Sunday 9 July 2017

علم غیب نبی صل اللہ علیہ وسلّم (حصّہ اوّل)

0 comments
علم غیب نبی صل اللہ علیہ وسلّم (حصّہ اوّل)
علم کی لغوی تعریف : مفردات اما راغب میں ہے کہ : علم: العلم إدراك الشيء بحقيقته ۔
ترجمہ : کہ علم اشیاء کی حقیقت کہ ادراک کا نام ہے ۔

 المنجد میں بھی ہے یہی تعریف مذکور ہے کہ کسی شئے کی حقیقت کو جان لینا‘ اور ‘یقین اور معرفت‘ کو علم کہتے ہیں ۔

علم کی اصطلاحی تعریف : کسی شئے کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینا علم ہے ۔ (امام راغب اصفہانی ، المفردات )

یعنی کسی شئے کو اس کی حقیقت و ماہیت کے حوالے سے کہ جس پر وہ قائم ہے جان لینا علم کہلاتا ہے یا پھر ایسا پختہ نظریہ علم کہلاتا ہے جو کہ عین امر واقعہ ہو ۔

اب آتے ہیں غیب کی طرف : غیب کی لغوی تعریف
 مشھور امام لغت امام أبو الفضل جمال الدين محمد بن مكرم ( ابن منظور) الافریقی اپنی مایہ ناز تصنیف لسان العرب میں فرماتے ہیں کہ : والغيب : كل ما غاب عنك . أبو إسحاق في قوله تعالى : يؤمنون بالغيب أي يؤمنون بما غاب عنهم ، مما أخبرهم به النبي ، صلى الله عليه وسلم ، من أمر البعث والجنة والنار . وكل ما غاب عنهم مما أنبأهم به ، فهو غيب ؛ وقال أبو الأعرابي : يؤمنون بالله . قال : والغيب أيضا ما غاب عن العيون ، وإن كان محصلا في القلوب ۔

ترجمہ : جو چیز بھی تم سے پوشیدہ (مخفی) ہو وہ غیب ہے ۔ امام ابو اسحاق نے ‘یومنون بالغیب’ کی تفسیر میں کہا ہے کہ مومنین ان حقائق پر ایمان لاتے ہیں کہ جو اصلا ان پر مخفی ہوتے ہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس کی خبر دی سو وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں جیسے مرنے کے بعد اٹھنا ، جنت ، دوزخ ، اور ہر وہ حقیقت جو ان سے محفی و پوشیدہ تھی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس کی خبر دی وہ غیب ہی ہے۔ أبو الأعرابي نے کہا : کہ غیب وہ بھی ہے کہ جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو مگر دلوں میں حاصل ہو ۔
فائدہ :- یعنی( اے انسان) جو کچھ بھی تجھ سے پوشیدہ ہے یعنی تیرے ذرائع علم سے پوشیدہ ہے وہ غیب ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ ایسی شئے پر ایمان لاتے ہیں کہ جو ان سے پوشیدہ ہے یعنی مخفی ہے یہاں انسان سے پوشیدہ ہونے سے مراد اسکی تمام ظاہری زرایع علم اور اسکے تمام خارجی زریعوں کی پہنچ سے دور ہونا ہے جیسے عقل ۔حواس اور ظاہری و باطنی آلات علم وغیرہ ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

 امام قرطبی اپنی مشھور تصنیف تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي (ت 671 هـ) میں ایس غیب کی اصطلاحی تعریف میں آیت الذین یومنون بالغیب کہ تحت رقم طراز ہیں کہ : الثانية: قوله تعالى: { بِٱلْغَيْبِ } في كلام العرب: كل ما غاب عنك ۔

ترجمہ : کہ کلام عرب میں ہر وہ شئے جو (اے انسان) تجھ سے اوجھل ہو وہ غیب ہے پھر آگے چل کر اس غیب کہ اطلاقات کا بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔

الثالثة: وٱختلف المفسرون في تأويل الغيب هنا؛ فقالت فرقة: الغيب في هذه الآية: الله سبحانه. وضعّفه ٱبن العربي. وقال آخرون: القضاء والقدر. وقال آخرون: القرآن وما فيه من الغيوب. وقال آخرون: الغيب كل ما أخبر به الرسول عليه السلام مما لا تهتدي إليه العقول من أشراط الساعة وعذاب القبر والحشر والنشر والصراط والميزان والجنة والنار. قال ٱبن عطية: وهذه الأقوال لا تتعارض بل يقع الغيب على جميعها ۔
ترجمہ : کہ مفسرین کا اس کہ (یعنی غیب کہ) حقیقی اطلاقات پر اختلاف ہے ایک فرقہ نہ کہا کہ اس آیت میں غیب سے مراد اللہ سبحان و تعالٰی بھی ہے بعض نے کہا اس مراد قضا و قدر بھی ہے اور بعض نے کہا کہ خود قرآن بھی غیوبات میں شامل ہے پھر کہا گیا کہ جس چیز کی بھی خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیں اور جن پر عقل کی زریعے رہنمائی نہ ملتی ہو وہ سب غیب ہیں جیسے ساعت قیامت ،عذاب قبر و حشر ،صراط و میزان اور جنت اور و دوزخ وغیرہ اور ابن عطیہ نے کہا کہ ان تمام اقوال میں کوئی تعارض نہیں یہ سبھی اطلاقات غیب ہیں یعنی ان سب پر غیب ہی کا اطلاق ہوگا ۔

