Saturday 15 July 2017

فضائل درود و سلام قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں

0 comments

فضائل درود و سلام قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں

اللہ ربُّ العزّت نے جو مقام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطائے فرمایا ہے اتنا مقام کسی اور کو نہیں بخشا، اس مقام تک آج تک نہ کوئی نبی پہنچ سکا ہے نہ کوئی فرشتہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا اندازہ کل قیامت کے دن ہو گا، جب تمام انبیائے کرام علی نبینا وعلیہم الصلوٰة والسلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے طلب گار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورخصوصیات سے نوازا وہیں پر ایک خاصیت جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے وہ درود شریف ہے، جس میں نہ کوئی نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہے اور نہ کوئی فرشتہ، جو صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے، یوں تو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفعت ذکر پر بحث کی جائے تو اس کے لیے دفتر چاہیے۔ لیکن پھر بھی بعد میں لکھنے والے کو لکھنا پڑتا ہے بعد از خدا بزرگ تو ئی قصہ مختصر ۔

بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ﴿ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی…﴾“ تو ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”کیف نصلی علیک؟“ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کیسے پڑھیں، جب کہ ہم سلام بھیجنا سیکھ چکے ہیں جو تشہدمیں پڑھتے ہیں؟”السلام علیک ایھا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ“ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” قل: اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد… الخ“ (درود ابراہیمی) پڑھو۔ یہ آیت مبارکہ مدینہ منورہ زادھا الله شرفاً میں ماہ شعبان 2 ہجری کو نازل ہوئی، جس کی رو سے اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ میرے نبی حضرت محمد علیہ الصلوٰة والسلام پر درود بھیجو ۔

ملائکہ کے درود بھیجنے کا مقصد آپ صلی الله علیہ وسلم کے حق میں الله تعالیٰ سے دعا کرنا کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اعلیٰ وارفع مراتب عطا فرمائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دین کو غلبہ اور آپ کی شریعت مطہرہ کو فروغ بخشے اور اہل ایمان کے درود وسلام کا مطلب بارگاہ الہٰی میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان کی بلندی کی التجا کرنا اور آپ کی مدح وثنا کرنا ہے ۔ جمہور مفسرین نے یہی معنی لکھے ہیں۔

فائدہ: قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے اندر یہ بات نہایت واضح طور پر موجود ہے کہ الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جو خصائص اوصاف ،مناقب عطا فرمانے تھے، عطا فرما دیے، مثلاً رفعت ذکر، غلبہ دین، رسالت عامہ الی یوم القیامة، ختم نبوت ، مقام محمود ، شفاعت عظمی،گو کہ ان میں جن کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے وہ اس وقت وقوع ہوں گے تو پھر ملائکہ یا اہل ایمان کی دعاؤں کا کیا مقصد کہ وہ اعلیٰ وارفع مراتب کے لیے بارگاہ صمدیت کے اندر سراپا عجز وانکساری بنے ہوئے ہیں؟ تو علمائے محققین نے سمندر کے اندر غواصی کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ملائکہ او راہل ایمان دعا نہ بھی کرتے، جو درود سے مراد ہے ، توپھر بھی پروردگار نے جو جو فضیلتیں بخشی تھیں وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو بخش دیں لیکن ملائکہ اوراہل ایمان کو درود کا حکم دے کر اپنے نبی کی شان بیان کردی کہ ملائکہ اور اہل ایمان درود پڑھ کر اپنے کسی اور مقصد کی دعا نہیں کرتے بلکہ درود پڑھتے ہوئے میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لیے دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور الله کی رحمت حاصل کرتے رہتے ہیں۔ علامہ سید محمود آلوسی رحمة الله علیہ نے ایک اہم بات اس آیت کے ضمن میں تحریر فرمائی کہ کسی نبی کی امت کو پرودرگار نے حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے نبی پر درود سلام بھیجیں، سوائے اس امت کے کہتم اپنے نبی پر درود وسلام بھیجو اور یہ بات اگر خاص ہے تو صرف سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص نظر آتی ہے، جس سے جہاں پر ایک طرف حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا مقام نظر آتا ہے، وہیں پر اس امت کے ساتھ الله تعالیٰ کی محبت بھی نظر آتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ اس امت کو کسی نہ کسی صورت میں ہر وقت نوازنا چاہتے ہیں اور الله کی رضا حاصل کرنے کے لیے اتباع رسول صلی الله علیہ وسلم اور درود پاک سے بڑھ کر کوئی اہم عمل نہیں، کیوں کہ پرورد گار بھی اس عمل کے اندر اپنے ملائکہ اور اپنے بندوں کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں ۔ تمام دین کے کامو ں کے اندر الله تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة﴾ ساری زندگی ایک انسان، خاص کر مسلمان کیسے گزارے الله تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے اور نمونہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی ذات کوبنایا ہے، لیکن درود پاک عمل ہے جس کے لیے نمونہ ملائکہ، انبیاء یا کسی اور کو نہیں بنایا، بلکہ اپنی ذات مبارکہ کو بنایا ہے کہ﴿ان الله وملائکتہ یصلون علی النبی﴾ کہ لوگو! آؤ آج اپنے الله تعالیٰ کی اتباع کرو۔ اور اپنے نبی پردرود بھیجو اور اس عمل مبارک کے اندر اپنے رب کے ساتھ شریک ہو کر خدا کی رحمت حاصل کرنے کے حق دار بن جاؤ۔﴿ان الله وملائکتہ… ﴾ جملہ اسمیہ ہے لفظ ان شروع میں ہے، تاکید بھی ہے، تفسیر کبیر میں امام رازی فرماتے ہیں کہ جملہ اسمیہ استمرار کا فائدہ دیتا ہے، گویا یہ عمل جب سے الله تعالیٰ کی ذات ہے شروع ہے اور آج بھی جاری ہے او رہمیشہ جاری رہے گا۔ ہر چیز کی ایک ابتدا ہے او رایک انتہا ہے، لیکن درود وہ عمل ہے جس کی ابتدا تو ہے انتہا نہیں یہ عمل اس میں تھا، ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

امام بخاری نے ابوا لعالیہ تابعی سے یہ اثر نقل کیا ہے کہ الله تعالیٰ کا صلوٰة سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم او رملائکہ کے سامنے آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدح وثنا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم دنیا میں تویہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو بلند مرتبہ نصیب فرمایا۔ آپ کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ شامل فرمایا۔ اذان ، اقامت، نماز، درود وسلام، کلمہ طیبہ غرض ہر جگہ اپنے نام کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نام کو شامل فرما لیا۔ قال حسان بن ثابت رضی الله عنہ :
وضم الالٰہ اسم النبی الیٰ اسمہ
اذ قال فی الخمس المؤذن اشھد
وشق لہ من اسمہ لیسجلہ
فذو العرش محمود وھذا محمد

ترجمہ : الله تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نام کو ملا رکھا ہے، جیساکہ پانچ وقت موذن اشھد کہتا ہے۔ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اعزاز کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا نام اپنے نام سے مشتق کیا، چناں چہ صاحب عرش محمود ہے اور آپ محمد، صلی الله علیہ وسلم ۔

صلوٰة الله کلام الله جہاں دیکھا تو یہ دیکھا
اگر لکھا الله دیکھا تو محمد بھی لکھا دیکھا

اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ تعظیم بھی فرمائی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دین کو دنیا بھر میں پھیلا دیا اور غالب کر دیا۔ ﴿لیظھرہ علی الدین کلہ﴾․ آپ کی شریعت کو قیامت تک کی شریعت بنا دیا اور شریعت کی حفاظت بھی خود فرمانے کا وعدہ کیا۔ ﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾ اور آخرت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم یہ کی کہ آپ کا مقام تمام مخلوقات سے بلند فرما دیا۔

حدیث کے الفاظ ہیں ”انا سید ولد آدم، ولافخر، وانا اول من تنشق عنہ الارض، وانا اول شافع، واول مشفع، ولافخر، ولواء الحمد بیدی یوم القیامة، ولا فخر“․

میں ساری اولاد آدم کا سردار ہوں، قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر مبارکہ شق ہو گی اور حشر کے دن سب سے پہلے میں سفارش کروں گا، جو کہ قبول ہو گی اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا او رمیں ان تما م باتوں پر فخر نہیں کرتا، بلکہ الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔“( سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الشفاعة)

