التہذیب جلد ۱۱ صفحہ۱۸۵ پر یحییٰ بن ایوب العلاف کا تذکرہ ان الفاظ میں موجود ہے ۔

یحییٰ بن ایوب بن بادی الخولانی العلاف روی عن ابی صالح عبدالغفار بن داؤد و عمر و بن خالد الھرانی ویحییٰ بن عبداﷲ بن بکرو سعید بن ابی مریم………… قال نسائی ؛ صالح
اس عبارت میں یحییٰ بن ایوب العلاف کا نسب مذکور ہے اور ساتھ ہی ان کے شیوخ میں سعید بن ابی مریم کا نام بھی لکھا ہے ۔ جن سے انہوں نے زیرِ بحث حدیث کو روایت کیا ہے اور امام نسائی کی توثیق منقول ہے اور توثیق کے سوا کسی کی کوئی جرح منقول نہیں۔ اس کے بعد اگلے صفحہ۱۸۶ پر یحییٰ بن ایوب الغافقی کا تذکرہ ہے۔ ان کے شیوخ میں سعید بن ابی مریم مذکور نہیں۔ ان کے متعلق بعض کی توثیق اور بعض کا تخطیہ طویل عبارت میں بالتفصیل منقول ہے۔ تھانوی صاحب کا بلا دلیل نہیں بلکہ خلاف دلیل ’’علاف‘‘ کے بارے میں ’’ غافقی‘‘ کا احتمال پیدا کرنا دیانت اور انصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے ؟

آگے چل کر تھانوی صاحب نے فرمایا : دوسرے ایک راوی خالد بن زید ہیں یہ بھی غیر منسوب ہیں اس نام کے رواۃ میں سے ایک کی عادۃ ارسال کی ہے اور یہاں عنعنہ ہے۔ جس میں راوی کے متروک ہونے کا اور اس متروک کے غیر ثقہ ہونے کا احتمال ہے ۔ انتہیٰ(بوادرالنوادر جلد اول صفحہ ۲۰۵)

حدیث معنعن پر کلام : اقول: تھانوی صاحب کے یہ تمام احتمالا ت بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ورنہ حدیث معنعن کا مطلقاً ساقط الاعتبار ہونا لازم آئے گا۔ خالد بن زید نام کے کسی راوی میں ارسال کی عادت کا پایا جانا زیر نظر راوی کو متعین نہیں کرتا اور اگر بالفرض تعیین ہو بھی جائے تو ارسال اتصال کے منافی نہیں تاوقتیکہ معنعن (بالکسر) کا مدلس ہونا ثابت نہ ہو اور راوی و مروی عنہ کی لقاء کا امکان منتفی نہ ہوجائے۔ تدریب الراوی میں ہے۔

1 ۔ فروع: احدہاالاسناد المعنعن وھو قول الراوی(فلاں عن فلاں بلفظ عن من غیر بیان التحدیث والاخبار والسماع (قیل انہ مرسل) حتی یتبین اتصالہ (والصحیح الذی علیہ العمل وقالہ الجماہیر من اصحاب الحدیث والفقہ والاصول انہ متصل) … بشرط ان لا یکون المعنعن بکسر العین مدلس بشرط امکان لقاء بعضہم بعضاای لقاء المعنعن من رویٰ عنہ بلفظ عن فحینئذ یحکم بالاتصال الا ان یتبین خلاف ذٰلک انتہیٰ (تدریب الراوی ص ۱۳۲)

یہ عبارت اس مضمون میں صریح ہے کہ عنعنہ میں اگر راوی کا مروی عنہ سے امکان لقا پایا جائے اور معنعن (ی) مدلسی نہ ہو تو وہ حدیث متصل مانی جائے گی۔ تاوقتیکہ اس کا خلاف ظاہر نہ ہو۔

اگر تھانوی صاحب میں ہمت تھی تو وہ کسی دوسرے طریق سے اس کا خلاف ثابت کرتے محض کسی ہم نام راوی کی عادت ارسال کا دعویٰ اس حدیث کے ساقط الاعتبار ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔

ارسال اور تدلیس کا فرق : علاوہ ازیں یہ کہ تھانوی صاحب نے ارسال کو اتصال کے منافی قرار دیاتھا۔ مگر عبارت منقولہ بالا سے ثابت ہوگیا کہ تدلیس اتصال کے منافی ہوسکتی ہے ۔ محض ارسال کو اس کے منافی قرار دینا غلط ہے۔

ممکن ہے تھانوی صاحب ارسال ہی کو تدلیس سمجھتے ہوں۔ تو واضح رہے کہ تدلیس وارسال ایک نہیں۔ ملاحظہ فرمایئے ۔ تدریب الراوی صفحہ ۱۴۰۔
(تدلیس الاسناد بان یروی عمن عاصرہ) زاد ابن صلاح اولقیہ (مالم یسمعہ) بل سمعہ من رجل عنہ (موھما سماعہ) حیث اورد بلفظ یوھم الاتصال ولا تقتضیہ اور ارسال کے معنی ہیں ان الارسال روایتہ عمن لم یسمع منہ صفحہ ۱۴۰)

معلوم ہوا تدلیس اور ارسال دونوں الگ الگ ہیں ۔ عنعنہ میں تدلیس مضر ہے ارسال مضر نہیں۔ لہٰذاتھانوی صاحب کے وہ تمام احتمالات جو بلادلیل محض ان کے ظن فاسد کی بناء پر پیدا ہوئے تھے لغواور بے بنیاد ہو کر رہ گئے۔