قارئین کرام آپ نے نوٹ کیا مذکورہ بالا تعریف میں کتنی صراحت سے آگیا کہ نبی تو نام ہی اس ہستی کا ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے غیب پر مطلع ہوتا ہے یعنی اطلاع یافتہ ہوتا ہے اور پھر اتنا ہی نہیں وہ آگے مخلوق کو بھی اسکی (یعنی غیب کی اطلاع بصورت) خبر دیتا ہے یعنی نبی کہتے ہی اُسے ہیں کہ جو غیب کی خبر دے اسی لیے تو اوپر کہا کہ جو بھی نبی (بذریعہ وحی) کہ خبر دیتا ہے وہ سب غیب ہیں ۔۔ اب لوگوں کے اس قول کی مضحکہ خیزی کا کیا عالم ہے کہ جو نبی کو نبی تو مانتے ہیں مگر غیب پر مطلع یعنی غیب جاننے والا نہیں مانتے اور جو جانتا نہیں وہ خبر کیسے دیتا ہے پھر ؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

محترم قارئین : آپ پر خوب روشن ہوچکا کہ غیب کیا ہے بالکل اسی طرح دیگر معتبر تفاسیر میں بھی غیب کی یہی تعریف رقم ہے ۔
 یعنی محاورہ عرب میں غیب وہ ہے جو آپ کی نظروں سے پوشیدہ ہو۔
 (امام قرطبی الجامع الاحکام القرآن )

 غیب وہ ہوتا ہے جو حواس خمسہ میں نہ آسکے اور نہ ہی عقل کی تیزی اس کا ادراک کرسکے اور وہ صرف انبیاء علیھم السلام کی خبر سے معلوم ہو۔
 (امام راغب اصفہانی ، المفردات فی غریب القرآن )

 غیب سے مراد ہر وہ مخفی شئے ہے جس کا ادراک نہ تو حواس کرسکیں اور نہ ہی وہ عقل کی سریع الفہمی کےدائرے میں آسکے۔(قاضی ناصر الدین بیضاوی ، انوار التنزیل)

 غیب وہ ہے جو حواس خمسہ سے غائب ہو۔(امام فخرالدین رازی ، التفسیر الکبیر )

 غیب سے مراد وہ امور ہیں جو حواس اور عقل سے مکمل طور پر اس طرح پوشیدہ ہوں کہ ابتداء بدیہی طور پر ان کا ادراک کسی کو نہ ہوسکے۔
 (شیخ اسماعیل حقی ، تفسیر روح البیان )

لفظ نبی کے معنیٰ و تعریف معلوم کرتے ہیں

نبی کا لغوی معنٰی : امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ ۔ وقال بعض العلماء: هو من النبوة، أي: الرفعة، وسمي نبيا لرفعه محله عن سائر الناس المدلول عليه بقوله: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَاناً عَلِيّاً} [مريم:57]. ۔ والنبوة والنباوة: ۔
 بعض علماء نے کہا کہ نبی نبوۃ سے مشتق ہے جس کا معنٰی رفعت و بلندی کہ ہیں لہذا نبی کو نبی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا مقام تمام لوگوں سے بلند ہوتا ہے جس پر اللہ پاک کا قول: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَاناً عَلِيّاً} دلالت کرتا ہے اور لغت میں نبوۃ اور نباوۃ کے معنٰی ارتفاع کہ ہیں ۔(مفردات راغب)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

 اسی لفظ نبی کے مادہ نباء پر لفظ نبوۃ کہ حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ اصفہانی لکھتے ہیں کہ : والنبوة: سفارة بين الله وبين ذوي العقول من عباده لإزاحة عللهم في أمر معادهم ومعاشهم. والنبي لكونه منبئا بما تسكن إليه العقول الذكية، وهو يصح أن يكون فعيلا بمعنى فاعل لقوله تعالى: {نَبِّىءْ عِبَادِي} [الحجر:49]، {قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ} [آل عمران:15]، وأن يكون بمعنى المفعول لقوله: {نَبَّأَنِيَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ} [التحريم:3
 یعنی نبوۃ اللہ پاک اور اسکے ذوی العقول بندوں کے درمیان سفارت کا نام ہے جو ان (عامۃ الناس) کے تمام دنیوی اور اخروی امور سے ہر قسم کی خرابی دور کرنے کے لیے ہوتی ہے،اور اسکو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی خبریں دیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے پاکیزہ عقول کو تسکین و طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔
 لفظ نبی کا فعیل بمعنی فاعل ہونا بھی حق ہے کہ جسکی دلیل یہ دو آیات ہیں
 ۔ ۔
 {نَبِّىءْ عِبَادِي} کہ میرے بندوں کو خبر دیجیئے
 [الحجر:49]،
 {قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ} فرما دیجیئے کیا میں تمہیں خبر دوں
 [آل عمران:15]
 اور لفظ نبی مفعول بھی ہوسکتا ہے کہ جسکی دلیل درج زیل آیت ہے ۔ ۔

 نَبَّأَنِيَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ
یعنی علیم و خبیر نے مجھے خبر دی ۔

 امام لغت صاحب قاموس لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ اللہ کی طرف سے خبر دینے والے کو نبی کہتے ہیں اور ہمزہ کا ترک مختار ہے اس کی جمع انبیاء  ونباء وانباء اور النبیون ہے اور اسم النبوۃ ہے ۔

 اسی طرح دیگر ائمہ لغت و تفسیر نے بھی لفظ نبی کہ یہی معنٰی بیان کیئے ہیں ۔
 جیسا کہ متعدد ائمہ نے لکھا کہ لفظ نبوۃ خود انباۃ سے ماخوذ ہے اور لفظ نبی کا ماخذ نباء ہے اور اسکے معنٰی ہیں خبر دیا ہوا یا خبر دینے والا اور اسکا رتبہ بلند اس لیے ہوتا کہ وہ اللہ کی طرف سے مخبر (با کہ رفع کہ ساتھ ) یا مخبر (با کہ کسرہ کہ ساتھ) ہوتا ہے اب آئیے دیکھیئے فریق مخالف کے مسلمہ امام ابن تیمیہ اس لفظ نبوۃ کے بارے میں کیا تحقیق فرماتے ہیں : ابن تیمیہ رقم طراز ہیں کہ : وھو من النباء واصلہ الھمزہ وقد قری بہ وھی قرآۃ نافع یقراء النبی لکن لکثیرۃ استعمالہ لینت ھمزۃکما فعل مثل ذالک فی الذریۃ وفی البریۃ وقد قیل ھو من النبوۃ وھو العلو فمعنٰی النبی المعلی الرفیع المنزلۃوالتحقیق ان ھذا المعنٰی داخل فی الاول فمن انباءہ اللہ منباء عنہ فلا یکون الا رفیع القدر علیا ۔ (کتاب النبواۃ)
 نبی نباء سے ماخوذ ہے، اسکی اصل ہمزہ ہے اور ہمزہ ہی کے ساتھ اسے پڑھا بھی گیا ہے جیسا کہ نافع کی قراۃ جو کہ اسے ہمزہ کہ ساتھ نبی پڑھتے تھے لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے اسکے ہمزہ کو لین کے ساتھ یعنی نبیء کی بجائے نبی پڑھا جاتا ہے جیسے زریہ اور بریہ دونون کہ ہمزہ یا کہ ساتھ پڑھے گئے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ لفظ نبی نبوۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنٰی بلندی ہیں ایسی صورت میں لفظ نبی کے معنٰ اونچا اور بلند مرتبہ کہ ہونگے اور تحقیق یہ ہے کہ یہ معنی پہلے والے معنی میں داخل ہیں کیونکہ جسے اللہ نے خبر دی اسے اپنی طرف سے خبر دینے والا بنایا وہ وہی ہوتا ہے جو کہ بلند رتبہ اور اونچا ہو ۔

محترم قارئین کرام : آپ لفظ نبی کا جو بھی مادہ لیں وہ ہر اعتبار اسی پر دلالت ضرور کرئے گا کہ نبی اپنی اصل میں وہ بلند رتبہ ہستی ہے جو کہ اللہ سے غیب کا علم حاصل کرتی ہے اور اسکے بندوں تک بصورت خبر پہنچاتی ہے کیونکہ نبی کے لفظ کا بنیادی ماخذ لفظ نباء قرآن پاک میں اکثر مقامات پر مطلقا خبر کہ معنٰی میں نہیں بلکہ غیب (یعنی پوشیدہ و مخفی امور ) کی خبر کہ معنٰی کے بطور آیا ہے ۔ محترم قارئین کرام اب آپکو ہمارے عنوان کا مطلب عنوان صحیح سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ہم نے اسکا عنوان علم غیب نبوی ﷺ کیوں رکھا ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)(جاری ہے)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