چاہیے تو یہ تھا کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام علی نبیا وعلیہم الصلوٰة والسلام کی قبور مبارکہ شق ہوتیں، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر سب سے پہلے شق ہونے کی وجہ کیا ہے؟ تو علمائے کرام نے نکتہ آفرینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک کا شق ہونا آپ کے لیے باعث اعزاز او روجہ تعظیم ہے وہیں یہ امت کے گناہ گار جن کی زندگی گناہوں سے بھری پڑی ہے قیامت کے دن گناہوں کی وجہ سے پریشان ہوں گے اور قیامت کے دن ہوش وحواس تک جواب دے دیں گے تو ان کی نگاہ جب قبروں سے اٹھتے ہی محشر کے میدان میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر پڑے گی تو ان کی تسلی کا سامان ہو جائے گا۔ سبحان الله! کہ یہ شفیع المذبین پیغمبر سامنے موجود ہے، جیسے ایک شخص کسی نئی بستی میں جائے تو وہاں اجنبیت کی وجہ سے وہ تھوڑا بہت تنگ ہوتا ہے، لیکن کوئی جان پہچان والا نکل آئے تو پھر اس کی یہ تکلیف دور ہو جاتی ہے، ایسے ہی محشر کا میدان بھی ایک نیا جہاں ہے اور ایک ایسی جگہ جہاں انسان کے ہوش وحواس کام کرنا چھوڑ دیں گے اور اس مشکل ترین مقام کے اندر سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انورپر نگاہ پڑ جائے تو خدا کی نعمت نہیں تو اور کیا ہے، جن کو دیکھتے ہی تمام مصیبتیں دور ہو جائیں اور بے قرار دل کو قرار آجائے، بلکہ اکابرین تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو عالم برزخ کے اندر رکھنا بھی خدا کی نعمت ہے، پرورد گار چاہتے تو قیامت تک زندہ رکھتے، لیکن اس جہاں کے اندر زندہ نہ رکھنے کی جہاں اور حکمتیں ہیں جو تحریرکرنا اس وقت مقصود نہیں، وہیں پر ایک حکمت آپ صلی الله علیہ وسلم کو برزخ میں پہنچا کر حیات برزخی دے کر اس امت کے مرنے والوں کے لیے مغفرت کا سامان مہیا کرنا ہے، کیوں کہ اسی زمین کے اندر جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کے آنے والے مدفون ہوں گے، وہیں پر اس زمین کے اندر سر کار دو عالم ،روح دوعالم، فخر دو عالم، اثاثہ دو عالم، سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی تشریف فرماہیں، یقینا ان کی برکات جہاں پر دنیا والوں کو مل رہی ہیں، وہیں پر برزخ والوں کو بھی ضرور عطا ہوں گی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

لہٰذا محشر کے اندر جو شخص سب سے زیادہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے قریب ہو گا وہ، وہ خوش نصیب ہے جو متبع رسول ہو گا او رکثرت کے ساتھ درود پاک پڑھتا ہو گا۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم وہ عظیم ترین ہستی ہیں جنہوں نے کفار کے احسانات کابدلہ بھی دیا۔ کسی نے تھوڑی سی اچھائی کی اس کو دوگنا بدلہ دیا تو جو آپ صلی الله علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود پڑھے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کل اس کو کیسے محروم فرمائیں گے؟

یارب صل وسلم دائماً ابداً
علی حبیبک خیر الخلق کلھم

علامہ اسماعیل حقی آفندی رحمة الله علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف، تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے دین کی ترویج واشاعت کی، یہ آپ کا ہی خاصہ ہے، جو کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے، جس کا شکر ادا کرنے کے لیے آپ کی امت کو درود وسلام کا حکم دیا گیا ہے۔

علامہ قسطلانی رحمة الله علیہ نے مواہب لدنیہ میں ابن عربی رحمة الله علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ درود پاک سے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ دونوں جہانوں میں تعلق مضبوط ہوتا ہے۔

علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں رقم طراز ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس تمام بنی نوع انسان اور مخلوق کے لیے الله تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا اس کے شکر ادا کرنے کی ایک شکل درود پاک ہے، جتنی بھی جسمانی اور روحانی عبادات ہیں۔ ترقیاں ہیں، وصال حق ہے۔ قرب پروردگار ہے، وہ سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے طفیل ہے۔ لہٰذا ان کا صلہ اگر کسی صورت میں ہے تو وہ درود پاک ہے۔

درود شریف پڑھنے کا طریقہ

وضو کرکے قبلہ رخ ہو کر دوزانوں ساری دنیا سے توجہ ہٹا کر پڑھنے والا یہ تصور کرے کہ میں سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے روضہٴ انور کے سامنے ہوں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے روضہ انور سے جو انوارات پھیل رہے ہیں او رنکل رہے ہیں ان سے میں بھی مستفید ہو رہا ہوں۔ او رجو الفاظ زبان سے نکل رہے ہیں ان پر خصوصی توجہ ہو تو کچھ بعید نہیں کہ پڑھنے والا کل حضور صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت سے مستفید نہ ہو سکے او راس دنیا کے اندر حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت اس کا مقدر نہ بن سکے۔ نماز والا درود شریف روزانہ تین سوتیرہ بار پڑھ لینا چاہیے، اگر نہ ہو سکے تو تعداد کم کر لی جائے ،لیکن سو سے کم نہ ہو، چاہے تو کوئی اور درود شریف بھی پڑھ سکتا ہے، بالخصوص:”اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم“․اور الصّلوۃُ والسّلام علیک یا رسول اللہ و علیٰ آلک و اصحابک یا حبیب اللہ پڑھا کریں ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

الله تعالیٰ ہمیں کثرت کے ساتھ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر درود پاک پڑھنے والا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے مبارک ارشادات پر عمل کرنے والا بنائے۔

یارب صل وسلم دائماً ابداً
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلھم

امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ایک مالدار آدمی جس کا کردار اچھا نہیں تھا لیکن اسے درود پاک پڑھنے کا شوق بڑا تھا۔ جب اس کا آخری وقت آیا اور جانکنی کی حالت طاری ہوئی تو اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا۔ اس نے اسی حالت میں ندا دی۔ “اے اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور درود پاک کی کثرت کرتا ہوں۔“ ابھی اس نے یہ ندا پوری بھی نہ کی تھی کہ اچانک ایک پرندہ آسمان سے نازل ہوا اور اس نے اپنا پَر اس قریب المرگ آدمی کے چہرہ پر پھیر دیا۔ فوراً اس کا چہرہ چمک اٹھا اور کستوری کی سی خوشبو مہک گئی اور وہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا دنیا سے رخصت ہو گیا۔اور پھر جب تجہیز و تکفین ہو جانے کے بعد اسے لحد میں رکھا گیا تو ہاتف سے آواز سنی، “ہم نے اس بندے کو قبر میں رکھنے سے پہلے ہی کفایت کی اور اس درود پاک نے جو یہ میرے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر پڑھا کرتا تھا، اسے قبر سے اٹھا کر جنت میں پہنچا دیا ہے ۔ یہ سن کر لوگ بہت متعجب ہوئے اور پھر جب رات ہوئی تو کسی نے دیکھا، زمین و آسمان کے درمیان وہ چل رہا ہے اور پڑھ رہا ہے۔(درۃ الناصحین ۔ ص 172)

درودشریف اورحاجت کا پورا ہونا

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک دن میں مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (70) حاجتوں کا تعلق اس کی آخرت سے ہے اور تیس (30) کا اس کی دنیا سے۔
:: کنزالعمال، 1 : 505، رقم : 2232، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرما دیتا ہے۔ (تهذيب الکمال، 5 : 84)

حضرت انس رضی اللہ عنہ جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے خدمت گار تھے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز تمام دنیا میں سے تم میںسب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو دنیا میں تم میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہوگا پس جو شخص جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (70) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (30) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو اس درود کو میری قبر میں اس طرح مجھ پر پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور وہ مجھے اس آدمی کا نام اور اس کا نسب بمعہ قبیلہ بتاتا ہے، پھر میں اس کے نام و نسب کو اپنے پاس سفید کاغذ میں محفوظ کرلیتا ہوں۔(بيهقي، شعب الايمان، 3 : 111، رقم : 3035)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن اور رات مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرماتا ہے۔ ان میں سے ستر (70) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (30) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں اور پھر ایک فرشتہ کو اس کام کے لئے مقرر فرما دیتا ہے کہ وہ اس درود کو میری قبر میں پیش کرے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں بے شک موت کے بعد میرا علم ویسا ہی ہے جیسے زندگی میں میرا علم تھا ۔ (کنزالعمال، 1 : 507، رقم : 2242)

اﷲ تبارک وتعالیٰ کا مومنوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا حکم

إِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ يَأَ يُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمَا . ا لأحزاب، 33 : 56
(بے شک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوب کثرت سے درود و سلام بھیجا کرو)

