سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی توجہ و عنایت آن واحد میں سب کی طرف
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے وہ شان وعظمت عطافرمائی ہے کہ آپ آن واحد میں ہرایک کی طرف توجہ وعنایت فرماتے ہیں ، مشرق ومغرب کا بُعد آپ کے لئے رکاوٹ نہیں بنتا، اللہ تعالی نے آپ کے لئے قریب وبعید‘دورونزدیک کو یکساں رکھا ہے ۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں ،حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر عقل کی رو سے ہونے والے اعتراض کا ایمان افروز جواب سپرد قرطاس فرمایاہے: ’’اب رہی یہ بات کہ حکیمانہ مذاق میں یہ گوارا نہیں کہ وقت واحد میں تمام مسلمانوں کی طرف حضرت کی توجہ ہوسکے ،سو یہ بحث دوسری ہے اس قسم کے خیالات سے حکیموں نے خدائے تعالی کو بھی معطل الوجود قرار دیا ہے اور صاف کہدیا کہ خدائے تعالی کو معاذ اللہ جزئیات کا علم ہی نہیں ،مگر اہل ایمان ان خیالات کو محض وساوس شیطانی سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خدائے تعالی ہرآن میں عالَم کے ذرہ ذرہ کی طرف متوجہ اور حاضر و ناظر ہے اور قادر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی قوت عطا فرمائے کہ جب کوئی امتی آپ کو پکارے آپ اس کی طرف متوجہ ہوجائیں اور سب کی طرف آن واحد میں متوجہ ہو سکیں۔ اگر یہ محال ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے خدائے تعالی کبھی نہ کہلواتا کہ نماز میں کل مسلمان السلام علیک ایھا النبی کہا کریں۔ کیونکہ حق تعالی جانتا تھا کہ حضرت کی امت کے کڑوڑہا آدمی شرقا ًوغربًا(مشرق ومغرب سے )ہر زمانے میں السلام علیک ایھا النبی کہہ کر توجہ دلا یا کریں گے ۔ التحیات میں جو ندا کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام عرض کیا جاتا ہے اس سے یہ غرض معلوم ہوتی ہے کہ گویا ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ حسب الارشاد ہم بارگاہ الوہیت میں حاضر ہوگئے ہیں مگرنہ ہم میں صلاحیت حضوری ہے نہ ہماری عبادت شایان بارگاہ کبریائی ہے ،آپ کی مدد درکار ہے کہ یہ عبادت اور عرض ومعروض درجہ اجابت تک پہنچ جائے ۔ اسی طرح صحابہ اور تابعین مصیبت کے وقت آپ کو پکار کر مدد مانگتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ کو اس عالم میں تصرف دیا گیا ہے۔‘‘ (مقاصد الاسلام حصہ ‘ج 10‘ ص98تا99)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment