Thursday, 6 July 2017

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے اختیارات احادیث مبارکہ کی روشنی میں

عن ابن عباس قال انّ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قام فقال:’’ انَّ اللہ َ کتب علیکم الحجَّ فقال: الاقرعُ بنُ حابس التمیمی: اَفی کل عام یارسول اللہ؟فسکت فقال: لو قلتُ نعم لوجبت۔
(سنن نسائی،رقم الحدیث:۲۶۲۰،ابن ماجہ،رقم الحدیث:۲۸۸۴،ترمذی،رقم الحدیث:۸۱۴،ابوداود،رقم:۱۷۲۱)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھمانے کہاکہ: رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :بے شک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے۔حضرت اقرع ابن حابس تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ !کیا ہر سال حج فرض ہے ؟تو آپ ﷺ خاموش رہے ،پھرفرمایا:اگر میں ہاں کر دیتاتو ہر سال حج فرض ہوجاتا۔(معلوم ہواکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم احکام شرعیہ پر اختیار کلی رکھتے تھے،اگر چاہتے تو ہر سال حج کرنا فرض فرمادیتے۔)
عن المقدام بن معدیکرب الکندی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:یوشک الرجل متکئا علیٰ اریکتہ یحدث بحدیث من حدیثی فیقول:بیننا وبینکم کتاب اللہ عزوجل فما وجدنا فیہ من حلال استحللناوما وجدنا فیہ من حرام حرّمناہ،الآ وانّ ما حرّم رسول اللہ مثل ماحرّم اللہ۔
(ابن ماجہ،باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والتغلیظ علی من عارضہ،حدیث:۱۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: حضرت مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ:قریب ہے کہ ایک شخص اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے سامنے میری حدیثوں میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی۔تو وہ کہے گا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ عزوجل کی کتاب ہے تو جس چیز کو ہم اُس میں حلال پائیں گے اُسے حلال مانیں گے اور جسے اُس میں حرام پائیں گے اُسے حرام مانیں گے۔[حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ] سن لو،بے شک وہ چیزیں جسے اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا وہ بھی ایسے ہی حرام ہیں جیسے وہ چیزیں حرام ہیں جسے اللہ نے حرام قرار دیا۔
عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعال عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ لولاان اشقَّ علیٰ امتی لامرتھم بالسواک عند کلِّ صلوٰۃ ،وفی روایۃ ابی امامۃ رضی اللہ عنہ،لولا انی اخاف ان اشق علی امتی لفر ضتہ لھم۔
(الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۲۵۲،ابن ماجہ،باب السواک،حدیث:۲۸۹)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا۔
عن علی قال:قال رسول اللہ ﷺ:قد عفوتُ عن صدقۃ الخیل والرقیق فھاتوا صدقۃ الرقۃ من کل اربعین درھما درھما ۔
(ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق، حدیث:۶۲۰)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ،تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم۔
عن البراء قال:صلی رسول اللہ ﷺ ذات یوم فقال: من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا ،فلایذبح حتی ینصرف ،فقام ابو بردۃ بن نیار فقال: یا رسول اللہ !فعلتُ،فقال: ھو شیء عجَّلتہ ،قال: عندی جذعۃ ھی خیر من مسنتین ،اذبحھا؟ قال:نعم،ثم لا تجزی عن احد بعدک ۔
(بخاری،کتاب الاضاحی،باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد،حدیث:۵۵۶۳،مسلم،حدیث:۱۹۶۱)
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺایک مرتبہ عید الاضحی کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فر مایا:جو ہماری طرح نماز پڑھتا ہے اوہمارے ر قبلے کی طرف رخ کرتا ہے وہ نماز عید سے پہلے قر بانی نہ کرے ،حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :یارسول اللہ !میں تو قربانی کر چکا،آپ ﷺنے فر مایا:تم نے جلد بازی کیا،انہوں نے عرض کیا :میرے پاس بکری کا چھ مہینے کا بچہ ہے مگر وہ دو بکریوں سے بھی اچھا ہے،کیا میں اس کو ذبح کردوں؟حضور ﷺنے فرمایا:ہاں،اس کی جگہ کردو اور ہر گز(اتنی عمر کی بکری) تیرے بعدکسی کی قر بانی میں کافی نہ ہوگی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماقال قال سول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم انَّ ابراھیم علیہ الصلوٰۃوالسلام حرم مکۃ وانی حرمتُ المدینۃ مابین لابتیھا لا یقطع عضاھھا و لا یصاد صیدھا۔
(الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۱۳۶۲،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۸۶۷،سنن ابی داود، رقم الحدیث:۲۰۳۴،۲۰۳۵،۲۰۳۶،۲۰۳۷،۲۰۳۸،۲۰۳۹)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ کو حرم بنایااور میں نے مدینہ طیبہ کو حرم کیا کہ اس کے خاردار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے وحشی جانور شکار نہ کئے جائیں ۔
عن عمارۃ بن خزیمہ ان عمہ حدثہ وھو من اصحاب النبی ﷺ:ان النبی ﷺ ابتاع فرسا من اعرابی فا ستتبعہ النبی ﷺ لیقضیہ ثمن فر سہ فا سرع رسول اللہ ﷺ المشیی و أبطاء الاعرابی فطفق رجال یعتر ضون الاعرابی فیساومونہ و لایشعرون ان النبی ﷺ ابتاعہ فنادی الاعرابی رسول اللہ ﷺ فقال :ان کنت مبتاعا ھذاالفرس و الا بعتۃ ،فقام النبی ﷺ حین سمع نداء الاعرابی فقال:أو لیس قد ابتعتہ منک؟فقال الاعرابی:لا واللہ ما بعتکہ ،فقال النبی ﷺ:بلیٰ قد ابتعتہ منک،فطفق الاعرابی یقول :ھلم شھیدا،فقال خزیمۃ بن ثابت :انا اشھد انک قد بایعتہ ،فاقبل النبی ﷺعلی خزیمۃ فقال: بم تشھد؟فقال:بتصد یقک یا رسول اللہ ،فجعل رسول اللہ شھادۃ خزیمۃ بشھادۃ رجلین۔
(سنن ابی داود،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم،حدیث:۳۶۰۷)
تر جمہ: حضرت عمارہ بن خزیمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :میرے چچا صحابی رسول ﷺنے بیان فر مایاکہ:حضور ﷺنے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا ،پھر حضور ﷺاس کو اپنے ساتھ لے چلے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا فر مائیں،حضور ﷺ تو تیزی سے چل رہے تھے مگر اعرابی آہستہ آ ہستہ قدم رکھتا تھا ،راستے میں کچھ لوگوں نے اس اعرابی سے اس گھوڑے کا مول تول کیا ،کیونکہ ان لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ اس کو خرید چکے ہیں ،اعرابی نے وہیں سے آواز لگائی کہ آپ(ﷺ)گھوڑا لینا چاہیں تو خریدئیے ورنہ میں گھوڑا بیچ دوں گا،حضور ﷺنے جب اعرابی کی آواز سنی تو رک گئے اور فر مایا:کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟اعرابی بولا:نہیں ،خدا کی قسم میں نے آ پ کے ہاتھوں نہیں بیچا ہے ،حضور ﷺنے فر مایا:کیوں نہیں ،بلاشبہ تو نے مجھ سے سودا کر لیا ہے،اعرابی کہنے لگا کوئی گواہ پیش کیجئے۔اس وقت حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس سے گھوڑا خرید لیا ہے،حضور نبی کریم ﷺ
حضرت خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فر مایا:تم کیسے گواہی دیتے ہو(جبکہ خریدتے وقت تم موجود نہ تھے)انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہا ہوں ،تو حضور ﷺنے حضرت خزیمہ کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔
عن ربیعۃ بن کعب الاسلمی رضی اللہ تعال عنہ قال:کنتُ ابیتُ مع رسول اللّٰہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فاتیتہ بوضوئہ وحاجتہٖ فقال لی:سل۔ فقلتُ: اسئلک مرافقتک فی الجنۃ قال: اوغیر ذٰلک،قلتُ :ہو ذاک قال: فاعنّی علیٰ نفسک بکثرۃ السجود
(الصحیح المسلم رقم الحدیث :۴۸۹،سنن ابی داود،رقم الحدیث:۱۳۲۰)
ترجمہ: حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میںحضور اقدس رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزاراتو میں آپ ﷺ کے وضو وغیرہ کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا،حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے سے ارشاد فرمایا:مانگ۔ تو میں نے عرض کی کہ :میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور کے ساتھ رہوں ۔فرمایا:اور کچھ؟میں نے عرض کی: میری مراد توبس یہی ہے ۔فرمایا:تواپنے اوپر کثرت سجود سے میری اعانت کر ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...