اس کے بعد تھانوی صاحب نے فرمایا ’’ تیسرے ایک راوی سعید بن ابی ہلال ہیں جن کو ابن حزم نے ضعیف اور امام احمد نے مختلط کہا۔ وھذاکلہ من التقریب۔ پھر کئی جگہ اس میں عنعنہ ہے جس کے حکم بالا تصال کے لئے ثبوت تلاقی کی حاجت ہے ‘‘ انتہیٰ (بوادر النوادر ص ۱۰۵، جلد اول)

اقول: عنعنہ کے مسئلہ میں تھانوی صاحب کا یہ کلام ہی غلط ہے کیوںکہ حدیث معنعن کے حکم بالا تصال کیلئے ثبوت تلاقی ضروری نہیں صرف امکان تلاقی کافی ہے جیسا کہ تدریب الراوی سے نقل کر چکا ہوں۔ (وبشرط امکان لقاء بعضہم بعضا) تدریب الراوی صفحہ ۱۳۲)

تیسرے راوی سعید بن ابی ہلال جن کی تضعیف تھانوی صاحب نے ابن حزم سے نقل کی ہے تو مجھے حیرت ہے کہ تھانوی صاحب نے تضعیف تو دیکھ لی ۔ مگر توثیق انہیں نظر نہ آئی۔ ذرا میزان الاعتدال اٹھا کر دیکھئے۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں۔
(سعید بن ابی ھلال) ثقۃ معروف فی الکتب الستۃ یروی عن نافع و نعیم المجمر وعنہ سعید المقبری احد شیوخہ قال ابن حزم وحدہ لیس بالقوی (میزان الاعتدال جلد اول صفحہ ۳۹۳)

ناظرین کرام غور فرمائیں جو راوی کتب ستہ (بخاری‘ مسلم ‘ ترمذی‘ ابودائود، نسائی اور ابن ماجہ) میں معروف اور ثقہ ہو اور اس کے بعض شیوخ بھی اس سے روایت کرتے ہوں اسے ابن حزم کے قول کی آڑ لے کر متروک قرار دے دینا تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟

اگر ابن حزم کا قول تھانوی صاحب کے نزدیک ایسا ہی معتبر ہے تو انہیں جامع ترمذی سے بھی ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔ کیونکہ ابن حزم نے ترمذی کو مجہول کہا ہے۔
(کما ذکر فی ماتمس الیہ الحاجۃ صفحہ ۲۵ عن التعلیق الممجد ناقلا عن الذہبی)

آخرمیں اتنی بات عرض کروں گا کہ حدیث زیر بحث کے متعلق حافظ منذری کا یہ قول کہ رواہ ابن ماجہ بسند جید تھانوی صاحب کے تمام احتمالات واہیہ کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس بحث میں ان کی پوری درد سری کو مہمل اور بیکار بنا کر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ تھانوی صاحب کے کسی احتمال میں ذرا بھی جان ہوتی یا ان کی تضعیف منقول میں کچھ بھی قوت پائی جاتی تو ایک عظیم و جلیل محدث اس کے بارے میں بسند جید کے الفاظ نہ بولتا۔ شاید کوئی کہے کہ وہ کوئی اور سند ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا کہ سند جید سے کسی اور سند کا مراد ہونا ہمارے لئے مزید تقویت کا موجب ہے ۔ کیونکہ تعدد طرق زیادتی قوت کا موجب ہے ۔ بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ سند بھی سند جید ہو۔

ناظرین کرام نے تھانوی صاحب کی تحقیق کو ہمارے کلام سے ملا کر اندازہ کرلیا ہوگا کہ ان کی تحقیق کہاں تک تحقیق کہلائے جانے کی مستحق ہے؟

آگے چل کر تھانوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں۔’’ یہ تو مختصر کلام ہے سند میں، باقی رہا متن‘‘ سواولاً معارض ہے دوسری احادیث صحیحہ کے ساتھ چنانچہ مشکوٰۃ میں نسائی اور دارمی سے بروایت ابن مسعود یہ حدیث ہے۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ ان للّٰہ ملٰئکۃ سیا حین فی الارض یبلغون من امتی السلام
او ر یہی حدیث حصن حصین میں بحوالہ مستدرک حاکم و ابن حبان بھی مذکور ہے اور نیز مشکوٰۃ میں بیہقی سے بروایت ابوہریرہ حدیث ہے۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ
اور نسائی کی کتاب الجمعہ میں بروایت اوس ابن اوس یہ حدیث مرفوع ہے
’’فان صلٰو تکم معروضۃ علی‘‘ یہ سب حدیثیں صریح ہیں عدم السماع عن بعید میں اور ظاہر ہے کہ جلا ء الافہام ان کتب کے برابرقوۃ میں نہیں ہوسکتی لہٰذا اقویٰ کو ترجیح ہو گی۔ (بوا درالنوادر جلد اول صفحہ ۲۰۵)

اقول: سند میں جو کلام فرما یا تھا اس کی حقیقت واضح ہوچکی اب متن میں جو کچھ ارشاد فرما یا ہے اس کا حال بھی ناظرین پر کھل جائے گا۔
از افادات استاذی المکرّم غزالی زماں حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ : ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