عن عبدالرحمٰن بن أبي ليلي قال لقيني کعب بن عجرة فقال ألا أهدي لک هدية إن النبي صلي اﷲ عليه وسلم خرج علينا فقلنا يارسول اﷲ قد علمنا کيف نسلم عليک فکيف نصلي عليک قال : قولوا : أللهم صل علي محمد وعلي آل محمد کماصليت علي إبراهيم وآلِ إبراهيم إنک حميد مجيد أللهم بارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم و علي آل إبراهيم إنک حميد مجيد.
ترجمہ : حضرت عبدالرحمٰن بن ابولیلی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم عرض گزار ہوئے :۔ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت میں سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہے لیکن ہم آپ پر درود کیسے بھیجا کریں؟ فرمایا کہ یوں کہاکرو : اے اﷲ! درود بھیج حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جیسے تونے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بیشک تو بہت تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت دے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جیسے تونے برکت دی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل کو بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والاہے۔‘‘
2 عن أبي سعيد نالخدري قال : قلنا يارسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم هذا السلام عليک فکيف نصلي عليک قال قولوا أللهم صل علي محمد عبدک ورسولک کماصليت علي إبراهيم وبارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم و علي آل إبراهيم.(بخاري، الصحيح، 5 : 2338، کتاب الدعوات، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : 5992)(ابو عوانه، المسند، 1 : 526، رقم : 1967)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام بھیجنا تو ایسے ہے لیکن ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کس طرح بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہو : اے اﷲ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج جو تیرے بندے اور رسول ہیں جیسے تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجا اور برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر جیسے تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم علیہ السلام کو برکت دی۔(بخاري، الصحيح، 5 : 2339، کتاب الدعوات، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : 5997) (ابن ماجه، السنن، 1 : 292، کتاب إقامة الصلاة، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : 903) (احمدبن حنبل، المسند، 3 : 47، رقم : 11451)(ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 246، رقم : 8633) (ابويعلي، المسند، 2 : 515، رقم : 1364)

عن أبي مسعود الأنصاري قال : أتانا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ونحن في مجلس سعد ابن عبادة فقال له بشير بن سعد أمرنا اﷲ أن نصلي عليک يا رسول اﷲ فکيف نصلي عليک قال فسکت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي تمنينا أنه لم يسأله ثم قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : قولوا أللهم صل علي محمد وعلي آل محمد کماصليت علي إبراهيم وبارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم وعلي آل إبراهيم في العالمين إنک حميد مجيد والسلام کماقد علمتم.
ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے (اس وقت) ہم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے۔ بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود شریف بھیجنے کا حکم دیا (ہمیں بتائیے) ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس طرح درود شریف بھیجیں؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے حتی کہ ہم نے خواہش کی کہ کاش انہوں نے یہ سوال نہ پوچھا ہوتا، پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہو ’’اے اللہ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر اس طرح رحمت بھیج جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائی بے شک تو تعریف والا اور بزرگ وبرتر ہے۔ اے اﷲ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد پر برکت اسی طرح نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو دونوں جہانوں میں برکت دی بے شک تو تعریف والا اور بزرگ و برتر ہے۔(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 359، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة الاحزاب، رقم : 3220) (قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 14 : 113)

عن کعب بن عجرة أنه قال لما نزلت هذه الآية (يا أيهاالذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما) جاء رجل إلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال يارسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم هذا السلام عليک فکيف الصلاة؟ فقال : قولوا ’’أللهم صل علي محمد و علي آل محمد کماصليت علي إبراهيم إنک حميد مجيد أللهم بارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم وعلي آل إبراهيم إنک حميد مجيد.

ترجمہ : حضرت کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’اے مومنو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو‘‘ تو اس وقت ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام تو اس طرح بھیجا جاتا ہے درود کس طرح بھیجا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس طرح کہو : ’’اے اﷲ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر اس طرح درود بھیج جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر درود نازل فرمایا بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اﷲ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد پر برکت نازل فرما جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو برکت عطا فرمائی بے شک تو تعریف والا اور بزرگ و برتر ہے۔(ابوعوانه، المسند، 1 : 527، رقم : 1970)(يوسف بن موسي، معتصر المختصر، 1 : 54)(ابن عبدالبر، التمهيد، 16 : 185)(طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 21 : 117)(ابو نعيم، حلية الأوليا، 4 : 356)(ابو نعيم، حلية الأوليا، 7 : 108)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